سولہ جون دوہزار تیرہ سے قبل وہ علاقہ جو قدرت کی بہترین خوبصورتیوں کے لیے مشہور تھا اور جہاں قدرت کے بہترین مناظر دیکھ کر لوگ محظوظ ہوتے ،لطف اندوز ہوتے، اپنی تکان دور کرتے اور مالکِ حقیقی کی کبرائی بیان کرتے تو وہیںدوسری جانب انسانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی تھی جو اپنی حاجتیں اور ضرورتوں کے حوالے سے اِن مقامات کا سفر کرتے ،غیر اللہ کی شان میں چلی آرہی رسموں کی پابندی کرتے اور اس کے بعد کی زندگی کے لیے راہ نجات کی جستجو میں سرگرداں رہتے۔درج بالا دونوں طرح کے لوگ اس دن بھی موجود تھے کہ ایک عظیم حادثہ رونما ہوا ۔نتیجتاًاترا کھنڈ کے ہری دوار کے اطراف کاقدرتی حسن و مناظرمتاثر ہو گیا۔پہاڑوں کی سنامی میں38ہزار مربع میل کا علاقہ تباہی سے دوچار ہوااور بری طرح نیست و نابود ہو گیا۔ریاستی حکومت اور مرکزی حکومت امدادی کاموں اورراحت رسانی میں مصروف ہو گئی ۔دوسری جانب ملک کی سپریم کورٹ نے حکومت کو راحت کاری پر توجہ دلائی اور اس ضمن میں خصوصی رپورٹ طلب کر لی۔محتاط اندازے کے مطابق اس سانحہ میں پانچ ہزار جانیں تلف ہوچکی ہیں اور دیگر اموات کی خبریں مسلسل آرہی ہیں۔ہزاروں افراد موت و حیات کی کشمکش میں آج بھی دوچار ہیں۔معاملہ یہ ہے کہ کیدار ناتھ سے لے کر ہری دوار اور اس سے آگے تک لاشیں ہی لاشیں نظر آ رہی ہیں۔گنگا جو ایکپوترر پانی سے لبریز نہر سمجھی جاتی ہے آج اس میں تیرتی ہوئی لاشیں نظر آرہی ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں،90دھرم شالائیں، 60گاؤں اور ہزاروں مکانات سیلاب کی نذر ہو چکے ہیں۔یہ وہ علاقہ ہے جہاں ملک کے اکثریتی طبقہ کی عقیدت و آستھا کے مراکز ہیں۔بدری ناتھ، کیدار ناتھ، گنگوتری اور یمنوتری جیسی تیرتھ گاہیں موجود ہیں۔ہرسال لاکھوں تیرتھ یاتری اپنی نجات کے لیے چاروں دھام کی تیرتھ یاترا پر جاتے ہیں۔اس بار بھی لاکھوں تیرتھ یاتری اس سفر پر تھے کہ آفت ناگہانی کا شکار ہو گئے۔اس آفت اور تباہی نے ملک کے تمام باشندوں کو غم میں مبتلا کر دیا ہے،دنیا کے دیگر مقامات سے بھی ہمدرد دانِ قوم و ملت نے اپنے افسوس اور غم کے پیغامات ارسال کیے ہیں۔
واقعہ کے اسباب جو بیان کیے جا رہے ہیں:
اتراکھنڈ کا یہ علاقہ پہاڑوں پر مشتمل ہے۔اس پہاڑی علاقہ میں ایک طرف کنسٹرکشن مافیا نے ٹورزم کے نام پرغیرقانونی طریقہ سے بے شمار عمارتیں کھڑی کی ہیں تو وہیں دوسری طرف پہاڑوں کو غیر سائنٹیفک انداز سے بڑی تعداد میں کاٹا گیا ،بڑے بڑے دھماکہ کیے گئے جس سے پہاڑ اندرونی طور پر کمزور ہو گئے،نیز وہ ندیاں اور نالے جو پانی کے بہاؤ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے والی ہیں ان کی گہرائی متاثر ہوئی اورملبہ بھر گیا ،جس کو بعد صاف تک نہیں کیا گیا۔ان تینوں ہی کاموں کے نتیجہ میں ہونے والی بارش اور بادل کے پھٹنے سے چہار جانب تباہی پھیل گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ ماحولیات کو خطرہ میں ڈال کر ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔کہا جا سکتا ہے کہ اترا کھنڈ کا سانحہ بھی قدرتی ماحولیاتی نظام میں دخل اندازی کا ہی نتیجہ ہے۔وہیں دوسری جانب عقیدہ و آستھااور علم نجوم کے ماہرپنڈت جے گووند شاستری کہتے ہیں کہ کیدار ناتھ میں تباہی “گرو”اور “شکر”کی دشمنی کا نتیجہ ہے۔علم نجوم میں “گرو”کو مذہب کا عنصر مانا جاتا ہے وہیں “شکر”اس کا دشمن سیارہ ہے۔یہ آستھا کی بنیاد کو کمزور کرنے کا کام کرتا ہے۔بقول شاستری جی اس سال بارش کا خدا بھی”شکر “ہی ہے، اس لیے شُکر نے پانی کو ہتھیار بناکرعقیدہ اور آستھا پر چوٹ کی ہے۔ماحولیاتی تبدیلیوں پر تحقیق کرنے والے ایک ادارے پوٹسڈیٹم انسٹیوٹ کے پروفیسر بل ہیر اس بات پر متفق ہیں کہ مغربی ہواؤں اور مون سون کے نظام کا شدید ٹکراؤ ہی طوفانی بارشوں کی وجہ بنا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ شدید ٹکراؤ سے ہونے والی بارشوں کا تعلق کیا گلوبل وارمنگ یا عالمی سطح پر حدت میں اضافے سے ہے؟پروفیسر بل کہتے ہیں کہ” اس مخصوص واقعے میں ہمیں نہیں معلوم لیکن ہم اپنے اعتماد کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مستقبل میں ایسے واقعات زیادہ تواتر کے ساتھ ہو سکتے ہیں اور عالمی حدت کے مقابلے میں یہ زیادہ نقصان دہ ہوں گے اور میرا خیال ہے کہ طبعیات کا یہ بہت جامع تجزیہ ہے”۔ماحولیاتی تبدیلی پر مختلف ممالک کے ماہرین پر مشتمل پینل کی چوتھی جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ “حدت جو کہ بڑھتی ہوئی گرین ہاؤس گیسز کے اخراج سے ہو رہی ہے ایشیا میں مون سون کے موسم میں تبدیلی کا باعث ہو سکتی ہے۔ مون سون میں تبدیلی کا مطلب دورانیہ اور شدت ہے جو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی تفصیل پر منحصر ہے”۔گلوبل وارمنگ سے بارشوں کے اوقات میں تبدیلی آئی یا نہیں اس پر تو ابھی بحث و مباحثہ جاری ہے لیکن فضائی آلودگی نے جنوبی ایشیا میں مون سون موسم کو نقصان پہنچایا ہے۔ماحولیات پر اقوام متحدہ کی 2011 میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایشیا میں مون سون کے موسم میں تبدیلی لاکھوں افراد کے معاش پر اثرانداز ہوئی ہے۔مغربی ہواؤں کا سلسلہ جنوبی ایشیا میں کیسے پہنچا اس بارے میں ماہرین ابھی زیادہ نہیں جان پائے ہیں۔پروفیسر بل کہتے ہیں کہ” یہ (موسمی نظام) ابھی بھی علاقے میں موجود ہے جو سائنسی طور پر کافی غیر واضح ہے لیکن خطے میں کہیں سے بھی آنے والی نمی اور مون سون نطام سے ٹکرائے تو غالباً اس سے شدید بارشیں ہوں گی”۔
حقائق کے برخلاف قرآنی نقطہ نظر:
ان تمام حقائق و عقائد کے برخلاف کسی بھی طرح کی آزمائش،مصیبت،پریشانی اور حادثہ کے سلسلے میں اسلام کا نقطہ نظر اس کے برخلاف ہے۔قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:”حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر ظلم نہیں کرتا، لوگ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں”(یونس:۴۴)۔یعنی اللہ نے تو انہیں کان بھی دیے ہیں اور آنکھیں بھی اور د ل بھی۔ اس نے اپنی طرف سے کوئی ایسی چیز ان کو دینے میں بخل نہیں کیا ہے جو حق و باطل کا فرق دیکھنے اور سمجھنے کے لیے ضروری تھی۔ مگر لوگوں نے خواہشات کی بندگی اور دنیا کے عشق میں مبتلا ہو کر آپ ہی اپنی آنکھیں پھوڑ لی ہیں، اپنے کان بہرے کر لیے ہیں اور اپنے دلوں کو اتنا مسخ کر لیا ہے کہ ان میں بھلے برے کی تمیز ،صحیح و غلط کے فہم اور ضمیر کی زندگی کا کوئی اثر باقی نہ رہا۔یہاں دنیا کی حقیقت اور دنیا میں رہتے ہوئے صحیح راستہ کا تعین فرد نے یا اجتماعیت نے اختیار کیا ہے یا نہیںنیز دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کے وسائل کا صحیح استعمال کا بھی بیان ہے، لیکن حقیقت میں اللہ کی وحدانیت کے اقرار کی بات ہے کہ جس کے نتیجہ میںانسان تمام تر غلطیوں سے پاک زندگی گزارتاہے۔دنیا میں انسان کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتیں عطا کی ہیں اور انسان پر ان نعمتوں کا حق یہ ہے کہ وہ ان کا صحیح استعمال کرے۔جس طرح جسم سمیت انسان کا پورا وجود اللہ تعالی کی امانت ہے اور اسمیں کسی طرح کا ایسا تصرف جس میں جان کو خطرہ ہو یا کسی عضو کا اتلاف ہو جائز نہیں ہے۔ خواہ یہ تصرف اس کی اپنی ذات سے ہو یا کسی دوسرے کی جانب سے حتی کہ اگر انسان مر جائے تب بھی اس کی لاش کے ساتھ تصرف کرنا جائز نہیں ہے۔ٹھیک اسی طرح دنیا میں موجود جاندار اور بے جان تمام تر اشیاء کا تصرف اور بے جا استعمال اس کو ہلاکت میں مبتلا کرے گا۔یہی کچھ معاملہ اترا کھنڈ کے ان علاقوں میں بھی سامنے آیا ہے جن کا تذکرہ اوپر ہواہے۔
موجودہ حالات میں کرنے کے کام:
ملک عزیز ہند میں دو گروہ بہت ابھر ے ہوئے موجود ہیں۔ایک مسلمان تو دوسرے غیر مسلم چاہے وہ کسی بھی فکر سے وابستہ ہوں۔واقعہ کے پس منظر میں دونوں ہی گروہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ پریشان حال لوگوں کی خدمت کا کام انجام دیں۔ان کی تکلیفوں اور غموں میں اس طرح شریک ہوں کہ وہ ختم ہو جائیں یا کم از کم ان کو کسی حد تک راحت مل جائے۔یہ صحیح ہے کہ کسی بھی ملک کی حکومت اپنے شہریوں کی بنیادی ضروریات کی پابند عہد ہوتی ہے۔اس لحاظ سے موجودہ حالات میں حکومت اور حکومتی ادارے اپنے کاموں کو مستعدی سے انجام دے رہے ہیں،خصوصاً فوج کے وہ با جرت افراد جو ملک کو کسی بھی خطرے سے نکالنے میں ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں،یہ افراد آج قابل قدر نگاہوں سے دیکھے جا رہے ہیں۔قومی بحران سے نمٹنے کے لیے ایک جانب وزیر اعظم نے ایک ہزار کڑور کے پیکیج کا اعلان کیا ہے جس میں تقریباً ڈھیر سو کروڑ کی رقم فوری جاری کر دی گئی ہے تو وہیں دیگر ریاستوں سے بھی امداد کا سلسلہ جاری ہے۔کیونکہ خدمت اور انسانوں کی ضرورتوںمیں کام آنا دراصل اللہ سے قربت کی نشانی ہے۔یہی وجہ ہے کہ فلاحی ادارے اور مسلم تنظیمیں بھی بلا لحاظ مذہب و مسلک اپنی خدمات میں سرگرم عمل ہیں۔وجہ یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ؐکی تعلیمات ان کے سامنے پوری طرح واضح ہیں،جن پر عمل کے نتیجہ میں وہ نہ صرف اجر عظیم کے مستحق ٹھہریں گے بلکہ انسانوں میں بھی اخوت و محبت اور ہمدردی و غم خواری کے جذبات پروان چڑھیں گے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: قیامت کے روز اللہ کہے گا اے آدم کے بیٹے میں بیمار تھا مگر تونے میری عیادت نہ کی وہ کہے گا اے رب میں کیسے تیری عیادت کرتا تو توسارے جہان کا مالک ہے ؟ اللہ فرمائے گا تجھ کو علم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اورتونے اس کی عیادت نہیں کی ۔ کیا تجھ کو خبر نہ تھی کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا توتومجھ کو اس کے پاس پاتا۔اے آدم کے بیٹے میں نے تجھ سے کھانا مانگا اورتونے مجھ کو کھانا نہ کھلایا؟ وہ کہے گا اے رب میں تجھ کو کیونکر کھانا کھلاتا تو توسارے جہان کا مالک ہے۔ خدا فرمائے گا کیا تجھ کو خبر نہ تھی کہ تجھ سے میرے ایک بندے نے کھانا مانگا تھا تونے اْسے نہیں کھلایا یا کیا تجھ کو نہیں معلوم تھاکہ اگر تو اس کو کھلاتا تواس کا بدلہ تومجھ سے پاتا؟ ابن آدم میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا اور تونے نہ پلایا؟ وہ کہے گا اے رب میں تجھ کو کیسے پلاتا تو تو سارے جہان کا مالک ہے ؟ خدا فرمائے گا میرے ایک بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا مگر تونے اس کو نہیں پلایا اگر تو اس کو پانی پلادیتا تو اس کا اجر مجھ سے پاتا”(صحیح مسلم)۔حدیث کی روشنی میں خدمت خلق کے کام وہ عبادت کا درجہ اختیار کر لیتے ہیں جو رب رحیم و کریم کی صفات انسانوں میں پیدا کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔دوسری طرف انسانوں کی اخروی نجات کی سعی و جہد کرنا، یہ بھی وقت کا اہم تقاضہ ہے۔واقعہ یہ ہے کہ یہ افراد جو مسائل سے دوچار ہیں درحقیقت وہ دنیاوی و اخروی نجات ہی کے لیے سرگرداں تھے کہ حادثہ پیش آگیا اور وہ ہلاک ہو گئے یا مسائل سے دوچارہوئے۔جن دو گروہ کا ہم نے اوپر تذکرہ کیا ہے ان میں پہلا گروہ اس بات کا متفکر نہیں کہ وہ انسانوں کی اخروی نجات کی بھی فکر کرے۔ اور نہ یہ اس کا مقصد ہے اورنہ ہی دائرہ کار ۔لیکن متذکرہ دوسرے گروہ کے مقصد و نصب العین میں یہ بات شامل ہے کہ وہ نہ صرف دنیا کے مسائل میں لوگوں کے مددگار بنیں بلکہ اخروی نجات کے لیے مزید اپنے قول و عمل سے متفکر نظر آئیں۔اس پس منظر میں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ جس مقام پر بھی ہیں اور اسلام کا جتنا علم بھی رکھتے ہیں اس پر پہلے خود عمل پیرا ہوں اور ساتھ ہی لوگوں کو بھی پہنچائیں۔خصوصاً توحید، رسالت اور آخرت کے عقائد سے برادران وطن کو متعارف کرائیں۔اگر ایسا نہیں کیا تو ہر مسلمان کو یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ قیامت میں یہی افراد اِن یہ سوال کرسکتے ہیں کہ حقیقی علم رکھنے کے باوجودتم نے ہماری اخروی نجات کا سامان کیوں بہم نہیں پہنچایا ؟ایک لمحہ آنکھ بند کیجیے، اس منظر کو اپنے سامنے رکھیے،اور جواب جو کچھ بھی بن پڑتا ہے دے ڈالیے!سوال و جواب کے تناظر میں کیا آپ کا ضمیر مطمئن ہو گیا ہے؟اگر آپ مطمئن نہیں تو براہ کرم خدا کی خاطر اپنے ضمیر کی آواز کو دبائیے نہیں بلکہ میدان عمل کے لیے خود کو تیار کرلیجیے ۔عمل کے نتیجہ میں اللہ نے چاہا تو حالات آپ کے بھی اور دوسروں کے سازگار ہوں گے،مسائل کم ہوں گے،سکون و اطمینان چہار سو قائم ہوگا اور دنیا و آخرت کی سرخ روئی انسانوں کے حصے میں آئے گی(انشااللہ)۔
محمد آصف اقبال
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com