سمیع اللہ ملک
امسال مئی کامہینہ توسنبھلنے ہی نہیں دے رہا۔۲مئی کے بعدآج تک گیارھویں حملے میں باجوڑکوہلاکررکھ دیاگیاہے اوراس سے پہلے ہنگومیں ضلعی پولیس اورانتظامیہ کے گھروں پرخودکش حملہ کرکے ۳۸سے زائدبیگناہ پاکستانیوں کوشہیداور درجنوں معصوم شہریوں کوموت وحیات کی کشمکش میں مبتلا کر د یا گیا،اس سے ایک دن پہلے پشاورکے سی آئی ڈی دفترپرخودکش حملہ کرکے نہ صرف عمارت کوزمیں بوس کردیاگیابلکہ آٹھ افراداپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ ابھی ۴۸ گھنٹے قبل حکومت اورعسکری اعلیٰ قیادت کااہم اجلاس ہواجہاں آئندہ کی حکمت عملی کااعلان کرتے ہوئے دہشتگردوں کے خلاف بڑی مضبوط اورمربوط کاروائی کاعزم کیاگیااورقوم کویہ نویدسنائی گئی کہ دہشتگردوں کوحملے سے قبل ہی ان کے ٹھکانوں پرتباہ وبربادکیاجائے گالیکن دہشتگردوں نے کھلم کھلاحکومت کوچیلنج کرتے ہوئے ایک دفعہ پھر للکارکراپنی کاروائی کرکے قوم کے ساتھ حکومت پربھی سکتہ طاری کردیاہے اورحکومت جو۲مئی کے بعدمسلسل غائب ہے ،اب عام شہری بھی اپنی حکومت کوڈھونڈرہاہے جنہوں نے ان کے جان ومال کی حفاطت کاحلف اٹھایاتھا۔
لیکن چارہفتے گزرنے کوہیں لیکن ابھی تک وزیراعطم یوسف رضاگیلانی یاصدرزرداری کوتوفیق نہیں ہوئی کہ قوم کے مورال یاحوصلہ بڑھا نے کیلئے براہِ راست خطاب کرکے اپنی موجودگی کی اطلاع فراہم کریں اورنہ ہی کوئی ایسا حکومتی ردعمل سامنے آیاہے جس سے کسی آئندہ پیش رفت کااندازہ ہوسکے۔اب تک وزیراعظم یاصدرنے کوئی ایسے اہم سیاسی اقدامات اٹھانے کابھی اعلان نہیں کیاجس سے پتہ چل سکے کہ حکومت قوم اورملک کے دفاع کیلئے کیاکرنے جارہی ہے۔ہوناتویہ چاہئے کہ ملک کے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور انتظامی امورکے اعلیٰ اعہدیداروں کاایک مشترکہ اجلاس بلاکرملکی داخلی سلامتی کے ان تمام ذمہ دارافرادکی سرزنش کی جاتی اور ہنگامی اورجنگی بنیادوں پرکسی ٹھوس لائحہ عمل کااعلان کیاجاتا لیکن معاملہ بالکل اس کے برعکس نظرآ رہاہے۔
اس دہشتگردی کی بیخ کنی کیلئے انتظامیہ ،پولیس اورسی آئی ڈی کاجوبنیادی کردارہوناچاہئے وہ کیوں تحلیل ہوگیاہے ؟آخرریاست کے یہ اہم ترین ادارے کیوں نظرنہیں آرہے جن کی ذمہ داری براہ راست اس ملک کے وزیرداخلہ کی ہے۔ وزیرداخلہ عبدالرحمان ملک پچھلے ساڑھے تین سالوں سے قوم کومسلسل فریب دیتے چلے آرہے ہیں اوراپنے لایعنی بیانات سے ملکی سلامتی کومزیدخطرات سے دوچارکررہے ہیں ۔کوئی ان سے پوچھنے والانہیں کہ یہ دہشتگردآخر کس طرح ملک کے اتنے بڑے شہرکراچی میں پہنچ کرنیول بیس مہران پرحملہ آور ہوئے؟ایک اطلاع کے مطابق وہ ملک سے باہرتوجاسوسی کے ایک نیٹ ورک فرم کوچلارہے ہیں لیکن ملک کے اندران کی صلاحیت کایہ عالم ہے کہ اپنی نااہلی کی بناء پرملکی سلامتی کو داوٴ پرلگادیاہے جس کی بناء پراب پاکستان کے نیوکلیر اثاثوں کی حفاظت پرعالمی برادری نہ صرف تشویش کااظہارکرہی ہے بلکہ دشمن طاقتیں پاکستان کی اس صلاحیت کوسلب کرنے کاپروگرام مرتب کررہی ہیں۔ وزیراعظم نے ابھی تک اپنے وزیرداخلہ سے یہ سوال کیوں نہیں پوچھااوران کی نااہلی کی بناء پرابھی تک ان سے استعفیٰ کیوں طلب نہیں کیاگیا؟
وزیراعظم کی غیرسنجیدگی کایہ عالم ہے کہ ۲مئی سے لیکر اب تک بارہ دن انہوں نے غیرملکی دوروں میں گزاردیئے ہیں۔اپنے ساتھیوں سمیت چاردن پیرس کی یاتراپرملک کے کروڑوں روپے لٹادیئے گئے ،چھ دن بیجنگ قیام کے بعددودن کراچی میں مصروف ہوگئے جہاں نیول ہیڈکوارٹرکے رسمی دورے کے بعدنواب شاہ صدرآصف زرداری کے والدکی تعزیت اور پیرپگاڑاکی عیادت میں صرف کردیئے۔گویاان اہم جنگی حالات میں وزیراعظم ملک کے دارلحکومت سے غائب رہے جس کی وجہ سے ملکی سلامتی کیلئے کوئی اہم اجلاس یاکاروائی نہ ہوسکی جس سے قوم کویہ پتہ چلتاکہ کہ ریاست بھی ملک وقوم کی سلامتی کیلئے فکرمندہے۔اس تمام عرصے میں قوم اس بات کی منتظرتھی کہ ریاست کی طرف سے کوئی ایسا اہم قدم اٹھایاجاتاجس کی بناء پران دہشتگردوں کی کمین گاہوں کاخاتمہ کیاجاتااورملک وقوم کوسکون کاسانس مہیاکیاجاتالیکن یوں محسوس ہورہاہے کہ حکومت کانظام مکمل طورپرمفلوج ہوچکاہے۔
پاکستانی قوم جواپنے سیاسی رہنماوٴں کی طویل خاموشی کی وجہ سے مضطرب تھی انہیں پہلی مرتبہ امریکاکے دواعلیٰ سیاسی اورفوجی عہدیداروں ہلیری کلنٹن اورمائیک مولن جوبیک وقت پاکستان میں ایک دفعہ پھر پاکستانی سیاسی وعسکری قیادت سے مکمل یقین دہانی حاصل کرنے آمنے سامنے بیٹھے توایوان صدرسے چارسطری مبہم ساپریس ریلیز جاری کردیاگیالیکن پاکستانی قوم کی بدنصیبی ملاحظہ کریں کہ اس ملاقات کی تفصیلات امریکی عہدیداروں کے میڈیابیانات سے موصول ہوئیں۔اس ملاقات میں پہلی مرتبہ پاکستان کی مکمل ٹرائیکایعنی سیاسی اعلیٰ قیادت کے علاوہ وزارت خارجہ اورمکمل عسکری قیادت موجودتھی۔ پہلی مرتبہ ۲مئی کے خطرناک اورقومی و ملکی سلامتی کی دھجیاں اڑانے کے واقعے پربات ہوئی۔دوگھنٹوں پر مبنی شائدیہ پہلی ملاقات مسکراہٹ سے مبراتھی جوفریقین کے چہروں سے بھی محسوس کی گئی لیکن اس ملاقات سے پہلے تنہائی میں ہلیری کلنٹن اورصدرزرداری اور مائیک مولن کی ملاقات جنرل پرویزاشفاق کیانی کی ملاقاتوں کااہتمام بھی کیاگیاتھا۔
اعلی امریکی قیادت نے پاکستانی اورامریکی میڈیاکے توسط سے ان ملاقاتوں کااحوال توبتایالیکن پاکستانی قیادت کی طرف سے اب بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کی گئی ہے۔پاکستانی قوم کوآج بھی بے خبررکھاگیاکہ آخران ملاقاتوں میں فریقین نے ایک دوسرے کے سامنے کیامطالبات رکھے اورآئندہ کیلئے کیایقین دہانیاں کروائی گئیں ۔ ہلیری کلنٹن نے پاکستانی قوم کویہ پیغام دیاکہ امریکااب بھی پاکستانی قوم سے دوستی کاخواہاں اورپاکستان کی ترقی میں دلچسپی رکھتاہے اورانہوں نے پاکستانی قوم کویقین دلایاکہ پاکستانی قوم کامستقبل بہت تابناک ہے اورآئندہ آنے والے خوشگواردنوں میں امریکاپاکستان کے ساتھ کھڑاہوناچاہتاہے۔ہلیری کلنٹن نے میڈیاکے سامنے گفتگوکرتے ہوئے کہا:”
مجھے یقین ہے کہ آنے والا وقت پاکستان کیلئے بہترین ہوگااورامریکااس وقت موجودرہناچاہتاہے جب پاکستان میں نئی شروعات کاوعدہ پوراہوگااورمشکل فیصلوں کے وقت ہم آپ کے ساتھ،آپ کی مددکیلئے کھڑے ہونگے تاکہ ایسا پاکستان اورایسا مستقبل تشکیل دیاجائے جس کے پاکستانی عوام حقدارہیں“۔آج پہلی مرتبہ ہلیری کلنٹن نے بھی پاکستان میں کرپشن کاذکرکیاجس کا ایک عرصے سے میں اپنے کالموں میں دہائی دیتاآرہاہوں۔ہلیری کلنٹن نے پہلی مرتبہ میڈیامیں یہ برملاکہا کہ”کرپشن میں کمی اورمعاشی ترقی کیلئے ابھی بہت ساکام کرناباقی ہے تاکہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعدتعمیرنوہوسکے،بجلی بآسانی فراہم ہوسکے اوردہشتگردوں اوران کی پناہ گاہوں کے خاتمے میں پیش رفت ہوسکے جس کیلئے دشوارانتخاب کرناہوگا“
پاکستانی قوم توملک میں جاری کرپشن کے بارے میں ضرورآگاہ ہے لیکن موجودہ حکومت کے کرپشن کے روش میں آج تک کوئی تبدیلی نہیں آئی اورہرآنے والادن ایک نئے سکینڈل کے ساتھ نمودارہوتاہے۔ہلیری کلنٹن نے آج پہلی مرتبہ اس بات کوتسلیم کیاکہ ”ڈومور“کامطالبہ صرف پاکستان سے ہی نہیں بلکہ امریکاکوبھی ”ڈومور“کرناہوگاتاکہ امریکااورپاکستان کے مشترکہ مفادات کوتقویت حاصل ہو۔”میں سمجھتی ہوں کہ پاکستان کی کامیابیوں کامزیداعتراف ہوناچاہئے،ہم اس اہم موڑپرکھڑے ہیں اورہمیں ساتھ مل کرمزیداقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اورمجھے یقین ہے کہ ہم یہ کریں گے اورآنے والے ہفتوں اورمہینوں میں ہم جائزہ لیں گے کہ ہم دونوں کس حدتک عملدرآمدکرپائے ہیں“۔میڈیاکے سامنے ہلیری کلنٹن نے پاکستانی قوم کویہ پیغام بھی دیاکہ”امریکاپاکستان کے مسائل نہ توحل کرسکتاہے اورنہ ہی امریکاکوایساکرناچاہئے،مسائل کے حل کا دارومدار پاکستان پرہے لیکن اپنے مسائل کے حل کیلئے پاکستان کوسمجھناچاہئے کہ امریکامخالف جذبات اورسازشی نظریات سے ان مسائل کوختم نہیں کیاجاسکتا۔یہ پاکستانی عوام پر منحصرہے کہ وہ کس قسم کاملک چاہتے ہیں اوریہ پاکستانی قائدین پرمنحصرہے کہ وہ پاکستانی عوام کیلئے نتائج سامنے لائیں“۔
اپنی پریس کانفرنس میں ہلیری کلنٹن نے یہ بھی کہاکہ”شدت پسندی کے خلاف دنیاکے کسی بھی ملک کے مقابلے میں پاکستان نے زیادہ جانوں کی قربانی دی ہے ،شدت پسندوں کے خواتین اوربچوں کوقتل کیا۔مسجدوں اوربازاروں کو نشانہ بنایاجنہیں انسانی جان کی کوئی قدرنہیں۔امریکااورپاکستان نے پاکستانی سرزمین پران دہشتگردوں کی ہلاکت یاگرفتاری کیلئے مل کرکام کیاہے،یہ سب دونوں حکومتوں ،فوجوں اورانٹیلی جنس ایجنسیوں کے باہمی تعاون کے بغیرممکن نہیں تھا،دونوں ممالک سمجھتے ہیں کہ ہمیں اب بھی فوری طورپربہت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے․․․․․․․ایساکوئی ثبوت نہیں کہ پاکستانی حکومت کے اعلیٰ سطح پرموجودکسی فردواسامہ بن لادن کی پناہ گاہ کی خبرتھی“۔ہلیری کلنٹن کی اس پریس کانفرنس میں ان کے بائیں طرف کھڑے امریکی افواج کے سربراہ مائیک مولن نے بھی پاکستان کی قربانیوں کااعتراف کرتے ہوئے بارہااس بات کواجاگرکیاکہ”اب بھی بڑی مزاحمت کی جارہی ہے ۔میں پاکستانی فوجیوں کی بہادری اورمہارت کااعتراف کرناچاہوں گاجنہوں نے اس لڑائی میں ہزاروں جانوں کی قربانی دی لیکن افراتفری کاشکاریہ کمزوردہشتگردغصے میں کاروائی کررہے ہیں اس لئے یہ لڑائی جاری رہنی چاہئے اوریہ پاکستانی اورامریکی افواج کے تعاون سے جاری رہنی چاہئے جس مین ہم ملکرکام کرسکیں․․․․․․ امریکاپاکستان کی قربانیوں کونہ صرف تسلیم کرتاہے بلکہ پاکستان اورامریکاکی افواج پاکستان اورامریکاکے دیگرسیکورٹی ادارے پاکستان اورامریکاکے مشترکہ دشمنوں کے خلاف آیندہ مشترکہ منصوبہ بندی کے تحت کاروائی کریں گے“۔
امریکی سیاسی وفوجی قیادت توبہرحال اپنی قوم کی خدمت کاجذبہ لیکر بڑے تدبراورغووفکرکے بعداپنے بیانات میں الفاظ کاانتخاب کرتے ہیں لیکن کیاوجہ ہے کہ اس ملاقات کااحوال پاکستانی قیادت کی بجائے امریکی سیاسی اورفوجی قیادت پاکستانی قوم کو فراہم کررہے ہیں ؟پاکستانی قیادت کی معنی خیزخاموشی کی آخرکیا وجہ ہے کہ ۲مئی کے دل دہلادینے والے واقعات سے لیکرآج تک کوئی ٹھوس حکومتی لائحہ عمل سامنے کیوں نہیں آیا؟ پاکستانی قوم آخرامریکی عہدیداروں سے نیک خواہشات کی تمناکیوں کرے؟ جبکہ پاکستانی قوم اپنی سیاسی وعسکری قیادت سے ملکی سلامتی کی امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے ۔کیاموجودہ سیاسی حکومت اس وقت پاکستانی افواج پرہونے والی عوامی شدیدتنقید کو اپنی کامیابی تصورکرتے ہوئے خاموش ہے ؟کیاحکومتی خاموشی یاروحانی سکتہ اس بات کاثبوت نہیں کہ اس معنی خیزخاموشی کا سب سے زیادہ فائدہ ہمارے دشمنوں کوپہنچ رہاہے؟ پاکستان کے دشمنوں کی یہ دیرینہ خواہش ہے کہ پاکستانی افواج کے مورال اورعوام میں اس محبت کے رشتے کوگزندپہنچائی جائے اور ملک کے سب سے منظم دفاعی اداروں کوناقابل تلافی نقصان پہنچایاجاسکے۔پارلیمنٹ کی مشترکہ قراردادمیں ایک اعلیٰ سطحی کمیشن قائم کرنے کااعلان کیاگیاتھالیکن کیاوجہ ہے کہ حکومت ابھی تک لیت ولعل سے کام لے رہی ہے؟ محسوس یہ
ہورہاہے کہ یاتو موجودہ سیاسی حکومت میں اس بحران پرقابوپانے کیلئے کوئی صلاحیت نہیں ہے یاپھر اس ساری خاموشی کے پیچھے کوئی بدنیتی کارفرماہے۔