جی توچاہتاتھاکہ کشمیر،فلسطین،چیچنیا،بوسنیا،افغانستان ،لہولاشے،کٹے پھٹے انسان اورخون میںرنگیں تارکول کی سڑکوںکی بات کروں ، اخبارکی کالی سرخیوںسے جھلکتی لٹتی عزتوںکی داستانیں ،ہر نئی خود کشی کی خبر،ہر نئی موت،ہر پھٹا چولہا جو ہر روزہمارے اخلاقی زوال کا سندیسہ دے رہاہے،کی کوئی نئی داستاں تحریرکروں۔جھوٹ،رشوت، سود،سفارش،ختم ہوتی ہوئی برداشت اورچھوٹتا ہوا صبر کا پیمانہ جوباہم ہمیںیہ باورکروارہے ہیں کہ ہم اخلاقی گراوٹ کے آخری لمحوںپرہیں اورآج ہم اخلاقی پستی میںوہاںکھڑے ہیں جہاںسے ظلمتوں کے پہاڑبھی اک لکیرنظرآتے ہیںاوراس میڈیا کاذکر کرتا جس نے ہمیںاس ڈگرپرچلادیاہے کہ ساری قوم کے سر سے حیاکی چادرسرک چکی ہے۔نام نہادچینلزنے پورے معاشرے کومغرب زدہ کردیاہے اورجھوٹ کاسرطان ہمارے اخلاق مصلحت بن کرنگل چکا ہے ۔ روشن خیالی نے وہ ڈیرے ڈالے ہیں کہ مشرقیت میراتھن کی ریس کی دھول میںکہیںگم ہوکررہ گئی ہے،اخلاق سوز فلموںکی میرے دیس میںسرعام نمائش نے میرے وطن کے نوجوانوںکووہ تخیل بخشاکہ وہ عام زندگی کی چال ڈھال میںوہی ہیرودکھائی دیتے ہیں لیکن آج میںذکر اس خبرکا کرنے جا رہاہوںجس مجھ جیسے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افراد کے دلوں کو چکناچور کردیاہے کہ میرے ارضِ پاک پر ایسے درندے بھی بستے ہیں جن کو میرے پروردگار نے ’’ ثم رددناہ اسفل سافِلِین ‘‘﴿پھر اسے الٹا پھیر کرہم نے سب نیچوں سے نیچ کردیا﴾ کہہ کر مخاطب کیاہے۔
سوات میں ۴۱سالہ ملالہ یوسف زئی پر دہشت گردوں کے قاتلانہ حملے کی خبر سے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیااس ظلم پر کانپ اٹھی ہے ۔پاکستانی طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا’’ملالہ یوسف زئی کے قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں،ملالہ یوسف زئی پر حملہ اس لئے کیا گیا کہ ان کے خیالات طالبان مخالف تھے ،چونکہ ملالہ طالبان مخالف خیالات کااظہار بھی کرتی رہی ہیں لحاظہ ان پر حملہ کیا گیا ہے۔ملالہ کے خیالات سیکولر تھے ،ملالہ کو کیفرکردار پہنچا کر دم لیں گے ‘‘۔طالبان ترجمان نے بڑے پر عزم انداز میںاس بہیمانہ ، انسانیت سوز اور قبیح فعل پرندامت کی بجائے اسے اسلام اور شریعت کے عین مطابق قرار دیاتاکہ پاکستان میں کسی بھی گروہ یا طبقے کو اس واقعے کو کسی بھی غیر مسلم یا یہودیوہنود سے جوڑنے کی گنجائش بھی باقی نہ رہے کہ یہ واقعہ پاکستانیوں کو بدنام کرنے کیلئے کروایا گیا ہے۔
ان ظالم دہشت گردوں نے بچوں کی بس کو روکتے ہوئے ملالہ یوسف زئی کا نام لیکر شناخت کیااوربعدازاں ان جلاد صفت سفاک بھیڑیوں نے اس بے بس اورمعصوم نہتی بچی کے ماتھے میں گولی داغ دی ۔اس منحوس واقعے نے ایک ایسی تاریخ رقم کی ہے جس کی کالک صدیوں نہ دھل سکے گی اورقاتلوں کو نہ صرف دنیامیں بلکہ یوم آخرت کوبھی عبرت ناک انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔دراصل یہ بہادر بچی آج سے چند سال پہلے عالمی شہرت حاصل کرچکی تھی جب سوات میں امن وامان کی حالت اس قدر مخدوش ہو گئی تھی کہ تقریباً سارے سوات کو نقل مکانی کرکے سوات کو خیرآباد کہنا پڑااورانہی ظالم درندوں نے سوات میں اپنا جبری نظام مسلط کرنے کی کو شش میں سینکڑوں افراد کو دن دیہاڑے نہ صرف گولیوں اوربموں سے بھون کر رکھ دیا بلکہ ہر روز اپنے مخالفین کو سرعام پھانسی پر لٹکا کرعلاقے میں بربریت اور دہشت کی ایسی فضا قائم کر دی جس کو دیکھ کر انسانیت بھی شرم سے اپنا منہ چھپا رہی تھی۔
مینگورہ میں پیدا ہونے یہ بہادر بچی ان ظالموں کی طرف سے پھیلائی ہوئی دہشتگردی کو بے نقاب کرتے ہوئے نہ صرف بلاگ لکھ کراور بی بی سی پر دنیاکے امن پسند لوگوں کو حقیقت سے باخبر کر نے کے جرم میں ملوث تھی بلکہ امن اور تعلیم کے حصول کو ممکن بنانے میں اپنابھرپور کردار اداکررہی تھی۔اس معصوم بچی کا جرم یہ بھی تھا کہ اس نے میریٹ ہوٹل میں اجڑ جانی والی جوان سہاگنوں کی بیوگی کو اپنے دل کی اتھاہ گہرائیوںمیں اتار لیاتھا۔اس کا قصور یہ بھی تھا کہ ایف آئی اے کی عمارت میں ٹکڑے ٹکڑے ہونے والے رفیق خان کی اس بچی کے آنسو اپنے دامن میں سمو لئے تھے جواب بھی منتظرہے کہ باباچوڑیاں کب لائیںگے۔ ملالہ کا جرم یہ بھی تھا کہ اس نے سوات کے ان معصوم بچوں کی تصویر کشی کی تھی جو ان درندوں کی طرف سے تباہ کئے گئے اسکولوں کے ملبے تلے اپنی کتابیں اوراپنے وہ ٹاٹ و کرسیاں تلا ش کررہے تھے جہاں بیٹھ کر وہ اپنے محبوب نبی اکرم کے حکم کے مطابق تعلیم حاصل کیا کرتے تھے اور اس کا جرمِ عظیم یہ بھی تھا کہ یہ ان ہزاروں افراد کی گریہ و زاری،آہ وبکا اورنالہ و شیوہ کی گواہ بن کر ابھری جو ان ظالموں کے خود ساختہ نظام کا شکار ہو رہے تھے۔
ملالہ کا قصور یہ بھی تو ہے کہ اس نے سچ کوجھوٹ ،صحیح کوغلط،یقین کو تشکیک ،ایمان کوکفر اورنیک کوبدقراردینے والے ان شیطان صفت درندوںکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سچ کا سہارا لیتے ہوئے سوات کے ماحول کو پژمردہ ہونے سے بچانے کی اپنی سی کو شش کی۔وہ جانتی تھی کہ جن کی امیدیںقلیل اور مقاصدجلیل ہوتے ہیں، جن کی نگاہ دلفریب اور ادا دلنواز ہوتی ہے وہ ہمیشہ دنیاکوکچھ دینے کی کوشش کرتے ہیں،وہ کانٹوںکوچنتے اورپھولوںکوکھلاتے ہیں،کائنات کوحسین رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ بزدلوں کی طرح سینہ پیٹتے ہوئے ،گالوں پر تھپیڑے مارتے اورنوحہ کناںہوتے ہوئے ظلم کے سامنے ہتھیارنہیں ڈالتے بلکہ ان احسان فراموش اورخداکی نعمتوںکاشکرادانہ کرنے والوں کو جو اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجدپراپنی نااہلیت کاپرچم لگاکربزور بندوق ساری قوم کوناکامیوںاورپستیوںکے اندھیرے غاروں میں ٰغرق کرنے میں مصروف ہیں ،کے سامنے سینہ سپر ہوگئی تھی۔
ملالہ کا قصور یہ بھی ہے کہ اس نے اپنے محبوب رہنما ہادیٔ اکرم کی اس ہدائت پر کہ ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے‘‘کی پیروی کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ ہم ابنِ رشدی ہی نہیں ، ہم جابرہیں،ہم ابن خلدون طبری ہیں،ہم ابن سینا،ابن ہیشم، بیرونی اورطوسی ہیں۔ملالہ کا قصور یہ بھی ہے کہ اس نے اپنے پیغمبر اسلام کی اس شمع ہدائت کو بلند کیا کہ ’’علم حاصل کرو چاہے اس کیلئے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے‘‘۔ملالہ کا قصور یہ بھی ہے کہ اس نے ان جاہلوں کو یہ بتانے کی کو شش بھی کی ہم شاعری میں شیرازی اور نغمہ گری میںفردوسی ہیں، ہم اگرخیام ہیںنیشاپورکے توہم رومی کی مثنوی بھی ہیں۔ہم جہاں سوزمیں بلھے شاہ ہیں وہاں ساز میں وارث شاہ ہیں،ہم جہاں عقل میں شاہ لطیف ہیں تو وہاں سچل سرمست بھی ہیں۔
ملالہ کا قصور یہ بھی ہے کہ وہ اپنی پاکیزہ اورعلم حاصل کرنے کی معصوم خواہشات کے ساتھ ساتھ ان ظالموں کے سامنے ابن قاسم کی للکار اور ٹیپو کی تلوار بن کر ابھری ۔ اس نے ان درندوں کو یہ پیغام دیاکہ ہم آزادہیں کیونکہ ہماری سوچ آزادہے اورجن قوموںکی سوچیںآزادہوتی ہیںتوپھرچاہے اس قوم کے لوگوںکے گلوںمیںطوق،ہاتھ میں ہتھکڑی ، پاؤں میں بیڑیاںاورجسم آہنی زنجیروںسے جکڑاہواہی کیوں نہ ہو،وہ ان اقوام سے پھربھی لاکھ درجے بہترہوتی ہیںجوذہنی غلامی کاشکارہوں۔ملالہ نے اپنے عمل سے یہ ان درندوں کو پیغام دیاکہ دیکھو اب تاج اچھالے جارہے ہیں،اب تخت گرائے جارہے ہیںاوروہ دن اب دورنہیںجب ہم اہل صفامردودِ حرم مسندپربٹھائے جائیںگے۔پھرتم بھی لوگواورہم بھی لوگو،یہ ترانہ مل کرگائیںگے ،ظالموںاب کوچ کروکہ اب ہم آزادہیں،یہ بندوقیںہم سے دور کرو کہ ہم آزادہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ افغان طالبان کو بھی برملا ان درندوں کی نہ صرف ملامت بلکہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا اعلان کرنا پڑے گا۔
ساری دنیا نے یہ دیکھ لیا اوراس کی برملا گواہی دینے پر بھی مجبور ہے کہ ملالہ تم ہم سب سے زیادہ دلیر اوربہادر ہو،اب آنکھیں کھولواور دیکھو کہ تمہاری جلائی ہوئی قندیل سے سارے ملک میں چراغ جلنے شروع ہوگئے ہیں۔آج پریوں جیسی بیٹیوں کا عالمی دن منایا جارہاہے لیکن میرے ملک کی معصوم بیٹیوںاور ساری قوم کے تمہاری صحت یابی کیلئے اٹھے ہوئے ہاتھوں کیلئے تمہارانام وکردار ہی کافی ہے۔
کہاںہے زعدوسماںکامالک کہ چاہتوںکی رگیںکریدے ہوس کی سرخی رخِ بشرکاحسین غازہ بنی ہوئی ہے
ارے کوئی مسیحاادھربھی دیکھے،کوئی توچارۂ گری کواترے افق کاچہرہ لہومیںتر ہے زمیں جنازہ بنی ہوئی ہے