پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین
مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی : حقائق اور اسباب
مذہبی نقطہ ٔ نظر سے دیکھا جائے تو تعلیم کے میدان میں مسلمانوں کو کسی بھی طور پیچھے نہیں رہنا چایئے تھا کیونکہ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’’ طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم و مسلمہ ‘‘ اس روشنی اور ہدایت کے با وجود مسلمانوں میں تعلیم کا رجحان فروغ نہ پا سکا۔ اسباب کی تفصیلات میں جائیں تو بہت کچھ مل جائے گا لیکن ذمہ داری کی بات کریں تو والدین اور قومی رہنماؤں سے لے کر حکومت تک کوئی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ۔ لیکن ایک دلچسپ اور حیرت افزا پہلو کا ذکر بھی ضروری ہے تاکہ اس کی روشنی میں یہ سمجھا جاسکے کہ مسلما ن کیوں تعلیم میں سب سے پیچھے ہیں ؟ ۔ دنیا بھر کے ممالک اور اقوام کا جائزہ لیں تو کہیں بھی ایسا نظا م نہیں ملے گا جو مسلمانوں کے درمیان ہے یعنی مفت تعلیم ، مفت رہائش اور مفت خورد ونوش۔ جی ہاں یہ نظام صرف مسلمانوں کے یہاں ہے کہ ہر خطے میں مدرسوں کا ایک جال بچھا ہوا ہے ۔ ایسا نظام جس کو آج تک دنیا کی بڑی تنظیموں نے تسلیم نہیں کیا اور نہ اس کو مستند سمجھا ۔ جبکہ چھوٹی چھوٹی تنظیموں کو دنیا کے بڑے اداروں نے تسلیم کیا ہے ۔ ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں انعام و اکرام سے نوازا بھی گیا حتیٰ کہ یتیم خانہ چلانے والے ، لڑکیوں کی تعلیم اور ان کو معاشی اعتبار سے خود کفیل بنانے والے کو دنیا کا اعلیٰ ترین ایوراڈ ملتا ہے جن میں لڑکیوں کی تعداد لاکھوں تک نہیں پہنچتی ۔ یہ بڑا سوال ہے کہ مدراس اسلامیہ جو یتیم خانے بھی ہیں اور مدرستہ البنات جن میں بڑی تعداد میں مسلم بچیوں کو تعلیم سے آراستہ کیا جاتا ہے ۔ آج تک نہ تو حکومت نے اور نہ کسی ملکی اور عالمی تنظیم نے ان مدراس کی خدمات کا اعتراف کیا ۔یہ بھی ایک وجہ ہے کہ اہل مدارس کی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی اس لیے وہ لکیر وں پر چلنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ یہیں ایک سوال یہ بھی ہے کہ ملک میں لٹریسی ریٹ ( شرح خواندگی ) کو بڑھانے میں یہ مدارس جو خدمات انجام دے رہے ہیں ان کو اب تک ہم نے بھی منوانے کی کوشش نہیں کہ ۔ آج کے اس تشہیری دور میں اس کی بھی ضرورت ہے کہ آپ جو کریں اس کی تشہیر بھی خود کریں ورنہ اس کی اہمیت کوئی نہیں سمجھتا ۔ ان سوالات کے آتے ہی ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ ان مدارس اسلامیہ نے خود اپنی سطح پر تعلیم کو آگے بڑھانے میں اور وقت کے تقاضے کو ملحوظ رکھنے میں کہیں کوتاہی تو نہیں کی ہے ؟ مسلمانوں میں خود مدارس کی اہمیت کم ہوتی جارہی ہے کہیں اس کی وجہ ہماری غفلت تو نہیں ؟ اس طرح کے بہت سے سوالات ہیں جن کے جواب دینے کا وقت اس لیے آگیاہے کہ آج مسلمانوں میں تعلیم کی شرح کم سے کم ہوتی جارہی ہے ۔
مدارس کا ذکر کر کے میں محض مدارس کو مورد الزام نہیں ٹھہرا رہا ہوں بلکہ ان مدارس کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کررہا ہوں کہ دنیا کا کوئی ایسا نظام ، کوئی اتنا بڑا نیٹ ورک نہیں جو ثواب دارین سمجھ کر ، قومی خدمت سمجھ کر تعلیم کو فروغ دے رہا ہو۔ یقینا ً مدارس نے ہندستان میں جو خدمات انجام دی ہیں ان کو زریں حروف سے لکھا جانا چاہیے۔ لیکن ساتھ ساتھ جو کوتاہیاں ہوئی ہیں ان پر بھی غور وخوض کی اشد ضرورت ہے ۔
مسلمانوں میں تعلیم کی گھٹتی شرح کے اسباب بہت ہیں ان میں سے ایک مسلمانوں کا ذہنی رویہ بھی ہے ۔اکثر لوگ بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں بات کرتے ہوئے اس کشمکش میں رہتے ہیں کہ ان کو کون سی تعلیم دی جائے ؟عصری تعلیم یا دینی تعلیم ۔ اس ادھیڑ بُن میں اکثر لوگ نہ ادھر کے رہتے ہیں نہ ادھر کے رہتے ہیں ۔تعلیم کو خانے میں بانٹنے کی ضرورت کیا ہے ؟ تعلیم تعلیم ہے اور مسلمان ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو اسلامی معلومات تو ہر حال میں ہونا ہی چاہیے ۔بنیادی تعلیم میں یہ شامل بھی ہونا چاہییے اس کے بعد آگے کی تعلیم بچوں کی ذہنی صلاحیت اور ذہنی رویے کے مطابق طے کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس پہلو پر غور و فکر کی ضرورت ہے ۔ ہندستان میں وسطی عہد سے اگر تعلیم کے رجحان کا جائزہ لیاجا ئےتو حیرت بھی ہوتی ہے اور افسوس بھی کہ کبھی تعلیم کے حوالے سےمسلم دور حکومت میں بھی کوشش نہیں کی گئی اور نہ کوئی ایسا نظام دیا گیا کہ تعلیم کو فروغ ملے لہذا شروع سے مسلمان اس ملک میں تعلیم کے میدان میں پیچھے رہے ۔ تقسیم ملک کے بعد بلکہ 1857 کے بعد سے تو عجیب کشمکش کا دور آیا ۔ یہاں روایتی تعلیم کا رواج تو تھا مگر کوئی منظم ضابطہ نہیں تھا ۔انگریزوں کی آمد کے بعد مسلمانوں کی جانب سے مخالفتوں کو بھی ایک سلسلہ شروع ہوا لیکن انہیں مخالفتوں کے درمیان سے نئی تعلیمی روشنی کی جانب بڑھنے کی بھی کوششیں ہوئیں ۔ ابھی اس انتشار کا دور ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ تقسیم ملک کے بعد تعصبات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک کسی حد تک موجودہے ۔ لیکن اس ملک کے جمہوری نظام نے یہ حق دیا ہے کہ آپ ان کو حاصل کر سکتے ہیں ۔