سمیع اللہ ملک
اس وقت پاکستان کا وزیرِاعظم اختیارات کے اعتبار سے بظاہر کسی بھی سابق وزیرِاعظم سے زیادہ طاقتور ہے۔ مگر ایسی طاقت کس کام کی جو منہ کی چھچھوندر بن جائے ، نہ نگلنے بنے نہ اگلنے بنے۔ اس ایٹم بم کی طرح جو موجود تو ہے لیکن کسی کے سر پر پھوڑا نہیں جاسکتا۔بالکل اس بہو کی طرح جسے سسر بے نقط سنا رہا ہے، ساس چوٹی پکڑ کر کھینچ رہی ہے، خاوند بڑبڑا رہا ہے اور نند جھولی پھیلائے بددعائیں دے رہی ہے۔بالکل اس شیر کی طرح جو کہنے کو جنگل کا بادشاہ ہے لیکن ایک طرف سے لگڑ بگڑ ٹانگ کھینچ رہا ہے، ایک بندر سر پر کود رہا ہے، شکاری کتے گھیرا ڈالے کھڑے ہیں اور ہانکے کا ڈھول قریب سے قریب تر ہوتاجا رہا ہے۔وزیرِ اعظم اتنا طاقتور ہے کہ صدر اور عدلیہ کو چھوڑ کر کسی کو بھی مقرر، معطل کرسکتا ہے لیکن وہ کرے تو کیا کرے۔ نہ سوچنے کی مہلت ہے، نہ اکڑوں بیٹھنے کی، نہ کھڑا رہنے کی، نہ جھکنے کی اور نہ سینہ تاننے کی اورنہ ہی بظاہرگردن جھکانے کی۔
ایوانِ صدر اسے آنکھوں سے اشارے کر رہا ہے خبردار جو تو نے کچھ لکھا۔عدالتِ عالیہ سے آواز آ رہی ہے ابے لکھتا ہے کہ گردن مروڑوں۔جی ایچ کیو میمو میں لپٹی گردن پرگرم گرم سانسیں چھوڑ رہا ہے تواپوزیشن سلطان راہی بنی ہوئی ہے اور اتحادی بجلی کے تاروں پر بیٹھے اپنے اپنے پرسکھا رہے ہیں۔وزیرِاعظم کے سر پر رکھی اٹھارویں ترمیم کی بااختیار پوٹلی اب پھٹ چکی ہے۔ اس میں سے کچھ اختیارات سپریم کورٹ نے اڑا لیے ہیں ،کچھ کو فوج نے گول کرکے فٹ بال بنا لیا ہے اور کچھ بے اختیار صدر کے تصرف میں ہیں۔جب اختیارات کی طاقت بے بسی کی زنجیر ہوجائے تو سکندرِاعظم بھی بطور وزیرِاعظم کیا کر لے گا۔ ظاہر ہے شام کو کچھ کہے گا صبح کچھ، کبھی ہنسنے والی بات پر روئے گا تو کبھی رونے والی بات پر دم بخود ہوجائے گا۔ اچانک غصے میں آئیگا اور پھر اپنے ہی غصے پر غصے میں آجائے گا مثلا:
کسی کو بھی ریاست کے اندر ریاست بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔میں تو یہ بات صرف سیکرٹری دفاع کے بارے میں کہہ رہا تھا۔اسامہ بن لادن چھ سال تک کس ویزے پر پاکستان میں رہا ؟میرے بیان کو غلط نہ سمجھیں،میں نے تو یہ بات مشرف کے بارے میں کہی تھی۔ مشرف دور کے آئی ایس آئی چیف کے بارے میں اگر ایسی بات کروں تو میری زبان جل جائے۔میں نے تو منت کر کے جنرل کیانی اور جنرل پاشا کو ملازمت میں توسیع دی تھی بھلا ان پر کیسے تنقید کرسکتا ہوں۔جنرل کیانی اور پاشا نے براہِ راست عدالت میں حلفی بیانات داخل کرکے آئین اور قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔معاف کیجئے میں کہنا یہ چاہتا تھا کہ اصل میں ساری آگ سیکرٹری دفاع نے لگائی، جنرل کیانی اور پاشا کا کوئی قصور نہیں۔ سیکرٹری دفاع کو برطرف کردیا گیا ہے اور یہ جو آئی ایس پی آر نے جنرل کیانی اور پاشا پر میرے الزامات جھٹلاتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے الزامات کے نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں تو اس بیان پر بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔اسے جاری کرنے سے پہلے جنرل کیانی نے فون پر مجھ سے بات کی اور میں نے اجازت دی کہ آپ وضاحتی بیان جاری کرسکتے ہیں۔بڑا افسوس ہوا کہ چیف جسٹں نے مجھے بددیانت اور خائن قرار دیا۔ معافی چاہتا ہوں چیف جسٹس نے نہیں بلکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مجھے بددیانت اور خائن قرار دیاحالانکہ میں منتخب وزیراعظم ہوں،میرے والد،دادااوران کے دادابھی منتخب لیڈران تھے (حتیٰ کہ نیاانکشاف کیا )کہ مغلیہ دورمیں بھی ایسی ہی جمہوریت میں میرے آباوٴاجدادمنتخب ہوکرآئے تھے لیکن اب سب ٹھیک ہوگیا ہے۔ لا لا، لی لی، لولو۔
یہ توبالکل ایسے ہی ہے کہ ایک صاحب بہترین سا سوٹ پہنے گلی سے گذر رہے تھے۔ اچانک اوپر سے کسی نے باسی دال پھینک دی۔ ان صاحب نے چیختے ہوئے کہا اوئے کون بے غیرت اندھا ہے جس نے میرا سوٹ برباد کر دیا۔ مرد کا بچہ ہے تو نیچے اتر، تجھے مزا چکھاوٴں کمینے۔ایک سوا چھ فٹ کا پہلوان نیچے اترا۔اوئے کسے گالی دے رہا تھا با ؟کسی کو نہیں سر جی۔ میں تو بس یہ عرض کرنا چاہتا تھا کہ دال بہت لذیذ ہے۔ ذرا سی اور مل جائے تو مزہ آجائے۔
اس وقت ملک میں ایوانِ صدراوروزیراعظم ہاوٴس کے باسیوں نے کھلم کھلا ملک کے سب سے بڑے اورمحترم ادارے کے احکام کونہ صرف ماننے سے انکارکردیاہے بلکہ اپنی ہی فوج کے سپہ سالاراورخفیہ ادارے کے سربراہ کو عدالتِ عالیہ کے احکام کی بجاآوری کوغیرآئینی اورغیرقانونی قراردیکر قوم کوایک نئے ہیجان میں مبتلاکردیاہے۔وطن عزیزجواس وقت دوسرے بے شماربحرانوں میں مبتلاہے اب اس کوآئے دن مزیدبحرانوں کے حوالے کرکے عوام کے اصل مسائل سے فرارحاصل کیاجارہاہے۔موجودہ حکومت جواس وقت جمہوریت کوبچانے کے پرفریب دعوے کررہی ہے آئیے دیکھیں کہ عین اس وقت دوسرے ممالک میں جمہوری قدروں کی کس طرح پاسبانی کی جارہی ہے ۔
برطانیہ میں ان دنوں فون ہیکنگ (Phone Hacking)کاایک سکینڈل چل رہاہے ۔برطانیہ کے ایک اخبارنیوزآف دی ورلڈنے کچھ لوگوں کے فون ہیک کرلئے تھے۔۱۰جولائی ۲۰۱۱ء کوجب اس سکینڈل کی خبر عوام کے سامنے آئی توگویابرطانیہ میں ایک کہرام بپاہوگیا۔یہ سکینڈل جب سامنے آیااس وقت مذکورہ اخبار کے سابق ایڈیٹراینڈی کورسن برطانوی وزیراعظم ڈیوڈکیمرون کے کیمونیکیشن ڈائریکٹرتھے۔ڈیوڈکیمرون کے مذکورہ اخبارکے مالک کے ساتھ بھی انتہائی قریبی تعلقات تھے۔کورسن نے سکینڈل کے سامنے آنے کے بعدفوری طورپراستعفٰی دیدیا لیکن برطانوی اپوزیشن نے ڈیوڈکیمرون پریہ الزام لگایاکہ انہوں نے ایک ملزم کوایسے اہم عہدے پرتعینات کرکے اپنے اختیارات کاغلط استعمال کیاہے چنانچہ وزیراعظم کوفوری طورپراپنی قوم سے معافی مانگنی چاہئے۔
برطانوی پارلیمنٹ میں یہ معاملہ آج کل زیرِ بحث ہے۔حکومت نے فوری طورپر جسٹس نیوسن کی زیرنگرانی ایک بااختیارکمیشن بنادیاہے جوپچھلے کئی ماہ سے اس معاملے کی تحقیق کررہاہے۔۱۰جنوری کوڈیوڈکیمرون نے اعلان کیاکہ وہ کمیشن کے کام میںآ سانی پیداکرنے کیلئے اس کے سامنے پیش ہونے کیلئے بھی تیارہیں۔یادرہے کہ یہ کمیشن وزیراعظم کے خلاف بھی فیصلہ دے سکتاہے جب کہ یہ محض فون ہیکنگ کامعاملہ ہے کوئی میمواسکینڈل نہیں جہاں ہمارے ملک کے صدر پرالزام ہو کہ انہوں نے امریکا کے ایک جنرل مائیک مولن کو اپنی ہی فوج کے خلاف اکسایاہے یاپھرپاکستانی وزیراعظم نے اپنے اقتدارکوبچانے کیلئے ایک برطانوی اخبارکے مطابق برطانیہ سے مددکی درخواست کی ہو۔
کرسچین وولف (Christian Wulff)جواس وقت جرمنی کے صدرہیں،اس سے پہلے ایک صوبے لورس کونی کے گورنرتھے۔ ۲۰۰۸ء میں جب یہ گورنرتھے اس وقت انہوں نے اپنے ایک امیردوست کی اہلیہ سے اپناگھرخریدنے کیلئے ۵لاکھ یوروقرض لیاتھا۔وولف نے یہ قرض پوشیدہ رکھالیکن پچھلے مہینے جرمنی کے اخبارنے جونہی قرض کی یہ سٹوری شائع کی وہاں خاص وعام میں ایک تہلکہ مچ گیا۔جرمنی کے صدرنے فوری طورپرٹی وی پرآکراپنی قوم سے معافی مانگ لی لیکن اس کے باوجودقوم کی تسلی نہیں ہوئی اورایک جم ّ غفیر صدرکی رہائش گاہ کے سامنے اپنے ہاتھوں میں جوتے لہراتے ہوئے کئی گھنٹے اس کوشرم دلاتے رہے جبکہ وولف کاایساکوئی سوئس اکاوٴنٹ نہیں جس میں ملک کی لوٹی ہوئی ۶۰لاکھ ڈالر کی خطیررقم ہواور اسے ملک کی عدالت نے خط لکھنے کاحکم دیاہواورانہوں نے پوری قوم کے سامنے میڈیاپرعدالت عالیہ کاحکم ماننے سے نکارکردیاہو۔
ایک جمہوری ملک کامضبوط وزیراعظم صرف فون ہیک سکینڈل پرکمیشن میں پیش ہونے جارہا ہے جہاں فیصلہ اس کے خلاف بھی ہوسکتاہے اورجمہوریہ جرمنی کاصدراپنے دوست سے قرض کوچھپانے کے معاملے پرٹی وی پرآکرپوری قوم سے معافی مانگ رہاہے لیکن ہم ایک طرف جمہوریت کاراگ الاپ رہے ہیں اوردوسری طرف اربوں روپے کی کرپشن اوربدعنوانی پرذرہ بھرشرم بھی محسوس نہیں کرتے بلکہ آئندہ انتخابات میں جانے کیلئے سیاسی شہیدبننے کی آرزومیں ملکی اداروں فوج اورعدلیہ کے ساتھ کھلی جنگ کرکے جہاں اداروں کوتباہ کررہے ہیں وہاں ساری دنیاکے سامنے ایک مذاق بنے ہوئے ہیں۔ اگرموجودہ حکومت نے اب بھی عدلیہ کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی جاری رکھی توممکن ہے ۱۶جنوری کوعدلیہ آرٹیکل ۱۹۰کے تحت فوج کواحکام کی تعمیل کاحکم دیدے۔
زمیں پر ہر طرف یوں شور برپا ہے کہ لگتا ہے کسی لمحہ قیامت آنے والی ہے