Home / Litrature / مشاعروں کی تہذ یبی اہمیت اور زبان کا فروغ

مشاعروں کی تہذ یبی اہمیت اور زبان کا فروغ

اردو زبان کے فروغ میں مشاعروں کی بڑی اہمیت رہی ہے ۔مشاعروں نے اردو زبان کو عوام تک پہنچانے اور مقبول بنانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔کسی بھی زبان کی ترقی و ترویج کے لیے ضروری ہے کہ وہ کثرت سے بولی اور سمجھی جا ئے۔اردو زبان جو ہندستان کی لینگوا فرینکا رہی ہے۔اس زبان کو اس مقام تک پہنچانے میں کئی سماجی اداروں نے اہم کردار نبھایا ہے ۔ ان میں خانقاہ ،دربار اوربازار کے علاوہ مشاعرے نے بھی نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ مشاعرے سے عام طور شعری محفل کا تصور ابھرتا ہے جو بہت حد تک صحیح بھی ہے مگر مشاعرہ صرف یہی نہیں ہے بلکہ مشاعرے اس کے علاوہ بھی اور کئی تہذیبی اور معاشرتی سیاق وسباق رکھتے ہیں۔مشاعرہ اردو کی حکائی روایتوں میں سے ایک بےحد مقبول سماجی ادارہ ہے۔ان مشاعروں نے تہذیبی اور ثقافتی روابط کواستحکام بخشنے اور لوگوں کو آپس میں ملنے جلنے کا ایک خوبصورت موقع دیا۔مشاعرے کے آغازکا یہ وہ زمانہ ہے جب عوامی سطح پر تفریحی مشاغل کا کوئی تصور نہیں تھا ۔ صرف حکمراں اور نوابین کو یہ مواقع میسر تھے ۔اگر اس مشہور شعر کو:

 

بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کے لیے

کوتحریف کر کے اس طرح پڑھا جائے تو بات اور واضح ہو جائے گی کہ:

بنا تھا عیش محض اہل حکمراں کے لیے

ایسے میں ان مشاعروں نے جہاں عوام کے لیے بھی یہ موقع فراہم کیا وہیں زبان و ادب کے دائرے کو بھی وسیع کیا ۔اور مشاعروں نے ادب اور عوام کے درمیان پُل کا کام کیا۔اس طرح ادب کا رشتہ سماج سے استوار ہونا شروع ہوا۔مشاعروں سے عوام کی دلچسپی کا سسبب یہ تھا کہ مشاعرے نہ صرف ذہنی تفریح و تفنن کا ذریعہ تھے بلکہ عوامی جذبات کے بھی نمائندہ تھے۔کیونکہ اصناف ادب میں شاعری سب سے زیادہ دلکشی اورسحر آفرینی رکھتی ہے۔اسی لیے عوام کو شعرو شاعری سے ہمیشہ دلچسپی رہی ہےاور مشاعروں نے ہمیشہ لوگوں کواپنی طرف مائل کیاہے۔شاعری میں جس طرح جذبات و احساسات کی ترجمانی ممکن ہے وہ نثر میں نہیں ہو سکتی۔اکثر اشعار اس طرح جذبات و کیفیات کی عکاسی کرتے ہیں کہ سننے والا اس میں اپنے دل کی دھڑکنوں کو محسوس کرتا ہے۔شاعری کی یہ کرشمہ سازی خود شاعر ی کو آفاقیت بخشتی ہے تو دوسری جانب عوام کو ادب سے قریب تر لانے کی بھی کوشش کرتی ہے۔

 

مشاعرے کی تہذیبی اور ادبی اہمیت پر مزید روشنی ڈالنے سے قبل اس کی ابتدا اور ترویج کی مدارج کو بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔میرا خیال ہے کہ دنیا میں اردو اور فارسی زبان کو ہی اِس وقت یہ امتیاز حاصل ہے کہ شعرا کے کلام کو لوگ بڑے اجتماعات میں اتنی دلچسپی سے سنتے ہیں ۔حالانکہ عربی زبان سے اس روایت کا آغاز ہوتا ہے۔مگر مقبولیت اور چلن کے اعتبار سے اردومیں اس کی روایت زیادہ طویل اور مستحکم ہے۔زمانہٴ جاہلیت میں شعر وشاعری کا چرچہ عوامی سطح پر کس قدر تھا، اس کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے عرب کے قبائلی تمدن میں ہر قبیلے کے اپنے شعرا ہوا کرتے تھے اور اور جس قبیلے کے پاس جتنا بڑا شاعر ہوتا تھا اس کے لیے وہ فخر و امتیاز کا سبب تھا ۔ اسی لیے ادب کی سرپرستی یا شعرا کی سرپرستی کے نقطہٴ نظر سے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ سب سے پہلے ادب کی سرپرستی بھی اسی دور نے کی ۔

 

اس عہد میں تمام فنون لطیفہ میں شاعری کو خاص وقار حاصل تھا۔اسی لیے جن شعرا کے کلام کو سب سے زیادہ پسند کیا جاتا تھا اسے خانہٴ کعبہ کی دیوراوں پر آویزاں کر دیا جاتھا۔مگر یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہے کہ عکاظ کے میلے میں جو بڑے شعرا تھے وہ اپنا کلام خود نہیں سناتے تھے بلکہ ان کے روای ہوا کرتے تھے۔ عکاظ کے میلے کے بعد عرب میں مجلس میں شعر پڑھنے کی یہ روایت اسلام کی آمد کے بعد بھی برقرار رہا مگر اب اسے عوامی تفریح کا ذریعہ نہیں سجمھا گیا بلکہ شاعری کو پاکیزگی اورنیک جذبات کے اظہار کا وسیلہ قرار دیا گیا۔ حسان بن ثابت کی شاعری کو لوگ بڑے اجتماعات میں سنتے تھے۔لیکن زمانہٴ جاہلیت کی وہ شعری روایت برقرا ر نہیں رہی جن میں عاشقانہ جذبات و کیفیات کو تلذذ کے ساتھ پیش کیا جاتا تھا۔ اس طرح یہ روایت کمزور بڑتی گئی اور اب چونکہ وہاں شہنشاہیت ہے اس لیے مجموعی طور پر ادب کو کھلی فضا میسر نہیں ہے۔تو شاعری کو بھی یہ مواقع کم ملتے ہیں۔

 

عرب کے بعد ایران میں شاعری کو دربار میں فروغ ملا اور بادشاہ کے سامنے ان کی شان میں قصائد پڑھنے کی روایت اتنی مضبوط ہوئی کہ عوامی مجلسوں کے بجائے شعرانے اپنا سارا زور قلم اورزور طبع قصائد پر صرف کر دیا۔ ایران کے مقابلے ہندستان میں اس کی رویات ذرا مختلف ہے ۔ہندستان میں ادب اور شاعر ی کوسب سے پہلے صوفیا نے جگہ دی اور یہیں سےشاعری پروان چڑھتی ہے۔نظام الدین اولیا کے دربار میں امیر خسرو کی شاعری کے علاوہ متصوفانہ کلام اور محفل سماع میں پڑھے جانے والے کلام اس حقیقیت کے غماز ہیں کہ اس دربار میں بھی ہندستانی زبان کو ہی تبلیغ و اشاعت کےلیے ذریعہٴ اظہار بنا یا گیا۔اسی طرح سعد الله گلشن ، مخدوم جہانگیر اور دوسرے تمام صوفیا نے اس زبان کو اپنا کر اس کے فروغ کے دروازے کھول دیئے۔صوفیا کے بعد اگر دربار کا جائزہ لیں تو اس ادارے نے بھی زبان کی سرپرستی کی اور زبان و ادب کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔لیکن عوامی سطح تک رسائی کے نقطہٴ نظر سے دیکھیں تو کئی حکائی روایتوں کے ساتھ ساتھ اردو کے مشاعروں نے سب سے اہم کردا ر ادا کیا۔

 

اس طرح یہ کہاجائے توبے جا نہ ہوگا کہ ہماری مشترکہ تہذیب کو جو ثقافتی ورثے ملے ان میں ایک وقیع ورثہ ’’ مشاعرہ ‘‘ بھی ہے۔ مشاعرہ یعنی شاعروں کا ایک ایسا اجتماع جس میں شعرا تقابل اور تسابق کا جذبہ لے کر جمع ہوں اور شائقین سخن کو اپنا کلام سُنا کر دادِ سخن لیں ۔ہندستان میں ایسی روایت اردو کے علاوہ اور کسی زبان میں نہیں ملتی کہ جس میں شعرا کا کلام سننے کے لیے عوام کا ہجوم جمع ہو اور شاعر عوام کی بھیڑ کے درمیان کھڑے ہو کر اپنا کلام سنائے اور اس بھیڑ کے شور ِبے ہنگام سے خراج تحسین وصول کرے۔اب البتہ مشاعرے کے مقابلے کوی سمیلن کا رواج بھی چل پڑ اہے لیکن جو مقبولیت مشاعر ے کو ہے وہ شاید کوی سمیلن کونہیں مل سکا ہے۔آج مشاعرے کی روایت عام ہے وہ ماضی کےمشاعروں سے بہت مختلف ہے کیونکہ جو تہذیب و آداب مشاعرے کی شناخت ہوا کرتے تھے ،اب وہ نئی تہذیب اور مشاعرہ باز شاعروں کے ہاتھوں مسمار ہو رہے ہیں۔کیونکہ آج کے مشاعروں میں ادب کم اور فن کا مظاہرہ زیادہ ہو گیا ہے۔ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی ہوڑ میں اور شہرت حاصل کرنے کی ہوس میں ابتذال ، پھکڑ پن ،سطحیت اور تُک بندی سے شعرا کام چلا رہے ہیں ۔ ماضی کے مشاعروں کی خصوصیت یہ تھی کہ مشاعرے عوام کے اندر ادب کا ذوق پیدا کرتے تھے ،اور اب عوام کے مذاق اور ذہنیت کو سامنے رکھ کر کلام لکھے جاتے ہیں ۔گویا اب ہمارا معاشرہ مشاعرے کے مزاج کو طے کرتا ہے۔اسی لیے عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مشاعرے کے شاعر اول درجے کے شاعر نہیں ہوتے

 

حالانکہ جب ہم ماضی کی جانب نگا ہ ڈالتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ان مشاعروں کو شعرا نے ہی شروع کیا۔ ان مشاعروں کے ذریعے نئے شعرا کی تربیت کی گئی۔اور مشاعروں نے نہ صرف انفرادی سطح پر یہ کام کیا بلکہ ان مشاعروں نے مختلف اسکول کے طور پر ادب کے نئے رجحان و رویے کو بھی طے کیا۔اسی لیے لکھنو ، دلی ، کلکتہ ، حیدرآباد ، رام پور اور عظیم آباد کے مشاعرے ان علاقوں میں ادب کی روشوں کو بتاتے تھے۔ ایک بڑا مشہور واقعہ یہ ہے کہ کچھ شوخ طبیعیت کے لوگوں نے لکھنو اور دلی کے شعرا کو اکسانے کے لیے اور ان کی ذہنی ساخت کا نشانہ بنانے کے لیے طرحی مشاعرے کی سوچی اور دلی اور لکھنو کے شعرا کے لیے الگ الگ طرح دی جو ان اسکولوں کی خصوصیت تھی۔

دلی والوں کے لیے یہ مصرعہ طرح دیا گیا:

اس لیے قبر میں رکھا گیا زنجیر کے ساتھ

اور لکھنو والوں کے لیے یہ مصرعہ طرح:

ناتواں ہوں کفن بھی ہو ہلکا

اب اس پر جو گرہ لگائی گئی وہ دیکھیں؛

دلی: حشر میں حشر نہ برپا کریں یہ دیوانے

اس لیے قبر میں رکھا گیا زنجیر کے ساتھ

لکھنؤ: ڈال دو سایہ اپنے آنچل کا

نا تواں ہوں کفن بھی ہو ہلکا

 

ان کے علاوہ اس وقت کے ادبی دبستانوں میں بھی چشمک تھی ۔دلی اور لکھنو کے حولاے سے آپ سب واقف ہیں ۔لیکن دبستان عظیم آباد کے حوالے سے ایک یادگار مشاعرے کی بات کریں تو یہ مشاعرہ بھی اسی چشمک کے سبب منعقد ہوا جو اب عظیم آبا د کے اہم تاریخی مشاعروں میں سے ایک ہے۔ اس مشاعرے کی تحریک یہ تھی کہ کسی گمنام دہلوی نے سید بادشاہ نواب رضوی کی خدمت میں ایک خط بھیجا، خط کا متن یون ہے:

 

”جناب سید بادشاہ نواب صاحب ! تسلیم

سنتا ہوں کہ آپ مشاعرہ کرنے کو ہیں۔ آپ لوگ پوربی ہوکر شعر کہنا کیا جانیں۔ استادوں کی غزل دیکھ کر تُک میں تُک ملا دیجیے گا۔ یہ اللہ نے لکھنو<!–[if !supportFootnotes]–>


<!–[endif]–> اور دہلی پر ختم کیا۔ بھلا آپ اور یہاں کے جو شاعر اچھے ہیں یہ طرح بھیجتا ہوں اس میں اگر موزوں کردیں تو میں اپنی ناک بِدتا ہوں ۔ اور یوں تو واہیات بکنے کو سب موجود ہیں۔ “ ( ۵۲ اگست ۲۰۹۱ئ)

(عظیم آباد کا ایک یادگار مشاعرہ ۔ پروفیسر محمد یوسف خورشیدی)

اس خط میں چھ مصرع طرح دیے گئے تھے جو حسب ذیل ہیں۔

۱۔ ہمراہ شب تار سردوش ہوئی دھوپ

۲۔ قد ناپتی ہے زلف رسا سر سے پاؤں تک

۳۔ موت کا پیغام ہے اپنے لیے تاخیر صبح

۴۔ پُرنور صورت رخِ روشن ہے آفتاب

۵۔ تمہارے کوچے میں میری تربت برائے نام ونشاں رہے گی

۶۔ پرجھاڑتے ہیں مرغ سحر بولتے نہیں

اس خط کے لکھنے والے پر یقینا شک وشبہ کیا جاسکتا ہے۔ مگر ان کی فنکاری کے جوہر دیکھیں کہ باضابطہ مشاعرہ ہوا اور ان تمام طرحوں پر ایسے ایسے شعر کہے گئے کہ مصرع طرح بھی ماند پڑگئے۔ یہاں وقت نہیں تفصیلات کا صرف ایک مصرع طرح کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں

قد ناپتی ہے زلفِ رسا سر سے پاؤں تک

عام طور پر جس کی ردیف بڑی ہوتی ہے اس میں خیالات کو پیش کرنا محال ہوتا ہے۔ مگر عظیم آباد کے شاعروں کا کمال دیکھیں ۔

سن کر مرا فسانہ ٴغم ، بولے کہ جھوٹ ہے

پوچھا کہاں غلط ہے، کہا سر سے پاؤں تک کلیم فہیم الدین احمد فہیم

 

بولے جو آئی زلف رسا سر سے پاؤں تک

پیچھے لگی یہ کیسی بلا سر سے پاؤں تک سید احتشام الدین حیدر

زاہد کو حسرتوں سے نہ آزاد جانیے

ہے مبتلا ئے حرص وہوا سر سے پاؤں تک امداد امام اثر

اور ایک خوب صورت گرہ دیکھیں جو میاں ولایت نے لگاتی تھی

کام آئی کچھ نہ پردہ نشینی حضور کی

دیکھ آئی جاکے باد صبا سر سے پاؤں تک

پابوسیٴ حنائے کفِ پاکے شوق میں

آئی ہے ان کی زلف رسا سر سے پاؤں تک شوق نیموی

شاید صبا سُنا گئی افسانہٴ خزاں

یہ نخلِ باغ کانپ گیا سرسے پاؤں تک شاد عظیم آبادی

اسی طرح ایک اور مصرع کی بات کریں کہ جو کلکتہ کے ایک مشاعرے کے حوالے سے ہے۔اس میں داغ دہلوی کی غزل کے مطلع کے پہلے مصرعے کو طرح کے طور پر رکھا گیا۔یہ شعر اس طرح ہے:

بھنویں تنتی ہیں ،خنجر ہاتھ میں ہے تن کے بیٹھے ہیں

کسی سے آج بگڑی ہے جو وہ یوں بن کے بیٹھے ہیں

اس پر شمس کلکتوی نے یہ گرہ لگائی:

 

بھنویں تنتی ہیں ،خنجر ہاتھ میں ہے تن کے بیٹھے ہیں

مری بگڑی ہوئی تقدیر گویا بن کے بیٹھے ہیں

اس گرہ نے ایسا کمال دیکھایا کہ مشاعرہ اسی غزل پہ ختم ہوا ۔ اس غزل کا مقطع یہ تھا:

اگر الله نے چاہا تو اس کافر کو شمس اک دن

مسلماں کر کے اٹھیں گے، برہمن بن کے بیٹھے ہیں

ان تفصیلات سے یہ بتا نا مقصود تھا کہ یہ مشاعرے نہ صرف عوامی ادراے تھے بلکہ ان مشاعروں نے اصلاح سخن کی بھی ایک عظیم روایت قائم کی جس سے شعر فہمی اور شعر گوئی کو رواج ملا۔لیکن جیسے جیسے یہ روایت آگے بڑھتی گئی اس میں یہ تسابق اور تقابل کے جذبات تحقیر و تذلیل میں تبدیل ہوتے گئے۔اور آج اس کی جو شکل ہے وہ سب جانتے ہیں۔لیکن ہر روایت جیسے جیسے آگے بڑھتی ہے اس میں کچھ مفید اور خوشگوارتبدیلیاں بھی آتی ہیں۔آج مشاعرےکی روایت بہت آگےبڑھ چکی ہے اس کی مختلف اقسام ہیں ریڈیو مشاعرے ، ٹیلی ویژن مشاعرے ، یادگاری مشاعرے،ملکی اور بین الاقوامی مشاعرے ادب اور شاعری کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں ۔اس کے علاوہ ان مشاعروں سے ایک سماجی فائدہ یہ بھی ہو رہا ہے کہ ہماری مشترکہ تہذیب کی وہ روایت کہ ہند و مسلمان ایک دوسرے کی تقریبات میں شرکت کیا کرتے تھے وہ سیاست کی فرقہ وارانہ ذہنیت کے سبب تقریباً ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ ورنہ ایک زمانہ تھا کہ محرم کے جلوس میں ہندؤں کی شرکت ہو تی تھی اور بہت سے ہندو گھرانوں سے تعزیے نکلا کرتے تھے اور مسلمان ان کی ہولی اور دیوالی کے تہواروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔ مگر اب یہ سب قصہ کہانی بن کر رہ گئے ہیں ۔لیکن یہ مشاعرےاب ان سماجی روابط کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔ ایسی صورت میں اب صرف مشاعرہ ہی ایسی تقریب رہ گئی ہے جس میں ہند مسلمان یکجا ہو کر ایک دوسرے کے سماجی اور تہذیبی اثرات قبول کریں ۔ اس لیے جہاں تک ہندستانی قومیت کے مفاد کا تعلق ہے اور جہاں تک اردو کے بین الاقوامی مزاج کی بحالی کا سوال ، یہ مشاعرے بلا شبہ ایک عظیم قومی اور لسانی خدمت انجام دے رہے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

About admin

Check Also

یوروپی ممالک کی جامعات میں اردو کی تدریس

پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین یوروپی ممالک کی جامعات میں اردو کی تدریس یوروپی ممالک میں اردو …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *