کل مفکر اعظم پاکستان چوہدری اعتزاز احسن کے افکار سے اگاہی حاصل ہونے کے بعد مزید مفکرین کے اقتباسات سے فیض یابی کا شرف حاصل ہوا۔یہ چھپے رستم جانے کہاں رہ گئے تھے کہ پاکستان ترقی کی منازل طے کرنے میں مشکلات سے دوچارہے ۔بات مشرف کے ٹرائل سے ہوتی ہوئی خارجہ و داخلہ امور کا احاطہ کرتے آرمی کے مورال پر اختتام پذیر ہوئی ۔ مشرف کا ٹرائل کرنے سے آرمی کا مورال ڈائون ہوگا۔ کیوں اور کیسے ہوگا یہ بات مفکر ین کے سوچنے کی نہیں ۔اس پر اب چائے کے ڈھابے اور بسوں ویگنوں میں مسافر آپس میں الجھیں۔ دفتروں میں کلرک اور دفتر رنرز اس پر بحث کریں ۔ مفکرین کا کام ہوتا ہے قوم کو سوچ کی راہ دینا اور پھر قوم کا کام ہے اس راہ پر چل دینا ۔ یہ وہ مفکر نہیں جو قوم کو راہ نجات دکھاتے ہیں بلکہ یہ وہ مفکر ہیں جو قوم بحث الجھائو کی راہ پر ڈال کر ترقی اور امن وسلامتی کی راہ سے گمراہ کرتے ہیں۔ مشرف سے آرمی کے مورال کا کیا تعلق ہے ۔ آرمی پروفیشنل ادارہ اور اللہ کی سرزمین کے دفاع پر معمور اللہ کے فضل سے ایک ناقابل شکست قوت ہے ۔آرمی کو کسی کے آنے جانے یا ٹرائل سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ بلیک میل کی یہ سیاست اب بند کر کے پاکستان آرمی کو ایسے امور کی پشت پناہی پر راضی کرنے کی کوشش کامیابی سے ہمکنار نہ ہوگی۔
سیاسی جماعتوں کو کاغذی کاروائی کیلئے شہیدوں اور شہادتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ادارہ کو شناخت ومقبولیت کی ریٹنگ کیلئے اسکی ضرورت نہیں کہ فوج کے پاس حقیقی شہیدوں کی فہرست نہیں دفاتر موجود ہے۔ فوج نے دفاع وطن کی خدمت کے ساتھ دفاع جمہوریت اور خدمت جمہور کا فریضہ بھی بخوبی نبھایا ہے ۔فوج کو غیر ضروری بحثوں میں الجھانے والے دانشور سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے فوج سے ماضی میں وابستگی کی بنیاد پر ایسے عناصر کے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کی توسیع کے لیے فوج کو جذباتی کر کے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے سیاسی عناصر نے پہلے بھی غیر آئینی اقدامات کیلئے رضامند اور مجبور کیا اور بعد میں خود بہن بھائی بن کر میثاق جمہوریت پر اکھٹے ہو گئے۔ یہی جمہوری لوگ اپنی باری کے انتظار میں جب صبر کا پیمانہ چھلک جاتا ہے تو فوج کو دعوت فریب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔اس کے بعد عسکری دور میں خود کو جمہوریت کے پاسبان اور ترجمان کے طور پر پیش کر کے بعد میں انہیں ہی آمر قرار دے کر ان کی گود میں بیٹھ کر انہی کی داڑھی کھینچ لیتے ہیں۔ فوج کو متنازعہ امور میں الجھانے والے اور وردی میں صدر منتخب کرانے والے سیاستدان تو آج مغضوب نہیں ۔اکیلا مشرف ہی گوریلا وار لڑنے کیلئے رہ گیا ہے۔وہ بھی کب تک گوریلا جنگ لڑے گا جب تک پیسہ ہے ۔پیسہ ختم کھیل ختم ۔
ایوب خان سے لے کر مشرف تک سیاستدانوں کا کردار تاریخ کا حصہ ہے۔ انہوں نے فوج کو استعمال کیا لیکن آج فوج اپنے چند طالع آزمائوں کی ذاتی خواہشات پر اپنی شہادتوں کے قبرستان بسا دینے کے باوجود بھی اشار ہ انگشت کا نشانہ بنتی ہے۔ کیا فوج کے جوان اور اس کے سارے آفیسر غیر آئینی اور غیر قانونی آمریت کے ذمہ دارہیں یا پھر چند جرنیلوں کی نفس پرستی نے فوج کو آمریت کی نرسری بنا رکھا ہے۔
ایسے ناسور جو نفس کی پیروی میں ادارے کی روشن پیشانی کو داغدار کرنے کے ذمہ دار ہیں کا دفاع ادارے کی پالیسی ہرگز نہیں ہو سکتی ۔قانون شکن خواہ کوئی بھی ہو اس کی اعانت کرنا اور بالخصوص قومی جرائم میں ملوث کا دفاع تو کسی صورت بھی نہیں ہونا چاہیے۔ جس نے کیا وہ بھگتے اور اداروں کو اس کی پشت پناہی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ یہ روایت اب قائم ہو رہی تو اسے ہونے دیا جائے اس کے اگے بند باندھنا بھی قوم سے بدیانتی کے مترادف ہے۔
ایک ادارے کے افراد کو جذباتی طور پر ابھارنے کا مقصد لاقانونیت اور غیر آئینی اقدامات پرگرفت سے بچنے کے حیلے سوا کچھ نہیں ۔
آرمی مشرف کا نام نہیں اور نہ ہی آرمی چند آفیسرکا نام ہے آرمی ایک ادارہ ہے جو اپنے سپاہی سے لے کر جرنیل تک کے افراد پر مشتمل ہے۔
مشرف آرمی نہیں ہے بلکہ فوج کے نام کی وجہ سے باعث عزت تھا۔ اگر مشرف نے آرمی کی توقیر پر دھبہ لگانے میں کوئی تامل نہیں کیا تو پھر آرمی کو بھی اس کے انجام پر کوئی توجہ نہیں ہے۔یہ اس معاشرے کے ان ہی مفکرین کا افکار کا شاخسانہ ہے کہ وہ ایسے افراد کی پشت پناہی کرتے ہیں جو آئین وقانون کے ضابطوں سے ڈرتے ورتے نہیں ہیں۔ انہیں اپنے مقاصد کے حصول کیلئے آئین وقانون کا روندنا حق وراثت میں ملا ہوا ہے۔ مشرف نے جمہوریت کی بساط اپنی مرضی سے لپیٹی تھی ناکہ اسے آرمی کے جوانوں اور آفیسرز نے مجبور کیا تھا کہ وہ یہ غیر آئینی فعل سرانجام دے ۔ اس پر اس نے وردی میں صدارت کے منصب پر قبضہ کیا جو کہ سیاسی عہدے سے بھی مبرا ہونے کا تقاضہ کرتا ہے ۔ آرمی کو جذباتی طور پر بلیک میل کر نے کی یہ مہم مشرف کی باقیات اور اس سوچ کے حاملین مشرف کو بچانے کیلئے نہیں بلکہ غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات کیلئے مستقبل میں بھی کامیابی سے ہمکنار رکھنے اور اس کی راہ ہموار کرنے کیلئے چلائی ہوئی ہے۔پاکستان نیوی جو کہ اسی طرح پاکستان کی سمندری حدود کے دفاع پر معمور ہے کے ایڈمرل کا کورٹ مارشل ہو سکتا ہے تو آرمی چیف بھی اسی پاکستان کے دفاع پر معمور ادارے کے سربراہ کو کھلی چھوٹ کیسے دی جاسکتی ہے۔ بچر آف کارگل نے آئین پاکستان کی بھی تو تکہ بوٹی کی اس پر اس کی گرفت کرنا ضروری نہیں۔ کیا آئین پاکستان بحیثیت سربراہ کے اسے اس کے فیصلوں پر گرفت کرنے کا مجازنہیں ۔
مشرف اور اس قبیل کے لوگوں نے خاکی وردی کا وقار خاک آلود کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔شیر کی کھال سے باہر آنے پر اب گیدڑ بھبکیاں اور لومڑ کی اوں اوں کس لیے ۔اب بھی شیر کی طرح کہو کہ میں نے یہ اپنے نفس کی خواہش پر کیا تھا اور یاد نہیں رہا تھا کہ ہر دن کے بعد رات بھی ہوتی ہے۔ ہر عروج کے زوال ہوتاہے۔ ہر فرعون کو خاک آلود ہونا ہوتا ہے۔ ہر جھوٹ کی منتہا ہے۔
طبقہ اشرافیہ نے اپنے آپ کو ٹائوٹ لکھاری مافیہ اور میڈیا کو اشتہاروں کا یرغمال بناکر اپنے دفاع پر معمور کر رکھا ہے۔ میڈیا اور لکھاری جفادر حق قلم ادا کرنے کی بجائے ان کی ممنونیت کے ترجمان بن چکے ہیں۔ یہ لوگ ہیں جو انصاف کی راہ میں حائل اور برائی کو اچھائی بنا کر پیش کرتے ہیں۔ یہی شیطانی افکار کی ترویج وتدوین کے پروڈیوسر ہیں۔ انہی کے سبب معاشرے میں اچھائی کی پروموشن تو ہو نہیں پاتی لیکن برائی کو یہ ایسے طریقے سے ہائی لائٹ کرتے ہیں کہ وہ بھی اچھی معلوم ہوتی ہے۔
ایک آمر ایک قانون شکن کے ٹکڑوں میں اتنی طاقت ہے کہ اس نے انہیں مجبورکر دیا کہ یہ آئین اور قانون کو روندنے والے کو مظلوم لکھیں۔
معاشرے میں انہی مفکرین کے افکار کی ترویج کیلئے صفحات بھی اور انہی کیلئے آن آئیر ٹائم بھی ہے۔ انہی کو قوم کا مسیحا قرار دے کر قومی دنوں پر تمغہ امتیاز اور تمغہ خدمت عطاہوتے ہیں ۔ ان کا مورال بہت ہائی جا رہا ہے کیونکہ ان کی شہریت اور ان کے دام ٹھیک لگ رہے ہیں۔قوم کے مورال کی بھی فکر کی جائے جو ایسے مفکروں نے پاتال تک پہنچانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ اس قوم کے استحقاق مورال اور اس کے حقوق کی بات کی جائے۔