Home / Litrature / لختِ دل ‘ کا شاعر منور احمد کنڈے

لختِ دل ‘ کا شاعر منور احمد کنڈے

لختِ دل ‘ کا شاعر منور احمد کنڈے

تعارف : امجدمرزاامجدؔ کسی شاعر کے بارے میں لکھنا ہو تو پہلے اس کی شخصیت و کردار کے متعلق مکمل معلومات ہونا ضروری ہے اسی طرح جیسے اس کے کلام کے بارے میں لکھنے کے لئے شعرو سخن کا شعور لازمی ہے۔
میری اور ڈاکٹر منور احمد کنڈے کی بے لوث و بے غرض اور مخلص دوستی کی عمر دو دہایوں کے قریب پہنچ چکی ہے ۔ویسے تو کچھ ایسے لوگ بھی زندگی میں آئے ہیں جو مدتوں سمجھ میں نہ آسکے ان کو پرکھنے بیٹھو تو پیاز کی مانند پرت در پرت کھلنے کے بعد بھی کچھ نہیں ملتا سوائے آنکھوںمیں کڑوے آنسوؤں کے !۔ کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو ساری عمر خود کو ہی نہ سمجھ سکے کہ وہ کیا ہیں اور انہیں کیا ہونا چاہیے ۔ کبھی تولہ کبھی ماشہ نہیں بلکہ کبھی تولہ اور کبھی اس قدر بے وزن کہ وقت کی ہلکی سی پھونک سے اڑکرمٹی میں مل جائیں۔۔ مگر منور احمد کنڈے کو جانے ہوئے بیس برسوں میں ایک جیسا پایا ۔۔ مسکراتے ہوئے گفتگو کرنے والے اکثر لوگ مخلص ہوتے ہیں ۔ ان سے ملاقات تو اس طویل مدت میں دو بار ہی ہوئی ہے مگر شاید ہی کوئی ایسا دن گزرا ہو جب فون پر ان کی میٹھی باتوں نے کانوں میں رس نہ گھولے ہوں۔ وہ نہایت مخلص اور محبت کرنے والے دوستی کا بھرم نبھانے والے دوستوں کی عزت بڑھانے والے انسان ہیں ۔۔میری ایک فطری کمزوری ہے کہ میںدوسروں پہ فوراً اعتماد کرلیتا ہوں اور اس کمزوری نے مجھے بارہا دکھی کیا ہے اور نقصان دیا مگر انسان اپنی فطرت تبدیل نہیں کرسکتا ۔مگر ان تمام وقتی اور مطلب پرست دوستوں کی بے وفائی کا دکھ منور کنڈے کی بے لوث دوستی اس طرح دور کردیتی ہے جیسے درختوں کے پتوں پر جمی ہوئی دھول مٹی بارش دھو کر انہیں خوشنما ہر ابھرا او ر تازہ کردیتی ہے ۔ کہتے ہیں اگر پوری زندگی میں ایک مخلص دوست مل جائے تو سارے دکھوں کا مداوا ہوجاتا ہے ۔اور میں اس معاملے میں خوش نصیب انسان ہوں جسے منور احمد کنڈے جیسا بے لوث محبت کرنے والا دوست ملا۔۔ اللہ یہ دوستی سدا قائم رکھے اور انہیںصحت تندرستی والی لمبی عمر عطا کرے ۔آمین
ایک بات جو مجھے اچھی لگی کہ میری طرح اور بھی ان کے بہت سے دوست ہیں جو منور کنڈے کے بارے میں بالکل یہی تاثر رکھتے ہیں۔ ان کو جاننے والا ہر شخص یہی سمجھتا ہے کہ وہ میرے ہی قریبی اور مخلص دوست ہیں ۔ یہ فطرت اللہ کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے جو انہیں اللہ نے عطا کی ۔ اس کے علاوہ شاعری میں میں انہیں اپنا استاد محترم بھی مانتا ہوں کہ انہوں نے ہمیشہ میری رہنمائی کی جس کے لئے میں ان کا دل کی گہرائیوں سے احسان مند ہوں۔ انہوں نے ہمیشہ محبتیں بانٹی ہیں اور محبت بانٹنے والے کو بے حدمحبتیں ملتی بھی ہیں۔
بس اتنی منورؔ کی دعا تجھ سے ہے مولیٰ
انسان سے انسان کو بس پیار سکھا دے
اس سے قبل ان کی چھ کتابوں پر مضمون لکھ چکا ہوں اور آج برطانیہ ہی نہیں یورپ ،امریکہ ہندو پاک میں جو شخص بھی ادب سے متعلق ہے وہ جانتا ہے کہ منور احمد کنڈے ایک منجھے ہوئے قلمکار ہیں اور خدا نے انہیں اس قدر علمی وسعت عطا کی ہے کہ انہوں نے اردو اور پنجابی کی تمام اصناف پر لکھا اور خوب لکھا ہے ۔ پیشے سے وہ ہومیو پیتھی کے معروف ڈاکٹر ہیں مگر اب ریٹایئرڈ زندگی گزار رہے ہیں اور دن رات ادب کی بے لوث خدمت میں مصروف ہیں۔ پنجابی کے دو ’’ باغاں دے وچکار‘‘ اور ’’پینگ الارے‘‘ شعری مجموعوں کے علاوہ اردو کے چار ’’ بیدار دل ۔ طاقِ دل ،حرفِ منور ‘‘ اور اب ’’لختِ دل ‘‘ شائع ہوچکا ہے ساتواں مجموعہ کلام ’’ابر قبلہ‘‘ زیر اشاعت ہے جو اگلے ماہ تک منصہ شہود پر آجائے گا ۔ ان کی ذود نویسی نے کبھی بھی اپنا معیار مجروح نہیں کیا بلکہ اس کے معیار میں اضافہ ہی ہوا ہے ۔ وہ برطانیہ و یورپ کے واحد شاعر ہیں جنہوں نے بے شمار شعراء و شاعرات کی کتابوں اور ان پر مضامین کے علاوہ توشیحی نظمیں بھی لکھی ہیں۔ آج کے دور میں کسی کی تعریف کرنا خود کو نیچا دکھانے کے متراوف سمجھا جاتا ہے اسی لئے درجنوں شعرا و ادبا کو اپنی کتابیں دیں کبھی کوئی اس پر دو لفظ بھی لکھنے کی تکلیف گوارا نہیں کرتا ۔کسی کی تعریف کرنا شاید لوگ اپنی بدتعریفی سمجھنے لگتے ہیں حالانکہ میں اکثر کہتا ہوں کہ کسی کی تعریف کرنا اس کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور پھر تعریف تو اللہ کی سنت ہے ۔وہ اس قدر عظیم ہے جو کسی تعریف کا محتاج نہیں مگر اپنے بندے سے خود تعریف کراتا ہے کہ کہہ اللہ و اکبر ۔۔اللہ بہت بڑا ہے وہ عظیم ہے وہ اعلیٰ ہے ۔۔ اور پھر جو لوگ اپنا وقت پیسہ لگا کر ادب کی خدمت کررہے ہیں کیا وہ تعریف کے قابل نہیں۔؟۔۔ ان کی تعریف نہ کرنا،میں اسے تنگ نظری کہوں گا ۔۔ اور افسوس ہے کہ ایسے خودغرض تنگ نظر ،متعصب سخن وروں سے برطانیہ بھرا ہوا ہے جو کسی کو پھلتا پھولتا دیکھ نہیں سکتے مگر اللہ جس کے اندر ادب و سخن کا چشمہ پیدا کردیتا ہے وہ کسی کے تعصب اور تنگ نظری سے سوکھتا نہیں بلکہ آبشار بن کر دنیا کو سیراب کردیتا ہے ۔ایسا ہی چشمہ ہمارے ڈاکٹر صاحب کے اندر پھوٹا اور کئی برسوں سے جھرنے کی مانند بہہ کر دنیائے ادب کو سیراب کررہا ہے ۔
ان کا نیا مجموعہ کلام ’’لختِ دل‘‘ میرے سامنے رکھا ہے جس کا خوبصورت سرورق اور اس پر لکھی ہوئی ایک نظم مصنف کے خوبصورت اسلوبِسخن کی گواہی دے رہی ہے ، ’’سویرا اکیڈیمی لندن ‘‘ کے زیر اہتمام لاہور کی ممتاز شاعرہ پبلشر محترمہ فوزیہ مغل نے ’’مغل پبلشنگ ہاؤس‘‘ سے شائع کیا ،خوبصورت اسی گرام کے سفید براق کاغذ پر پرنٹ شدہ یہ مجموعہ ڈاکٹر منور احمد کنڈے نے خود کمپوز کیا ہے ۔اس میں ایک ہی صفحہ پر نہایت مختصر محترم اکبر حیدر آبادی ، راقم الحروف اور جرمنی کے معروف شاعر اسحاق ساجد صاحب نے مصنف کے بارے میں لکھا جو نہایت اچھی رسم ہے کہ اکثر مجموعات میں آدھی کتاب تو تعریفی مضامین سے بھری ہوتی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے نہایت خوبصورت ترتیب سے پہلے حمدیہ ،نعتیہ اور جمعتہ الوداع پر نظم کے بعد گیت پھر پنجابی کلام ،غزلیات اور آخر میں توشیحی نظموں کے ساتھ مختلف عنوان کے ساتھ نظمیں شامل کی ہیں۔ 174صفحات کا یہ شعری مجموعہ ادب و سخن کا ایک مرقع ہے جس میں ہر قاری کے لئے دلچسپی کا سامان موجود ہے ۔
موزوں کرتے ہیں غزل اب بھی منور ؔ کنڈے
کہہ چکے جبکہ بہت پہلے بھی فنکار غزل
ڈاکٹر منور احمد کنڈے نے متعدد اصناف میں طبع آزمائی کی ہے مگر اصل میں وہ غزل کے شاعر ہیں وہ اپنے خوبصورت لہجے کی انفرادیت اور اپنے کلام کی پختگی ،اپنے انداز اسلوب اور فکر کی ندرت کے باعث اردو اور پنجابی کی غزل میں اپنا الگ مقام رکھتے ہیں۔ اس مجموعہ میں ان کا پنجابی کا کلام بھی ایک نیا رنگ پیش کرتا ہے ۔جس میں غزلوں کے علاوہ ان کی طویل پنجابی لوک صنف ’جگنی ‘ بھی شامل ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔ وہ کہتے ہیں سب پوچھتے ہیں کہ جگنی کیا ہوتی ہے درخت یا درخت کا بیج ہوتی ہے بہن ہوتی ہے یا بیٹی ہوتی ہے ۔ پھر کہتے ہیں۔
’’ اہ جگنی دل دی آس ہوندی /اہ شاعر دا احساس ہوندی /اہ سوچ ہوندی اے خواب ہوندی /اہ نھیرے چے مہتاب ہوندی‘‘( جگنی دل کی آس ہوتی ہے /یہ شاعر کا احساس ہوتی ہے /یہ سوچ ہوتی ہے خواب ہوتی ہے /یہ اندھیرے میں مہتاب ہوتی ہے )
شاعر کا دل صاف ہو ذہن بیدار ہو تو اس کی تحریر میں قوس قزح کے رنگ بھر جاتے ہیں ایک کہکشاں ابھر آتی ہے ایک نئی دنیا آباد ہوجاتی ہے ۔ اس میں ہر جانب پھول ہی پھول بکھرجاتے ہیں۔وہ اپنے اشعار میں جو کہتے ہیں وہ ان کی فطرت کی عکاسی ہوتی ہے ۔
شعر میں د ل کی بات لکھ لکھ کر تم بھی روشن ضمیر بن جاؤ
دولتِ درد بھر کے دامن میں اے منورؔ امیر بن جاؤ
اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک امیر ترین انسان ہیں کیونکہ ان کے پاس انسانیت کا درد اپنے وطن کی بے پناہ محبت ،دوستوں کی محبت ،ادب و سخن کی بے پنا ہ دولت ہے اور وہ اس پرپوری طرح شاکر ہیں۔ ان کے پاس نور کی وہ جاگیر ہے جسے ظرف کا نور کہہ لیں یا وضع دار ی کا نور اور یا محبتوںکا نور۔۔
ہے منورؔ وہ امیروں کا امیر نور کی جاگیر اس کی ذات ہے
لکھنے کو تو ان پر ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے جو میرے آئندہ پروجیکٹ میں شامل ہے مگر آج کے اس مضمون کو اس دعا کے ساتھ اختتام پذیر کرتا ہوں کہ ۔۔اللہ کرے ان کی قلم میں اور برکت ہو اور وہ اپنے دوستوں میں اسی طرح محبت کے پھولوں کی خو شبو بکھیرتے رہیں۔۔آمین
اس کتاب کے بارے میں مزید معلومات مصنف سے 019522 91779پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

About admin

Check Also

یوروپی ممالک کی جامعات میں اردو کی تدریس

پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین یوروپی ممالک کی جامعات میں اردو کی تدریس یوروپی ممالک میں اردو …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *