ذرائع ابلاغ کو کسی بھی معاشرے میں بڑی اہمیت حاصل ہے ۔یہ معاشرے کی راہنمائی کا سب سے اہم زریعہ ہے۔معاشرے کے بنانے اور بگاڑ میں اس کا بہت اہم کردار ہے ۔ہر میڈیا اپنے معاشرے کو سنبھالا دینے اور اسے گرانے میں دخیل ہے ۔ جنگ ستمبر میں ذرائع ابلاغ کے اتنا مضبوط اور ترقی یافتہ نہ ہونے کے باوجود اس کا معاشرے کی راہنمائی میں کردار اس کے سنہری باب اور دور ہے ۔عصر حاضر میں میڈیا سے بہت سی توقعات وابستہ کی گئی ہیں لیکن میڈیا ان توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہا ہے ۔ میڈیا کی سب سے اہم ذمہ داری خبردینا ہے اور اس کے بعد اس کے کام اپنی ثقافت کا دفاع اور اس کی تجدید وترویج ہوتا ہے ۔ میڈیا کا کام معاشرے میں برائی کے خلاف آوازبلند کرنااور اچھائی کو پرموٹ کرنا اجاگر کرنا ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ میڈیا اپنی ان ذمہ داریوں کو کس حد تک نبھا رہا ہے ۔ اس میں کس حد تک کامیاب ہے یا اس میں وہ ناکام ہے ۔ دیکھنے سے تو یہی لگتا ہے کہ میڈیا صرف خبر پہنچانے کی ذمہ داری پوری کر رہا ہے ۔ اس میں بھی وہ خبر کی تعریف کے عین مطابق خبر تو خبر ہے خواہ وہ سچ ہے یا جھوٹ ہے کی پاسداری کر رہا ہے ۔ اچھی صحافت کا بنیادی اصول یہی ہے کہ خبر تازہ ترین اور نزدیک ترین کی ہو اور معاشرے سے متعلقہ اور معاشرے میں بسنے والوں کی دلچسپی کی ہو ۔ اس کو صیح ہونے کی تصدیق کرنا میڈیا کی ذمہ داری ہے ۔ مصدقہ خبر کسی بھی ذریعہ ابلاغ کیلئے انتہائی اہم ہوتی ہے ۔یہ اس کا وقار بڑھانے میں اساسی کردار کی حامل ہوتی ہے ۔ میڈیا صرف خبر پہنچانے کی ذمہ داری نبھا کر کیا معاشرے کاچوتھا ستون ہونے کا حق ادا کر رہا ہے ۔ ظاہراََ تو ایسا نہیں ہے ۔ البتہ اس بات کا پرچار اور چرچا بہت کیا جاتا ہے کہ میڈیا اپنی معاشرتی ذمہ داری پوری کر رہا ہے ۔ ذرائع ابلاغ میں تحریری وتقریری سب آتے ہیں اور میڈیا میں تحریری اور تکلمی دونوں ذرائع آتے ہیں ۔ اخبارات وجرائد ورسائل تحریری ذمہ داری کے ساتھ تصویری ذرائع سے بھی ابلاغ کرتے ہیں ۔ تکلمی میں ریڈیو ، ٹی وی ، انٹرنیٹ آتے ہیں ۔ اخبارات کے مطالعہ ومشاہدہ سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ اخبارات سیاسی لیڈروں کے بیانات اور ان کی سرگرمیوں اور کرائم رپورٹنگ کے لیے مختص ہوگئے ہیں ۔ اخبارات میں کسی بھی اچھی سرگرمی یا عام آدمی کی کسی بھی اچیومنٹ کو ذرا برابر بھی اہمیت نہیں دی جاتی ۔ اخبارات میں معاشرے کیلئے کوئی سبق آموز خبریت کاعنصر بہت کم ہے ۔ میڈیا جس کو پرموٹ کرنا چاہیے نہیں کرتا اور جس کو نہیں کرنا چاہیے اسے پرموٹ کر کے اہمیت دے کر عوام کے ذہن نشین کراتا ہے ۔ ایسے افراد کو جنہیں ہرگز استحقاق نہیں کہ وہ میڈیا پر آئیں کو میڈیا عوام سے متعارف کراکے اور ان کے افکار کو عوام تک پہنچاتا ہے ۔ اگر میڈیا انہیں عوام کو نہ دکھائے اور انہیں وقت نہ دے ، اہمیت نہ دے تو یہ گمنامی کی موت سے ہمکنار ہو جائیں ۔میڈیا نے عوام کو ایسی علت سے متعارف کرایا جو نہ تو عوام کی ضرورت تھی اور نہ ہی معاشرے کیلئے ناگزیر ہے ۔ میڈیا عوام کو انٹرٹینمنٹ کے نام پر جو فحاشی ، عریانیت دکھاتا ہے وہ نہ تو ہمارے دین سے متعلق ہے اور نہ ہی ہماری معاشرت کیلئے ناگزیر ہے ۔ اس کے زیر اثر معاشرے میں غیرت کا عنصر کم ہوا ہے ۔ ہر کوئی عشق ممنوع کا کردار بن کر ہی سامنے آ رہا ہے ۔ کاش میں تیری بیٹی نہ ہوتی تو کیا پھر کلوننگ سے افزائش نسل کی جاتی ۔ میڈیا نے ایسے لوگوں کو مفکر اور مدبر کے روپ میں عوام کو متعارف کرایا جن کی گھر میں کوئی بات سننے کو تیار نہیں لیکن وہ قوم کو مشورہ دینے کیلئے آزاد ہیں ۔ میڈیا نے عوام میں جس چیز کو سب سے زیادہ پرموٹ کیا ہے وہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے ۔طاقتور اور قانون شکن کو میڈیا نے ہیرو بنا کر پیش کیا جس کی وجہ سے معاشرے میں قانون شکنی کا تناسب بڑھ گیاہے۔ نوجوان نسل نے قانون شکنی کو ہیرو ازم کا جزو اعظم سمجھ کر اس پر عمل کرنا شروع کر دیاہے۔ معاشرے میں افکار کے تضاد اور تعصب کی فضا کو بھی میڈیا نے کم کرنے کی بجائے اس میں اضافہ کیا ہے ۔میڈیا نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی جس کی وجہ سے انارکی کی کیفیت میں اضافہ ہوا ۔ صیح اسلامی معاشرت کی عکاسی کرنے میں میڈیا ناکام رہا ۔ معاشرے کو ایک جزو کے طور پر جوڑنے میں بھی میڈیا نے سستی کا مظاہرہ کیا ۔ میڈیا نے معاشرے کی راہنمائی کی بجائے خود کو پرموٹ کرنے کی تمنا کی آبیاری کرنے میں زیادہ تیزی دکھائی جس کی وجہ سے میڈیا کے وقار میں اضافے کی بجائے کمی واقع ہوئی ہے ۔ معاشرے میں میڈیا کا نام بھی معتوبین کے ساتھ ہی لیا جا رہا ہے۔ میڈیا نے معاشرتی ذمہ داریوں سے زیادہ اہمیت کمرشل ازم کو دے کر نہ صرف اپنی ذمہ داری سے انحراف کیا ہے بلکہ اس نے معاشرے میں کمرشل ازم کو بھی فروغ دیا ہے۔ دلنواز ادائوں سے لبریز کمرشل مناظر نے معاشرے میں بے باکی اور بے ادبی کی نئی روایات کو پروان چڑھایا ہے ۔میڈیا کو جس چیز میں کمرشل ویلیو نظر آتی ہے وہ اس کو اجاگر کر کے دام کھرے کرنے کی سوچ پر عمل پیرا ہے ۔ میڈیانے کبھی عام آدمی جس نے کوئی کارنامہ سر انجام دیا ہو کو پرموٹ نہیں کیا لیکن وہ ایسے افراد جن کی کمرشل ویلیو اس نے خود بنائی ہے کے ناشتے کی ٹیبل کو بھی اجاگر کرتا ہے ۔میڈیا کے نزدیک قابل احترام استاتذہ کی ویلیو ایک اداکار اور گلوکار سے کہیں کم ہے ۔ صرف کمرشل ازم کی وجہ ہے۔ عوام جن کو مسترد کرتی ہے میڈیا ان کو پھر عوام کے ہمدرد کے طور پر پیش کرتا ہے ۔ وقت حاضرکی کئی دیوقامت شخصیات صرف میڈیا کی بنائی ہوئی ہیں۔ میڈیا نے ہی عوام کو مجبورکیا اورعوام کو یقین دلایا کہ یہی وہ لوگ ہیں
جو تمھارے مسیحا ہیں اور ان کے ہاتھوں میں تمھارے زخموں کیلئے مرہم ہے ۔ ان کے ہاتھوں سے لگائے ہوئے چرکے ہی ان کے لیے پھندے بناکر ان سے ان کی قیمت اورعوام کو کیش کراکے ان کی قیمت الگ سے وصو ل کی جاتی ہے ۔ ریٹنگ عوام میں مقبولیت کے معیار اور گراف سے اپنے لیے کمرشل ویلیو بنا کر اپنے آپ کی قیمت وصول کر کے عوام کو راہنمائی کے نام پر گمراہی کی طرف دھکیلنا میڈیا کی ہوس ناکی کا ایک روپ ہے ۔ایک طرف میڈیا اسلامی تہذیب کے مخالف مغربی تہذیب کو پرموٹ کرتا ہے ۔ اسلامی ممالک میں کسی فلم کی عکس بندی کرنے اور اسلامی لوکیشنز کو دکھانے کی بجائے مغرب کو اور مغربی تہذیب و افکار کو اہمیت واولیت دی جاتی ہے ۔دوسری طرف اسلام کے نام پر چند سلائیڈز دکھاکر اورایسے افراد کو اسلام کی تبلیغ کا دمکتا ستارہ بناکر پیش کیا جاتا ہے جو خود اسلامی معاشرت کا عکاس نہیں ہوتا ۔ سلکی کڑھائی دار کپڑے ، نہ سنت کے مطابق داڑھی تو اس سے اس کا ناظر کیا اثر لے گا۔وہ یہ سمجے گا کہ یہی اصل تہذیب و معاشرت ہے جو اسے دکھائی اور سمجھائی جا رہی ہے ۔ اس سے اسلامی تہذیب وافکار کو اس حد تک آلودہ کر دیا گیا ہے کہ اب ایک عام ناظر کو سمجھنا دشوار ہے کہ اصل راہ کیا ہے ۔فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے بھی میڈیا کا کردار مبہم ہی رہا ہے ۔ اس پر ایک خاص طبقے کی ہی گرفت رہی ہے اور اس کو وہی استعمال کرتا آرہا ہے ۔ میڈیا کو مشن نہیں صرف کمرشل استعمال کرنے سے یہ تمام علت پیدا ہوئی ۔ اس سبب ہی معاشرے میں اخلاقی قدروں اور خود کو کسی بھی مشن کیلئے وقف کرنے کے عمل میں قلت پیدا ہوئی ۔ میڈیا کو اگر سوشل پوائینٹ آف وویو سے استعمال کیا جائے اور اس میں سے کمرشل ازم کو کم کیاجائے تو اس کے نتائج کو بہتر بنایا جا سکتاہے ۔ میڈیا پر ایسے عناصر جو معاشرے ملک وقوم کیلئے اہم نہیں یا ان کا کردار کم مائیگی اور کم ظرفی پر مشتمل ہے کے داخے سے پابندی سے بھی میڈیا سے بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔
معاشرتی رویے اور میڈیا
معاشرتی رویے اور میڈیا