Home / Socio-political / متحدہ مجلس عمل کی بحالی…..امکانات و خدشات

متحدہ مجلس عمل کی بحالی…..امکانات و خدشات

متحدہ مجلس عمل کی بحالی…..امکانات و خدشات

ایم ایم اے  کا ماضی حال اور مستقبل۔ ۔ ۔ ۔ ۔

تحریر :۔محمد احمد ترازی

mahmedtarazi@gmail.com

یہ 12اکتوبر 1999کے بعد کی بات ہے جب جنرل پرویز مشرف کو اقتدار سنبھالے چند ہی ماہ کا عرصہ گزرا تھا،جنرل مشرف کے اقتدار پر قبضہ نے امریکی عزائم کی راہ میں آسانیاں پیدا کردیں،خود جنرل مشرف نے امریکی مطالبات کے آگے سر نگوں کردیا اور پاکستانی ہوائی اڈے امریکہ کو پیش کردیئے،جو بعد میں افغانستان پر امریکی حملوں اور امریکی و عالمی فوج کے خطے میں براجمان ہونے کی صورت میں سامنے آئے،یہ وہ وقت تھا جب اسٹیبلشمنٹ کی تیار کردہ سیاسی جماعتیںناکام ثابت ہوئیں،دور دور تک کوئی سیاسی خلاءکو پورا کرنے والا کوئی نہ تھا،اِن حالات میں ضرورت اِس امر کی تھی کہ دینی جماعتیں میدان عمل میں اُتر کر سیاسی خلاءکو پر کریں،چنانچہ اِن حالات میں جید علمائے کرام نے دینی اتحاد کی ضرورت کوبڑی شدت سے محسوس کیا اور جمعیت علماءپاکستان کے سربراہ مولانا شاہ احمد نورانی نے اُس وقت کے امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد کے ساتھ مل کرتاریخی کردارادا کرنے کا فیصلہ کیا،مولانا نورانی نے تمام مکا تب ِ فکر سے تعلق رکھنے والی دینی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا اور جولائی 2001میں جمعیت علماءپاکستان،جماعت اسلامی،جمعیت علمائے اسلام(ف)جمعیت علمائے اسلام(س)،تحریک جعفریہ اور جمعیت اہلحدیث پر مشتمل ملک کی چھ بڑی دینی جماعتوں کے اتحاد ” متحدہ مجلس عمل“ یعنی MMA قائم کی ،جسے 19مارچ 2002کو باقاعدہ اتحاد میں تبدیل کردیا گیا اوریوں مولانا شاہ احمد نورانی کی سربراہی میں اِن جماعتوں نے پاکستان کی آزادی،سلامتی،خودمختاری،استحکام اور اسلامی تشخص کی بحالی کیلئے مشترکہ جدوجہد کا آغاز کردیا۔

ملک کے آئندہ انتخابات کے پیش نظر اِن چھ دینی جماعتوں نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ مستقبل کے خطرات سے نبرد آزما ہونے اور سیکولر قوتوں کا راستہ روکنے کیلئے انتخابات کے حوالے سے مشترکہ جدوجہد کی جائے گی،MMAنے اپنے انتخابی منشور میں اعلان کرتے ہوئے کہا کہ متحدہ مجلس عمل برسراقتدار آکر ملک میں نظام مصطفی  نافذ کرے گی، یہ 1977کی تحریک نظام مصطفی  کے بعد دوسرا موقع تھا جب مختلف مکاتیب فکر کے علماءکرام نے مولانا شاہ احمد نورانی پر اظہار اعتماد کرتے ہوئے نظام مصطفی کے نفاذ کو اپنے منشور کا مرکزی نقطہ قرار دیا اور23جولائی 2002سے اپنی انتخابی مہم چلانے کا اعلان کردیا،مولانا شاہ احمد نورانی پُر عزم تھے کہ عام انتخابات میںMMA لادین عناصر کو شکست فاش دے کر کامیابی حاصل کرے گی،اُن کا ماننا تھا کہ صرف دینی جماعتیں ہی ملک کو بحران سے نکال سکتی ہیں،10اکتوبر 2002کو مولانا نورانی کی توقعات حقیقت کا روپ دھار ے قوم کے سامنے تھیں،کسی کے وہم وگمان میں نہ تھا کہ دینی جماعتوں کے اِس اتحاد کو عوام اِس طرح پزیرائی بخشے گی کہ وہ حکومت کی سرپرستی میں قائم شدہ جماعت مسلم لیگ (ق) کے بعد دوسری بڑی قوت بن کر ابھرے گی،متحدہ مجلس عمل کی کامیابی نے سیاسی پنڈتوں اور ملکی پالیسی سازوں کو حیران وپریشان کردیا ،یہ ملکی تاریخ میں ابھرنے والی پہلی اتنی بڑی تبدیلی تھی،اگر اَن دیکھی طاقتیں پاکستان پیپلزپارٹی پیٹریاٹ تشکیل دینے میں کامیاب نہ ہوتیں تو صورتحال یقینا MMAکے حق میں ہوتی ،لیکن عالمی طاقتیں نہیں چاہتی تھیں کہ پاکستان میں اسلام پسندوں کو آگے بڑھنے کا موقع ملے،اگرچہ متحدہ مجلس عمل کی کامیابی کو عوامی سطح پر بہت پزیرائی حاصل ہوئی، لیکن عالمی سطح پر اِس کامیابی کو رجعت پسند عناصر کا غلبہ قرار دیا گیا،تاہم متحدہ مجلس عمل نے حالات کی نزاکت محسوس کرتے ہوئے قومی سطح پر مفاہمت کی پالیسی جاری رکھی، کیونکہ مجلس عمل ملک میں انارکی اورنئی مخاصمت کے دروازے کھول کر اُن لوگوں کو مایوس کرنا نہیں چاہتی تھی جنھوں نے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل پر اعتماد کا اظہار کیا تھا،ساتھ ہی مجلس عمل حکومت کو وقت بھی دینا چاہتی تھی، چنانچہ جمہوری عمل کو کسی تعطل سے بچانے کیلئے مجلس عمل نے حکومت کے سامنے مندرجہ ذیل شرائط رکھیں،صدر مشرف وردی اتاریں،58ٹوبی اور نیشنل سیکورٹی کونسل کے خاتمے کا اعلان کریں،1973کا غیر متازعہ دستور بحال کیا جائے اور لیگل فریم ورک آرڈر منسوخ کیا جائے۔

 دوہزار تین کا سال سیاسی سرگرمیوں کے عروج کا سال تھا،اِس سال مولانا شاہ احمد نورانی جنھوں نے متحدہ مجلس عمل کی انتخابی کامیابی کیلئے عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا ، اتحاد میں شامل جماعتوں کے قائدین کے اصرار پر24فروری 2003 کوسینٹ کا الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی ،سینٹ کے اِن انتخابات میں مجلس عمل نے 18نشستیں حاصل کیں،حالات کی نزاکت کے پیش نظر 9اپریل 2003کو MMAکے سربراہی اجلاس میں حکومت کی خارجہ پالیسی اور ایل ایف او پر حکومتی موقف کو مسترد کردیا گیا، صدر کی وردی کے مسئلے پرمولانا نورانی مشرف کو کوئی رعایت دینے پر تیار نہیں تھے،چنانچہ مجلس عمل اور حکومتی مزاکرات کے کئی دور بے نتیجہ رہے اور کوئی اتفاق رائے پیدا نہ ہوسکا،جس کی اصل وجہ خود حکومت کا غیر سنجیدہ رویہ تھا،وہ روز اوّل سے اپوزیشن کے ساتھ چوہے بلی کا کھیل کھیل رہی تھی،دوسری طرف MMAکی بدقسمتی یہ تھی کہ وہ مولانا فضل الرحمن کی ڈیڑھ صوبے کی حکومت کے کے چکرمیںبری طرح پھنس چکی تھی،مولانا فضل الرحمن کو اپنے ڈیڑھ صوبائی اقتدار کی اِس قدر فکر تھی کہ وہ اپنے موقف پر حکومتی چھاپ لگانے کیلئے ہر وقت تیار رہتے تھے،یہ بات ایم ایم اے کیلئے نقصان دہ تھی،مولانا نورانی اِس ساری صورتحال کا بغور جائزہ لے رہے تھے،دوسری طرف 7میں سے 6نکات پر اتفاق رائے ہونے کے باوجود صدر کی وردی کے مسئلہ ہنوز اٹکا ہوا تھا،مولانا نورانی نے حکومت کی جانب سے پیش کردہ آئینی پیکج متنازعہ امور پر وضاحت نہ ملنے کے سبب مسترد کردیاتھا اور 17دسمبر2003کی حتمی ڈیڈ لائن دے دی،جس کے اگلے دن متحدہ مجلس عمل نے حکومت مخالف احتجاجی تحریک کا آغاز کرنا تھا مگراِس سے قبل کہ حکومت کے خلاف کوئی احتجاجی تحریک شروع ہوتی پاکستان کی قومی سیاست اور MMAکو اُس وقت اِس عظیم سانحے سے دوچار ہونا پڑا جب 11دسمبر 2003کو مجلس عمل کے قائد مولانا شاہ احمد نورانی اسلام آباد میں ایک اہم پریس کانفرنس سے خطاب کرنے سے قبل حرکت قلب بند ہونے کے سبب خالق حقیقی سے جا ملے۔

مولانا شاہ احمد نورانی کی وفات کے بعد مجلس عمل جھاگ کی طرح بیٹھ گئی، 25دسمبر 2003کو مولانا کی وفات کے محض دو ہفتوں کے بعد مجلس عمل نے حکومت سے تمام معاملات طے کرکے یہ ظاہر کردیا کہ مولانا شاہ احمد نورانی اِس معاہدے کی راہ ¿ میں آخری کانٹا تھے،مولانا نورانی کے انتقال کے بعد مجلس عمل کے قائدین کی طرف سے ہوس اقتدار میں پے درپے سمجھوتوں اور مجلس عمل کی صوبائی حکومت کے دعوؤں کے باوجود عوامی فلاح کے اسلامی تصور سے میلوں دوری نے مجلس عمل کی افادیت کیساتھ اُس کے وجود کو بھی سوالیہ نشان بنا ڈالا،رہی سہی کسرحضرت مولانا فضل الرحمن کے دن رات بدلتے طرز عمل نے پوری کردی،انہوں نے اپنے مفادات کی خاطر جنرل مشرف کے اقتدار کو دوام بخشنے، سترھویں ترمیم کو قوم پر مسلط کرنے، وردی سمیت اُسے دوبارہ اقتدار میں لانے، حدود آرڈیننس کی منظوری اور صوبے میں بلا شرکت غیرے جبکہ وفاق میں حصہ بقدرجُسہ کے اصول کے تحت ابن الوقتی اور کاسہ ¿ لیسی کا گھناو ¿نا کھیل کھیلا ہے ،یوں مجلس عمل نے مولانا شاہ احمد نورانی کے دو ٹوک موقف کی ہی نفی نہیں کی بلکہ انتخابی مہم کے دوران ایل ایف او کے خلاف نعرہ کی بنیاد پر حاصل شدہ کامیابی کے ثمرات کو ضائع کرکے عوامی اعتماد کو بھی دھوکہ دیا ،یوں کئی شرمناک سمجھوتے مجلس عمل کے حصے میں آئے،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مولانا نورانی جب تک مجلس عمل کے سربراہ رہے حکومت اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی،لیکن مولانا نورانی کی آنکھیں بند ہوتے جبہ ودستار کے امینوں نے اصولوں پر سودے بازی کرکے مجلس عمل کے ساتھ جمہوریت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا،یہی وجہ تھی کہ بعد میں سیاسی شکست اور ناکامی متحدہ مجلس عمل کا مقدر بن گئی اور ایم ایم اے بطور سیاسی جماعت اور تحریک اپنے مقاصد سے دور ہٹ کر دم توڑ کرگئی۔

یہ ہے متحدہ مجلس عمل کہانی اور اِس مضمون کی لمبی تمہید،اتنی لمبی تمہیدباندھے کیلئے معذرت چاہتا ہوں، مگر اِس لمبی تمہید کا مقصد آپ کو متحدہ مجلس عمل کے اُس اصولی اور تاریخ ساز کردار سے آگاہ کرناہے جو مجلس عمل نے مولانا شاہ احمد نورانی کی قیادت میں ادا کیا،مگر بعد کے آنے والے لوگوں نے مجلس عمل کو حکمران وقت کے قدموں کی جوتی بنادیا، مولانا شاہ احمد نورانی کے بعد مجلس عمل کے قائدین نے جو کچھ کیا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، آج ایک بار پھر جمعیت علماء پاکستان کے موجودہ سربراہ ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیر صاحب،سینئر نائب صدرصاحبزادہ شاہ اویس نورانی اور جمعیت علماءاسلام(س) کے قائد مولانا فضل الرحمن متحدہ مجلس عمل کی بحالی کے خواہاں ہیں اور متحدہ مجلس عمل کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتے ہیں، چنانچہ اِس سلسلے میں 18اکتوبر کو اسلام آباد میں مذہبی جماعتوں کا ایک اہم اجلاسJUPکی میزبانی میں ہوا،جس میںمولانا فضل الرحمن نے ایم ایم اے کی فعالی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ایم ایم اے کو فعال کرنے پر اصولی اتفاق ہو گیا ہے، مگرمکمل بحالی کا فیصلہ عید کے بعد میں کیا جائے گا، اس موقع پر مولانا فضل الرحمن نے مزید کہا کہ آج کے اجلاس میں جماعت اسلامی کے معاملے پر بات نہیں ہوئی اگر جماعت اسلامی کے رہنماو ¿ں نے رابطہ کیا تو اُس پر غور کیا جائے گا، واضح رہے کہ متحدہ مجلس عمل کی بحالی کے سلسلے میں ہونے والے اجلاس میں جے یوپی،جمعیت علماءاسلام(ف)،جمعیت اہلحدیث اور تحریک اسلامی کے صاحبزادہ زبیر،مولانا فضل الرحمن، پروفیسر ساجد میر اور علامہ ساجد نقوی کے ہمراہ پیر عبدالرحیم نقشبندی،پیراعجاز ہاشمی،صاحبزادہ اویس نورانی،قاری زوار بہادر،عبدالغفور حیدری اور مولانا امجدخان نے شرکت کی،باوثوق ذرائع کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے باہر ہونے کی وجہ سے مجلس عمل کی بحالی کا باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا،جب تک یہ باضابطہ اعلان نہیں ہوجاتا مولانا فضل الرحمن مجلس عمل کے عبوری سربراہ ہونگے۔

قارئین محترم ! گذشتہ الیکشن میں مذہبی جماعتوں کی ناکامی کے بعد متحدہ مجلس عمل کی بحالی کے حوالے سے کئی بار کوششیں کی گئیں،اِس حوالے سے وقتاً فوقتاً خبریں بھی میڈیا کی زینت بنتی رہیں،جن میں متعدد بار مجلس عمل بحال اور بے حال ہوئی،مگر اَمر واقعہ یہ ہے کہ کوئی خاص پیش رفت قوم کے سامنے نہ آسکی،بلکہ بارہا اِس احیاءکو سیاسی مقاصد ، جوڑ توڑ اور سودے بازی کیلئے استعمال کیا گیا، شاید یہی وجہ ہے کہ سابقہ مجلس عمل کی دو اتحادی جماعتیں جماعت اسلامی اور جمعیت علماءاسلام(س)آج اس احیاءسے کنارہ کش نظر آتی ہیں، ہم نے بارہا اس حوالے سےJUPاور دیگر جماعتوں کی قیادت کو اپنے خدشات ،اتحاد میں شامل ہونے کے نقصانات اور مستقبل میں اِس کے مضمرات سے آگاہ کرنے کی پوری کوشش کی،مقصد و مدعا مولانا شاہ احمد نورانی کے بعد متحدہ مجلس عمل کا وہ کردار تھا جس نے مولانا نورانی کے کرے کرائے پر جھاڑو پھیر دی اور مجلس عمل کو طالع آزماو ¿ں کے در کی لونڈی بنادیا، یقینا وہ خدشات آج بھی بدستور اپنی جگہ موجود ہیں ،بلکہ موجودہ احیاءمیں جماعت اسلامی اور جمعیت علماءاسلام(س) کی عدم شمولیت نے اسے مزید تقویت دے دی ہے،یہ سوال اب بھی سر اٹھائے کھڑاہے کہ اگر متحدہ مجلس عمل مولانا نورانی کے بعداپنے طے شدہ مقاصد سے بھٹک سکتی ہے تو کیا موجودہ حالات اور دو اہم جماعتوں کی عدم موجودگی میں اپنے مقاصد حاصل کرپائے گی، ہمیںاِس اَمر میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ متحدہ مجلس عمل آئندہ الیکشن میں 2002 جیسی کامیابی حاصل نہیں کرسکتی،بلکہ ان دونوں جماعتوں کی عدم موجودگی مذہبی ووٹ بینک تقسیم کرنے کا بھی سبب بنے گی،جس کا زیادہ تر فائدہ سیکولر قوتوں اور پیپلز پارٹی کو ہوگا،باامر محال اگر مجلس عمل کامیابی حاصل کر بھی لیتی ہے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ آئندہ سیاسی جوڑ توڑ اور سودے بازی میں ملوث نہیں ہوگی اور وہی عمل دوبارہ نہیںدہرایا جائے گا جو ماضی میں دہرایا گیا تھا۔

یہی وہ تحفظات ہیں جو جماعت اسلامی اور جمعیت علماءاسلام (س) کے مجلس عمل میں دوبارہ شرکت کی راہ ¿ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں،جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ اُسے اس بات کی یقین دہانی کرائی جائے اور مولانا فضل الرحمن اِس نکتے پر یکسوئی اختیار کرلیں کہ وہ آئندہ پیپلز پارٹی اور زرداری سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے، جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ 2002کی طرح سیٹوں کا فارمولا طے ہوجائے اور ماضی میںجن اسباب کے سبب MMA غیر فعال ہوئی تھی اُس کا تجزیہ کرکے آئندہ اُن سے بچنے کا لائحہ عمل طے کرلیا جائے ،جماعت اسلامی کے امیر منور حسن نے بارہا اس مطالبے کو بھی دہرایا کہ MMA بحال کرنے سے پہلے اس اَمر کا جائزہ لیاجائے کہ ِاس کو بے حال کس نے کیا؟وہ یہ بھی کہتے ہیں یہ کسی کے جیب کی گھڑی نہیںہے کہ جب چاہے باہر نکال لی جائے اور جب چاہے واپس جیب میں رکھ لی جائے،ماضی کے طرز عمل کو دیکھتے ہوئے یقینا جماعت اسلامی کے تحفظات بے بنیاد نہیں، یہی تذبذب جمعیت علماءاسلام(س)کیلئے بھی رکاوٹ بنا ہوا ہے جو MMA کی بحالی کو فراڈ اور پاکستانی عوام کو آئندہ عام انتخابات میں گمراہ کرنے کی منصوبہ بندی سمجھتے ہوئے اسے اقتدار پرست ٹولے کا پھر MMA کے نام پر اقتدار کے مزے لوٹنے کا کھیل قرار دیتی ہے، دوسری جانب جماعت اسلامی اور جمعیت علماءاسلام (س) کے خدشات کو دور کرنے کے بجائے مولانا فضل الرحمن ایک ایسا بیان داغ دیا،جس کی کسی کو توقع نہیں تھی،خود مولانا کو بھی اِس طرح کا بیان دینا زیب نہیں دیتاتھا،مولانانے فرمایا MMA میں جماعت اسلامی کو شامل کر نا ”الکوحل“  ملانے کے مترادف ہو گا،ایک ایسے وقت میں جب صاحبزادہ زبیر اور پروفیسر ساجد میر وغیرہ ایم ایم اے میں جماعت اسلامی کی شمولیت کیلئے کوشاں ہیں مولانا فضل الرحمن کا بیان اُن کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے اور MMA میں جماعت اسلامی مائنس فارمولے کو ہی ظاہر نہیں کرتا بلکہ سیاسی تجزیہ نگاروں کی اُس رائے کہ” مولانا فضل الرحمن نے اپنی مخصوص حکمت عملی کے تحت جماعت اسلامی کو متحدہ مجلس عمل سے باہر رکھ کر عبوری سربراہی اسی لیے حاصل کی ہے کہ وہ باآسانی مستقبل میں مجلس عمل کے سربراہ بن سکیں۔“کی توثیق کرتا بھی دکھائی دیتا ہے۔

جبکہ دوسری طرف جماعت اسلامی سے وابستہ اخبارات و رسائل متحدہ مجلس عمل کی بحالی کو مردہ گھوڑے سے تشبہہ دے رہے ہیں،یوںمتحدہ مجلس عمل کی بحالی کے حوالے سے جماعت اسلامی، جے یوآئی اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان تنقیدو تنقیص کی جو گولہ باری ہورہی اُس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مجلس عمل کے قائدین کس حد تک متحدہ مجلس عمل کی بحالی کی کوششوں میں سنجیدہ ہیں، یہاں حیرت انگیز اَمر یہ بھی ہے کہ ماضی میں دونوں فریقین نے MMA کے پلیٹ فارم سے خیبر بختونخواہ کے مکمل اور بلوچستان کے آدھے حکمران ہونے کے ناطے پھر پور فائدے اٹھائے ہیں،لیکن اب دونوں ایک دوسرے کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں، جماعت اسلامی کویہ بھی رنج ہے کہ مولانا فضل الرحمن اپوزیشن کا ڈھول بھی پیٹتے ہیں اور اندورن خانہ حکومت کی محبت و شفقت سے مستفید بھی ہوتے ہیں،یقینا مولانا کی یہ دوہری اور متضاد پالیسی ایم ایم اے کے مستقبل کیلئے زہر قاتل کا درجہ رکھتی ہے ، چنانچہ اس تناظر میں متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعتوں کے قائدین کیلئے یہ پہلو بھی توجہ طلب ہے کہ کیا اتحاد میں شامل کسی شخص یا جماعت کو اِس بات کی اجازت دی جاسکتی ہے وہ اِس اتحاد کو خالصتاً اپنے ذاتی و گروہی مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کرتا پھرے،جبکہ اِس حقیقت سے بھی سب واقف ہیں کہ مولانا فضل الرحمن دین کے نام پر سیاست کرتے ہیں، سیاسی قلابازیاں مولانا کا وطیرہ ہیں جسے لوگ منافقت کا نام دیتے ہیں ، مولانا نے ہمیشہ اقتدار کو پہلی ترجیح دی،انہوں نے ہر دور میںاقتدار کے مزے لوٹے، شمالی علاقہ جات میں ڈرون حملے ہوتے رہے، امریکی مداخلت بڑھتی رہی اور مولانا فضل الرحمن وفاق میں بیٹھ کر محض خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے ہوئے اقتدار کی موج مستیوں میں مصروف رہے، مشرف دور میں جب لال مسجد آپریشن کیا گیا تومولانا فضل الرحمن نے ایک مرتبہ پھر سیاسی چال بازیوں کو ہتھیار بنایا،انہوں نے اِس ایشو کی نہ حمایت کی اور نہ ہی مخالفت، جس سے ایم ایم اے کی ساکھ عوامی سطح پر بری طرح متاثر ہوئی،جب پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو مولانانے MMA میں شامل تمام دینی جماعتوں کی طرف سے MMA کو ایک مرتبہ پھر تشکیل دینے کے حوالے سے کوششوں کو سبوتاژ کرتے ہوئے صرف اور صرف اقتدار کو مقدم رکھا اور اب جبکہ انتخابات کا طبل بجنے کو ہے تو مولاناایم ایم اے کو قائم کرنےکی باتیں کر رہے ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ وہ صوبہ خیبر پی کے اور شمالی علاقہ جات کے حوالے سے اپنی سیاسی ساکھ کو بحال رکھنا چاہتے ہیں،اُن کا مقصد صرف اتنا ہے کہ آئندہ عام انتخابات کے دوران جس کی بھی حکومت قائم ہو اور مولانا وفاق میں بیٹھ کر حکومت کے کاندھوں پر چڑھ سکیں اور اقتدار کے مزے لوٹتے رہیں،یہی مولانا کا مطمع نظر،مقصد و مدعا ہے،یہ درست ہے کہ عوام ملک میں دینی جماعتوں اور مذہبی حلقوں کے اقتدار کی خواہش مند ہے مگر مولانا فضل الرحمن نے سابق آمر پرویزمشرف کے دوراقتدار کے دوران تشکیل پانے والی MMA کے ساتھ جو کچھ کیا اس کا خمیازہJUP سمیت اتحاد میں شامل تمام مذہبی جماعتیں آج تک بھگت رہی ہیں،مولانا کے طرز عمل کی وجہ سے لوگ مذہبی جماعتوں پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہے،جب بھی MMA کی بحالی کی باتیں ہوتی ہیںتو عوام انہیں مشکوک نظروں سے دیکھنے لگتے ہیں،مگر اِس حقیقت کے ادراک کے باوجودJUPدیگر جماعتوں کے قائدین ایک بار پھر مجلس عمل کی اجڑی ہوئی مانگ میں نیا سندوربھرنے کے خواہشمند ہیں، محترم قائدین کی خواہشات کے صد احترام کے باوجود ذہن میں ابھرتے چند سوالات ہنوز غور طلب ہیں،آخر مجلس عمل کے احیاءکی ضرورت کیوں محسوس کی جارہی ہے؟وہ کیا مقاصد ہیں جنھیں مولانا فضل حکومتی حلیف اور شریک اقتدار ہونے کے باوجود مجلس عمل کو فعال کرکے حاصل کرنا چاہتے؟ اگر کسی طور یہ اتحاد دوبارہ فعال ہو بھی گیا تو کیا مولانا شاہ احمد نورانی کی اُس اصولی روایات کو زندہ کرپائے گا جو مولانا نورانی کے دور میں مجلس عمل کا خاصہ ، شناخت اور پہچان تھیں؟ کیا مجلس عمل 2002 ءکی طرح کامیابی سے ہمکنار ہوپائے گی ؟ اور عوام مجلس عمل کی سابقہ مایوس کن کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ایک بار پھر اُسے سند قبولیت عطا کرنے پر آمادہ ہو جائیں گے۔؟جبکہ مجلس عمل کی سابقہ مایوس کن کارکردگی دیکھتے ہوئے ہمیں یہ کہنے میں کوئی قطعاً کوئی عار نہیں کہ مجلس عمل کا وجود شایدکچھ مذہبی جماعتوں کے مفادات کی تکمیل کیلئے ایک بار پھر وقت کی ضرورت ہو، مگرعوام اور بالخصوص عوام اہلسنّت کا اِس اتحاد میں دلچسپی لینااَمر محال محسوس ہوتا ہے،یہ بات جمعیت علماءپاکستان کیلئے لمحہ فکریہ ہے، آج اِس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اپنی سابقہ کار گزاری کے سبب متحدہ مجلس عمل عوام میں اپنی ساکھ اور وقار کھو چکی ہے اورمولانا فضل الرحمن کے مسلسل حکومت میں شامل رہنے کی وجہ سے عوام اُن پر کسی طور اعتماد کرنے کو تیار نہیں ،چنانچہ اِن حالات میں متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم کے ذریعے اپنے وجود، اپنی شناخت اور اپنی حیثیت کی قربانی کے بعد حصول اقتدار کی کوشش کس قدر کامیابی سے ہمکنار ہوسکتی ہے یہ ہم سے زیادہJUPکے قائد ین کیلئے سوچنا ضروری ہے۔

 اس کے ساتھ ساتھJUP کے قائدین کو یہ حقیقت بھی اپنے پیش نظر رکھنا ہوگی کہ وہ جس مکتبہ فکر کی نمائندہ ہے کیا اُس مکتبہ فکر کے لوگ اب اِس قسم کے اتحاد میں رہنے کو پسند بھی کرتے یا نہیں،اگر نہیں تو کیا اِس قسم کی سیاسی غلطی JUP کیلئے مزید انتشار وافتراق کا سبب نہیں بنے گی اور یہ طرز عملJUP کے سیاسی کیرئر کیلئے خود کشی سے کم نہ ہوگا،لہٰذااِن عوامل ، ماضی کے تلخ تجربات اورمولانا فضل الرحمن کی ہر قیمت پر حصول اقتدار کی سیاست کے تناظر میں آنے والے حالات کومدنظر رکھتے ہوئے ہمارا قائدین جمعیت کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ جمعیت کواِن ابن الوقت افراد کی بیساکھی بننے سے بچائیں،ہماری نظر میںمتحدہ مجلس عمل میں دوبارہ شامل ہونے سے کہیں بہتر ہے کہ جمعیت علماءپاکستان، اتحاد اہلسنّت کیلئے جمعیت کے دیگردھڑوں، سنی تنظیموں اور تحریکوں کو باہم متحد و منظم کرنے کی مخلصانہ کوشش کرے کیونکہ اسی میں جمعیت کے نظریاتی تشخص، تنظیمی بقاءاورمستقبل کی بااثرسیاسی قوت ہونے کا راز مضمر ہے،قائدین JUP یاد رکھیں کہ جمعیت علماءپاکستان اُن علماءو مشائخ اور عوام اہلسنّت کی وارث اور امین ہے جنھوں نے تحریک پاکستان میں ہراول دستے کا کردار ادا کرتے ہوئے قربانیوں کی لازوال تاریخ رقم کی اور جن نسلیں آج بھی اس مملکت کی بقاءاستحکام اور سا لمیت کیلئے مصروف جہاد ہیں،لہٰذا اس تناظر میں متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم کے ذریعے اپنے وجود، اپنی شناخت اور اپنی حیثیت کی قربانی کے بعد حصول اقتدار کی کوششیں کس حد تک جمعیت علماءپاکستان اور اہلسنّت وجماعت کیلئے فوزوفلاح کا باعث بن سکتی ہیں ،اِس کا جواب قائد ین جمعیت علماءپاکستان پر قرض ہے،ہمارا ماننا ہے کہ حالات کے تناظر میںJUP کی ایم ایم اے میں دوبارہ شمولیت اُس کے مذہبی اور مسلکی تشخص اور رہے سہے بقیہ وجود کیلئے سیاسی خود کشی سے کم نہیں۔

٭٭٭٭٭

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *