پورارستہ جب اس کی ڈیڑھ سالہ بچی موٹرسائیکل کی ٹینکی پربیٹھی اپنی ماں اورپانچ سالہ بھائی کے ساتھ سفرکررہی تھی تواس کے باپ نے نجانے کتنی مضبوطی سے اس کوتھاماہوگا۔موٹرسائیکل کی رفتارکوبھی انتہائی آہستہ رکھاہوگا‘کہیں اونچی نیچی جگہوں پرپاوں زمین پررکھ کرگزاراہوگاکہ کہیں جھٹکے سے ننھی صوفیہ گرنہ جائے۔اس کے دونوں بازوغیرارادی طورپرتھامے ہوئے ہونگے لیکن وہ انہی بازووں میں اس خون آلودبچی کوتھامے بھاگ رہاتھا۔اس کی گردن پتنگ کی کٹی ہوئی ڈور پھرنے سے کٹ چکی تھی۔خون آلودبچی اس کے کپڑے بھگو رہی تھی اورپھر انہی مضبوط بازووں میں صوفیہ کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی اوربے جان جسم کے ساتھ اس کے رونے چیخنے کی آوازیں آنابھی بند ہوگئیں۔
میں سرخ لباس میں ملبوس صوفیہ کی وہ مسکراتی ہوئی تصویردیکھ رہاہوںجس میںاس نے سرخ گوٹے والا لباس چنددن پہلے اپنے باپ سے ضدکرکے عیدپرپہننے کےلئے بنوایاتھا اوراس بدنصیب باپ نے فیکٹری میں اوورٹائم کرکے اس کی خواہش کوپایہ تکمیل تک پہنچایاتھا۔ مجھے میرے ایک قاری نے یہ تصویر بھیجی ہے ۔یہ تصویرشائدکہیں بچوں کے صفحے پرہنستے مسکراتے بچوں کے درمیان سجنے کے قابل تھی‘مگرکیاہے اسے دیکھ کرتوآنسونہیں رکتے۔دل بندہوناشروع ہوجاتاہے‘تصویرپرنظریں نہیں جمائی جاسکتیں لیکن یہ ہنستی مسکراتی ہوئی تصویرکی حامل ننھی معصوم ہردیکھنے والوں کوبے اختیاراشکبارکررہی ہے اوروہ بدنصیب باپ کبھی اپنے ان خون آلودہاتھوں کودیکھتاہے اورکبھی مجبوری کی حالت میں آسمان کی طرف دیکھ کرنجانے اپنے رب سے کن الفاظ میں محوِ کلام ہے اورماں اپنی اکلوتی بچی کی لاش کے سرہانے کھڑی گم سم ہے اوراڑوس پڑوس کی عورتوں کی رونے کی آوازیں آسمان تک توپہنچ رہی ہیں لیکن اقتدارکے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے مست حکمرانوں کواس کی بالکل خبرنہیں۔
یہ ایک اور عجیب بدنصیب گھرانہ ہے۔پوراشہرہنسی میں غرق ہے ‘رقص ہے کہ تھمنے کانام ہی نہیں لےتا‘گیت ہیں کہ چاروں جانب گونج رہے ہیں۔بجلی آئے یانہ آئے‘جنریٹراس ماحول کوخراب نہیں ہونے دیتے‘لیکن اس گھرانے کی قسمت میں یہ نازونعم کہاں؟وہ توصبح سے بجلی کی آنکھ مچولی میں گرفتارہیں۔رات کااندھیراہے‘محنت مزدوری کرکے رزق کمانے والامنظورتھکاہارادیہاڑی لگاکرگھرپہنچاہے ۔اس کے ہاتھ میں تھوڑاسا کھاناہے جواس نے بسنت منانے والے گھر کے باہرفقیروں کی لائن میں کھڑے ہوکرحاصل کیاہے۔وہ سارادن کابھوکا ہے لیکن اس نے بھیک میں ملے کھانے کی ا مانت میں محض اس لئے خیانت نہیں کی کہ اگراس نے یہ کھاناکھالیاتوبچے گھرمیں پھر بھوکے سوجائیں گے۔منظورکی بیوی بچوں کوبہلاپھسلاکرسلانے کی کوشش کرہی ہے۔اندھیرے کے خوف بھی عجیب ہوتے ہیں‘نیندآکرنہیں دیتی۔اس نے اپنے چاروں بچوں کوکمرے میںبڑی مشکل سے سلایااورروشنی کےلئے بسترکے قریب موم بتی جلادی کہ بچے اندھیرے سے کچھ زیادہ ہی خوفزدہ ہورہے تھے۔بڑی مشکل سے اس نے اپنی مالکن سے دوعددموم بتیاں حاصل کی تھیںاوران موم بتیوں کےلئے اسے کڑوی کسیلی باتیں بھی توسننے کوملیں تھیں‘اورپھریہ ہنستابستاگھرقبرستان میں تبدیل ہوگیا۔
آگ نے اکبر‘اصغر‘انوراورمقدس کی جان لے لی۔ماں حواس کھوبیٹھی ‘بس بچوں کی لاشوں کے پاس بیٹھی لوگوں کورونے سے منع کررہی ہے کہ شورمت کرو‘ بچے سورہے ہیں۔پتانہیں کیوں اسے رونے کاشورتومحسوس ہوتاہے لیکن چاروں جانب چھتوں چوباروں ‘دالانوںاورکوٹھوں پراس بے خبر مخلوق کاشورسنائی نہیں دیتاجواس کے دکھ سے بے پرواہ محوِ رقص ہے کہ ان کے نزدیک کبھی کبھی توخوشی کے مواقع آتے ہیں۔جنہیں اندازہ ہی نہیںکہ ان کی پتنگ بازی سے شہرمیں ۰۰۱۴مرتبہ ٹرپنگ ہوئی اوربجلی منقطع ہوئی لیکن شائدبدنصیبی نے منظورکاہی گھردیکھاہواتھا۔لاشوں کے سرہانے بیٹھی سکتے میںآئی ہوئی ماں کی وہ تصویربھی عجب ہے ‘کتنے سالوں پرپھیلی اس خوں رنگ بسنت کی تاریخ دہرادیتی ہے۔
پتانہیں کیوںان ساری ہنستی مسکراتی ‘رقص کرتی تصویروں میں‘اپنی دھن میں مگن زندگی کی مسرتیں لوٹتے لوگوں کے چہروں پرمجھے ایک تمسخرنظرآتاہے ۔اس موت کاتمسخرجوہم سب کی طرف بڑھ رہی ہے‘جواس سال کے اس دن تین سالہ صوفیہ پرآئی جس کی گردن پتنگ کی ڈورسے کٹ گئی ‘نوسالہ آصف منیرپرآئی جو دھاتی تارلگنے سے بس مرغِ بسمل کی طرح پھڑپھڑایااوراگلے لمحے اپنے خالق کے ہاں پہنچ گیا‘دس سالہ جاوید پرآئی جوچھت سے گرا‘اورپھر اسے اٹھانے کےلئے گھر والے پہنچے توکسی کے پکارنے ‘بلانے‘چیخنے اورفریادکرنے کاجواب تک نہ دے سکا۔موت ان کے پاس بھی جاپہنچی جواپنی دھن میں مگن آسمانوں پرپتنگوں کے پیچ دیکھ رہے تھے‘کٹی پتنگ کے پیچھے بھاگ رہے تھے کہ گاڑی کے پہیوںپران کے خون کے دھبے دورتک نشانات بناتے گئے۔
جس شہرمیںرات بھرچھتیں بقعہ نوربنی رہیں‘قہقہے گونجتے رہےں‘رقص ہوتے رہےں‘خوشبودارکھانوں کی لپٹیں پھیلتی رہیں‘اسی شہر کی گلیوں‘محلوںاورگھروں سے ۱۲جنازے برآمدہوئے اورچھ سوکے قریب لوگوں کوان کے دوست اورعزیزواقارب اپنے ہاتھوںمیں اٹھاکرہسپتالوں میں مارے مارے پھرتے رہے اور اپنے ان عزیزوں کی صحت کےلئے اللہ سے گڑگڑاکردعائیں مانگتے رہے۔ہم کس بے حس معاشرے میں سانس لیتے ہیں‘کس بے روح کلچرکے نمائندے ہیں کہ جب میں نے ان بسنت منانے والوں سے ان المیوںکاذکرکیاتومسکراکرٹالتے ہوئے بس یہی بولے”لوگ توہرروزحادثوں میں بھی مررہے ہیں‘لوگوں کوخوشی منانے دو‘ایک ہی توموقع ملتاہے“اورپھرجب ایک ٹیلی ویژن چینل نے مزاحیہ پروگرام میں ایک بسنت کے رسیا سے سوال کیاگیاکہ بسنت سے لوگ مرتے ہیںتواس نے بلاتوقف جواب دیاکہ اس سے کہیں زیادہ تومسجدوں میں بھی تو لوگ مرتے ہیں‘کیامسجدوں کوبندکردیاجائے۔
لیکن میرادکھ عجیب ہے ‘میرادردانوکھاہے کہ ان کے مرنے پرلوگوں کی آنکھ نم ضرورہوتی ہے‘لوگ افسوس ضرورکرتے ہیں‘ماتم ضروربپاہوتے ہےں لیکن یہ کیابے حس لوگ ہیں کہ جنہیںاپنے تعیش میں ‘اپنے رقص وسرورمیںنہ چارسالہ بچی کی کٹی ہوئی گردن دکھائی دیتی ہے اورنہ ہی اس ماں کی دلخراش چیخیں۔ انہیںتوکٹی پتنگ‘رقص کرتی محفل اورچمکتی روشنیوںمیں یہ قیامت نظرہی نہیں آتی‘لیکن ایسے معاشروں میں جب لوگ یہ تصورکرلیں کہ ان کی بے حسی پرلوگ احتجاج نہیں کرتے اوروہ ان کی بے بسی کاتمسخراڑاتے جائیں توپھر ایسے ہی ہوتاہے جیسے ایک سردآتش فشاں کے دھانے پرلوگ پھول اگاکر‘گھربناکرخوش ہورہے ہوتے ہیں لیکن ایک دن بس ایک کھولتا پگھلتا‘چنگھاڑتالاواابلتاان کوچاروں طرف سے گھیرلیتاہے‘اورکسی کوکچھ سجھائی نہیں دیتا‘نہ رقص‘نہ پتنگ‘نہ سرور‘بس وہ آگ سے شدیداوربدترین جلا دینے والالاوہ بالآخران کو ڈھانپ لیتاہے اورپھراہل نظر کےلئے ان کی راکھ ماسوائے عبرت کے اورکچھ بھی تو نہیں ہوتی!
سوال یہ نہیں کیوں نورکی ہے بے قدری
سوال یہ ہے کہ ہے معتبراندھیرا کیوں