Home / Socio-political / مغربی بنگال اور مہاراشٹر کی مشترکہ سنی ریلیف آسام پہنچی

مغربی بنگال اور مہاراشٹر کی مشترکہ سنی ریلیف آسام پہنچی

مغربی بنگال اور مہاراشٹر کی مشترکہ سنی ریلیف آسام پہنچی
۲۵!لاکھ نقد اور ۲۵!لاکھ روپئے کے برتنوں کے سیٹ متاثرین میں تقسیم
مشاہداتی رپورٹ از: ڈاکٹر رئیس احمد رضوی اللہ رب العزت اسلام کا محافظ ہے۔ مسلمانوں کا مدد گار ہے۔ مسلمان اس دنیا میں ہزار آزمائشوں سے گزرنے کے بعد بھی اپنے دین پر قائم ہیں۔ سخت مصائب اور بے انتہا ظلم و جبر نے ان کے ایمان اور یقین کو کمزور نہیں کیاہے۔ جوان بچے کی شہادت پر اس کی مظلوم بوڑھی اور بیوہ ماں کی آنکھوں سے آنسو تو چھلکتے ہیں مگر وہ اپنے پروردگار کا شکر ادا کرنا نہیں بھولتی۔ بچوں کو بیدردی کے ساتھ قتل کر دیئے جانے پر غم کا پہاڑ تو پورے خاندان پر ٹوٹا ہے۔ مگر یہ غم زدہ خاندان اپنے رب کے آگے سجدہ ریز ہے۔ جب ماں باپ بھائی بہن آن کی آن میں بے رحمی کے ساتھ قتل کر دیئے گئے تو پھر مال و اسباب کے لٹ جانے اور برباد ہو جانے کا صدمہ کیا حیثیت رکھتا ہے؟ آسام کے ریلیف کیمپ میں پناہ گزینوں کا یہی حال ہے۔ خوف، دہشت اور بے چارگی سے وہ ڈرے سہمے ضرور ہیں۔ مگر جب مسلمان ان کی مدد اور فریاد رسی کے لیے پہنچتے ہیں تو انھیں ہمت ملتی ہے، وہ حوصلہ پاتے ہیں یہی احساس ہمیں تین دنوں تک آسام کے فساد زدہ مسلمانوں کے درمیان رہ کر ہوا۔ مالیگاؤں، جلگاؤں، پارولہ، شہادہ، سٹانہ، چالیسگاؤں، ناگپور اور ممبئی کے مسلمانوں کو ہم نے آسام میں بھی دعائیں دیں کہ اگر یہ حضرات متوجہ نہ ہوتے تو ایک خطیر رقم ریلیف کی شکل میں ان مسلمانوں تک نہ پہنچتی۔ اللہ رب العزت انھیں جزائے خیر دے جنھوں نے سنی ریلیف کمیٹی کی اپیل پر اپنی مذہبی بیداری کا مظاہرہ کیا۔
ممبئی سے علمائے اہلسنت اور رضا اکیڈمی و آل انڈیا سنی جمعیۃالعلما کی اپیل پر کلکتہ اور مغربی بنگال سے بھی ریلیف کا قابل تحسین کام ہوا۔ مغربی بنگال کے سرکردہ علمائے کرام کے ہمراہ طے شدہ پروگرام کے مطابق ۱۷!ستمبر بروزپیر دوپہر دو بجے بذریعہ فلائٹ ہمارا ۱۰!رکنی وفد آسام کی راجدھانی گوہاٹی پہنچا اس وفد میں مالیگاؤں سے مفتی واجد علی یارعلوی اور راقم سطور، مجلس علماے اسلام مغربی بنگال سے مولانا محمد قاسم یارعلوی، رضا اکیڈمی کلکتہ سے مفتی محمد مختار عالم رضوی، مولانا سیف اللہ علیمی(صدر بزم رضائے مصطفی مغربی بنگال)، مولانا شاہدالقادری رضوی(صدر امام احمد رضا سوسائٹی کلکتہ)، مولانا غلام ربانی فریدی (صدر آل انڈیا جماعت رضائے مصطفی کلکتہ)، مولانا فہیم الدین اشرفی اور دیگر علمائے کرام و معززین شامل تھے، ائیر پورٹ پر ہی وفد کو سیکوریٹی حاصل ہو گئی، مولانا محمد قاسم یارعلوی اور رضا اکیڈمی کے صدر الحاج محمد سعید نوری ان دونوں صاحبان کی اپیل پر مغربی بنگال کے ریاستی وزیر جناب فرہاد حکیم اور مرکزی وزیر جناب سلطان احمد صاحب نے خصوصی دل چسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوجی کمانڈوز کی سیکوریٹی وفدکو مہیا کروائی۔ پورے دورے میں فوج کے سات جوان ہتھیاروں کے ساتھ اپنی فوجی گاڑی کے ساتھ ہر جگہ ہمارے ساتھ ساتھ رہے، اگر یہ انتظام نہ ہوتا تو کہیں جانا اور فلاحی کام کرنا ایک خواب بن کر رہ جاتا، ہم شکر گزار ہیں مرکزی وزیر جناب سلطان احمد صاحب اور ریاستی وزیر جناب فرہاد حکیم صاحب کے، اللہ انھیں جزائے خیر دے، بہر حال ائیر پورٹ سے ہی ہم لوگ گوہاٹی کے مسلم علاقے میں واقع ہوٹل پہنچے، جہاں پہلے سے ہی ہمارے قیام کا انتظام گوہاٹی کے محمد ایوب قریشی، محمد ثمر اصدق، حاجی محمدہارون صاحبان نے محترم الحاج محمد سعید نوری کی ہدایت پر کر رکھا تھا، ہوٹل میں ضروریات اور طعام سے فارغ ہونے کے بعد گوہاٹی کی مقامی سماجی اور مذہبی شخصیات کے ساتھ پروگرام کے عین مطابق دارالعلوم اہلسنت فیضان مصطفی میں ایک میٹنگ کا نعقاد ہوا۔ جس میں علی اصغر انصاری، مولانا ساجد حسن رضوی، عبدالقادر، محمد جاوید قادری، مولانا عابد نوری، مولانا نیازی، محمد سخاوت رضوی وغیرہ صاحبان بھی موجود تھے۔ دارالعلوم اہلسنت فیضان مصطفی کے صدر محمد ایوب قریشی نے آسام کے فساد زدہ علاقے کی تفصیلات وفد کے سامنے پیش کیں اور بتایا کہ جب سے کوکرا جھار ضلع اور چرانگ ضلع اور گوگائی گاؤں میں فساد پھوٹا ہے تب سے ہماری یہ پوری ٹیم متاثرین کی امداد و اعانت میں مصروف ہے۔ مختلف علاقوں کے ریلیف کیمپوں میں ایک محتاط اندازے کے مطابق۲۵!ہزار افراد مقیم رہے، اب تک نصف سے زائد پناہ گزیں یا تو اپنے گھروں کو واپس لوٹ چکے ہیں یا کہیں ہجرت کر چکے ہیں۔ محمد ایوب قریشی سے جب ہم نے کہا کہ مختلف ریلیف کیمپوں کے پناہ گزینوں کی تعداد آپ جو بیان کر رہے ہیں وہ تو بہت ہی کم ہے ہم نے تو سن رکھا ہے کہ ایک لاکھ سے زائد افراد پناہ گزیں کیمپوں میں زندگی کے دن گزانے پر مجبور ہوئے ہیں تو جواباً گوہاٹی کے مقامی معززین نے کہا کہ آپ حضرات کو اس ضمن میں جو اطلاعات موصول ہوئی تھیں وہ صحیح نہیں تھیں، البتہ اتنا ضرور ہے کہ یہ آسام کا بدترین اور دہشت ناک فساد تھا،جس کی بنیاد فرقہ وارانہ نہیں تھی بلکہ سیاسی علاقہ واریت تھی، گوہاٹی کے مقامی معززین نے اس میٹنگ میں بتایا کہ ابھی فی الحال ریلیف کیمپوں میں جو لوگ موجود ہیں وہ تقریباً ڈھائی ہزار خاندانوں سے وابستہ آٹھ سے دس ہزار افراد ہیں اگر ان کے لیے روز مرہ کے استعمال میں آنے والے برتنوں کا انتظام کر دیا جائے تو اس سے بہت بڑی ضرورت پوری ہو جائے گی، اس تجویز کو سننے کے بعد میٹنگ میں یہ بات طے کی گئی کہ روز مرہ کے برتنوں کے ڈھائی ہزار سیٹ فوری طور پر تیار کروائے جائیں جس میں بالٹی، جگ، گلاس، رکابی، بھگونہ،پیالی اور اسٹو وغیرہ شامل ہوں۔فوری طور پر مقامی تاجروں سے رابطہ قائم کیا گیا، برتنوں کا ایک سیٹ ایک ہزار روپئے میں طے ہوا۔ گوہاٹی کے مقامی افراد کی زبردست کوششوں سے برتنوں کے ڈھائی ہزار سیٹ ۱۸!ستمبر منگل کی رات ۱۰!بجے تک تیار ہو گئے۔ دس مقامی نوجوانوں کو معاوضہ دے کر اس کام کے لیے رکھا گیا، ان نوجوانوں نے معاوضے سے کہیں زیادہ بڑھ کر اپنی خدمات پیش کیں۔ ایک طرف جہاں یہ تیاریاں جاری تھیں تو دوسری طرف ریلیف کیمپوں کا دورہ کرنے کے لیے وفد نکل چکا تھا، مختلف کیمپوں کاجائزہ لینے کے بعد احساس ہوا کہ برتنوں کے جو سیٹ کی تیاری گوہاٹی میں جاری ہے یقینا و ہ ان بے سہارا مسلمانوں کی سخت ترین ضرورت ہے، اس دورے کے درمیان یہ بات بھی طے کر لی گئی کہ برتنوں کے سیٹ کے ساتھ ہر خاندان کو نقد ایک ہزار روپیہ بھی دیا جائے، ۱۸!ستمبر کی شام گوہاٹی پہنچ کر ڈھائی ہزار لفافوں کا انتظام کیا گیا۔ اور ہر لفافے میں ایک ایک ہزار روپے رکھ کر اسے پیک کر دیا گیا۔ ۱۹!ستمبر کو نماز فجر ادا کرنے کے فوراًبعد ۲۵!سے ۳۰!افراد پر مشتمل ہمارا قافلہ سب سے پہلے گری ماری عربی مدرسہ پہنچا، یہاں مقیم ۲۰۰!خاندانوں میں برتنوں کا سیٹ اور ایک ایک ہزار روپئے نقد تقسیم کیے گئے۔ اس کے بعد گری ماری ایل پی اسکول ہماراوفد پہنچا جہاں تقریباً ۷۰۰!خاندانوں کو برتن اور نقد ریلیف دی گئی ۔ ایل پی اسکول کے بعد ہم لوگ لکھی پور اسکول کے وسیع و عریض گراؤنڈ پہنچے جہاں ۱۰۰۰!خاندانوں میں برتنوں کے سیٹ اور نقد ریلیف تقسیم کی گئی، یہاں سے مونا کوچہ کے لیے روانگی ہوئی جہاں ۲۰۰!خاندانوں کو برتنوں کا سیٹ اور نقد ریلیف دی گئی، اسی طرح ہائی کوٹا گاؤں ، ڈھالی گاؤں، اور ن

یو بگائی گاؤں کے تقریباً تین سو خاندانوں میں برتنوں کا سیٹ اور نقد ریلیف وفد میں شامل علمائے کرام و معززین نے خود اپنے ہاتھوں سے پیش کی۔
۲۰!ستمبر کو فجر بعد دارالعلوم اہلسنت مخدومیہ سجو واڑی ہانی گاؤں ہمارا قافلہ پہنچا، اس مدرسے کو علامہ ارشدالقادری علیہ الرحمہ نے قائم فرمایا تھا، یہاں دارالعلوم اہلسنت مخدومیہ کے ناظم اعلیٰ مولانا نیازی صاحب کی صدارت میں ایک اہم میٹنگ کا انعقاد کیا گیا۔ اور یہ بات طے پائی کہ ایک میمورنڈم مرکزی وزیر جناب سلطان احمد صاحب، اور مغربی بنگال کے ریاستی وزیر جناب فرہاد حکیم صاحب کے توسط سے وزیر اعظم من موہن سنگھ اور صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کے علاوہ آسام کے وزیر اعلیٰ کو دیا جائے۔ فوری طور پر میمورنڈم تیار کر لیا گیا اور تمام حاضرین کی دستخط کے بعد مولانا محمد قاسم یارعلوی اور کلکتہ کے دیگر علمائے کرام کے حوالے کر دیا گیا۔ اس میٹنگ میں یہ بھی تجویز طے پائی کہ کم از کم دو سو سے ڈھائی سو خاندانوں کو دس، دس ہزار روپے کی مالی امداد دی جائے تا کہ اس کے سہارے وہ کچھ چھوٹا موٹا دھندہ شروع کر کے اپنی اور اپنے خاندان کی کفالت کر سکیں۔
۲۱!ستمبر کی صبح وفد مالیگاؤں پہنچا،اسی دن شب دس بجے مشترکہ سنی ریلیف کمیٹی کی ایک میٹنگ حسین سیٹھ کمپاؤنڈ میں منعقد ہوئی۔ جس میں وفد نے اپنے مشاہدات پیش کیے اور ذمہ داران نے ریلیف کے حوالے سے گفتگو کی اور آئندہ کے لئے لائحہ عمل طے کیا گیا۔ اس میٹنگ میں مشترکہ سنی تنظیم کے ذمہ داران میں مفتی واجد علی یارعلوی، صوفی غلام رسول قادری، الحاج یوسف الیاس، رضوی سلیم شہزاد، الحاج حنیف صابر، غلام مصطفی رضوی، جمیل رضوی،حافظ ساجد اشرفی، حافظ اسماعیل اشرفی، قاری مختار عطاری،شبیر احمد بی کام، حافظ سراج احمد رضوی،عقیل رضوی، نعیم رضوی ودیگر موجود تھے۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *