محمد متین خالد وہ جسے چن لیا گیا
محمد متین خالد عصر حاضر کا پروفیسر الیاس برنی
تحریر :۔محمد احمد ترازی
کہتے ہیں کچھ سعادتیں،کچھ فضلیتیں،کچھ رفعتیں اور کچھ عظمتیں ایسی ہیں جو ہرایک کے نصیب میں نہیں ہوتیں،اِس کے فیصلے لوح محفوظ پر رقم ہوچکے ہوتے ہیں،ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اسباب و محرکات کیاہیں؟ وجوہات کیا کہتی ہیں؟یہ کوئی نہیں جانتا،نہ ہی کوئی توضیح یا وضاحت پیش کی جاسکتی ہے،بس زیادہ سے زیادہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ رتبہ بلند اُنہی کو ملتا ہے،جنھیں ربّ کائنات چن لیتا ہے،بڑے بڑے مفکر، مفسر، محدث،علماء،عشاق اور مجاہداِس لمحے کی آرزؤ میں زندگی گزار دیتے ہیں،لیکن سعادت کا ہُما بیٹھتا ہے تو ترکھان کے بیٹے غازی علم دین، کوچوان غازی عبدالقیوم،نمبر دار کے بیٹے غازی مرید حسین،صوبیدار کے بیٹے غازی میاں محمد شہید،خوش نویس قاضی عبدالرشید،کپڑا بننے والے جولاہے صوفی عبداللہ،شیخ برادری سے تعلق رکھنے والے غازی محمد صدیق،صرف نحو کے طالبعلم غازی عبدالمنان،پروفیسر نذیر چیمہ کے بیٹے عامر عبدالرحمن چیمہ اور راج مزدور کے بیٹے غازی ممتاز قادری کے سر پر،اور حضرت اقبال جیسے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کف افسوس ملتے اور یہ کہتے رہ جاتے ہیں”اسی گلاں کردے رہے تے ترکھاں دا منڈا بازی لے گیا۔“
درحقیقت یہ وہ منتخب سعادت ہے جسے کاتب ِتقدیر نے اِن افراد کیلئے مقدر فرمادیا ہے اور انہیں اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کی عزت و توقیر اور حرمت و وقار کے تحفظ کیلئے چن لیا ہے،یہ وہ مجاہدین تحریک تحفظ ختم نبوت ہیں جن کا انتخاب نظر رحمت نے فرمایا،جنھیں حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم نے اذنِ پسندیدگی بخشا او ر اپنی ذات مبارکہ کے تحفظ ودفاع کا مقدس فریضہ عطا کرکے کبھی غازی اور کبھی شہید کے مقام پر سرفراز فرمایا،”یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔“ برادرم متین خالد کا تعلق بھی مجاہدین کے اِسی قبیلے سے ہے،جن کی زندگی کا مقصد عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث ملت اسلامیہ کے جوانوں میں منتقل کرناہے اور انہیں جنتی قافلے کی راہ دکھلاکرمنکرین ختم نبوت کا محاسبہ و ردّ اور گستاخ رسالت کی رگ جاں کاٹ کر فنا فی النار کرنا ہے ۔
مفتی محمد امین قادری مرحوم برادرم متین خالد کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ”محمد متین خالد عصر حاضر کے پروفیسر محمد الیاس برنی ہیں۔“مرحوم کا یہ جملہ قطعاً مبالغہ آرائی پر مبنی نہیں،متین خالد واقعی عصر حاضر کے پروفیسر الیاس برنی ہیں،19 اپریل 1890 کو ضلع بلند شہر،یوپی بھارت کی تحصیل خورجہ میں پیدا ہونے والے پروفیسر الیاس برنی تحریک ختم نبوت کے پہلے قلمی مجاہد تھے،وہ اُن قابل قدر سپوتوں میں سے تھے جن پر کوئی قوم بجا طور پر فخر کرسکتی ہے،آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ سے والہانہ عشق و محبت رکھتے تھے،منکرین ختم نبوت سے اظہار نفرت اور اُن کا محاسبہ الیاس برنی کی زندگی کا مقصد اوّل تھا،شاہ بلیغ الدین کے مطابق” پروفیسر محمد الیاس برنی نے قادیانیت کے خلاف تنہابہت بڑا جہاد کیا اور قادیانیت کے خلاف سب سے پہلے جامع کتابیں لکھیں،پروفیسر الیاس برنی قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی تجویز دینے والے ابتدائی لوگوں میں تھے۔“آپ بہت سی شہرہ آفاق کتب کے مصنف تھے،لیکن آپ کی کتاب”قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ“ (وہ پہلی کتاب تھی جس میں سب سے پہلے قادیانی مذہب اور عقائد واعمال کی گھناونی تفصیل خود قادیانی کتابوں کے حوالے سے پیش کی گئی)کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی،یہ کتاب آج بھی قادیانی قاموس کا درجہ رکھتی ہے،پروفیسر الیاس برنی نے اپنی ساری زندگی مرزا قادیانی اور اُس کی ذرّیت کے محاسبے اور علمی تعاقب میں گزاری اور یکم فروری 1959کو اِس جہان فانی سے رخصت ہوئے ۔
عصر حاضر میں پروفیسر الیاس برنی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے محمد متین خالد نے بھی انگریز ی گماشتے اور جھوٹے مدعی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی کے مکروفریب کوبے نقاب کرنے اور اُس کی ذریعة البغایا کے محاسبے کو اپنی زندگی کا مشن بنایا، تحفظ عقیدہ ختم نبوت کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کا عزم صمیم رکھنے والے محمد متین خالد 5،اکتوبر 1960 کو بمقام پپلاں ضلع منڈی بہاؤ الدین میں پیدا ہوئے،آپ کے والد غلام محمد صاحب پاک آرمی میں تھے،انہوں نے 1965 اور 1971 کی پاک بھارت جنگ میں مجاہدانہ کردار ادا کیا اور ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ عرصہ محکمہ مال میں بھی ملازمت کی،آپ کی والدہ محترمہ فاطمہ بی بی میانوالی سے تعلق رکھتی تھیں،شادی کے بعد والد صاحب پہلے گجرات پھر ننکانہ شفٹ ہوگئے،1973 میں متین خالد ابھی ساتویں جماعت کے طالبعلم تھے کہ والد محترم کا سایہ سر سے اُٹھ گیا،1993 میں عقیدہ ختم نبوت اور فتنہ قادیانیت کی سر کوبی کے محاذ پر سب سے زیادہ حوصلہ افزائی اور جرات عطا کرنے والی والدہ محترمہ بھی انہیں داغ مفارقت دے گئیں ۔
محمد متین خالد نے مولانا احسان الحق سے قرآن ناظرہ پڑھا اور ننکانہ سے ابتدائی تعلیم کے ساتھ گریجویشن مکمل کیا،1981میں پنجاب یونیورسٹی میں ایل،ایل،بی میں داخلہ لیا،لاء کالج میں آپ کو جناب محمد اقبال موکل،پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری اور جسٹس میاں نذیر اختر جیسے قابل قدر اساتذہ کی صحبت سے فیضیاب ہونے کا موقع ملا،ابھی ایل ایل بی کا پہلا ہی سال مکمل ہوا تھا کہ ملازمت اختیار کرنا پڑی اور یوں ایل ایل بی مکمل کرنے کا خواب ادھورا رہ گیا،1985 میں متین خالدنے پنجاب یونیورسٹی سے پرائیویٹ اسلامیات میں ایم،اے کیا،آپ پانچ بھائیوں میں تیسرے نمبر پر ہیں،ویسے تو آپ کے تمام گھر والے تحفظ ختم نبوت کی دولت سے مالا مال ہیں لیکن خاص طور پر بڑے بھائی محمد شاہین پرواز،متین خالد کے تمام تحریری،تحقیقی اور اشاعتی اُمور کی نگرانی کے ساتھ تحریک تحفظ ختم نبوت کے تبلیغی اُمور میں بھی ہاتھ بٹاتے اور انتظامی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں،2007 میں حج بیت اللہ کی سعادت سے بہرہ مند ہونے والے متین خالد اردو،پنجابی اور انگریزی زبانوں پر عبور رکھتے ہیں،آپ ضیائے اُمت مفسر قرآن حضرت جسٹس پیر کرم شاہ الازھری سے بیعت ہیں اورحضرت عبدالحفیظ شاہ صاحب(گجو سندھ) کی شخصیت سے بہت متاثر ہیں،متین خالد اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی اور قائد ملت اسلامیہ حضرت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی سمیت اُن تمام علماء و مشائخ اور بزرگان دین سے محبت و عقیدت رکھتے ہیں جن کی زندگی کا مقصد تحفظ ختم نبوت و ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ہے،آپ کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں،آپ نے اپنے دونوں بیٹے محمد بن متین اور احمد بن متین کو تحفظ ختم نبوت کیلئے وقف کردیا ہے،آپ کے دونوں بیٹے ،بیٹیاں اور اہلیہ ہمیشہ آپ کے تصنیفی و تحقیقی کاموں میں معاون ومددگار ہوتے ہیں، قادیانیوں سے مناظرہ محمد متین خالد کا پسندیدہ مشغلہ ہے اور اپنی معاشی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے بعد تحفظ ختم نبوت آپ کی دلچپسی کا واحد مرکز و محور ہے ۔
محمدمتین خالدنے زندگی کا بیشتر حصہ ننکانہ میں گزارا،مگرآج کل داتا کی نگری لاہور آپ کا مستقل ٹھکانہ ہے،ملازمت سے عملی زندگی کا آغاز کرنے والے متین خالد کی زندگی 1983 تک ایک سیدھے سادھے عام مسلمان کی طرح تھی،کوئی نہیں جانتا تھا کہ آنے والے وقت میں رد ّقادیانیت اور تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے محمدمتین خالد کا نام ایک سند اور ایک مستند حوالہ قرار پائے گا،مگر مشیعت ایزدی محمد متین خالد کو اُن چنیدہ افراد میں شامل کرچکی تھی جن کے ماتھے دفاع ختم نبوت کا اعزازلکھا جاچکا ہے،کہتے ہیں رحمت حق بہانہ می جوید،1983 کا سال محمد متین خالد کی زندگی میں اُس وقت تبدیلی کا سال ثابت ہوا،جب آپ کے ایک قریبی دوست نے انہیں ایک ایسا قادیانی پمفلٹ پڑھنے کو دیا جس میں حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم سمیت اہلبیتِ عظام خصوصاً حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کی شان میں گستاخی اور دریدہ دہنی موجود تھی، اِس گستاخانہ تحریر نے محمد متین خالدکے دل و دماغ میں ہلچل مچادی اورا ُن کی زندگی کے دھارے کو تبدیل کردیا،دوسال آپ نے مطالعہ،تحقیق اور جستجو میں گزارے اور 1985 میں اپنی والدہ،بھائی،اہل خانہ اور کچھ مخلص دوستوں کے تعاون سے قادیانیت کے خلاف عملی جدوجہد میں حصہ لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے ننکانہ کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا،چنانچہ آپ کی کوششوں کی بدولت ننکانہ میں بین الاقوامی ختم نبوت کانفرنسز کا سلسلہ شروع ہوا،آپ نے قادیانیت کے خلاف عوامی شعور کی بیداری اور اپنے مذہب و عقیدے کی پختگی کیلئے انٹرنیشنل گولڈ میڈل تحریری مقالے اور کوئز پروگرامات کا بھی انعقاد کیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔
ہمارے دوست صادق علی زاہد کہتے ہیں کہ”متین خالد صاحب کی کوششوں کی بدولت ننکانہ اور اُس کے گرد نواح میں جانثاران ختم نبوت کی کئی منظم ٹیمیں تشکیل پاچکی ہیں،جنھوں نے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے قادیانیوں کا ناطقہ بند کررکھا ہے،اہلیانِ ننکانہ کے معاشی بائیکاٹ کی وجہ سے قادیانیوں کی اکثریت ننکانہ چھوڑ کر فرار ہوچکی ہے،آج ننکانہ میں کوئی قادیانی شعائر اسلام استعمال کرنے کی جرات نہیں کرسکتا، دوسری طرف متین خالد کا نام اپنے تحقیقی کام اور ردّ قادیانیت کے حوالے بین الاقوامی دنیا میں ایک مستند حوالے کا درجہ اختیار کرچکا ہے،آج 1983 سے شروع ہونے والا محمد متین خالد کی زندگی کا نیا سفر بہت سی منازل طے کرچکا ہے،تحفظ ختم نبوت کے ایمان افروز راستے پر چلتے ہوئے محمد متین خالد کو تقریباً 28 سال ہوچکے ہیں،اِس دوران ”عقیدہ ختم نبوت اور فتنہ قادیانیت،قادیانی عقائد،قادیانیوں سے متعلق عدالتی فیصلے،قادیانیت سے متعلق آئین و قانون کیا کہتا ہے،احمدی دوستو !تمہیں اسلام بلاتا ہے،مرزا قادیانی کی علمی حیثیت،حضرت مہر علی شاہ گولڑوی اور فتنہ قادیانیت،پاکستان کے خلاف قادیانی سازشیں،پارلیمنٹ میں قادیانی شکست،قادیانیت انگریز کا خود کاشتہ پودا،شہیدانِ ناموس رسالت،ناموس ِرسالت کے خلاف امریکی سازشیں،اف یہ پادری،حقوق انسانی کی آڑ میں،علامہ اقبال اور فتنہ قادیانیت اور اسلام کا سفیر جیسی 50 کے قریب معرکة الآراءکتابیں آپ کے قلم سے نکل کر دنیا بھر میں آپ کی پہچان و شناخت بن چکے ہیں،جبکہ ردّقادیانیت پر 32 سے زائد کتابچے اِس کے علاوہ ہیں،مگر اِن سب تصانیف و تالیف میں”ثبوت حاضر ہیں“جلد اوّل تا چہارم کا مقام ہی الگ،جدا اور ممتاز ہے،جس طرح اہل علم پروفیسر الیاس برنی کی کتاب”قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ“ کو قادیانی قاموس قرار دیتے ہیں،بالکل اُسی طرح علمی مجالیس میں متین خالد کی کتاب”ثبوت حاضر ہیں“ قادیانی ڈائریکٹری اور انسائیکلو پیڈیا کا درجہ رکھتی ہے،اِس کتاب کی ہر جلد 50 ہزار سے زائد قادیانی کتب و رسائل اور اخبارات کے صفحات کھنگالنے کے بعد تیار کی گئی ہے، جو قادیانیت کا اصل چہرہ بے نقاب کرکے دنیا بھر میں قادیانیوں اور اُن کے سرپرستوں کو ذلیل و رسوا کر رہی ہے ۔
آج محمد متین خالد ایک ایسا نام ہے جو قادیانیت کے رگ و پے سے واقفیت اور آگاہی رکھتا ہے،قادیانی حلقوں میں متین خالد کا نام آتے ہیں سانپ سونگھ جاتا ہے،آج تک اُن کا دیا گیا کوئی حوالہ غلط ثابت نہیں کیا جاسکا،یہ سب اُن پر اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فضل و کرم ہے،متین خالد نے عملی کام کے ساتھ تحریر و تقریر کے شعبے کو بھی نظر انداز نہیں کیا،دور جدید میں انٹر نیٹ گمراہ کن قادیانی پروپیگنڈے کا سب سے موثرہتھیار بن چکا ہے،قادیانی انٹر نیٹ کے ذریعے بھولے بھالے مسلمانوں کو بے وقوف بناکر اُن کے دین و ایمان کو خراب کررہے ہیں،مگر اِس محاذ پر بھی متین خالد قادیانی سازشوں کو ڈٹ کر مردانہ وار مقابلہ کررہے،وہ سمجھتے ہیں کہ فتنہ قادیانیت کے خلاف برصغیر پاک و ہند میں بہت جامع اور گرانقدر کام ہوا،مگر اِس کے باوجود وہ اب بھی بہت سے علمی و تحقیقی کام کی گنجائش محسوس کرتے ہیں،آپ فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کیلئے بہت زیادہ منظم اور سائنٹیفک انداز میں اجتماعی کام وقت کی ضرورت قرار دیتے ہیں،متین خالد قادیانیت کی طرح فتنہ گوہر شاہی اور فتنہ غامدیہ کو بھی اسلام کا چھپا ہوا دشمن قرار دیتے ہیں،قارئین محترم ! اس قدر عظیم،گرانقدر اور تاریخ ساز کام کے باوجود محمد متین خالد کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے سے انعام و اکرام یا اعزاز و تعریفی سند کے متمنی نہیں ہیں،اُن کی صرف اتنی سی آرزؤ ہے کہ ربّ کریم اور اُس کے پیارے رؤف رحیم حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم دفاع ختم نبوت کے حوالے سے اُن کی اِس ٹوٹی پھوٹی کوشش و کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرماکر توشہ آخرت بنالیں،یقینا محمد متین خالد قابل رشک اور مبارکباد ہیں کہ اللہ کریم نے انہیں اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کے تحفظ ودفاع کے مقدس مشن کیلئے منتخب فرمایا ہے،بے شک حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار کی عزت و ناموس اور عظمت کا تحفظ محمد متین خالد کا وہ منفرد اعزاز ہے جس نے انہیں مجاہدین ختم نبوت کے قافلے کا سپاہی بناکر حیات جاوداں سے ہمکنار کردیا ہے،یہ قدرت کے فیصلے ہیں کہ کس سے کیا کام لینا ہے،بے شک یہ رتبہ بلند ہرکسی کے نصیب میں نہیں ۔
دہد حق ،عشق احمد، بندگان چیدہ خود را
بہ خاصاں می دہد شہ،بادہ نوشیدہ خود را
٭٭٭٭٭