Home / Socio-political / مصلحتوں کے آسیر

مصلحتوں کے آسیر

عبا س ملک

جمہوریت کے عنوان کے تحت عوام سے جس قدر قربانی لی جا چکی ہے وہ جمہور کے ان حقوق کے تناسب میں کچھ بھی نہیں جن کا دعوی اس نظریہ کے مبلغ کرتے ہیں۔عوام کو کیا مشکلات در پیش ہیں اور ان کو کیسے حل کیا جائے یا عوام کو کیسے ریلیف دی جاے اس کی طرف کسی بھی سیاسی جماعت کی توجہ نہیں ۔ مرکز والے اپنے اختیارات کے چھن جانے کے خوف سے کبھی بھٹو اور کبھی بی بی کی خدمات کے واسطے دے کر اپنے اپنے کو بچانے کی سبیل کرتے ہیں۔اس کے مقابلے میں اپوزیشن بھی اپنی باری کے انتظار میں عوام کو کچلتے ہوئے دیکھ کر بھی صرف اس بات کا پرچار کیے جا رہی ہے کہ یہ حکومت عوام دشمن ہے۔ ان عوام دشمنوں کو عوام کو کچلنے کے لیے چار سال کی طویل مدت فراہم کرنے کے ذمہ دار بھی تو اپوزیشن والے ہیں۔ کیا ایک دفعہ بھی اپوزیشن حکومت کے خلاف جمہوری طریقے سے کوئی ایسی تحریک لا ئے جس سے حکومت کو یہ باور کرایا جا سکتا ہو کہ اپوزیشن کی موجودگی میں عوام کا اس طرح استحصال نا ممکن ہے ۔حکومت کو جب یہ باور کرایا جاتا رہا کہ وہ جو مرضی کرے لیکن ان کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں تو پھر حکومت سے کیا گلا شکوہ کیا جا سکتا ہے ۔اپوزیشن عوام کے حقوق اور جمہوریت کی اصل محافظ ہوتی ہے ۔جب محافظ خود ہی کہتے رہے کہ ہم حکومت کو گرانے کی کوشش نہیں کریں گے تو پھر حکومت کو کیا پڑی ہے کہ وہ کھل کر نہ کھیلے ۔ اس میں حکومت اگر امریکہ کے سامنے جھکے یا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی شرائط کے تحت عوام کی رگوں سے ان کا خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لے تو اس پر اس کا ہاتھ کون روک سکتا ہے ۔اپوزیشن نے تیل کی قیمت بڑھنے پر کیا حقیقی اپوزیشن جیسا احتجاج کیا۔کیا حکومت نے گیس کی صنعت کو جو قدغن لگائی اس پر اپوزیشن کے کوئی احتجاج کیا۔ملک کی معیشت کو ان دو اقدامات سے کس قدر نقصان ہو ا ، اس کا اندازہ لگانا کوئی دشوار امر نہیں ۔ موجودہ حکومت کی حلف برادری سے قبل اشیا ءصرف کی قیمتوں اور آج کی قیمتوں میں فرق اس کی عکاسی کرنے میں ہرگز بھی معترض نہ ہوگا۔ملکی معیشت کے اس عدم استحکام سے عام کاروباری شخص کے ساتھ اس ملک کے مزدور اور ملازم طبقہ افراد کو کس قدر مزید بار اٹھانا پڑا ۔ آج معمولی مشاہیرہ پر کام کرنے والا کوئی بھی شخص ضروریات زندگی کو پورا کرنے میں کس قدر زیر بار آچکا ہے اس کی ذمہ دار اگر حکومت وقت ہے تو اس میں برابر کا حصہ اپوزیشن کا بھی ہے ۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ فرینڈلی اپوزیشن کے کردار نے حکومت کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالے ۔اس وقت ایک غریب آدمی کی زندگی کی گذر اوقات کیسے ہوتی ہے اس سے نہ تو جاتی امرا کے محل نشین واقف ہیں اور نہ قصر سلطانی میں مقید سلطان معظم اور اور ان کے نمک خوار آگاہ ہیں ۔عوام کے ووٹو ں سے منتخب ہوئے نمک خوار کو پارٹی کے مستقبل کی تو فکر ہے لیکن انہیں اس حلف کی کوئی فکر نہیں جو انہوں نے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے کے بعد اٹھایا تھا ۔اس منصب کے حصول میں عوام کے کردار کو یکسر نظرانداز کرکے انہوں نے جمہور اور جمہوریت دونوں کی توہین کی ۔ وہ عوام کے منتخب نمائیندنے ہونے کے باوجود خود کو ایک شخص کا نامزد کردہ اور ایک پارٹی کا نمائیندہ ہی گردانتے رہے ۔ اس کا اظہار انہوں نے اپنے افکار و احکام دونوں سے کیا۔ اقتدار کی دوڑ میں شریک ہر کھلاڑی کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ ہی کامیاب ہو ۔اس کیلئے وہ ہر حربہ استعمال کرتا ہے ۔دین ، ملک ،قوم ، قومیت ، علاقہ اور احساسات و جذبات سے کھیلا کر خود کو کامیاب بنانے کیلئے کیا کچھ داﺅ پر نہیں لگایا جاتا ۔خود کو انسان دوست ، محب الوطن اور اس دھرتی کا بیٹا بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔پھر توجیہہ یہ پیش کی جاتی ہے کہ اس وقت کچھ اور عوامل تھے لیکن اندرون حکومت کچھ اور مجبوریاں درپیش ہوتی ہیں۔ پہلی دفعہ اسمبلی میں آنے والا تو شاید اس سے واقف نہ ہو لیکن جن عمریں اسی اسمبلی میں بیت گئیں اگر وہ اقتدار میں آنے سے قبل ان سے اگاہ نہ ہوئے تو پھر انہوں نے اپنی قابلیت اور فہم و فراست کا بھانڈا خود ہی پھوڑ دیا ۔چار سال میں جو کوئی عوام کو ریلیف نہیں دے سکا وہ اگے کیا دے گا ۔اگر عوام کو اب ریلیف دی جائے گی تو اس کا مطلب عوام کو اس کا حق نہیں بلکہ عوام کو رشوت دی جائے گی ۔ اسے دھوکا دینے کی کوشش کی جائے گی کہ ہم تو ایسا کرنا چاہتے تھے لیکن ہمیں وقت نہیں ملا ۔ اب اس کو مکمل کرنے کیلئے ہمیں مزید پانچ سال اور دئیے جائیں تاکہ ہم اس مشن کو مکمل کر سکیں۔ یہ پچھلی تین دہاہیوں کی سیاست کی اساس ہے ۔ہاشمی صاحب کو چالیس سال کے بعد آج پتہ چلا کہ وہ مصلحت کوش رہے ۔ عوامی نمائیندگی کے چالیس سالوں کو اپنی ذات کے لیے استعمال کرنے کا حق کس طرح اور کس نے دیا ۔ کیا یہ عوام سے دھوکا نہیں ۔ آج وہ کہتے ہیں کہ میں باغی ہوں ۔ اپنے آپ سے باغی اب بھی شاید نہیں ہو پائے ہونگے۔ اسی طرح ایک اور عوام دوست جو عوام کو انصاف کی فراہمی کے نا م پر دھوکا دینے میں مصروف کا ر ہیں۔ کیا یہ انصاف ہے کہ جنہوں نے محنت کی اور جن کی لگن سے آج وہ اس مقام تک پہنچے وہ تو آج سٹیج پر جگہ ہی نہ پاسکیں۔جنہوں نے اقتدار کے لیے شارٹ کٹ استعمال کیا وہ نائب اور چیف قرار پائیں ۔انہیں نائبین اور چیف صاحبان نے میاں نواز شریف ، بی بی ، مشرف کو اپنی پالیسیوں خواہشات اور ضروریات کے مطابق ڈھالا ۔اب وہ ایک نیا روپ دھار کر عوام کومزید دھوکا دینے کیلئے عمران خان کی تحریک انصاف کے پلیٹ فارم پر اکھٹے ہو رہے ہیں۔ عوام یہ سمجھ رہی ہے کہ اب ان کے دن پھرنے والے ہیں۔ یاد رہے یہ سطور گواہ ہیں اور اس سے پہلے بھی بارہا یہ لکھ چکا ہوں کہ جب تک موروثی سیاست کے یہ چا

رہ گر موجود ہیں کبھی بھی نوید سحر کی امید نہیں کی جاسکتی ۔بہروپیے اور مداری صرف وقت گذارنے کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ دیکھتے ہیں کہ ان کا وقت کس طرح بہتر گذر سکتا ہے ۔عوام اگر حقیقی طور پر تبدیلی کے خواہاں ہیں تو انہیں اپنی سوچ میں تبدیلی لا نی ہوگی ۔ اس کیلئے انہیں اسلامی تعلیمات اور اس اسلامی ضابطہ اخلاق کو اپنا نا ہوگا۔انہیں اپنے قول و فعل کو اسلامی اصولوں کے مطابق بنا نا ہوگا۔ انہیں اپنے جیسے لوگ منتخب کرنا ہوںگے جو یہ جانتے ہوں کہ غربت کیا ہے اور اس کے مسائل کیا ہیں ۔ محل سراﺅں کے مکین سوکھی روٹی کے ذائقے سے واقف نہیں ہوسکتے اور جہاں دولت آ جاتی ہے وہاں پر جھوٹ کا غلبہ اور سچ کو پس پشت ڈال دیا جا تا ہے ۔جھوٹ کے علم برداروں سے سچ کی ترویج کے امید نے آج عوام کواس حال پر پہنچا دیا لیکن عوام پھر بھی یہ نہیں سمجھ پائے کہ وہ کس کو اپنا راہنما بنائیں اورکس سے امید وفا رکھیں ۔موجودہ سیاسی قائدین میں سے اکثریت ان کی ہے جن کے اجداد نے بھی سیاست کی اوراب یہ ان کا پیشہ بن چکاہے اس کی عکاسی ان کے قول وافکار سے ہوتی رہتی ہے ۔عوام کو اپنے اپنی تقریری اقتباسات میں الجھا کر انہیں آسیر کرکے انہوں نے پشت در پشت حکمرانی کی لیکن عوام کو آج بھی ان ہی سے توقع ہے کہ یہ ہمارے انقلابی راہنما بنیں گے۔ شیخ چلی کا پلاﺅ نہ کبھی پہلے بن پایا اور نہ مستقبل میں اس کی امید کی جا سکتی ہے ۔عوام کو اپنی نمائیندگی کیلئے ان کی بجائے ان کو منتخب کرنا چاہیے جن میں ایمان وفراست کی کوئی جھلک نظر آئے اور وہ اقتدار کے سنگھاسن پر جا کر اپنی ذمہ داری کوبھول نہ جائیں ۔عوام بھی مصلحت کوش رہے تو پھر انہیں اگلے چالیس سال مزیدانتظارکرنا ہوگا کہ وہ ان سے یہ بیان سن پائیں کہ وہ عوام کی خدمت کرنے میں کوتاہ رہے اور اس کی انہیں معافی دیکر ان کے وارث کو خدمت کا موقع دیا جائے کیونکہ اب وہ چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہے ۔اور ان کے وارث تخت وتاج سنبھالنے لائق ہو گئے ہیں۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *