قومی خودداری اورغیرت؟
سمیع اللہ ملک
دومئی کواسامہ کوہلاک کرنے کی پہلی برسی پرامریکی صدراوبامہ نے اچانک کابل میں پہنچ کرحامدکرزئی کے ساتھ اسٹرٹیجک معاہدے پردستخط کرکے دراصل القاعدہ کومشتعل کرنے کاجہاںایک واضح پیغام بھیجاہے وہی اس معاہدے پرنہ صرف افغانستان میںبلکہ اس کے تمام ہمسایہ ممالک میںنہ صرف تشویش بلکہ ایک اضطراب پیداہوگیاہے۔ایران نے توسب سے پہلے کھل کراس کی مخالفت کی ہے۔افغان قوم کی تشویش تو اس لئے بجاہے کہ اس معاہدے کے بعدافغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کیلئے کی جانے والی کوششوں کونہ صرف دھچکالگاہے بلکہ افغانستان میںجنگ طویل ہونے کاخدشہ بڑھ گیاہے۔دراصل امریکی صدرنے اس معاہدے کے ذریعے ایک تیرسے دوشکارکرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک طرف وہ نومبرمیںہونے والے صدارتی انتخابات میںکامیابی حاصل کرناچاہتے ہیںکیونکہ افغان جنگ کے حامی ایک ایک کرکے انتخابات ہاررہے ہیںاورحال ہی میںفرانس کے صدارتی انتخابات کے نتائج نے اوبامہ کومزیدتشویش میںمبتلاکردیاہے جہاںافغان جنگ کے کٹرحامی نکولس سرکوزی بری طرح ہارگئے ہیں اوردوسری طرف القاعدہ کویہ پیغام دیاگیاہے کہ امریکااب بھی افغانستان میںالقاعدہ کے خلاف جنگ کیلئے پرعزم ہے۔
امریکی صدرنے اس معاہدے کیلئے جان بوجھ کراسامہ کی برسی کے دن انتخاب کرکے امریکیوں،اپنے اتحادیوںاوردنیاکویہ باورکرایاہے کہ ان کی حکومت نے القاعدہ کی کمرتوڑکررکھ دی ہے اوراس کے ساتھ ساتھ ہی امریکاکویہ توقع ہے کہ اشتعال میںآکرتمام جہادی ایک مرتبہ پھرافغانستان کارخ کریںگے اورامریکااپنے اتحادیوںکے ساتھ القاعدہ پرایک بھرپوروارکرسکے گا تاہم گزشتہ تین چارماہ کے دوران مختلف جائزوںسے یہ بات سامنے آئی ہے کہ القاعدہ نے افغانستان میں اپنی جنگی حکمت عملی کویکسرتبدیل کردیاہے اوروہ جنگ میںعملی طورپرحصہ لینے کی بجائے مقامی جنگجوؤںکوتربیت فراہم کرنے اورانہیںجدیدجنگی حکمت عملیوںسے آگاہ کررہے ہیںجس سے ایک طرف القاعدہ کی قیادت نقصان سے بچ رہی ہے تودوسری جانب مقامی طالبان جنگجوؤںکوجدیدجنگی تربیت مل رہی ہے۔اس طرح فغانستان میںجنگ میںطوالت کے حوالے سے القاعدہ کوبہرحال فائدہ ہو رہاہے اورامریکاکوشدیدخسارے کاسامناہے۔
دوسری جانب افغان صدرحامدکرزئی نے طالبان سے مذاکرات کیلئے یہ شرط عائدکردی ہے کہ وہ القاعدہ سے لاتعلقی کااعلان کرے لیکن ہرذی شعورجانتاہے کہ جس مشن کیلئے طالبان نے اپنی حکومت ختم کردی،طالبان نے اپنے لیڈروں،نوجوانوں اوراپنے بچوںکی قربانیاںدیںوہ کس طرح القاعدہ سے یکدم لاتعلقی کااعلان کر سکتے ہیں۔یہ لاتعلقی اسی وقت ممکن ہے جب امریکاافغانستان سے غیرمشروط پرچلاجائے توپھرافغانستان میںغیرملکیوںکاجوازبھی ختم ہوجائے گالیکن اگرایک طرف کرزئی امریکی فوج کوافغانستان میںرہنے کیلئے معاہدے کرے توطالبان سے کیسے توقع کی جائے کہ وہ القاعدہ سے لاتعلقی کرے البتہ کرزئی امریکیوںسے لاتعلقی کااعلان کریںتوتب طالبان سے ایسی توقع کی جاسکتی ہے۔
امریکہ سے حال ہی ہونے والے معاہدے سے افغانستان میںمزیددس سال کیلئے ایک طویل جنگ کے سائے منڈلانے لگے ہیںاوراس سے حالات مزیدگمبھیرہونگے اورنہ ختم ہونے والاخون خرابہ شروع ہوجائے گااوراب یہ امکان بھی بڑھ گیاہے کہ ایران جوگزشتہ کئی سالوں سے مزاحمت کاروںکے مقابلے میںکرزئی حکومت کاحامی رہاہے اب اپنی پوزیشن یقینابدل لے گااسی لئے ایران نے کھل کرحالیہ امریکہ افغان معاہدے کی مخالفت کرتے ہوئے افغان حکام کوآگاہ کیاہے کہ اس معاہدے سے افغانستان میںامن نہیں بلکہ شدیدبدامنی کاخدشہ ہے جس کی ذمہ دارافغان حکومت پرہوگی۔یہی وجہ ہے کہ افغان پارلیمان نے ایرانی سفیرابوالفضل کوملک بدرکرنے کامطالبہ کیاہے تاہم کرزئی نے اس مطالبے کوماننے سے انکارکردیاہے۔
ایران کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی اس معاہدے کے خلاف ہے اورپاکستانی فوج کے اعلیٰ عہدیدارکورکمانڈرپشاورخالدربانی نے ایک غیرملکی خبرایجنسی کومنگل کوایک انٹرویومیںپہلی مرتبہ کہاہے کہ امریکااپنی ناکامیوںپرپردہ ڈالنے کیلئے پاکستان پرانگلیاںاٹھارہاہے اورہمارے پاس اس جنگ میںمزیدلڑنے کیلئے وسائل نہیں،یہ پاکستان کی جانب سے گزشتہ گیارہ سال کے دوران میںایک بھرپوراوربراہِ راست جواب ہے۔اس معاہدے کے خطے کے تمام ممالک پربرے اثرات پڑیں گے،ایران اورپاکستان کی تشویش بھی اپنی جگہ برقرارہے لیکن اس معاہدے سے بھارت کوبہت خوشی ہوئی ہے اورکابل میںبھارتی حکام نے افغان حکام کواس معاہدے پرباقاعدہ مبارکباددی ہے ادھرافغان طالبان نے اپنے کمانڈروںکوایک طویل جنگ کیلئے تیاررہنے کی فوری ہدائت جاری کردی ہے اورآئندہ چندہفتوںمیںاس بات کافیصلہ کیاجائے گاکہ قطرمیںطالبان کے دفترکوبندکردیاجائے اور طالبان مذاکرات ختم کرنے کاباضابطہ اعلان کردیںاوراس سے اپنے تمام کمانڈروںکوبھی آگاہ کردیںتاکہ آئندہ دس سال کیلئے جنگ کی تیاری جاری رہے۔
بعض اطلاعات کے مطابق امریکی صدراوبامہ نے شکاگوکانفرنس سے قبل اس معاہدے پرجلدی میں دستخط صرف اپنی انتخابی مہم کوکامیاب بنانے کیلئے کئے ہیںحالانکہ انہوں نے اپنے پہلے انتخابی جلسے میں کہاتھاکہ انہوں نے عراق سے فوج واپس بلائی ہے اورافغان جنگ بھی ختم کررہے ہیں۔ذرائع کے مطابق ایسا لگ رہاہے کہ جس طرح امریکی اورنیٹو فوج نے کرزئی کے ساتھ رات کی تاریکی میںآپریشن معاہدے کوپاؤںتلے روندکر اپنی من مانی کی ہے اسی طرح امریکی انتخابات کے بعدامریکااس معاہدے کوبھی ردی کی ٹوکری میںڈال کربھاگ جائے گاکیونکہ اس معاہدے سے امریکاکوفائدہ نہیںبلکہ نقصان ہوگاکیونکہ نیٹوسپلائی لائن ہمیشہ کیلئے امریکاکیلئے ایک مسئلہ رہے گی اورامریکی فوج کوافغانستان میں ترسیل کامسئلہ کبھی بھی حل نہیںہوگاکیونکہ القاعدہ امریکاکاپیچھانہیںچھوڑے گااورامریکاافغانستان کے ہمسایہ ممالک کے حدودکی خلاف ورزی کرے گاجس سے تعلقات خراب ہوتے رہیںگے۔
بعض ذرائع یہ بھی مشورہ دے رہے ہیں کہ یہ بہترین وقت ہے کہ ان حالات میںپاکستان آئندہ دنوںمیںاس جنگ سے نکلنے کااعلان کردے جوپاکستان کے مفادمیںہے تاہم اس معاہدے کے اثرات ایک طویل عرصے تک خطے پرپڑے رہنے کاامکان ہے۔طالبان کی جانب سے مذاکرات ختم کرنے اوراورقطردفتربندکرنے کااعلان ہونے کی صورت میںطالبان اورامریکاکے درمیان شدیدجنگ کاامکان ہے۔ایک طرف طالبان نے تیاری شروع کردی ہے تودوسری جانب امریکی فوج کے پاس ایندھن ختم ہورہاہے اورطالبان اس سے بھرپورفائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے تاکہ امریکاکواتنانقصان پہنچایاجاسکے کہ وہ ویت نام کی طرح یہاں سے بھی بھاگ جانے میںاپنی عافیت جانیں تاہم اگرصدراوبامہ امریکی انتخابات میں کامیابی کے بعدافغان جنگ کے مکمل خاتمے کااعلان کرتے ہیںتوپھرافغانستان میںجنگ ختم ہونے کے امکان ہوسکتے ہیںلیکن اگرامریکاافغانستان میںقیام کاارادہ رکھتاہے توایران اس جنگ میںضرور شریک ہوگاجوابھی تک فی الحال اس جنگ میںباقاعدہ شریک نہیںہے کیونکہ امریکاکی جانب سے ایران کے خلاف جاسوسی کے نئے نظام کی منظوری سے ایران یہ محسوس کررہاہے کہ افغانستان سے ہی ایران کی جاسوسی کی جائے گی جوایران کوکسی صورت بھی منظورنہیں۔
افغان جنگ کی طوالت سے سب سے زیادہ نقصان پاکستان کاہوگا۔مبصرین کے مطابق پاکستان پہلے ہی اس جنگ میںبری طرح نقصان اٹھاچکاہے ۔یقینااس معاہدے کے اثرات توہونگے کیونکہ معاہدے صرف کاغذکے ٹکڑے نہیںہوتے۔ایران کی مخالفت بہت اہم ہے کیونکہ ایران نے امریکاکے افغانستان پرحملے کے وقت غیرجانبداررہنے کااعلان کیاتھاتاہم کرزئی حکومت کوایران نے گزشتہ دس سال میںبہت مدددی ہے۔اب ایران کی جانب سے اس طرح کی مخالفت سے ایک طرف افغان حکام پریشان ہیںتودوسری جانب افغانستان کے اندرمزیدمسائل پیداہونگے جس میں امریکااورایران کے درمیان سردجنگ بھی شامل ہے اوراس کامرکزبھی افغانستان ہوگاجوخطے کیلئے تباہ کن ہے ۔
ادھر دوسری جانب ہمیشہ کی طرح پاکستان کی موجودہ حکومت ڈرامائی اندازمیںاپنے آقاکے ہاںسرنگوںہوگئی ہے جس طرح مشرف نے اپنے آقاؤںکے سامنے اپنی جبینِ نیازجھکائی تھی۔پارلیمنٹ کوسپریم ادارہ کہنے والے سزایافتہ وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے برطانیہ کے دورے سے واپسی پردورانِ سفر جہازمیںپارلیمنٹ کو اعتمادمیں لئے بغیرمیڈیاکونیٹوکی سپلائی بحال کرنے کاعندیہ دیتے ہوئے کہاپاکستان نیٹوسپلائی کی بندش سے دنیاکے ۴۳ممالک سے اپنے تعلقات خراب نہیںکرسکتا۔این آراوکے خالق برطانیہ کے دورے کے فوری بعدایوان صدرمیںفوجی،سول قیادت کاباہمی اجلاس طلب کیاگیا جس میں وزیر دفاع ،وزیر داخلہ ،وزیرخزانہ ، آرمی چیف،ڈی جی آئی ایس آئی کے علاوہ دیگرشخصیات نے شرکت کرکے نیٹوسپلائی کی بحالی کیلئے دباؤ اورامریکاکی طرف سے عائدکی جانے والی چھ شرائط پرغورکرتے ہوئے سلالہ کے واقعے پرمعافی کے مطالبے سے دستبردارہونے کاواضح عندیہ دے دیا اوربہانہ یہ بنایاگیاہے کہ پاکستان نیٹوسپلائی کی بندش سے دنیاکے ۴۳ممالک سے اپنے تعلقات خراب نہیںکرسکتا۔کیانیٹوسپلائی کی بندش سے پہلے یہ خیال کسی کونہیںآیا؟پارلیمنٹ کوسپریم ادارہ اورپاکستان کو خود مختار اور آزاد ملک کہنے والے کھل کرکیوںنہیںبتاتے کہ اقتدارحاصل کرنے کیلئے قومی خودداری اورغیرت کواسی طرح برسرِمیدان فروخت کیاجاتاہے اورامریکی وائسرائے کے سامنے کسی کوبھی سراٹھانے کی اجازت نہیں ۔
آل پاکستان آئل ٹینکرز اونرز ایسوسی ایشن کے سربراہ یوسف شاہوانی نے منگل کو کراچی پریس کلب میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے اسلام آباد میں ایک اجلاس میںیقین دہانی کرا دی ہے کہ افغانستان میں نیٹو افواج کے لیے سپلائی ایک ہفتے میں بحال ہونے کی امید ہے اور وہ اس سلسلے میں اپنی تیاری مکمل رکھیں۔یوسف شاہوانی نے بتایا کہ تیل کی ترسیل بحال ہونے کے بعد امید ہے کہ روزانہ چار سو سے ساڑھے چار سو آئل ٹینکرز کراچی سے تیل لیکر نکلیں گے جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔آج میرصادق اورمیرجعفرکی ارواح اپنی اولاد کے اس فعل پرکس قدرنازاں اورفخرمحسوس کررہی ہوگی!
اپنی شہ رگ تک آنے والا ہوں ایک رگ روزکاٹتاہوںمیں