سمیع اللہ ملک
جب ہم اپنے اسلاف کی طرف دیکھتے ہیں تومعاملہ آج کی نسبت برعکس نظرآتاہے۔اس زمانے میں اگرتندوتیزہوایاآندھی چل پڑے تولوگ دیوانہ وارمساجدکی طرف دوڑتے تھے کہ مباداقیامت کانزول ہونے والا ہے ۔صحابہ کرام کی پوری جماعت اس عالم میں اللہ کے حضورگڑگڑاکر اپنی مغفرت کی دعائیں کرتی تھی اوراللہ کی رحمت کی طالب ہوتی تھی۔رحمت دوعالمﷺکارخ انوربھی ان مواقع پرکبھی سفیداورکبھی پیلاہوجاتاتھالیکن آج زلزلوں کی تباہی‘سمندروں کے طوفان‘قحط کاعذاب اورخانہ جنگیوں کی تباہ کاریاں بھی ہمارے دلوں میں ذراسی جنبش پیدانہیں کرتیں۔
عملی زندگی میں جس طرح پولیس والے کی اچانک دستک ہمیں بدحواس کردیتی ہے‘ناکردہ گناہوں کی صفائی میں کہے جانے والے الفاظ ہمارے ذہنوں سے سفرکرکے زبان کی نوک پرآجاتے ہیں‘کیاان تمام ناگہانی آفتوں پرجویقیناً ہمارے اپنے ہی اعمال کی سزاہیں‘ان کی صفائی میں کہے جانے والے الفاظ کانزول اپنے دل ودماغ پرہوتے ہوئے دیکھاہے؟اورپھراپنی زبان سے آئندہ اعتراف کرکے تائب ہونے کی کوشش کی ہے؟اگرایمانداری سے اس کاجواب تلاش کیاجائے تویقیناًنفی میں ہوگاکیونکہ آج ہمارادل خوفِ خداسے خالی اوردنیاکے خوف کی آماجگاہ بناہواہے ۔حقیقت یہ ہے کہ دونوں خوف ایک دل میں کبھی یکجا نہیں رہ سکتے۔ایک خوف اندرآتاہے تو دوسراخوف چپکے سے نکل جاتاہے۔مقامِ حیرت تویہ ہے کہ پہاڑجیسافرق ہمیں کبھی محسوس نہیں ہوا لیکن دنیاوی دولت یاعزت وحشمت میں بال برابربھی فرق آن پڑے تواس کافوری نوٹس لیاجاتاہے اوراس کیلئے پوری توانائیاں صرف کردی جاتی ہیں۔ اس کابھرپورعلاج تلاش کرکے پھراس پرپوری ثابت قدمی سے عمل کیاجاتاہے لیکن․․․․․․․․․․!
صدحیف!!!روزانہ ہم قرآن کریم کی تلاوت بھی کرتے ہیں‘احادیث اورتاریخی اسلامی کتب بھی زیرِمطالعہ رہتی ہیں لیکن اس کے باوجودجسم کے اندرچھوٹاسالوتھڑا(دل)جوکہ پہاڑوں کوتسخیر کرنے کی قوت رکھتاہے اس پرقرآن واحادیث کاکوئی اثرنہیں ہوتا۔ہم میں سے بیشترحضرات نے رسول اکرمﷺکااپنے جفاکش اوروفاکیش صحابہ سے یہ خطاب یقیناًپڑھاہوگاکہ:
”خدائے ذوالجلال جب قیامت کے دن اپنے تخت پربراجمان ہوں گے تو آدم علیہ السلام سے کہیں گے کہ ناری گروہ کوبھیجوتوآدم علیہ السلام کہیں گے کہ خداوندا․․․․․ ناری گروہ کون ہے؟ارشادہوگا‘ہزارمیں سے نوسوننانوے(۹۹۹)جہنم میں جھونکے جائیں گے اورجنت میں صرف ایک․․․․․․․!
اس خطاب کے بعداجتماع میں آنسووٴں اورہچکیوں کازلزلہ برپاہوگیاتھالیکن شائدہم ان کوکوئی دوسری نسل سمجھتے ہیں ۔وہ لوگ سب کچھ کرکے اس خوف سے روتے تھے کہ ہزارمیں سے ایک کابھی شرف حاصل ہوسکے گانہیں!ان کے دلوں کوقران کی ایک آیت تہہ وبالاکردیتی تھی‘لیکن ہمارے دلوں کوپوراقرآن بھی ٹس سے مس نہیں کرتا‘کتناہولناک فرق ہے جوآج اسلاف اوراخلاف کے دلوں میں پیداہوگیاہے۔ستم ظریفی تویہ ہے کہ ہزارسمجھانے کے بعد بھی اگریہ فرق ہماری سمجھ میں آبھی جاتا ہے تودل اس کوقبول کرنے کیلئے تیارنہیں
ہوتا۔
شقیاالاصبحی جوکہ اسلاف کی ایک نشانی ہیں ‘مدینے میں انسانوں کاایک جم غفیر دیکھ کراس معاملہ کی تہہ کی جونہی کوشش کرتے ہیں توکیادیکھتے ہیں کہ لوگوں نے ایک عاشق رسول کواپنے حصارمیں لیاہے اورحدیث سننے کی درخواست کررہے ہیں توجواب میں ان کے ہونٹوں اورجسم پرایک لرزہ طاری ہوجاتاہے اوردردناک چیخ مارکربے ہوش ہوجاتے ہیں۔تین بارکوشش کی لیکن زبان نے خوفِ خداکی وجہ سے ساتھ نہ دیا۔جب غشی کی حالت ختم ہوگئی توفرمایا:
ایک ایسی حدیث سناتاہوں جواسی گھرمیں رسول اکرمﷺکے منہ سے سنی تھی۔”قیامت کے روزجب خدابندوں کے فیصلے کیلئے اترے گاتوسب سے پہلے تین اشخاص طلب کئے جائیں گے‘ ایک قاری‘دوسرادولت مند اورتیسراشہید!خداقاری سے پوچھے گاکہ کیاہم نے تجھے قرآن نہیں سکھایا‘اس پرتونے کیاعمل کیا؟قاری جواب میں دن رات قرآن کی تلاوت کاذکرکرے گاتوخدااس سے فرمائے گاکہ توجھوٹ کہتاہے ‘تم نے یہ سب لوگوں کیلئے کیا تاکہ تم کوقاری کہیں۔اسی طرح دولت منداپنی سخاوت کااورشہیداپنی جان کی قربانی کاذکرکرے گاتوجواب میں رب ذوالجلال ان کوبھی جھوٹ سے تشبیہ دے کردنیاکے دکھلاوے کاعمل کہے گااوریہ کہہ کررسول اکرمﷺنے میرے زانوپرہاتھ ماراکہ اللہ تعالیٰ حکم صادرکریں گے کہ ان کومنہ کے بل گھسیٹ کرجہنم میں دھکیل دو اورسب سے پہلے جہنم کی آگ ان پر ہی شعلہ زن ہوگی“۔میرے رب سے بڑھ کرکون قول وفعل کے تضادکوجان سکتاہے
لیکن ہمارے ہاں قول وفعل کے تضادکوسیاست کی کامیابی سمجھاجانے لگاہے۔دورنہ جائیں ابھی کل ہی کی توبات ہے کہ ہماے ملک کی ایک دینی وسیاسی جماعت جے یوآئی کے سربراہ مولانافضل الرحمان کی کئی پالیسیوں نے پوری قوم کودم بخودکردیاہے اورپاکستانی عوام دینی وسیاسی جماعت کے سربراہ کے اس سیاسی کردارپر سوچنے پرمجبورہوگئے ہیں جوباغبان اورصیادکوایک ہی وقت میں خوش رکھنے کافن جانتے ہیں۔اوریہ کمال بھی انہی کوحاصل ہے کہ حکومت میں رہ کرحزب اختلاف اوراپوزیشن میں بیٹھ کرحکومت کے سارے فوائدہمہ وقت سمیٹتے رہتے ہیں۔ایک ٹکٹ میں دومزے بلکہ کئی مزے حاصل کرنے کاگربخوبی استعمال کرناجانتے ہیں۔حال ہی میں سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کے انتخابات کے وقت مسلم لیگ ن کے امیدواراسحاق ڈار۲۵ ووٹ لینے کے باوجودشکست کھاگئے جبکہ جے یوآئی کے عبدالغفورحیدری ۱۵ووٹ لیکر قائدحزب اختلاف کے منصب کے حقدار ٹھہرے حالانکہ اس انتخاب کے بعدمسلم لیگ کے تینوں دھڑوں کے علاوہ دوسری جماعتوں کے اراکین مشترکہ طورپراحتجاج کے طورپرسینیٹ کے چیئرمین فاروق نائیک پر انتخاب میں دھاندلی کاالزام لگاتے ہوئے سینیٹ سے واک آوٴٹ کے سواکچھ نہ کرسکے۔
ایسی بے مثال کامیابی کاہنرصرف مولانا ہی بہتر طورپرجانتے ہیں۔یادرہے کہ جب مولانا موجودہ حکومت میں اتحادی تھے توان کے تمام ممبران حکومتی وزرایادوسرے عہدوں پربراجمان تمام حکومتی فوائدسے لطف اندوزرہے اوراب وکی لیکس نے (ID:131658) میں ایک دفعہ پھرسابقہ امریکی سفیراین پیٹرسن کے ۲۷نومبر ۲۰۰۷ء کے مراسلے کے حوالے سے یہ انکشاف کیاہے کہ” مولانافضل الرحمان نے ۲۰۰۷ء میں ایک ملاقات کے دوران امریکاسے پاکستان کے وزیراعظم بننے کیلئے حمائت مانگی اور امریکی دورے کی خواہش کااظہاربھی کیا ۔ مولانافضل الرحمان کوایمرجنسی کے خاتمے اورعدلیہ کی بحالی سے کوئی سروکارنہیں اورمولانافضل الرحمان کے ووٹ بھی برائے فروخت دکھائی دیتے ہیں“۔ دراصل مولانافضل الرحمان اور امریکی سفیراین پیٹرسن کی یہ ملاقات ایک ہوٹل میں دوپہرکے کھانے پرہوئی تھی جس میں مولانانے اپنی اس خواہش کااظہارکیاکہ” اگرڈیل ہوجائے اورامریکااس کی تائیدکرے تووہ پاکستان کے وزیراعظم بنناچاہتے ہیں“ اورانہوں نے یہ بھی کہا”کہ امریکاوقت سے پہلے بے نظیرکے سرپروزارتِ عظمیٰ کاتاج نہ پہنائے“۔
مولاناکے بارے میں یہ بھی کہاجاتاہے کہ وہ اقتدارکی ہوس میں بہت دورتک جاسکتے ہیں اورخصوصاً جب وہ غیرملکی سفارتکاروں سے ملاقات کرتے ہیں تووہ انتہائی معتدل اور مغرب کیلئے انتہائی قابل قبول روشن خیال سیاستدان کاروپ دھارلیتے ہیں لیکن جب اپنے مذہبی علاقے میں داخل ہوتے ہیں توتمام مغرب بشمول امریکاکواستعماراورمسلمانوں کابدترین دشمن قرار دیتے ہیں کیونکہ اسی رویے سے ان کواپنے حلقے میں ووٹ لینے ہوتے ہیں۔بدنصیبی سے ہمارے ہاں ایک روایت نے جنم لے لیاہے کہ ملک کے اقتدارکیلئے راستہ امریکی سفارت خانے سے ہوکر نکلتاہے اور”امریکی ہما“جب تک سرپرنہ بیٹھے توبندہ اقتدارکی غلام گردشوں میں بھتکتارہتاہے اورہمارے ہاں بیوروکریسی اورعسکری ادارے بھی امریکی خواہشات کے بہت پابندہیں اورملک کی سیاسی قیادت ان دونوں اداروں کے بغیرحکومت کے ایوانوں میں پہنچنے کاخواب بھی نہیں دیکھ سکتی حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے اس خطے میں کئی مرتبہ یہ دونوں ادارے امریکی زوال کونہ بچاسکے۔
دراصل مولانااسی خوش فہمی کی بنیادپرامریکیوں کویہ احساس دلارہے تھے کہ اس وقت پاکستان میں امریکادشمنی کے جذبات عروج پرہیں اورانتہاپسندمذہبی عناصرجو پاکستان اورافغانستان میں امریکاکیلئے دردِ سربنے ہوئے ہیں ،صرف میرے وزیراعظم بننے پران کوقابومیں لایاجاسکتاہے اورآپ کے مفادات کی نگرانی کیلئے پرویزمشرف کوبھی کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی اس طرح مستقبل میں پاکستان میں مذہبی عناصراورافغانستان میں طالبان کے ساتھ کسی مفاہمت میں میری خدمات بھی آپ کودستیاب ہونگی ۔یہی وجہ ہے کہ مولانا نے پرویزمشرف کی ایمرجنسی اورججوں کی بحالی سے اپنی عدم دلچسپی کااظہارکرتے ہوئے امریکیوں کواپنی وفاداری کاپورایقین دلایالیکن مولاناشائداب بھی امریکی پالیسیوں سے اتنے ہی ناواقف ہیں جس قدر امریکامولاناکے اس دہرے کردار سے بخوبی واقف ہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکانے ابھی تک مولاناسے نہ توکوئی وعدہ کیااورنہ ہی ابھی تک ان کونامرادکیاہے۔امریکاکی یہ بڑی پرانی پالیسی ہے کہ وہ اپنے مفادات کیلئے وقت آنے پرایسے گھوڑوں پرسواری کرتے ہیں اوراپنے مفادات کی تکمیل پرسب سے پہلے انہی گھوڑوں کولنگڑاقراردیکرہمیشہ کیلئے خلاصی بھی حاصل کرلیتے ہیں۔
اسی طرح کاایک اوروکی لیکس انکشاف پرویزالٰہی صاحب کے بارے میں بھی منظرعام پرآیاہے کہ جنوری ۲۰۰۸ء میں چوہدری شجاعت اورپرویزالٰہی نے سابقہ امریکی سفیراین پیٹرسن سے ملاقات کی درخواست کی تھی جہاں انہوں نے پرویزمشرف کے مستقبل کے بارے میں امریکی حکومت کو اہم مشورے دیئے ۔ چوہدری شجاعت کی خواہش تھی کہ پرویزمشرف فی الحال فوری طورپراستعفیٰ نہ دیں بلکہ ان کے خلاف جوچارج شیٹ تیارکی گئی ہے وہ اس کامقابلہ کریں لیکن پرویزالٰہی نے کہاکہ فوج کے سربراہ جنرل پرویزکیانی پرویزمشرف اوران کے سارے خاندان کے افرادکے محفوظ مستقبل کی مکمل ضمانت دیں کہ کوئی بھی سیاسی حکومت ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی کاروائی نہیں کرے گی اورزرداری کی حکومت میں کسی بھی عہدے پرتقرری کی شدید مخالفت کی جائے۔دراصل ان دنوں نوازشریف اورزرداری کے درمیان پرویزمشرف کے خلاف پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کی صورت میں پرویزمشرف کی رخصتی کے ساتھ ان پرمقدمات قائم کرکے ان کوکڑی سزادلوانے کاپروگرام طے پاچکاتھااس لئے امریکاکواس بات سے آگاہ کیاجارہاتھاکہ آئندہ ان کے مفادات کوخطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
امریکااوربرطانیہ نے مشرف سے این آراوجیسابدنام زمانہ آرڈیننس تواس لئے جاری کروایاتھاکہ وہ مستقبل میں پرویزمشرف کومسلم لیگ ق کی حمائت کے ساتھ ملک کاصدراوربے نظیرکووزیراعظم مقررکرواناچاہتے تھے اورنوازشریف کواقتدارسے دوررکھناچاہتے تھے کہ پیپلزپارٹی کے ساتھ ان کااتحادبھی غیرفطری سمجھاجاتاتھااوروہ کسی بھی حالت میں پرویزمشرف کوقبول کرنے کوتیارنہیں تھے ۔نوازشریف ہرحال میں جلدازجلدعدلیہ کی بحالی کے حق میں تھے لیکن بے نظیرکے منظرسے ہٹائے جانے کے بعدزرداری صاحب بھی میاں برادران اورمشرف کے ساتھ دہری گیم کی بساط پراپنے مہرے بڑی کامیابی کے ساتھ چلا رہے تھے اورنوازشریف ابھی تک سیاسی اصولوں پروجودمیں آنے والے”چارٹرآف ڈیموکریسی“جیسے اتحادپرعملدرآمدکی امیدلگائے بیٹھے تھے ۔ان دنوں ہرتیسرے دن دونوں جماعتوں کے سربراہان ملک سے باہردبئی میں ملک کے مستقبل کیلئے معاملات طے کرنے میں مصروف تھے لیکن قارئین آپ موجودہ سیٹ اپ پرنظردوڑاکردیکھ لیں کہ آخر پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ ق کے اتحادسے ہی حکومت چلائی جارہی ہے کہ این آراو کے خالق کی یہی مرضی ہے۔
نہ ہم بدلے نہ تم بدلے نہ دل کی آرزوبدلی میں کیسے اعتبارِ انقلابِ آسماں کر لوں