Home / Socio-political / مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی پٹنہ :۱۹۱۲ء سے ۲۰۱۲ء تک

مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی پٹنہ :۱۹۱۲ء سے ۲۰۱۲ء تک

مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی پٹنہ :۱۹۱۲ء سے ۲۰۱۲ء تک

(موجودہ پرنسپل مولانا محمد قاسم کی خدمات کے خصوصی حوالے سے)

یونان ومصرو روما سب مٹ گئے جہاں سے
باقی مگر ہے اب تک نام  ونشاں ہمارا
ابرار احمد اجراوی جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی، نئی دہلی
موبائل:9910509702
Email:abrarahmadijravi@gmail.com 
دریائے گنگا کے دائیں کنارے آبادپٹنہ صرف ایک شہر ہی نہیں، علم و ادب اور تہذیب و تمدن کا حسین استعارہ بھی ہے۔ اس شہر کے چپے چپے پر تاریخی عظمتوں کے نقوش کندہ ہیں۔ یہاں دریا ئے گنگا کی لہروں کے متوازی علم و ادب، شریعت و طریقت اور معرفت و سلوک کی نہر بھی رواں دواں ہے۔ملک کی قدیم اسلامی تنظیم امارت شرعیہ اور تصوف وسلوک کا مرکزخانقاہ مجیبیہ پٹنہ کی گود میں واقع ہیں۔بدھ مت کے بانی مہایر گوتم بدھ کو اسی سرزمین کے ایک خطے گیا میں، پیپل کے درخت کی چھاؤں میں باطن کا عرفان حاصل ہوا تھا۔ سکھوں کے دسویں گرو گوبند سنگھ نے اسی زمین پر آنکھیں کھولیں۔پٹنہ کا جب بھی ذکر کیا جاتا ہے، ذہن کی اسکرین پر علم و ادب سے عبارت ایک عظیم شہر کی تصویر گردش کرنے لگتی ہے۔مولانا ابو المحاسن سجاد، علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا مناظر احسن گیلانی، شاد عظیم آبادی اور علامہ جمیل مظہری کی یہ سرزمین کبھی علم و عمل کے پارکھوں سے محروم نہیں رہی۔ یہاں صرف علم و ادب کا مرکزخدا بخش لائبریری ہی نہیں، پٹنہ یونی ورسٹی اور سیاسی تحریکات کا منبع گاندھی میدان ہی نہیں، بلکہ علوم و معارف کا گہوارہ اور مجاہدین آزادی کا مسکن متحدہ بہار کا قدیم ترین اسلامی ادارہ مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی پٹنہ بھی ہے۔
تاریخی کتابوں کی گرد جھاڑیے اور ذرا مدرسے کی تعلیمی روداد پر اچٹتی نگاہ ڈالیے تو معلوم ہوگا کہ مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی پٹنہ نے جہالت وناخواندگی کے ظلمت کدوں کو علم کی روشنی سے منور کیا ہے، اپنے اطراف واکناف میں علم و ادب کی روشنی پھیلائی ہے اور تعلیمی ومعاشی اعتبار سے ملک کی پسماندہ ترین ریاست بہار کو تعلیم ومعاش کے میدان میں آگے بڑھانے میں انتہائی نمایاں رول ادا کیا ہے۔ علم و ادب ، تاریخ و ثقافت اور تعلیم و سیاست کا وہ کون سا شعبہ ہے، جہاں مدرسہ شمس الہدی پٹنہ سے اکتساب فیض کرنے والے افراد موجود نہیں ہیں۔ یہاں کے فارغین نے دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعدصرف مسند درس و تدریس اور منبر و محراب کو ہی زینت نہیں بخشی، بلکہ عصری علوم کے شعبوں میں بھی اپنی موجودگی درج کرائی ہے۔علماء، شعرا، خطباء، اطباء کی ایک طویل فہرست ہے، جنھوں نے اس سر چشمۂ علم وفن سے اپنی علمی تشنہ کامی دور کی ہے۔ یہاں کے فصلاء مختلف شعبوں کے صدور اورفیکلٹی کے ڈین بھی بنائے گئے ہیں۔ وہ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے ہیں۔ وہ آئی ایس اور آئی پی ایس جیسے ملک کے اعلی ترین عہدوں کو بھی زینت بخش چکے ہیں۔ یہاں کے فضلاء نے مدارس و مکاتب، اسکول اور کالجز اور مرکزی و ریاستی حکومتوں کے اعلی مناصب پر فائز رہ کر قوم و ملت کی رہبری کا فرض انجام دیا ہے۔ ڈائریکٹر ادارہ تحقیقات عربی وفارسی پٹنہ مولانا حسن رضا خاں صاحب،آئی پی ایس اظہار عالم صاحب، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے پروفیسر محمد عزیز شمسی، مولانا مظہر الحق عربی فارسی یونی ورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر شمس الضحی صاحب، متھلا یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر عبد المغنی اور قومی  اردوکونسل نئی دہلی کے موجودہ ڈائریکٹراور جے این یو کے استاذ خواجہ محمد اکرام الدین اسی چمنستان شمس الہدی کے گل سرسبد ہیں۔ اتنی متنوع خدمات کے پس پردہ بانی مدرسہ جسٹس نور الہدی کا وہ خلوص پوشیدہ ہے، جس کا مظاہرہ انھوں نے آج سے سو سال قبل اس وقت کیا تھا جب انھوں نے علاقے میں پھیلی جہالت اور بد دینی کو دیکھ کر اپنے والدمحترم مولوی شمس الہدی کی یادگار کے طور پر بنام خدا اس مدرسے کی داغ بیل ڈا لی تھی۔ بانی محترم کے خلوص کا ہی اثر ہے کہ اس مدرسے نے اپنی زندگی کے سو سال کامیابی کے ساتھ پورے کرلیے ہیں۔ اگر بانی مرحوم کے سچے جذبے کی آنچ اس مدرسے کی بنیاد میں شامل نہ ہوتی، تو شاید آج یہ ادارہ شہرت اور ناموری کی اس منزل پر نہ کھڑا ہو تا جہاں یہ آج کھڑا ہے۔ اس دور زوال میں سو سال کا کامیاب سفر انھی اداروں کا نصیبہ ہوا کرتا ہے، جن کی بنیاد میں خدا کے برگزیدہ اور محبوب بندوں کا خون شامل ہوتا ہے۔
جسٹس نورالہدی مرحوم مدرسے کی تعلیمی اور تعمیری ترقی کے لیے ہمیشہ فکر مند رہا کرتے تھے ، انھیں مدرسے کی بقا اور ترقی کی فکر کھائے جاتی تھی اور انھیں یہ خدشہ دامن گیر تھا کہ کہیں میری وفات کے بعد دوسرے موقوفہ اداروں کی طرح یہ مدرسہ بھی غیروں کی ستم رانی اور اپنوں کی ’کرم فرمائی ‘کے سبب موت اور بربادی کی آعوش میں نہ چلا جائے، اس لیے انھوں نے ہمت و حوصلے سے کام لیتے ہوئے۱۹۱۹ء کو اس مدرسے کو حکومت کی تحویل میں دے دیا۔ لیکن سرکار کی تحویل میں جانے والے دوسرے اداروں کی طرح اس پر زوال نہیں آیا، بلکہ آج تک اپنے پرنسپلزاور اساتذہ کی شبانہ روزمحنت کے نتیجے میں ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے۔
مدرسہ شمس الہدی کے فضلاء اور فیض یافتگان نے جہاں اس مدرسے کو ترقی کی معراج تک پہنچانے میں اپنا خون جگر جلایا ہے، وہیں اس کو ترقی کے بام عروج تک پہنچانے اور اس ذرے کوآفتاب بنانے میں مدرسے کے فعال اور متحرک پرنسپلز کا بھی کلیدی رول رہا ہے۔ ۱۹۲۰ء میں جب سے یہ مدرسہ حکومت کی تحویل میںگیا ہے، اب تک اس کے ۱۸؍ پرنسپلز مقرر ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے نامور عالم دین مولانا سہول احمد صاحب بھاگل پوری مدرسہ شمس الہدی کے باضابطہ پرنسپل مقرر ہوئے، جن کی مدت کار تقریبا پندرہ سال کے عرصے پر محیط ہے،اس کے بعدبالترتیب مولانا اصغر حسین صاحب، مولانا معین الدین صاحب، مولانا ظفرالدین صاحب، مولانا دیانت حسین صاحب، مولانا ریاست علی ندوی صاحب، مولانا سید شاہ ابو القاسم صاحب، مولانا حفیظ الرحمان صاحب، مولانا سید محمد قاسم صاحب،مولانا سید محمد صدر الحق صاحب، مولانا عبد القیوم صاحب اور مولانا ابو الکلام صاحب قاسمی صاحب اس کی پرنسپل شپ پر فائز رہ چکے ہیں۔
اس وقت عظیم اسلامی درس گاہ دارالعلوم دیوبند کے چشم و چراغ،  جید عالم دین، مشہور مقرر اور جمعیۃ علماء ہند بہار کے صدر نشیں عالمی شہرت کے حامل مولانا محمدقاسم صاحب مدرسے کے پرنسپل ہیں، جنھوں نے ۳۰؍ اکتوبر ۲۰۱۱ء کو اس عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد، ایک سال کے ہی قلیل عرصے میں مدرسہ شمس الہدی کو شہرت و ناموری کی اس منزل پر پہنچا دیا ہے، جہاں تک پہنچنے کے لیے ایک مدت درکار ہوتی ہے۔ اس کومولانا کی عند اللہ مقبولیت اور اقبال مندی ہی سے تعبیر کیا جائے گا کہ صد سالہ جشن شمس الہدی ان کی قابل رشک پرنسپل شپ میں منعقد ہو رہا ہے، جو نہ صرف ریاست بہار کے لیے فخر و مباہات کی بات ہے، بلکہ ہمارے وطن ہندستان کے لیے بالعموم اور پوری ملت اسلامیہ ہندیہ کے لیے بالخصوص فخر و سعادت کا لمحہ ہے۔ پرنسپل موصوف نے صرف یہی نہیں کہ اس عظیم الشان تاریخ ساز اور باوقار تقریب کے انعقاد کے لیے شہر شہر اور قریہ قریہ وفود بھیج کر، فرزندان توحید کی ذہن سازی کی، بلکہ حکومت کی مشنیری کو بھی اس طرف متوجہ کیا کہ حکومت وقت کے لیے مدارس اسلامیہ اور ریاست بہار کے لیے تمغۂ امتیاز شمس الہدی پٹنہ کے کارناموں اور ملک کی آزادی میں آزادی کی راہوں پر سنت منصور و قیس کو زندہ کرنے والے اس کے فرزندوں کی جستجوئے شہادت سے انحراف کرنا اس کے حق میں نہیں ہوگا۔
مولانا قاسم صاحب نے اپنی پرنسپل شپ میں مدرسہ شمس الہدی کی تصویر اور تقدیر دونوں بدل کررکھ دی ہے۔ انھوں نے شمس الہدی پٹنہ کو دستور و آئین کی روشنی میں ملنے والے حقوق کے حصول کے لیے، حکومت وقت کا در کھٹکھٹا یا ہے، حکومتی مشنیری کو مدارس کے وجود اور ملک کی تعلیمی پسماندگی کو ختم کرنے میں ان کے کردار کا احساس کرایا ہے اور مدرسہ شمس الہدی کا حق واجب مانگ کر مدرسے کے احاطے میں جتنے تعمیری اور تعلیمی ترقیاتی کام کرارہے ہیں، وہ یقینا مدارس اسلامیہ کی تاریخ میں زریں حروف سے لکھا جائے گا۔ مولانا چہرے بشرے اور ظاہر و باطن سے انتہائی شریف اور دین دار اور بڑے کج کلاہ واقع ہوئے ہیں کہ انھوں نے ہجوم دہر میں بھی اپنی وضع نہیں بدلی ہے، لیکن ان کی بزرگی اور ان کا تدین و تقوی اور طہارت وپاکیزگی ان کے سیاسی اور تعلیمی میدانوں میں دوڑ دھوپ کے لیے کبھی مانع نہیں ہوا کہ جب دین سیاست سے جدا ہوجائے توپھر وہ دین باقی نہیں رہتا،  چنگیزیت میں تبدیل ہوجاتا ہے، یوں بھی مذہب اسلام نے دین اور دنیا میں کوئی تفریق روا نہیں رکھی ہے، دونوں ایک دوسرے کے لیے تکملہ اور تتمہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مولانا علمی استعداد اور تدریسی صلاحیت سے مسلح ہونے کے ساتھ میدان خطابت کے بھی شہسوار ہیں۔ انھوں نے شعلہ بیانی اور مزاج کی برق فشانی سے نہیں، بلکہ اپنی سبک خرام شیریں بیانی سے بہت سے منحرف اذہان کو اسلامی تعلیمات کا گرویدہ بنایا ہے کہ اگر تجربے اور مصلحت سے کام لیا جائے، تو پھول کی پتی سے بھی ہیرے کے جگر کو چاک کیا جاسکتا ہے۔ ہندستان اور خاص طور سے ریاست بہار کا کون ایسا شخص ہوگا، جو ان کے زور خطابت کا قائل نہیں ہے۔  وہ صرف پٹنہ ہی میں نہیں، بلکہ قر ب وجوار کے دوسرے اصلاع میں بھی اپنے تعلیمی و اصلاحی خطابات کے لیے جانے جاتے ہیں۔ وہ ۱۹۸۶ء سے شہر پٹنہ میں عیدین کے امام بھی ہیں، اور پٹنہ کے تاریخی گاندھی میدان میں عیدین کے موقع پرلاکھوں فرزندان توحید کے مجمع سے ان کا جو عالمانہ اور مدبرانہ خطاب ہوتا ہے، اس میں صرف امت مسلمہ کی دینی اور دنیاوی ترقی کا راز ہی پوشیدہ نہیں ہوتا، بلکہ حکومتی مشنیری بھی بلا تفریق مدہب و ملت ان کے مشوروں سے پھوٹنے والی کرنوں سے روشنی کشید کرتی ہے اور انھی مشوروں کی روشنی میں مستقبل کا لائحۂ عمل تیار کرتی ہے۔
مولانا نے سستے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے بزم سیاست تو نہیں سجائی ، لیکن سیاست کے اسرار و رموز اور حالات کے مدو جزرپر ان کی نظر اتنی گہری ہے کہ میدان سیاست کے ماہرین ان سے باہمی مشاورت اور تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔ وہ حکومت کے وزیر اور کسی سیاسی پارٹی کے باضابطہ ممبر نہیں، لیکن حکومت وقت بہر حال ان کے تفکر و تدبر کا لوہا مانتی ہے۔ مدرسہ شمس الہدی کے احاطے میں ۱۲۴؍ بیڈ پر مشتمل شمس الہدی ہاسٹل کی تعمیر مولانا کے اسی سیاسی اثر و رسوخ کا ثبوت ہے۔ انھوں نے جشن صد سالہ میں جس طرح ادارے کے ابنائے قدیم کے شانہ بشانہ، ملک کے مشاہیر علماء، ممتاز صحافیوں، منتخب دانشوروں اور سیاست دانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھاکیا ہے، وہ ان کی سیاسی بصیرت، قائدانہ فراست اور جمہوریت پسندی کا نتیجہ ہے۔ مولانا اسلام پسند ہونے کے ساتھ،  جمہوری اور سیکولر ذہن کے مالک بھی ہیں،وہ مذہبی رواداری، کثرت میں وحدت اور پر امن بقائے باہم کے اصول پر ایمان رکھتے ہیں، وہ سر سید کی طرح ہندو اور مسلم دونوں کو اس ملک کی دو آنکھیں تصور کرتے ہیں،  وہ تعمیری اور تحریکی ذہن رکھتے ہیں اسی لیے مسلکی اور گروہی تعصب سے دور رہتے ہیںکہ اس وقت مسلکی اور گروہی تعصب ملک و قوم کے لیے انتہائی ضرر رساں ہے، قوم کو اس وقت تعمیری اور اتحادی خطوط پر سوچنے والے رہبر کی صرورت ہے، مولانا نہ صرف یہ کہ تعمیر وترقی اور اتحاد واتفاق میں حد درجہ یقین رکھتے ہیں، بلکہ ملک کے تمام گروہوں کو اتحاد و اتفاق کی لڑی میں پرونا بھی چاہتے ہیں۔وہ اتحاد بین المسلمین کے علم بردار رہے ہیں، مولانا نے اپنے دہن رسا سے اس نکتے کو دریافت کرلیا ہے کہ ایک کثیر قومی، کثیر لسانی اور کثیر ثقافتی ملک میں گروہی اختلافات کسی بھی طرح مفید نہیں ہے۔اس لیے وہ اپنی تحریروں اور تقریروں کے دریعے ’بتان رنگ و بو کو توڑکر ملت میں گم ہوجانے‘ کی پر زور صدا لگاتے رہتے ہیں۔شاید مولانا کے پیش نظر معمار دارالعلوم دیوبندقاسم العلوم والخیرات مولانا محمدقاسم نانوتوی کا یہ قول رہتا ہے کہ:
’’ فی زماننا کفار کا غلبہ ہے۔ وقت نہیں ہے کہ مسلمانوں میں تفریق کو ہوا دی جائے، جس سے ان کا کلمہ متفرق ہوکر مزید ضعف پیدا ہو، بلکہ توڑنے کے بجائے جوڑنے کی فکر کی جائے۔‘‘(سوانح قاسمی، ج:۱، ص:۴۸۰)
شمس الہدی کے جشن صد سالہ کے موقع پر ایک ہی اسٹیج پر مسٹر اور ملا کو ایک کرنے کی حکمت عملی مولانا کی دور رسی اور امت مسلمہ کو کلمۂ لاالہ الا اللہ کی بنیاد پرمتحد رکھنے کی ہی ایک کوشش ہے۔ اتنے بڑے اجتماع کے انعقاد نے یہ ثابت کردیا ہے کہ مولانا کے اندر قیادت و سیادت کے ساتھ یقین محکم اور عمل پیہم کا جذبہ موجود ہے، جو کسی بھی شخص کے لیے جہاد زندگانی میں کامیابی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ مولانا قاسم صاحب اپنے جہد و عمل کی دنیا بسانا جانتے ہیں،وہ صرف گفتار کے نہیں، بلکہ کردار کے غازی ہیں، ان کا دہن سکہ بند نہیں ہے،  وہ دوسروں کے چھوڑے ہوے نوالوں کو منھ نہیں لگاتے، نہ دوسروں کی اندھی تقلید کے روا دار ہیں، انھوں نے علامہ اقبال کے اس شعر کی سریت کی ڈور اپنے ہاتھوں میں تھام رکھی ہے کہ:
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سر آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زندگی
مولانا قاسم صاحب نے مدرسہ شمس الہدی اور ملت اسلامیہ کی تعمیر و ترقی اور اس کے مستقبل کے منصوبوں میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے جو تگ و تاز اور انتھک جدو جہد کی ہے، وہ ان کے خلوص ومحبت اور سوزو ساز کا مظہر ہے۔ وہ سب کچھ اس طرح بے نفسی کے عالم میں انجام دیتے ہیں کہ نہ حکومت سے ستائش کی تمناپالتے ہیں اور نہ یاران با وفا سے کسی صلے کی امید باندھتے ہیں۔ مولانا کی امیدیں تو قلیل ہیں،لیکن ان کے مقاصد کی دنیا بڑی وسیع ہے۔ وہ رزم وبزم دونوں جگہ سبک خرامی کے ساتھ نکل جاتے ہیں۔ وہ تحرک وفعالیت کا سنگم ہیں اور کسی ادارے کے قائد کے لیے قیادت کی جتنی صفات مطلوب ہوسکتی ہیں، وہ ان کے اندر مجتمع ہیں، شاعر نے صحیح کہا ہے کہ:
نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
صد سالہ جشن کا انعقاد فخر ومسرت کا لمحہ ضرور ہے کہ کسی ادارے کے لیے سو سال کا سفر معمولی بات نہیں ہوتی، لیکن اس وقت ہمیں اپنی کامیابیوں پر اظہار مسرت کے ساتھ احتساب دات اور دروں بینی کا بھی نمونہ پیش کرنا چاہیے کیوں کہ ہمارے دین کی حقیقت ہی احتساب کائنات سے عبارت ہے۔ اگر احتساب کی صفت نہ ہو تو ہمیں اپنی کمیوں کی تلافی کرنے کا موقع نہیں مل سکتا۔انسان تو خطا اور نسیان کا مرکب ہے۔ اپنی کمیوں اور کوتاہیوں کا اعتراف کر نے کے بعد ہی ہم مستقبل کی راہ پر خار طے کرکے منزل مقصود تک رسائی کی توقع کرسکتے ہیں۔خود احتسابی سے مستقبل کی راہیں روشن ہوتی ہیں، جب کہ حد سے زیادہ خوش فہمی اور تفاخر کا جذبہ تاریکیوں اور ناکامیوں کے در کھول دیتا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ آزادی کے ۶۵؍ سال بعدبھی ہمارے مسلم علاقوں کا تعلیمی اعتبار سے بہت ہی برا حال ہے؟۔ سچر کمیٹی اوررنگاناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ نے ہماری تعلیمی اور معاشی بد حالی پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ آج تعلیم سے زیادہ ہم دو وقت کی روٹی اور معاش کی فکر زیادہ کرنے لگے ہیں۔امت مسلمہ کے بحر کی موجوں میں وہ اضطراب والتہاب کہا ںہے، جو کسی قوم کی ترقی کے لیے مطلوب ہے۔ جسٹس نور الہدی نے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کے جس احساس سے مجبور ہوکر اس مدرسے کی تعمیر کا بیڑ اٹھایا تھا، کیا آج بھی اس قسم کے حالات سے ہمارا معاشرہ دو چار نہیں ہے؟۔ کیا آج بھی اسی قسم کی بے حسی ہمارے معاشرے پر طاری نہیں ہے؟کیا اس وقت بھی مدرسہ شمس الہدی کی وہی تعلیمی أب وتاب برقرار ہے، جس کا خواب اس کے بانی اور متولی جسٹس نور الہدی نے دیکھا تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ شمس الہدی اپنے اساسی اغراض ومقاصد سے دور ہوتا جارہا ہے؟حکومت وقت کو بھی اپنے گریبان میں جھانکنے اور اپنے کرداروعمل کا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اورمسلم اداروں کے تعلق سے اپنے کردار کا جائزہ لینے کی صرورت ہے۔ مدرسہ ایگزامنیشن بورڈ، ملحقہ مدارس،ادارہ تحقیقات عربی وفارسی اور مولانا مظہر الحق عربی فارسی یونی ورسٹی بھی مدرسہ شمس الہدی کا ہی ایک حصہ ہے۔ کیا حکومت ان اداروں کی بھی ہمہ جہت تعلیمی اور تعمیری ترقی کے لیے کوشاں ہے؟ کیا ہماری حکومت ہندی اور اردو کے ساتھ عربی اور فارسی کو بھی تعلیمی نظام کا حصہ بنانے اور اس کی ترقی کے لیے فکر مند ہے؟ماضی کی کمیوں کے دریچے میں جھانکنے کا یہی احساس ہمیں زندگی کی راہوں پر کچھ کرنے اور امت مسلمہ کو تعلیمی میدان میں آگے برھانے کے لیے مہمیز کرتا رہے گا۔ ہمیں ہمیشہ اس تصور کو سینے سے لگائے رکھنا ہوگا کہ’ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘۔ ’بندۂ حر کے لیے جہاں میں فراغ‘ کہاں ہے۔ تعلیمی راہ کے مسافر کے لیے کہیں ٹھہراؤ اور منتہائے سفر نہیں۔مجھے یقین ہے کہ علم و عمل کا یہ کارواں ہمیشہ تازہ دم رہے گا اور تعلیمی راہوں پر رواں دواں رہے گا کیوں کہ مولانا محمد قاسم صاحب میں وہی درد اور وہی احساس موجود ہے، جو اس ادارے کے بانی ا ول کے دروں میں موج زن تھا۔ مولانا محمد قاسم صاحب میں بھی وہی لے اور وہی نے اور وہی رنگ وآہنگ مو جود ہے، جو بانی مرحوم جسٹس نورالہدی مرحوم کی زندگی کا شناخت نامہ تھا۔
امت مسلمہ کی تعلیمی اور سیاسی ترقی کے لیے جتنی لگن اور بے نفسی کے ساتھ مولاناعمر کے اس مرحلے میں بھی دوڑدھوپ کرتے ہیں وہ یقینا ہمارے نو عمرمعاصرین کے لیے قابل رشک اور لائق تقلید ہے۔ چوں کہ رہ تعلیم کے مسافروں کی کوئی حتمی منزل نہیں ہوتی، اس لیے میں ان سے علامہ اقبال کی زبان میں بس یہی استدعاء کرسکتا ہوں کہ:
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *