Home / Socio-political / مسلمانوں کو ترقی کے دھارے میں لانے کیلئے ریزریشن ضروری

مسلمانوں کو ترقی کے دھارے میں لانے کیلئے ریزریشن ضروری

عابد انور

ریزرویشن ہندوستان کا ہمیشہ سے سلگتا موضوع رہا ہے یہاں اس کی شدت بھی زبردست محسوس کی گئی ہے کیوں کہ اعلی ادنی کا فرق یہاں ہر شعبے میں نمایاں رہا ہے ۔ ملک کا ۸۵ فیصد آبادی کو ہمیشہ عمداً کنارے پر رکھا گیا ہے اور ملک کے وسائل پر صرف ۱۵ فیصد لوگوں کا قبضہ رہا یہ قبضہ صرف زمین، جائداد اور سرکاری ملازمت تک محدود نہیں رہا بلکہ صنعت و تجارت پر بھی رہا۔اقلیتوں سمیت ملک کے پسماندہ طبقات کی آبادی ملک میں ۸۵ فیصد ہے لیکن وسائل کے استعمال کا تناسب صرف ۱۵ فیصد ہے۔ سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ خدمات مہیا کرنے کے لے کر سیاست تک میں اعلی ذات کا تناسب ان کی آبادی سے کئی گنا زیادہ ہے۔ یو پی اے حکومت نے تناسب کے اس فرق کو دور کرنے کے لئے اعلی تعلیم اداروں میں پسماندہ طبقات کو ریزروریشن دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ کانگریس قیادت والی متحد ہ ترقی پسند اتحاد حکومت نے ۲۰۰۷ میں اعلی تعلیمی اداروں میں پسماندہ طبقات کے لئے ۲۷ فیصے ریزرویشن دینے کا فیصلہ کیا تھا اس فیصلے کے بعد پورے ملک میں ایک طوفان بپا ہوا تھا ۔حالانکہ حکومت نے یہ وضاحت کردی تھی کہ جنرل کوٹے کے طلباء کو کوئی بھی نقصان نہیں ہوگا اور نہ ان کا حق مارا جائے گا بلکہ حکومت ان کے الگ سے نئی گنجائش پیدا کرے گی لیکن اس وضاحت کے باوجود پورے ملک میں اس فیصلے کے خلاف احتجاج ہوا تھا ان میں خاص طور سے یوتھ فار ایکویلیٹی ریزیڈنٹس ڈاکٹرس ایسوسی ایشن، آل انڈیا ایکویٹی فورم، اشوک کمار اور شیو کھیڑا وغیرہ شامل تھے۔ ان لوگوں نے صرف احتجاج سے ہی کام نہیں لیا بلکہ اس فیصلے کے خلاف کئی عرضی بھی دائر کی گئی۔ سپریم کورٹ نے اس فیصلے پر روک لگادی تھی لیکن مرکزی حکومت کی اپیل پر عدالت عظمی نے یہ معاملہ آئینی بینچ کے حوالے کردیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس ضمن میں تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کے پاس او بی سی کو ریزرویشن دینے کے لئے کوئی ٹھوس اعداد و شمار نہیں ہے۔

۱۹۳۱ کے بعد اب تک ذات پات پر مبنی مردم شماری نہیں ہوئی ہے ۔منڈل کمیشن نے بھی ۱۹۳۱ کے پسماندہ طبقات کے اعداد و شمار کو بنیاد بنایا ہے ۔ اس اعداد و شمار پر کئی اداروں اور خاص کر اعلی ذات سے وابستہ افراد نے سوال اٹھائے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اتنے پرانے اعداد و شمار کو کس طرح بنیاد بنیا جاسکتا ہے لیکن اوبی سی ریزویشن حامیوں کا کہنا ہے جس طرح دیگر ذاتوں کے بارے میں ۱۹۳۱ کی مردم شماری کو بنیاد بنایا گیاہے اسی طرح او بی سی کو بنایاگیا ہے۔ جس طرح دیگر ذاتوں کے تعداد میں اضافہ ہوا ہے اسی طرح پسماندہ طبقات کے ذاتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ بلکہ اگر ہندوستان کے حالات دیکھے جائیں خاص کر دیہی علاقوں کے یہ بات زیادہ سچ ثابت ہوتی ہے کہ غریب کے یہاں زیادہ بچے پیدا ہوتے ہیں اس حساب سے پسماندہ طبقات کی آبادی اور زیادہ بڑھنی چائیے۔ پسماندہ طبقات اور ذات کا پتہ لگانے کے لئے سب سے پہلے کاکا کالیکر کمیشن ۲۹ جنوری ۱۹۵۳ کو قائم کیا تھا جس نے ۲۳۹۹ ذاتوں کو پسماندہ ۸۳۷ کو بے حد پسماندہ تسلیم کیا تھا ۔ دوسرا منڈل کمیشن کا قیام ۱۹۷۹ میں ہوا تھا جس نے ۱۹۳۱ کی ذًات پات پرمبنی مردم شماری کو اپنی رپورٹ کی بنیاد بنایا تھااس میں نے ۳۷۴۳ ذاتوں کو پسماندہ تسلیم کیا تھا اور ان کی آبادی ملک کی آبادی کا ۵۲ فیصد بتایا تھا۔ یہی وہ تلخ حقائق تھے تمام سیاسی پارٹیوں کو پسماندہ طبقات کی فلاح بہبود کے لئے سوچنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ ۱۹۹۰ کی دہائی کو دلت اور پسماندہ طبقات کے لئے بہترین سال کہا جائے گا جب منڈل کمیشن کا نفاذ ہوا اور اس کے ایس ٹی، ایس سی اور او بی سی کو ملازمت میں ریزرویشن کے ساتھ پرموشن میں ان کے لئے تحفظات کی گنجائش رکھی گئی تھی۔ او بی سی میں کچھ مسلمانوں کو بھی شامل کیا گیا تھا۔

ہندوستان میں ریزرویشن کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ یہاں عدم مساوات کی جڑیں ۱۵۰۰ ق م سے پیوست ہیں جب یہاں آرین آئے اور یہاں کے اصلی باشندوں کو غلام بناکر ان کو تمام حقوق سے محروم کردیا۔ اس وقت سے یہاں پسماندگی ختم نہیں ہوئی اور شاید اس وقت بھی حالات ویسے ہی ہوتے اگر دنیا گلوبل نہیں بن جاتی۔ دنیا کے گلوبل بننے اور یہاں کے عدم مساوات کے لئے بارے میں دنیا کو باخبر ہونے کی وجہ سے یہاں کے سیاسی رہنماؤں کو مجبور ہونا پڑا کہ وہ اس پر غور کریں تاکہ بیرون ملک کسی طرح کی شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یہ الگ بات ہے کہ آج دلت طبقوں کو کے ساتھ چھوت چھات کا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ آج ہندوستان کے ہزاروں گاؤں ایسے ہیں جہاں دلت کا کوئی فرد اعلی ذات کے افراد کے سامنے سے سوار ہوکر گزر نہیں سکتا۔ سامنے گزرنے سے پہلے سائکل سے اترنا اور اپنے جوتے چپل اتار کر چلنا پڑتا ہے۔ ہم مذہب ہونے کے باوجود دلت مندر میں نہیں جاسکتے۔حکومت نے کمال ہوشیاری سے رفتہ رفتہ سرکاری نوکریاں ختم کردی ہیں نہ سرکاری نوکری رہے گی اور نہ پسماندہ طبقہ کو ملازمت حاصل ہوگی۔ پرائیویٹ سیکٹر میں ریزرویشن نافذنہیں ہے اور بڑے بڑے عہدے پر خواہ وہ سرکاری ہو یا غیر سرکاری اعلی ذات کے افراد قابض ہیں یہی وجہ ہے لاکھ منصوبہ بندی کے باوجود پسماندہ طبقات کی پہنچ ہر جگہ نہیں ہورہی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں بھی آج نہ کل ریزرویشن نافذ ہوجائے گا ۔ سیاسی رہنما ووٹ حاصل کرنے کی خاطر اس کام کو بحسن خوبی انجام دیں گے۔

یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں غربت کا اژدھا دن بہ دن موٹا ہوتا جارہاہے یہاں جتنے غریب ہیں امریکہ کی اتنی آبادی نہیں ہے یہاں خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد تقریباًً ۴۰۰میلین ہے جب کہ امریکہ کی آبادی ۳۰۲ میلین ہے ۔ صحیح معنوں میں اگر ہندوستانی حکومت غربت کو ختم کرنا اور پسماندہ طبقات کی فلاح و بہبود کے لئے قدم اٹھانا چاہتی ہے تو اسے زمینی سطح پر کام کرنا ہوگا اور منصوبہ کی نگرانی کرنی ہوگی اور عمل نہ کرنے والے افسران کو ان کے عہدے سے برطرف کرنے کے ساتھ ساتھ جیل بھیجنے کا انتظام کرنا ہوگا ۔ آپ سوچیں گے کہ ایسا سخت قدم حکومت سے اٹھانے کو کیوں کہا جارہا ہے تو یہ بتادیں کہ حکومت اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کی فلاح و بہبود کے لئے مستقل قدم اٹھارہی ہے لیکن اس قدم کا ثمرہ ان تک نہیں پہنچ پاتا۔ منڈل کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ملک میں اعلی ذات کی آبادی ۱۵ فیصد ہے لیکن سیاست میں ان کا حصہ ۶۶ فیصد تھا، خدمات میں ۸۷ فیصد تجارت میں ۹۴ فیصد اور ان کے زمین ۹۲ فیصد ہے۔ اقلیتوں سمیت دیگر پسماندہ طبقات کی آبادی ۸۵ فیصد ہے لیکن سیاست میں ان کا حصہ صرف ۳۴ فیصد ہے جب کہ ملازمت میں ۱۳ فیصد، تجارت میں چھ فیصد اور ان کے پاس زمین صرف ۸ فیصد ہے۔یہ وہ تلخ حقیقت ہے جس نے دلت طبقوں میں بیداری کی لہر پیدا کی ہے اوران میں سے بہت سے رہنما پیدا ہوئے جنہوں نے دلت کاز سے زیادہ اپنا بھلا کیا۔ جب تمام کلیدی عہدے پر اونچی ذات کے افراد فائز ہوں تو وہ کیوں کہ دلتوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کریں گے۔

مسلمان ہندوستان میں نئے دلت ہیں۔ دنیا میں ایسا پہلا ملک ہوگا جہاں دلت سے بدتر مسلمانوں کی زندگی بنادی گئی ہے۔ ایک سروے میں پتہ چلا ہے کہ ملک کے تقریبا ایک تہائی مسلمان 550 روپے ماہانہ سے بھی کم آمدنی پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ نیشنل کونسل فار ایلائڈ کنومک ریسرچ (این سی اے ای آر) کے مطابق سال 2004-05 میں ہر 10 میں سے تین مسلمان خط افلاس کے نیچے زندگی گزر بسر کر رہے ہیں۔غریب مسلمانوں میں بھی جو شہروں میں رہتے ہیں ، ان کی حالت گاوٴں میں رہنے والے مسلمانوں میں سے کچھ بہتر ہے۔گاوٴں میں رہنے والوں کی آمدنی محض 338 روپے ماہانہ کی تھی۔ اس کے علاوہ شہری علاقوں میں تقریبا 38 فیصد اور دیہی علاقوں میں 27 فیصد مسلمان خط افلاس کے نیچے بدترین حالت میں گزر بسر کر رہے ہیں۔ان کی تعلیمی ،اقتصادی اور معاشرتی حالات کیا ہیں یہ سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیشن نے واضح کردیا ہے اس مزید روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے۔ ضرورت اگر ہے تو عمل کی تاکہ مسلمانوں کی حالت دیگر برادران وطن کی طرح بہتر ہوسکے۔ سردست ریزرویشن سے بہتر کوئی متبادل نظر نہیں آرہا ہے۔ مسلمانوں کو مراعات دینے کی بات سبھی پارٹیاں کرتی ہیں لیکن جب انہیں سہولت دینے کی بات آتی ہے تو ہندوستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ کچھ پارٹیاں ریزرویشن کی بات کرتی ہیں لیکن جب برسراقتدار آجاتی ہیں تو وہ بھول جاتی ہیں جیسا کہ نتیش کمار حکومت نے کیا ہے۔ انہوں نے انتخابات سے مسلمانوں کے لئے ریزرویشن کی بات کہی تھی لیکن دوبارہ اقتدار آتے ہی ریزرویش تو دور کی بات اس کے برعکس بہار میں مسلمانوں کا خون بہایا جارہا ہے۔ فاربس گنج پولیس فائرنگ اور بٹراہا قتل اس کی تازہ مثال ہے۔ آئندہ برس پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں ۔ تمام نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے مسلمانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لئے ریزرویشن کا لالی پاپ دکھانا شروع کردیا ہے۔ جن ریاستوں میں مسلمانوں کے لئے ریزرویشن نافذ ہیں وہ کانگریس کی دین ہے سوائے مغربی بنگال جہاں بایاں محاذ پارٹیوں نے الیکشن سے قبل مسلمانوں کو ریزرویشن دیا تھا۔ اس وقت کئی پارٹیاں ریزرویشن دینے کی بات کررہی ہیں ۔ اترپردیش کی وزیر اعلی مایاوتی نے تو اس ضمن میں وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو خط بھی ارسال کیا تھا لیکن محترمہ مایاوتی نے اپنے پانچ سالہ میعاد کے دوران مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کے بارے میں خیال نہیں آیا۔ سو ال یہ ہے کہ انہوں نے آندھرا پردیش کی طرز پر اپنی ریاست میں مسلمانوں کے لئے ریزرویشن کیوں نہیں نافذ کیا۔ اب چوں کہ الیکشن سر پر ہے اس لئے مایاوتی کو بھی مسلمانوں کی یاد آنے لگی ہے۔ اسی طرح ملائم سنگھ یادو نے وزیر اعلی رہتے ہوئے مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کی بات کبھی نہیں کی۔یہ خوش آئندہ بات ہے کہ کانگریس نے مرکزی سطح پر مسلمانوں کو ۴ فیصد ریزرویشن دینے کی بات طے کرلی ہے اور جلد ہی اس کا اعلان بھی آجائے گا۔ سوال پھر دوسری پارٹیوں سے بھی ہے انہوں نے مسلمانوں کے لئے کیا کیا ہے۔سچر کمیٹی، رنگناتھ مشرا کمیشن سمیت اقلیتی کمیشن نے اقلیتوں کو پندرہ فیصد ریزرویشن دینے کی سفارش کی جس میں دس فیصد مسلمانوں کے لئے مختص ہے۔ متبادل کے طور پر کمیشن نے سفارش کی ہے کہ دیگر پسماندہ طبقوں کے لیے 27 فیصد ریزرویشن کے کوٹے میں 8.4 فیصد کا سب کوٹہ اقلیتوں کے لیے مخصوص کرنے کے کہا ہے۔

کانگریس کی قیادت والی متحدہ ترقی پسند اتحاد حکومت نے ساڑھے چار فیصد ریزرویشن او بی سی کے ۲۷ فیصدکوٹا سے مسلمانوں کے لئے مختص کرنے کا فیصلہ کیاہے۔ یہ بات نہیں تھی کہ او بی سی کوٹا میں پہلے مسلمان شامل نہیں تھے فرق یہ ہوا ہے کہ ساڑھے چارفیصد مسلمانوں کے لئے مختص کردیا گیا ہے۔ منڈل کمیشن نے جب او بی سی کے لئے ۲۷ ریزرویشن کا انتظام کیا تھا تو اسی کے ساتھ مسلمانوں کو بھی او بی سی میں شامل کیا تھا لیکن حکومت اور انتظامی افسران نے کمال ہوشیاری سے مسلمانوں کے لئے کوئی کوٹا مقرر نہیں کیا جس کی وجہ سے خاطر خواہ فائدہ مسلمانوں کو نہیں مل سکا ہے۔ مرکزی حکومت کے مختص کردہ ساڑھے فیصد ریزرویشن اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے لیکن نہیں سے ہاں اچھا ہے۔ مسلمانوں کو اپنی جدوجہد باب اس پر بند نہیں کردینا چاہئے بلکہ پوری شدو مد کے ساتھ آبادی کے لحاظ ریزرویشن کا مطالبہ کرنا چاہئے۔

حب توقع بی جے پی کی بھنویں تن گئی ہیں۔ ان کے کئی لیڈروں نے ہندو کے حقوق پر شب خون سے تعبیر کیا ہے۔ اب مسلمانوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ بی جے پی کو کس نظر سے دیکھیں گے۔ بی جے پی میں شامل مسلم لیڈر سید شاہ نواز حسین، مختار عباس نقوی اور تنویر احمد اور دیگر کے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے۔ ویسے بھی ان لوگوں سے کوئی توقع رکھنا فضول ہے کیوں کہ پارٹی کی ہدایات مسلم لیڈران کے لئے (خواہ وہ کسی پارٹی کا ہو) قرآن و حدیث سے بڑھ کر ہے۔ مسلمانوں کو لیڈروں پر تکیہ کرنے کے بجائے خود آگے بڑھ کر اپنی آواز حکومت تک پہنچانی ہوگی اور کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا ہوگا جس سے حکومت مسلمانوں کی بات سننے اور تسلیم کرنے پر مجبور ہوجائے۔ اس کے لئے تمام مسلکوں کی وابستگی سے اوپر اٹھ کر اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔پانچ ریاستوں میں الیکشن کا اعلان ہوچکا ہے ۔گول ٹوپی، لمبی ٹوپی اورپگڑی سمیت گھاک گھاک نام نہاد مسلم لیڈر سامنے آئیں گے جس سے بچنے کی ضرورت ہے۔

مرکزی حکومت نے مسلمانوں کے لئے ریزریشن کا اعلان کرنے سے قبل رنگ ناتھ مشرا کی قیادت والے مذہبی اور لسانی اقلیتوں کمیشن کی رپورٹ کی بنیاد پر مسلم ریزرویشن کے معاملے میں تمام ریاستوں اور تقریبا دو درجن مرکزی وزارتوں سے ان کی رائے مانگی تھی۔اسی روشنی میں وہ سچر کمیٹی کی سفارشات اور آندھرا پردیش ، کرناٹک اور کیرالہ میں نافذ مسلم ریزرویشن کا بھی تجربہ کر چکی ہے۔ اتر پردیش میں مسلمانوں کی حالت کوئی زیادہ اچھی نہیں ہے۔ سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں دونوں ہی شعبوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کم ہے۔صوبے میں 18.5 فیصد آبادی کے برابر ہیں۔ ان میں س ے7.5 مسلمان ہی سرکاری ملازمتوں میں ہیں۔ کمیشن کی یہ سفارش آئین کے آرٹیکل 16 (4) کے تحت پوری طرح سے واجب ہے۔ کیونکہ آرٹیکل -16 ہر ہندوستانی کوعوامی منصوبہ بندی میں موقع کی مساوات کی ضمانت دیتا ہے۔پھر مساوات کا حق ہمارے بنیادی حقوق میں بھی شامل ہے ، لیکن اس کے باوجود سفارش کو نافذ کرنے میں ہونے والی عملی مشکلات کو دیکھتے ہوئے کمیشن نے متبادل کے طور پر دیگر پسماندہ ورگو کے 27 فیصد کوٹے میں 8.4 فیصد سب کوٹہ اقلیتوں کے لیے نشان کرنے کی سفارش کی تھی۔ بہار میں بے ضمیر مسلم لیڈر اور زکوة خور مولوی نتیش کمار کی تعریف میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں اور مسلمانوں کو ان کی طرف راغب کرنے کے لئے مختلف طرح کی نوٹنکی کر رہے ہیں۔ کبھی پسماندہ مسلمانوں کے نام پر کانفرنس ہورہی ہے تو کبھی دوسرے نام پر، لیکن سوال یہ ہے کہ نتیش کمار نے اپنے عہد کے چھ سالہ دور حکومت میں مسلمانوں کے لئے کیا کیا ہے سوائے زخم دینے، قبرستانوں پر قبضہ کروانے اور ہر شعبہ میں مسلمانوں کو نظر انداز کرنے کے، انہوں نے تو مسلمانوں کو نمائندگی کے حساب سے وزارت میں بھی جگہ نہیں دی ہے۔اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ ان لیڈروں کے ڈرامہ بازی کی سمجھیں اور ان کے بہکاوے میں نہ آئیں۔ یہ لوگ مسلمانوں کو بھیڑ دکھاکر صر ف اپنا الّو سیدھا کرنا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں نے اپنی پسماندگی دور کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا ہے۔ان لوگوں سے سیکولر ہندو اچھے ہیں جو مسلمانوں کے حق میں آواز تو اٹھاتے ہیں ۔ نتیش کمارحکومت مسلمانوں کو ریزریشن دینا تو دور کی بات ہے اس نے مسلم سول افسران کا ناطقہ بند کررکھا ہے۔

ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵

9810372335

abidanwaruni@gmail.com


*****

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *