Home / Socio-political / مردے کب باتیں کرتے ہیں

مردے کب باتیں کرتے ہیں

مردے کب باتیں کرتے ہیں

سمیع اللہ ملک

 تم فکر مت کرو ہلکان ہونے کی ضرورت نہیں ہے تم ہی تو کہتے ہو: اللہ ہے کارساز وہی ہے روزی رزق دینے والا۔ اس دن لندن سے ٹیلیفون پرتم نے اب تک سندھ میں سیلاب سے متاثرین کاذکرکیاتھاتومیں نے توپہلے بھی اتنے لاکھ روپے دیئے تھے ان متاثرین کے لیے اوراب ایک دفعہ پھر تاجر کمیونٹی کی توجہ اس طرف دلاؤںگا۔تمہاراوہ دوست اورہماراایک ساتھی تواب بھی بہت سرگرم ہیں۔امیدہے بہت عطیات جمع ہوں گے ا نشاء اللہ، سب ٹھیک ہوجائے گا۔ میں ان کی بات سنتا رہا۔ اچھا!یہ تو بہت اچھا کام ہے نیکی ہے ،یہ خداترسی ہے، بندہ پروری ہے، بہت سعادت ہے، توفیق ہے یہ زخموں پر مرہم رکھنا ہے، سائبان بننا ہے بہت مبارک ہیں آپ۔ لیکن……….ہاں بولو بولو رک کیوں گئے لیکن کیا؟

آپ تو اتنے بڑے گھر میں……..گھر کیا محل میں رہتے ہیں ،تین سرونٹ کوارٹر ہیں آپ کے پاس، گھر کے اکثر کمرے تو خالی ہی رہتے ہیں ۔کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ آپ ایک چھوٹے پانچ چھ افراد پر مشتمل خاندان کو اپنے گھر میں رکھ لیں انہیں اپنی فیکٹری میں کام دلادیں ،انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دیں ،جب وہ تھوڑے دن میں اس قابل ہوجائیں تو انہیں کرایہ کا مکان دلا دیجیے گا، زندگی پھر سے شروع ہوجائے گی، اس طرح ان کی عزتِنفس بھی پامال نہیں ہوگی ،ان کی تصویریں بھی نہیں چھپیں گی ،وہ بوسیدہ خیمے کے عذاب سے بچ جائیں گے۔ایک اور کام بھی آپ کرسکتے ہیں اپنی بزنس کمیونٹی کے لوگوں کو بھی اس کام کے لیے راضی کرسکتے ہیں۔ پیسے مت دیں خود اپنے ہاتھوں سے ان پر خرچ کریں۔ اگر ایسا ہوجائے تو ہم اتنے بڑے سانحے سے نمٹ سکتے ہیں بس آپ یہ کام کرلیں۔ پھر ایک طویل خاموشی پھر ہوں ہاں اچھا میں تم سے بات کروں گا کہہ کر فون کی لائن کاٹ دی۔

 اتنا تو مجھے معلوم ہے کہ وہ اس تجویز پر مجھ سے رابطہ نہیں کریں گے اس طرح کے فون میں نے بہت سے لوگوں کو کئے ہیں، کم و بیش سب کا یہی رویہ ہے۔ ہم سب آسان کام اپنے لیے پسند کرتے ہیں، کرنا بھی چاہئے لیکن کبھی کبھی مشکل کام بھی منتخب کرنا چاہئے۔مرجانا تو بہت آسان ہے کہ زندگی کا آزار ختم ہوجاتا ہے،جینا مشکل ہے۔پیسے دینا بھی مشکل کام ہے لیکن اتنا مشکل نہیں ہے جتنا کسی خاک بسر بے آسرا کو اپنے ساتھ رکھنا، اسے اپنا سائبان فراہم کرنا ،اس سے دکھ سکھ سننا، اس کا ہاتھ تھامنا، جب وہ روئے تو اسے سینے سے لگاکر دلاسہ دینا، اس کے لیے تھکنا، اسے امید دلانا اور زندگی کے دھارے میں دوبارہ سے لاکھڑا کرنا۔ بہت مشکل ہے یہ بہت زیادہ مشکل۔ ٹھیک ہے میری تجویز احمقانہ ہوگی ناقابلِ عمل ہوگی…….لیکن میں اسی طرح سوچتا ہوں اور آپ مجھے اس طرح سوچنے سے باز نہیں رکھ سکتے۔سوال احمقانہ ہوسکتا ہے غلط بھی ہوسکتا ہے لیکن پھر یہ بتایئے کہ کیا احمقانہ سوالات کو جواب سے محروم رہنا چاہئے؟

 اتنے بڑے سرکاری محلات ہیں جنہیں ایوانِ صدر کہتے ہیں، ایوانِ وزیراعظم کہتے ہیں، گورنر ہاوس کہتے ہیں……..اور نجانے ایسی سینکڑوں عمارات جن میں چند لوگ ہی رہتے ہیں، وہاں کیوں نہیں بسایا جاتا انہیں؟ اور پھر یہ عمارات کسی کے ابا حضور کی ملکیت نہیں ہیں۔ عوامی خزانے سے بنائی گئی ہیں۔ زلزلہ آیا تھا تو ہماری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی ہوگئی تھی۔ ہم بے بس تھے قدرت کے سامنے،ہم زلزلہ نہیں روک سکتے تھے لیکن یہ جو قیامت آئی ہے یہ تو قدرتی نہیں ہے۔یہ تو ہمارے اپنے ہاتھوں برپا ہوئی ہے۔کیوں نہیں نکلے ہم اس ظلم کے خلاف۔ یہ آسان کام ہے کہ پیسے جمع کرو، راشن جمع کرو ،تصویریں بنواوؤ،دوسروں کی عزتِ نفس کو پامال کرو ،غیرت مندوں کو جیتے جی مار ڈالو۔ بہت آسان ہے یہ کہنا کہ ہر خاندان کو خیمہ ملے گا۔ اپنے بھرے پرے گھروں کو چھوڑ کر آنے والے بے سروسامان غیرت مند مرد معصوم بچے اور وہ بچیاں اور عورتیں جن کا کسی نے بال تک نہیں دیکھا تھا آج تک ننگے سر خیموں میں پڑی ہیں۔

لاکھوں خاک بسر لوگ، اہلِ دانش یہ بتائیں وہ جن نفسیاتی مسائل میں گِھر گئے ہیں ان سے کس طرح نکلیں گے……..نہ پانی نہ بجلی نہ کھانا پینا…….چوک میں لاکر برہنہ کردیا لاکھوں غیرت مندوں کو۔ اچھا ہے ہمیں اپنے گھروں کے لیے صحت مند ماسیاں مل گئیں ،ہمارے کام کررہی ہیں،ہماری گاڑیاں دھونے کیلئے ان کے بچے دستیاب ہوگئے ہیں اور ان کی جوان بچیاں…… رہنے دیں میرا منہ مت کھلوائیں۔ ہماری آنکھوں کا پانی مرگیا ہے ہم سب منہ کی کلاشنکوف چلا رہے ہیں۔ کیا ماڈرن سیکولر اور کیا اہل جبہ و دستار سب کے سب……بس چند دن کا ہے جینا پھر اندھیری رات ہے۔عیش کرو مزے اڑاؤ، صرف خود کو بچاؤ،سب مرتے ہیں تو مرنے دو۔ لیکن کون بچا ہے فرشتہ اجل سے، بولو کون بچا ہے ؟ کوئی بھی نہیں، کوئی نہیں بچ سکتا،نہ کوئی نادار،نہ ہی کوئی زردار۔میڈیاکوتواب ملک ریاض اورارسلان افتخارکی کہانی مل گئی ہے، اسی کہانی کودن رات دہراکرخوب کمائی کرلیںگے لیکن ان مفلوک الحال لوگوںکاان آئے دن رونماہونے والے اسکینڈلزسے کیالینادینا؟کچھ بھی تو نہیں رہے گابس نام رہے گا میرے رب کا۔

یوں زندہ ہیں….کیوں زندہ ہیں

اپنی اپنی قبر میں ہم سب کب سے تنہا لیٹے ہیں

 یکدم خواہش سی ہوتی ہے

 ہمسائے کی قبر پہ عرشی دھیرے دھیرے دستک دوں

 پوچھوں کون ہو تم….کیسے ہو تم ……..!

شاید وہ دو باتیں کرلیں……..!

 باتیں کرنے سے پہلے شائد کھنکاری یہ بھی ممکن ہے

کہ کہہ دے شش شش چپ چپ ،مردے کب باتیں کرتے ہیں

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *