ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی،شعبٴہ اردو ،پٹنہ یونیورسٹی،پٹنہ۔۵
مدارسِ اسلامیہ اور عصری علوم
مسلمانوں کے معاشی ،اقتصادی اور سیاسی زوال کے ساتھ ساتھ علمی زوال کی بات بھی اتنی متحقق ہو چکی ہے کہ اب اس میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔موجودہ زمانے میں اس امر پر سب متفق ہو چکے ہیں کہ تمام قابلِ ذکر اقوام میں تعلیم کے میدان میں سب سے پیچھے اور سب سے پسماندہ مسلم قوم ہے اور تعلیم کی اِس پسماندگی اور زبوں حالی نے ہمیں اس منزل پر لا کھڑا کر دیاہے کہ اہل مغرب ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں،اور اپنی تضحیک کا اِس طرح نشانہ بنا رہے ہیں:
”کسی خیالی بازار میں ایک صاحب انسان کا دماغ خریدنے گئے۔دکان پر ہر مذہب کے ماننے والوں کے دماغ رکھے ہوئے تھے۔دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک یہودی کے دماغ کی قیمت ایک ڈالر ،عیسائی کے دماغ کی قیمت چار ڈالر اور مسلمان کے دماغ کی قیمت سو(۱۰۰) ڈالر ہے۔خریدار حیرت سے بولا ”عجیب بات ہے،یہودی جو اِس وقت دنیا میں اپنی ذہانت او ر تخلیقی صلاحیتوں کے لئے مشہور ہیں اُن کا دماغ سب سے سستا اور مسلمانوں کا اتنا مہنگا؟“دکان دار نے جواب دیا” اِس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔مسلمانوں نے الجبرا کی ایجاد کے بعد سے اپنے دماغ کو خرچ ہی کب کیاہے،اُ ن کے دماغ کا سارا مغز محفوظ ہے۔“
(تہذیب الا خلاق،علی گڑھ،مئی۱۹۸۷ء ص۱۳،مقالہ پروفیسر اسرار احمد)
افسوس ہے کہ ہم یہ طنز و طعن تو برداشت کر لیتے ہیں مگر کبھی یہ سوچنے کی کوشش نہیں کر تے کہ آخر ہمارے اس زوال و انحطاط کی وجہ کیا ہے؟ہم الجبرا کے بعد کسی شئے کی ایجاد کیوں نہیں کر سکے؟ہماری تعلیمی زبوں حالی و پسماندگی کے اسباب کیا ہیں؟لیکن وقت ہمیں اب مجبور کر رہا ہے کہ کچھ سوچنا پڑے گا ۔اسباب کی تلاش کرنی ہوگی ،پھر ان اسباب کے علاج دریافت کرنے ہونگے۔زوال سے ترقی کا راستہ تلاش کرناہوگا،تاکہ پھر ہمیں کوئی طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنا سکے اور ہماری زبوں حالی کا مذاق نہ اڑا سکے۔
ہمارے علمی زوال کے جہاں بہت سے دوسرے اسباب و علل ہیں،وہیں ایک ظاہر و باہِراور نہایت اہم سبب سائنسی ،تکنیکی اور جدید علوم سے اعراض بھی ہے۔جس کی طرف ہندی اخبار کے ایک کالم نگار نے کچھ سالوں قبل اِس طرح اشارہ کیا تھا۔
”آج مسلمانوں کو حکومت سے شکایت ہے کہ وہ انہیں اچھی نوکریاں نہیں دیتی ،ان کے ساتھ عصبیت کا مظاہرہ کرتی ہے۔مگر مسلمان کبھی اپنے حالات کو نہیں دیکھتے،اُن میں کتنے فیصد ہیں جو اچھی نوکریوں کے لائق ہیں۔ اُ ن کی آدھی تعداد تو صرف مُلا بن کر رہتی ہے،جو سائنس اور نئی تعلیم کے A.B.C.Dسے بھی واقف نہیں ہوتی۔ پھر اُنہیں کسی ملک کی ترقی کے لئے کیسے مناسب سمجھا جا سکتا ہے“
(روزنامہ نو بھارت ٹائمز،پٹنہ)
اِس کالم نگار کی تمام باتوں سے تو اتفاق نہیں کیا جاسکتا،لیکن یہ حقیقت ہے کہ آج پچاس فیصد مسلمان طلبہ علوم جدیدہ اور سائنس سے بے نیاز ہو تے ہیں جوکسی بھی قوم کے عروج و ترقی کے لئے لازمی و ضروری ہیں۔اور سائنس یاجدیدعلوم سے اِس اعراض و بے نیازی میں دیگر اسبا ب و علل کے ساتھ ساتھ مدارسِ اسلامیہ کا ہاتھ بھی بہت زیادہ ہے۔تقریباً۵۰ فیصد مسلم گھرانوں کے طلبہ حصول علم کے لئے مدارس کا رُخ کرتے ہیں ،جہاں از اول تاآخر محض عربی ،فارسی اور منطق و فلسفہ کے پیچیدہ مسائل سے آگے بڑھنے کی کوشش کبھی کی ہی نہیں گئی ہے۔یہاں تک کہ انگریزی
۲
،جو بین الاقوامی زبان ہے،اس کی افادیت سے کون انکار کرے گا؟آج زندگی کے ہر گوشہ اور ہر خطہ میں صرف یہی ایک زبان ہے جو بہر طور کام دیتی ہے۔یہ بھی نوے فیصد مدارس میں نہیں پڑھائی جاتی۔کچھ دنوں سے ۱۰ فیصد مدارس میں اسے شامل بھی کیا گیاہے تو وہ نہیں کے برابر ہے۔اس لئے کہ اِسے اختیاری حیثیت دی گئی ہے۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان مدارس میں بھی صرف ۲۵ فیصد طلبہ انگریزی رکھتے ہیں۔ظاہر ہے کہ جوطلبہ شروع سے عربی کتابیں ،عربی قواعد پڑھتے آرہے ہوں ،وہ اچانک انگزیزی کا ساتھ کتنے دنوں تک دے سکیں گے؟۲۵ فیصد انگریزی زبان سیکھنے والے طلبہ بھی اس کے ساتھ امتیازی سلوک ،غیر معیاری تعلیم اور عدم توجہی کی بنا پر وہ استعداد پیدا نہیں کر پاتے جو ان کے لئے مستقبل میں زیادہ کا آمد ہو۔اس مفید اور کار آمد زبان کے ساتھ ہونے والے برتاؤ سے دیگر سائنسی و عصری علومِ جدیدہ کے ساتھ برتاؤ کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتاہے۔خود ہمارے معزز علمائے دین و اسلام کو یہ شکایت ہے کہ آج کا تعلیم یافتہ اور سرمایہ دار طبقہ مدارس کو چھوڑ کر کالجوں اور یونیورسیٹیوں کی جانب مائل ہو رہاہے۔اس کی وجہ کیاہے؟صرف یہ کہ عصر جدید اس کا متقاضی ہے کہ علوم دینیہ کے ساتھ علوم عصریہ کو بھی رکھا جائے ۔دینی اور اخلاقی تعلیمات کے ساتھ سائنسی تعلیمات کو بھی حاصل کیا جائے۔کسی مفید اور ضروری چیز سے پہلو تہی کفرانِ نعمت ہے۔سائنس اور ٹکنالوجی کی افادیت سے کون انکار کر سکتاہے؟ اسلام دین فطرت ہے اور ایک مکمل و سائنٹفک ضابطہٴ حیات پیش کرتاہے۔نئی سائنسی دریافتوں سے پتہ چلا ہے کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جس سے سائنس سب سے زیادہ قریب ہے۔یہ ہر پل اورہر لمحہ ہمارے ساتھ ہے۔اس لئے اس کی افادیت کو مدنظر رکھتے ہوئے مدارسِ عربیہ میں اس کو رائج کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
طلبٴہ مدارس اسلامیہ کے علمی زوال کا ایک اہم بنیادی سبب قدیم نصاب تعلیم اور نظام درس کا نقص ہے۔جو پورے طور سے عصرِ حاضر کے تقاضوں کو پورا نہیں کر پاتا۔اور نہ جدید اذہان اس سے ہم آہنگ ہو پاتے ہیں۔اکثر مدارس میں جہاں قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں زیادہ گونجنی چاہئیں ،زیادہ تر کلی ،جزئی،ابن سینا# و ارسطو # کی بازگشت سنائی دیتی ہے،اور طلبہ کے ذہن میں یہ راسخ ہو جاتاہے کہ منطق و فلسفہ ہی وہ فن ہے جس کے ذریعے انخلاء ذہنی ،نکات بیانی،فکری گہرائی اور صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں۔اور ان علوم کی تحصیل کے بعد ہر فن پر عبور حاصل ہو جاتاہے۔یہی سبب ہے کہ اِس فن میں ادنا سی بصیرت رکھنے والابھی اپنے زعم کی بنیاد پر دیگر فنون میں مشتغل بلکہ دسترس رکھنے والے کو ہیچ سمجھتاہے۔اور مزاج میں ترفع و تعلّی کا ایسا کیڑا بھر جاتاہے جو بے ادبی و بد تمیزی کا غماز بھی ہوتاہے۔اور کیوں نہ ہو ،اِس فن کی دین ہی یہی ہے۔حالانکہ فقہاء اسلام کے جزئیات میں جو تدقیق و تحقیق ہے اس کا عشر عشیر بھی اس میں نہیں ہوتا۔اور فقہا ء کے ان جزئیات کے تعلم میں جس غور و خوض کی حاجت درپیش ہے اس بے چارے کو کہاں ؟ چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قدس سرہ ارشاد فر ماتے ہیں
”طالب علم بے چارا شفا و اشارات سب لپیٹ گیا اور یہ بھی نہ جانا کہ اصول دین کو کیوں کر سمجھوں اور خدا و رسول کی حیات میں کیا اعتقاد رکھوں؟اگر کچھ معلوم بھی ہے تو سنی سنائی تقلیدی!پھر حلال و حرام کا تو دوسرا درجہ ہے۔
(مقامع الحدید علی خد المنطق الجدید معروف بہ فلسفہ اسلام)
میر ے اِن معروضات کا صرف یہ مطلب ہے کہ وہ فلسفہ جس کے نظریات کو اعلیٰ حضرت نے ”الکلمة المھملہ “ میں پہلے ہی سے لچر و لایعنی قرار دے دیاہے اور جس کو سائنس کی جدید تحقیقات نے بھی فرسودہ ثابت کر دیاہے،اس کے پڑھنے پڑھانے سے کیا فائدہ؟علم کلام جو اشرف العلوم ہے اس کی تو صرف ایک کتاب داخلِ درس ہے جبکہ فلسفہ جس کے بیشتر اصول نظریٴہ اسلام سے متصادم بھی ہیں اورجو عقائدِ اسلام کا ابطال کر
۳
تاہے ،اس کی نصف درجن کتابیں بڑے انہماک و شوق کے ساتھ پڑھائی جاتی ہیں۔بعض لوگ کہتے ہیں مذہبی عقائد پرحملہ آور ہونے والوں کے جواب کے لئے منطق وفلسفہ نہایت ضروری ہیں۔فلسفہ ہی ان فتنوں سے نمٹنے کے لئے موثر ترین اور کارآمد ہتھیار ہے۔۔میں کہتاہوں آج کون ہے جو قدیم فلسفہ کے ذریعہ عقائد پر حملہ کر رہاہے؟ہاں ایسے گروہ ضرور ہیں جو سائنس اور نئی تکنیکوں کی آڑ لے کر مذہب کے بنیادی عقائد پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔جب موجودہ زمانہ نہیں تھا اور علمی دنیا میں یونانی فلسفہ کا سکہ رواں تھا،اس زمانے میں بھی بنیادی عقائد پر زور آزمائی کی گئی تھی۔تب اس حکمت ضالہّ کے اصول و نظریات کی بنیادپر براہ راست اصول اسلام کے ڈھانے کی کوشش کی گئی تھی۔اس وقت کے مسلم فلاسفہ کے لئے ضروری تھا کہ ان حملوں کا جواب انہیں کے ہتھیار سے دیں۔اس لئے متقدمین کے عہد میں فلسفہ کا درس اس زمانہ کے مقتضیات کے موافق و مطابق تھا،مگر آج معاملہ زمانہٴ قدیم کا نہیں !زمانہ ہوا کہ باطل نے حملے کا طرز و انداز بدل دیا۔اب ہم نئے فتنوں کا جواب پرانے فلسفہ سے نہیں دے سکتے۔آج کے نام نہاد سائنسی اعتراضات مادہ پرستوں نے اٹھائے ہیں۔مثلاً ان کا قول ہے کہ ”مادہ لافانی ہے ،صرف اس کی شکل تبدیل ہو جاتی ہے“وغیرہ۔۔۔اب نئے حالات میں جب ہم مدارس سے پرانا فلسفہ لے کر نکلتے ہیں ،تو ایک اجنبی دنیا کے مسائل ہمارے سامنے ہوتے ہیں۔ہمارا پرانا فلسفہ اور جواب ہمارے ذہنوں میں دھرا رہ جاتاہے ،کیونکہ موجودہ جدید فلسفٴہ مادیات کچھ اور ہی گل کھلائے بیٹھاہے۔ایسا کیوں ہواہے؟صرف اس لئے کہ ہم نے سائنس چھوڑدی ،اسے نہیں پڑھا۔ورنہ اس سے ہم ان اعتراضات کا مسکت جواب دے دیتے۔سائنس کے ذریعہ فتنے جگائے جا سکتے ہیں تو ان کا تدارک بھی کیا جا سکتاہے۔ضرورت ہے کہ ہم مدارسِ اسلامیہ کے نصاب میں ترمیم کریں ااور قدیم فلسفہ و منطق کی کتابیں کم کرکے جدید سائنس ،ریاضی ،انگریزی ،،کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹکنالوجی وغیرہ کا معقول انتظام کریں۔ہم دوسری اشیا میں زمانہ کا ساتھ دے رہے ہیں ،مگر تعلیم و نصاب تعلیم میں زمانے کا ساتھ کیوں نہیں دیتے؟اسی پہ جھنجھلا کر معروف ادارہ الجامعةا لاشرفیہ کے استاد اور مفتی مولانا نظام الدین صاحب نے کئی برس قبل کہا تھا کہ
”مجھے اس بات کے خیال پر تعجب ہو تا ہے کہ سیکڑوں شرعی احکام میں زمانے کے بدلنے کے ساتھ ساتھ اسلام نے تغیر و تبدیلی کی اجازت دی ہے اورہم بڑی فراخ دلی کے ساتھ یہ تغیر کرتے بھی رہتے ہیں،مگر اپنے ہی بنائے ہوئے نصاب تعلیم میں تغیر تو درکنار ترمیم بھی گوارہ نہیں کرتے،ہم اسے بزرگوں کی اتباع سمجھتے ہیں۔مگر یہ فی الواقع ان کی اتباع نہیں بلکہ فکر وتجدید کی پُر خار وادی میں قدم رکھنے سے گریز کا بے جا عذر ہے“
(ماہنامہ تہذیب الاخلاق،علی گڑھ جون۱۹۸۹ء)
بہت سے لوگ کہیں گے کہ بے شمار تعلیمی ادارے تو سائنس و تکنالوجی پڑھا ہی رہے ہیں ،پھر مدارس عربیہ میں سائنس و ٹکنالوجی نہ رہنے سے کیا نقصان ہے؟میں کہوں گا کہ نقصان ہے اور بہت نقصان ہے۔آخر لوگوں کو سائنسی ایجادات کے ذریعہ فتنے پیدا کرنے کا موقع کیوں مل رہاہے؟سائنس کے ذریعے عقائد پر حملے کیوں کئے جا رہے ہیں؟۔۔۔صرف اس لئے کہ ہم نے سائنس سے اعراض کر کے اسے دیگر اداروں میں غیر مناسب لو گوں کے لئے آزاد چھوڑ دیاہے۔۔۔ایک عورت کو بازار میں آزاد چھوڑ دیاجائے تو نہ جانے کتنے فتنے پیدا کر دیتی ہے۔معاشرہ و سماج نہ جانے کتنی باتوں کا شکار ہو جاتاہے۔مگر اسی عورت سے جب کوئی رشتہ قائم کر لیا جاتاہے اور اسے گھر میں باعزت زندگی دی جاتی ہے تو ہمارا سماج بے بہا برائیوں اور بے شمار خطرات سے محفوظ ہو جاتاہے۔بعینہ سائنس اور نئے علوم کا حال ہے۔ہم نے ان سے دامن
۴
چھڑاکر انہیں آزاد چھوڑدیاہے،تو یہ ایسے ہاتھوں میں پہنچ گئے ہیں جو فتنے بھی پیدا کرنے والے ہیں۔معاشرہ و سماج کو تخریب کا نشانہ بھی بنانے والے ہیں۔اگر آج بھی ہم ان سے تعلق قائم کر لیں اور مدارس دینیہ میں ان کو شامل ِ نصاب کرلیں تو یقینا نسل انسانی کو سائنس کے خطرات سے محفوظ کر دیں گے۔اور ایسا نہیں ہے کہ سائنس کے ذریعے ہم صرف دنیاوی فوائد ہی حاصل کر سکتے ہیں بلکہ دینی فوائد اور ثواب کے حصول کا بہترین ذریعہ بھی سائنس ہے۔۔بیمار کی عیادت ،تیمارداری اور علاج اخلاقی فریضہ ہے تو علاج کے طریقے دریافت کرنا کیاہے؟کیا یہ ثواب نہیں ہے؟کیا عوام کے لئے سڑکیں بنانا،ان پر دوڑتی ہوئی گاڑیاں بنانا تاکہ لوگ آرام سے سفر کر سکیں،اڑتے ہوئے جہاز ایجاد کرنا تاکہ لوگ جلدی سفر کریں کارِ ثواب نہیں ہے؟کیا عوام کو ظلمت و تاریکی سے نجات دینے کے لئے بجلی و روشنی کی دیگر اشیا ء ایجاد کرنااور بنانا کارِ ثواب نہیں ہے؟یقینا ایسے تمام کام باعث ثواب و رحمت ہیں۔اور ان تمام کاموں میں سائنس اور علوم جدیدہ کی ضرورت ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم اس چہار دیواری سے نکل آئیں جس میں ہم نے خود کو محصور کر رکھاہے #
سب باندھ چکے رختِ سفر اپنا سر شام
ہم ہیں کہ نمود سحری دیکھ رہے ہیں
میرے خیال میں تو دوسرے تعلیمی اداروں سے زیادہ عربی مدارس میں عصری علوم کی ضرورت ہے۔اس لئے کہ مدارس ہی وہ جگہ ہیں جہاں سائنس و دیگر علوم جدیدہ کی تعلیم دی جائے گی تو اخلاقی تعلیمات بھی لازماً دی جائیں گی۔اور وہاں سے نکلنے والا طالب علم معاشرے کو وہ سب دے گا جو معاشرے کاحق ہے۔عوام بھی ان کے کاموں پر زیادہ اعتماد کریں گے۔اس لئے کہ مدارس کے فضلا ء سے ایمانداری ،سچائی ،فرض شناسی ،انصاف پسندی ،دیانت داری ،خلوص اور انسانی ہمدردی کی زیادہ توقع ہے،جبکہ دیگر اداروں سے اس کی کم ہی امید ہوتی ہے۔اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ طلبہ بھی مدارس کی طرف رجوع کریں گے جو صرف سائنس اور علومِ جدیدہ نہ ہونے کی وجہ سے مدارس اور اسلامی تعلیمات سے دور رہتے ہیں۔اس لئے ضروری ہے کہ مدارسِ عربیہ میں منطق و فلسفہ کا بوجھ کم کر کے ریاضی،سائنس ،انگریزی،ابلاغِ عامہ،صحافت ومیڈیااور کمپیوٹر تکنیک جیسے علوم جدیدہ کا باقاعدہ انتظام کیا جائے۔تاریخ ،سیرت و مختلف علوم و فنون کے شعبوں کا بہتر انتظام کیاجائے۔تاکہ ہمارے طلبہ عصری تعلیم حاصل کر کے زندگی کے دوسرے میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دے سکیں۔اُن کا دائرہٴ فکر صرف مسجد کا امام ،جلسوں کا خطیب اور درس گاہوں کا استاد ہونے تک محدود نہ رہے،بلکہ وقت کے تقاضوں اور عصرِ نو کے مسائل سے آشنا ہوکر وہ ملی قیادت کے صالح قائد بھی بن سکیں۔اس طرح ہمیں امید ہے کہ مسلمانوں کا موجودہ علمی زوال و سائنسی انحطاط بھی ضرور ختم ہو جائے گا۔
ہمارا یہ فریضہ ہونا چاہئے کہ جدید علوم کو مدارس میں شامل کر کے نسلِ انسانی کو سائنس کے خطرات سے محفوظ کرنے میں،مسلمانوں کو نئی دنیا اور نئے انقلابات کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے میں،اور روز بروز لگنے والے الزاما ت کا نئی تکنیکوں سے مسکت جواب دینے کے قابل انہیں بنانے میں ہم پوری طرح حصہ لیں۔ورنہ حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جائیں گے۔یہ ہماری بدقسمتی ہوگی کہ ہم اب بھی نہ جاگیں ۔
اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔