Home / Socio-political / ملمع کار اور ملمع ساز

ملمع کار اور ملمع ساز

                         

ملمع کار اور ملمع ساز
                عباس ملک عجیب وقت آن پڑا ہے کہ کوئی سیدھی بات کرنے کا بھی روا دار نہیں ۔ جھوٹ کو جھوٹ کہنا اور جھوٹے کو جھوٹا کہنا دشوار ہو چکا ہے۔ دل پر پتھر رکھ کر جھوٹ کو جھوٹ یا جھوٹے کو جھوٹا کہنا ہی پڑے تو سو طرح کے استعارے استعمال کر کے کہا جاتا ۔ لوگ دل کو تسلی دے لیتے ہیں کہ وہ جھوٹ اورملمع کا ری کے سہارے جو کر رہے ہیں وہ کارساز حقیقی پر عیاں نہیں ہوگا ۔ اس کی ان سے گرفت نہیں ہوگی۔ قابلیت شرافت اور عزت کا معیار اگر عہدے ہیں تو پھر ان عہدوں پر فائز کشمالہ جیسے لوگ ہی عزت دار اور شریف کہلانے کے مستحق بن جانتے ہیں۔ پہلے بھی تجویز کیاتھا کہ سرکاری عہدوں پر فائز حضرات کو ذات اور برادری کے ناموںکا لاحقہ اپنے نام کے ساتھ لگانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔اس سے اقربا پروری کا عنصر تقویت پکڑتا ہے ۔اس کے علاوہ ایک شخص کی غلط کردارکی وجہ سے پورا قبیلہ نشانہ بنتا ہے ۔اس کی مثال میں اپنے قبیلے کے قابل فخر افراد سے دے رہا ہوں تاکہ کسی کی دل آزاری نہ ہو ، ورنہ ایسے بے مثال ویکتا روزگار ہر خاندان و قبیلہ کے نام پر دھبہ لگانے کیلئے موجود ہیں۔ وینا کے بمثل کارنامے آج اعوان قبیلے کے لیے ندامت کا سبب ہیں حالانکہ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس کا اس قبیلے سے کوئی تعلق دور کا بھی نہیں۔ پھر بھی نام کے ساتھ ملک کا لاحقہ تو استعمال ہوتا ہے۔ قابل فخر سپوت جن کے بارے میں ان کے حلقہ سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ ملک برادری میں کیسے داخل ہوئے ۔ رحمان ملک کے متنازعہ اور متنوع کردار نے بھی کافی شہرت حاصل کی ۔ ریاض ملک بھی آل علی کیلئے کافی سرمایہ اکھٹا کر چکے ہیں۔  سرکاری عہدے دار اپنے ناموں کے ساتھ رینک اور قبیلے کا لاحقہ دونوں استعمال کرتے ہیں کیا وجہ ہے کہ وہ اپنا نام استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ یہ عصبیت اور اقربا پروری کا عنصر معاشرے میں پھیلانے کا  سبب ہے ۔ایسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ سرکاری عہدے دار خواہ وہ پولیس سے ہو فوج سے ہو محکمہ صحت تعلیم یا کسی بھی سرکاری ادارے کا ملازم اپنے نام کے ساتھ قبیلے کا نام استعمال کرنے کیلئے ممنوع قرار پائے ۔کسی بھی عہدے سے متعلقہ ومنسلکہ عزت کانی ہوتی جو ساتھ میں قبیلہ کا نام بھی شامل ہو۔بعد ازاں ریٹائر منٹ عہدوں کی دھونس چلانے والوں پر بھی عہدے کے استعمال پر پابندی لگائی جانی چاہیے۔ کیا وہ اس عہدے کے تحت کسی بھی ماتحت کو کوئی آرڈر جاری کر سکتے ہیں ۔ اس عہدے کا اختیار استعمال کر سکتے ہیں۔ اگر نہیں تو پھر اس عہدے سے تعارف کرانا اختیار کے ناجائز استعمال کے زمرے میں اور دھوکا دہی کے تحت آنا چاہیے۔سروس کی خدمت کی جوانی دی یا جو کچھ بھی کیا تو کیا اس کے صلے میں تنخواہ نہیں لیتے رہے مراعات سے مستفید نہیں ہوئے کیا پینشن نہیں لیتے ۔ عام آدمی پر کس چیز کا احسان ہے ۔حالانکہ انہیں عام آدمی کا مشکور ہونا چاہیے کہ اس کے دئیے ہوئے ٹیکسوں سے وہ آفسر شاہی کرتے رہے ۔اگر انہوں نے عوام کی خدمت کی ہوتی تو آج عوام ان کو عہدوں سے قطع نظر آنکھیں فرش راہ کرتے ۔ انہیں عہدوں کی دھونس اور تعارف کی ضرورت نہ پڑتی ۔آفسروں کی اس روش سے معاشرتی عزت وتوقیر پر براہ راست اثرات مرتب ہوکر دوسرے بھی معتوب ہو جاتے ہیں ۔ انہیں غریب چھوٹے لوگ برے لگتے ہیں تو اسی طرح وہ عوام کے دلوں کا غبار ہیں۔ غریب ان سے اتنا ہی متنفر ہے لیکن وہ مجبور ہے کہ ان سے ٹکرانے کی راہ نہیں پاتا ۔  جب بھی غریب کو موقع ملتا ہے تو وہ اپنا بدلہ یا انتقام لینے میں کوئی تردد نہیں کرتا ۔یہ حقیقت سے زیادہ دور نہیں کہ لوگ پیسے والے کی عزت نہیں کر رہے ہوتے بلکہ اپنی مجبوری نبھا رہے ہوتے ہیں۔ بڑے عہدوں سے وابستہ مفادات کی وجہ سے اگر کوئی جی حضوری میں مصروف بھی ہے تو واقفان حال کے سامنے وہ بھی جس بے رحمی سے ان کی توقیر کرتا ہے وہ ان سے اوجھل ہوتا ہے۔ باجی باجی اور سر جی سرجی کہنے والے کی زبان سے یہ الفاظ سماعت کیے جا سکتے ہیں لیکن اس کے دل سے نکلنے والے مغلیات تک رسائی ممکن نہیں۔ سلوٹ کیلئے اٹھنے والے ہاتھ کو دیکھ کر اکڑ جانے والے کو معلوم نہیں ہوتا اس نے ساتھ دل میں کتنی بڑی گالی بھی دی ہے ۔یہ معاشرتی اقدار ہے جو اپنے اعمال سے ہم نے خود اپنے لیے کھڑی کی ہے۔ ہم دوسرے کو بے توقیر کر کے اپنے آپ کو بالا قرار دینے میں غلط ہیں۔ دوسرے کی عزت نہیں تو پھر ہماری کیسے ہو سکتی ہے ۔ حقوق نسواں کے علمدار اس کے حقوق کیلئے صدا خواں ہیں لیکن وہ عورت کی توقیر برائے عورت کے لیے جانے کیوں آواز بلند نہیں کرتے ۔ عورت کو عورت ہونے کے ناتے عزت دی جائے۔ چھوٹا  بڑا پیسے والا اختیار واقتدار والا مانگنے والا دینے والا سب انسان ہی ہیں۔ تو پھر ایک انسان ہونے کے ناتے ایک انسان کی عزت کیوں نہیں کی جاتی ۔عزت عہدے اختیار سے منسلک کر کے انسانیت اور انسان کا وقار مٹی میں ملا نے کے بعد کیسے توقع رکھی جاتی ہے کہ حقیقی عزت سے کسی کو نوازا جا رہا ہے۔ وہ انسان نہیں عہدے اختیاراور طاقت یا پیسے کی عزت ہوتی ہے ۔ اگر یقین نہیں آتا تو عہدوں اختیار واقتدار کے سنگھاسن سے باہر آ کر دیکھ لیں۔ معاشرے میں اس ملمع کاری نے رویوں پر میک اپ کی تہہ چڑھا رکھی ہے۔ انسانیت کی خدمت کا دعوی اس منہ سے اچھا لگتا ہے جسے انسان اچھا لگتا ہو۔ جب انسان کو انسان ہی نہیں جانتے تو خدمت کے تصور ہی ناقص ہے ۔انسانوں کو پروٹوکول اور تحفظ کیلئے دور رکھا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ معاشرے کو انسان اور انسانیت دونوں کی قلت وقحط کا سامنا ہے ۔معاشرے میں خدمت اور ترقی کی راہیں بھی اسی لیے مسدود ہیں کہ دعوی کرنے والے ہی جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ انسانیت سسک رہی ہے لیکن کو

ئی اس کی طرف متوجہ نہیں۔ سب کو اپنی انا اپنے مفادات اور اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے کام کرنا ہے ۔ جب نفس پرستی کا عفریت سر چڑھ جاتا ہے تو انسانیت نام کی چڑیا کو قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتا ۔ہم اللہ کو بھی مانتے ہیں ہم رسول کو بھی مانتے ہیںلیکن نہ ہم اللہ کی مانتے ہیں اور نہ ہی رسول کی سنتے ہیں۔ ہمارے ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے پر نہ یہاںاسلام ہے نہ جمہوریہ ہے اور نہ ہی پاک ستان ہے۔ یہاں پر اقلیتوں کے بل تو سرعام پیش ہوتے ہیں لیکن اکثریت کو سرعام رسوائی مقدر کی جاتی ہے۔یہ وہ سرزمین ہے جہاں پرسرکار کے پروانے بستے ہیں لیکن اسی سرزمین پر سرکار کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو شہید قرار دینے اور اس کی مغفرت کیلئے دعاقومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں کی جاتی ہے ۔یہ وہ لوگ ہیں جو قرآن پر حلف دیتے ہیں کہ وہ اللہ او ر اس کے رسول کا اتباع کریں گے ۔ پھر قرآن کے برعکس قاتل کی سزا قتل کو یہ وحشیانہ قرار دے کر مسترد بھی کرتے ہیں۔ پھانسی چڑھا شہید اور وردی میں دشمن کا شکار ہلاک ہو تا ہے ۔قرار داد مقاصد مقصد نہیں صرف دیباچہ ہے مقصود سیاسی شہادتیں اور اقتدار کی غلام گردش میں اپنی جگہ کا حصول ہے۔ حصول اختیار واقتدار کیلئے زبان سے کہہ بھی لا الہ تو کیا حاصل دل و نگاہ مسلماں نہیں توکچھ بھی نہیں۔ زبان سے اخلاقیات کے درس اور انسانیت کی تبلیغ کے برعکس عمل سے جرائم اور انسانیت کشی کی پشت پناہی اور ترویج کرنے والے ملمع کاروں کے نرغے میں آئے ہوئے پاکستان اور پاکستانی نجات دہندہ کی تلاش میں ہیں۔ غریبوں کو جس دن بھی کوئی راہنما مل گیا وہ دن روز قیامت سے کم نہ ہوگا۔ پھر بھیس بدلے نہیں جا سکیں گے ۔یقین محکم عمل پیہم سے مسلسل جستجو کوئی راہ زندگانی نکل آئے گی۔ کردار کو بہتر بنایا جائے ، ہو سکتا ہے کہ بہتر کردار والا منتظر ہو کہ کوئی بہتر کردار والا نظر آئے ۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *