معروف شاعر مزمل علی خان نے ڈیرھ برس قبل ایک ادبی رسالہ دیا جو کہ بابا یحییٰ خان سے متعلق خاص نمبر تھا۔ بابا یحییٰ خان سے متعلق اس رسالے میں پہلی بار پڑھا۔ اس کے بعد پیارنگ کا لا پڑھنے کا بے حد اشتیاق ہوا جو بعد ازاں پورا بھی ہو گیا۔ پیارنگ کالا پڑھنے کے بعد میںبابا جی کا پرستار ہو گیا۔ یوٹیوب پر بابا جی کے مختلف ٹی وی پروگرامات دیکھے ، پیارنگ کالا کا انگریزی ترجمہ کرنے والے پروفیسر سے رابطہ کر کے با با جی کے متعلق پوچھا اور ساتھ ہی بابا جی سے رابطے کی کاوشیں شروع کیں جو بے سود رہیں۔ باباجی سے ملاقات کی خواہش وقت گزرنے کے ساتھ شاید معدوم ہوتی جا رہی تھی لیکن شاید اللہ کو بابا سے ملاقات کرانا مقصود تھا۔ پریس کلب کے نوٹس بورڈ پرپڑھا کہ بابا محمد یحییٰ خان پریس کلب کا دورہ کریںگے۔ بس پھر کیا تھا بابا جی کے آنے کا انتظار کرنے لگا۔ آخر وہ لمحہ بھی آگیا جب بابا جی اپنے مخصوص سیاہ رنگ میں ملبوس آنکھوں پر دھوپ سے بچائو کا چشمہ لگائے گاڑی سے اُترے ۔ بے اختیار ان کی جانب بڑھ کر مصافحہ کیا اور آہستہ آہستہ ان کے ساتھ دیگر صحافی بھائیوں کے ہمراہ پریس کلب کی بالائی منزل کی جانب بڑھنے لگا۔ بابا جی بڑی شفقت سے اور محبت سے دیگر صحافیوں سے مصافحہ کرتے اور درود شریف کے ابتدائی حصے کا ورد جاری رکھے ہوئے تھے۔ نشست پر بیٹھنے کے بعد پریس کلب کے جنرل سیکریٹری عامر لطیف نے افتتاحی اور خیرمقدمی کلمات کے ساتھ ان کی آمد پر یہ شکریہ ادا کرتے ہوئے پروگرام کو آگے بڑھایا۔ زندگی میں پہلی بار بابا جی کے بالکل سامنے بیٹھ کر انہیں محوگفتگو دیکھنا ایک خواب سا لگ رہا تھا۔ بابا یحییٰ خان اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔
درود شریف جو کہ ان کا تکیہ کلام کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ یہاں بھی انہوں نے درود پڑھا اور کہنے لگے کہ کراچی پریس کلب آکر حیرت اور خوشی کے سرکل سے باہر نہیں نکل پارہا ہوں۔ ایک ان پڑھ آدمی ہوں کسی کالج و اسکول میں نہیں پڑھا۔ سو تک گنتی تک نہیں آتی۔ کچھ بھی نہیں آتا بس جو کچھ ہے وہ سب اللہ کا دین ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اپنی پیدائش کی تاریخ اور سن یاد نہیں تاہم دوسری جنگ عظیم کے دوران برصغیر پر پرواز کرنے والے جہاز وں کی پروازیںضرور یاد ہیں۔ علامہ اقبال کا شہر سیالکوٹ جائے پیدائش ہے اور بچپن ہی میں علامہ اقبال کی گود نصیب ہوئی۔ انہوں نے ہی سیاہ رنگ عطا کیا ۔ پہلی بار کراچی ایک بڑی گاڑی میں چھپ کر آیا تھا۔ اس وقت شہر قائد میں کوئی جاننے والا نہیں تھا۔ کبھی کسی فٹ پاتھ پر سو لیا کبھی کسی مزارپر ۔ پہلی بار نوکری کی تلاش میں سعید بوپالی سے ملا۔ انہوں نے لکھنے کا دریافت کیا جو کہ میں نہیں جانتا تھا۔ اس گفتگو کے دوران غالب کا ایک شعر ان کی پشت کی دیوار پر آویزاں تھا جس کی جانب اشارہ کرکے اس میں موجود غلطی کی نشاندہی کی۔ سعید بوپالی نے اس بات پر حیرت کا اظہار کرنے کے بعد نوکری پر رکھ لیا۔ میرا کام ایک چھوٹے کا کام تھا ۔ یہ بات آج فخر سے کہتا ہوںکہ کراچی نے ہی قلم پکڑنا سکھایا۔ بابا یحییٰ خان نے بچپن کی گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ مجھے بچپن سے چوری کی عادت تھی اور مزاروں سے میںپیسے چرالیا کرتا تھا۔یہ عادت والد صاحب کے علم میں تھی۔بابا جی نے کہا کہ اللہ نے شروع ہی سے برداشت ، صبر ، توکل اور تجسس کی دولت بے پناہ دی۔ علامہ اقبال نے ہی میرا نام رکھا ۔ انہوں نے بڑی شفقت کے ساتھ پرورش فرمائی۔ علامہ اقبال سمیت ، قدرت اللہ شہباب ، ممتاز مفتی، اشفاق احمدو بانو قدسیہ کے ساتھ ایک روحانی تعلق رہا۔
بابا یحییٰ خان نے کہا کہ منشیات خواہ وہ کسی بھی قسم کی ہو ان کا استعمال انسان کو اس کے مقصدِحیات سے دور کر دیتی ہے۔ ذاتی زندگی کے حوالے سے بابا یحییٰ خان نے کہا کہ 50برس پاکستان سے باہر مختلف ممالک میں سفر کرتے ہوئے گزارے ۔ آج بھی سفر کرتا ہوں۔ آرٹ سے محبت ہے اور اپنی کتابیں خود ڈیزائن کرتا ہوں۔ برطانیہ میں اپنا کاروبار ہے جو کہ بیٹے دیکھتے ہیں۔ بی بی سی کے لیے کام کیا ۔ بابا بلے شاہ اور وارث شاہ پر لکھا۔ جو کتابیں اس وقت مارکیٹ میں موجود ہیںان کی مانگ دنیا بھر میں بڑھتی جا رہی ہے۔ ان کتابوں کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدن کو مختلف فلاحی اور سماجی کاموں میں خرچ کرتاہوں۔ اپنی ذات پر کبھی خرچ نہیں کیا۔ کیونکہ مجھے اللہ نے بہت نوازا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں مزید 2کتابیں مارکیٹ میں آئیں گی جن کی قیمت 5ہزار سے زائد ہوگی۔ اس سوال پر کہ آپ کی کتابیں مہنگی کیوں ہوتی ہیں؟ اور یہ بھی کہ غریب آدمی آپ کی کتاب کو کیسے خرید کر پڑھ سکتا ہے؟ بابا یحییٰ خان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ غریب آدمی کو تو کتاب پڑھنے کا حق نہیں نہ ہی اسے جینے کا حق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان پڑھ شخص کی کتاب کی قیمت تو ایک لاکھ روپے ہونی چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ انہیں کتاب خریدنے والے لوگ سخت ناپسند ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جس نے بھی علم کی روح کو پانا ہے اسے چاہئے کہ اپنی قیمتی اشیاء کو بیچ کر کتاب خریدیں اور علم کی پیاس بجھائیں۔ علامتی درویش کے متعلق سوال کے جواب میں بابا جی نے کہا کہ خود کو علامتی درویش کہہ کر اپنی جہالت اور بے علمی چھپا لیتا ہوں۔ بابا یحییٰ خان نے کہا کہ فضولیات میں پڑھ کر زندگی کو مشکل میں ڈالنے کے بجائے بہتر ہے کہ کم سے کم اشیائے ضرورت پر تکیہ کرکے زندگی کو آرام اور سادگی کے ساتھ گزارا جائے۔
ملک کی سیاسی صورتحال سے متعلق بابا یحییٰ خان نے کہا کہ تمام سیاسی اکابرین سے ملاقاتیںرہیں ۔ پاکستان کا مستقبل تابناک ہے۔ اب تک جوبھی حالات درپیش رہے ہیں وہ دراصل اس ملک کے نکھار کے لیے ضروری ہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب پاکستان ایک عظیم مملکت کی حیثیت سے پہچانا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جو شخص جس قدر دیندار ہوتا ہے، نماز ، روزوں اور احکام شرعیہ کا اہتمام کرتا ہے اس پر اللہ کی جانب سے آزمائش آتی ہے۔ ایمانداری کا راز علم کی آگاہی میں مضمر ہے۔ پاکستان کے نوجوان اچھی تعلیم حاصل کرکے تیزی سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر شخص میں خوبیاں ہوتی ہیںاور خامیاں بھی ۔ کوشش اس بات کی کرنی چاہئے کہ خوبیوں پر نظر رکھی جائے اور حتی الامکان اس بات کی کوشش کی جائے کہ کسی انسان کا دل نہ دکھایاجائے۔بابا یحییٰ خان نے کہا کہ صاف اور خالص پانی کے استعمال کو ترجیح دینا چاہئے۔ اس کے ساتھ حلال رزق ہوگا تو بے شمار آسانیاں ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ عہد کو کسی صورت نہ توڑیں عہد کو ہر حال میں پورا کریں۔
بابا یحییٰ خان کے ساتھ ابھی محفل جاری تھی کہ راقم کو انتہائی ضروری کام سے ناچاہتے ہوئے محفل کو خیرباد کہنا پڑا۔ کمرے سے نکل کر کچھ ضروری کالز کیں اسی اثناآذان مغرب بھی ہوگئی ۔ پریس کلب کی مسجد میں نماز ادا کی جونہی مسجد سے باہر نکلا ۔ سامنے بابا یحییٰ خان کندھوں پر اجرک اوڑھے صحافیوں کے ساتھ سواری کی جانب بڑھ رہے تھے ۔ موقع غنیمت جانتے ہوئے ان کی جانب لپکا آہستہ سے پوچھا کہ بابا جی بتائیں اطمینان قلب کیسے حاصل ہوگا؟ بابا جی نے غور سے دیکھا اور اور یوں گویا ہوئے حلال رزق اور اللہ کی مخلوق سے محبت، ان کے رزق کا خیال رکھنے سے اطمینان قلب حاصل ہوتاہے۔ اس جملے کے آگے بھی انہوں نے اور بہت کچھ کہا جو مجھے یاد نہیں … ملامتی درویش بابا یحییٰ خان سے ہونے والی ملاقات زندگی بھر نہیں بھلا پائوں گا۔
ملامتی درویش بابا یحییٰ خان سے ملاقات
ملامتی درویش بابا یحییٰ خان سے ملاقات