Home / Socio-political / معجزہ کے منتظر

معجزہ کے منتظر

                          

معجزہ کے منتظر
          عباس ملک

پاکستانی عوام سدا سے کسی مسیحا کے منتظر رہے ہیں۔ ہر دم کسی نہ کسی مصیبت میں گرفتار قوم کی نظریں کسی ان داتا کی تلاش میں ہوتی ہیں کہ کوئی انہیں اس دلدل سے نکالے ۔وہ جس کا ہاتھ تھامتے ہیں وہ انہیں دلدل سے نکال کر کھائی میں ڈال دیتا ہے۔ پھر وہ کسی اور دستگیر کا ہاتھ تھامتے ہیں تو وہ انہیں کسی اور طرف دھکیل دیتا ہے۔اس کھیل میں عوام ابھی تک ترسیدہ ترسیدہ ہی رہے ہیں۔ ہر راہنما ان کا ہاتھ تھامنے سے پہلے یہی دعوی اور وعدہ کرتا ہے کہ وہ انہیں منزل مقصو د تک باعزت اور با حفاظت پہنچائے گا۔ اسے دشمنوں اور دیگر خطرات سے بچائے گا ۔ جب اسے راہنما بنا لیا جاتا ہے تو پھر وہ ہم ستمگر اور وہی راہزن بن جاتا ہے۔ جمہوریت اور جمہور کا یہ کھیل چھ دہاہیوں پر مشتمل ہے۔ دنیا نے چھ دہائیوں میں اکاش کی منازل طے کر لیں ہم ابھی تک ارضی کیڑے کے کیڑے ہی ہیں۔

سیاستدان کہتے ہیں کہ مارشل لا نے اس ملک میں جمہوریت کی ترویج نہ ہونے دی جس سے قوم جمہوریت کے ثمرات سے محروم رہ گئی ۔ جنہیں وہ آمر کہتے ہیں اور جن کی وجہ سے جمہوریت کی ترویج نہیں ہو سکی ان کو سہارا دینے والے کون تھے ۔ مارشل لا کو دعوت دینے اور اس کیلئے زمین ہموار کرنے والے کون تھے۔ آمروں کی گود میں بیٹھنے والے اور ان کے کندھوں پر رکھ کر نشانے لگانے والے کون تھے۔ ایوب خان کی مسلم لیگ میں کیا فوجی جرنیل شامل تھے ۔کیاایوب کے دور میں محترمہ مادر ملت کے خلاف محاذ فوجیوں نے بنایا تھا۔ مادر ملت سے بڑا اس قوم کا محسن کس نے ایوب خان کو ثابت کیا تھا۔ اس کی مسلم لیگ میں کون شامل ہو کر اس کی آمریت کیلئے سہارا بنا تھا۔ وہ کیا سیاستدان تھے یا فوجی تھے۔ وہ سیاستدان ہی تھے جنہوں نے عوام سے سیاست کی اور اپنے مفاد کیلئے سیاست کی ۔

ضیا ء الحق کو مرد مومن مرد حق کس نے ثابت کیا ۔ یہ سیاستدان ہی تھے جنہوں نے جلسے جلوسوں میں اس آمر کے شانہ بشانہ جمہوری اقدار کو روندنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ مشرف کے بازو تھپتھپانے اور دبانے والے کون ہیں سیاستدان ہی ہیں۔ اس کے دست وبازو کون بنے کیا ان سے سب لاعلم ہیں نہیں سامنے ہیں سب لیکن فوج پر ملبہ ڈال کر اپنی غلطی اور کوتاہی کو تسلیم کرنے سے بچنا چاہتے ہیں۔ ایوب دور سے لے کر آج تک مارشل لا کو خوش آمدید کہنے والے دعوت دینے والے اور اس کے دست وبازو بننے والے سیاستدان آج اسی منہ سے اس کو گالی دیتے ہیں۔ جس تھالی میں کھایا اس میں پیشاب بھی کرتے ہیں۔ تھالی کے بینگن جس طرف کو بھاری دیکھتے ہیں اسی طرف لڑھک جاتے ہیں۔

ایوبی دور سے مشرفی باقیات آج بھی سیاسی عمل پر پوری طرح سر گرم عمل ہیں۔ ان سے اگر اس بارے میں سوال کیا جائے تو مٹی پائو کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا ۔ یہ رات گئی بات گئی کہہ کر اس سوال سے بچنا چاہتے ہیں۔ آج تک انہوں نے فوج کے چند لوگوں کے گناہ کا ذمہ دار پوری فوج کو بدنام کر کیا ۔ مارشل لا کسی سپاہیوں نے مل کر نہیں لگایا تھا چند جرنیلوں نے یہ قدم اٹھایا ۔اس پر پورے ادارے کو مورد الزام ٹھہرانا اور اس کے خلاف تنقید کے نشتر چلا کر اس کی قدر کو کم کرنا کیا قومی خدمت ہے۔اس سے جمہوریت کی اہمیت اور اس کی ترویج کو کتنا فائدہ ہوا۔فوج پر تنقید کیا جمہوری عمل کیلئے اہم ہے یا جمہوری اقدار پر عمل پیرا ہو کر حقیقی جمہوری تصور اور تصویر پیش کر کے جمہوریت کا اصل روپ دکھا نا جمہوریت کی تکمیل ہے۔سیاستدانوں نے گلیوں اور سڑکوں پر اپنے ناموں کی تختیاں لگانا جمہوریت کا سنگ میل سمجھ لیا ہے۔ ملک سڑکوں اور گلیوں کو پکا کرانے سے ترقی نہیں کرتے اور نہ ہی یہ سن صفر ہے اکیسویں صدی ہے۔ عوام کو معاشی تعلیمی اور صحت کے میدان میں کیا سہولیات بہم پہنچائی جارہی ہیں۔ یہاں گورنمنٹ کے ہسپتال میں ڈسپرین دستیاب نہیں لیکن ساتھ ہی پرائیوٹ ہسپتال قائد اعظم کے نام پر عوام کی کھال اتار رہے ہیں۔ صحت کی سہولت کو اب صنعت اور ڈاکٹر صنعت کار بن چکے ہیں۔ تعلیم کے نام پر سرکاری سکولوں کے استاتذہ تنخواہوں میں اضافے کیلئے جلسے جلوس اور ہڑتالیں کر کے تعلیم کی خدمت کر رہے ہیں ۔ جبکہ روٹس یعنی جڑ کو کھوکھلا کرنے کیلئے تعلیم کے نام پر فحاشی اور عریانی مغربی ثقافت کی ترویج کے گڑھ اب عوام سے پیسہ اور ایمان بھی چھین رہے ہیں۔ قوم کے خون پسینے کی کمائی سے قائم کردہ صنعتوں کو اجارہ داریوں نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی ذیلی تنظیمیں مزدوروں کے حقوق کے نام پر قومی صنعتوں میں ہڑتالوں اور جلسے جلوسوں سے ان کو کمزور کر کے پرائیوٹزیشن کے عمل میں ممدد ومعاون کا کردار ادا کر رہی ہیں۔

وزیر اعظم یا ان کی کابینہ نے کیا قومی خزانے سے قائم ان صنعتوںکیلئے سرمایہ لگایا ہے جو ان کو بیچنے کیلئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ پی آئی اے ہو یا سٹیل مل یا ریلوے ہو یا پی ٹی سی ایل یہ قومی خزانے کی ریڑھ کی ہڈی تھے ۔ ان سے حاصل کردہ رقوم سے حکومت کا کاروبار چلتا تھا ۔ پیڑول اور بجلی پر ہی زور دے کر عوام کو جمہوریت کے کون سے ثمرات سے سیرا ب کیا جا رہا ہے۔ ان پر اضافی بوجھ جو سیاسی کارکنوں کی بھرتیوں کی صورت میں اور جو غیر ترقیاتی اخراجات انڑٹینمنٹ کی صورت میں ہے وہ کم کرنے کے اقدامات کرنے میں جمہوریت کے نگہبانوں کے ہاتھ کیوں کانپتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ سیاسی کارکن ناراض ہو گئے تو سیاسی گدی کو دھچکا لگ سکتا ہے۔ سیاسی گدی کی حفاظت کو جمہوریت کی حفاظت اور اس سے تشبیہ دے کر جمہور اور جمہوریت کی خدمت کیسے ممکن ہے۔ زرو جواہر تخت وتاج کیلئے تو ہیں لیکن عوام اور جمہوریت کے دامن خالی ہیں۔

زندگی کا دامن خوشی سکون امن عزت غیرت وحمیت سے خالی ہے۔ اگر ایک انسان کو یہ میسر نہیں ہیں تو پھر اس کی زندگی میں او رحیوان کی زندگی میں کیا فرق ہے۔ زندگی کو زندگی بنانے میں حکمران کیا کردار ادا کررہے۔ جمہوریت کا راگ الاپنے اور اس کیلئے جدوجہد کرنے والوں کو جمہوری حقوق کی فراہمی کا سبق کب اور کیسے یاد آئے گا۔جمہوریت کے جتنی قربانی عوام نے دی ہے اور دے رہے ہیں وہ بلواسطہ حکمرانوں کی خدمت ہی ہے۔ حکمرانوں نے جو کچھ پایا ہے وہ عوام کی قربانی سے ہی پایا ہے۔ مخلوق خدا سے انسان ہونے کا حق چھننے اور ان کے منہ سے نوالہ چھین کر اپنی آسائش پر لگانا جمہور کی خدمت اور جمہوریت نہیں۔ جمہوریت کوئی معجزہ نہیں اور نہ ہی سیاستدان معجزاتی طاقتوں کے حاملین ہیں ۔عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی ۔ حکمران جب تک عمل کی طاقت سے قوم کی تقدیر کر بدلنے کی سوچ نہیں اپنائیں گے اس وقت تک عوام دلدل میں میں ہی گھستے جائیں گے۔ باپ گیا بیٹی ،بیٹی گئی شوہر اور اب صاحبزادے شکار کھیلنے نکلنے ہیں۔ یہ موروثی سیاست جمہوریت کا امتیاز نہیں۔ اسے بدلا جائے ۔ پارٹیوں کی قیادت خاندان سے باہر جانے دی جائے ۔ بھٹو خاندان ہو یا میاں صاحب کی مسلم لیگی گدی اس کو دوسروں کو منتقل کیا جائے تاکہ بادشاہت اور آمریت کا تاثر ختم ہو کر جمہوریت کا چہرہ سامنے آئے۔ یہ معجزے تب ہی رونما ہونگے جب حکمران عمل کرنے پر خود کو راضی کر یں گے۔ سب بڑا معجزہ تو یہی ہے کہ حکمران عمل پیرا ہونے پر راضی ہو جائیں۔ اپنی غلطیوں کو تسلیم کر کے ان کی تلافی پر کمر کس لیں۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *