Home / Socio-political / ملک ریاض کون ہے؟

ملک ریاض کون ہے؟

                 

ملک ریاز کون ہے؟
         عباس ملک

     ندیم خان نے جس طرح ایک ایک اہم قومی ایشو کی عکاسی کی ہے وہ اس بات کی متقاضی ہے کہ اسے عوام کی امانت جان کر سپرد قلم کیا جائے

مکتوب امریکہ ﴿ندیم خان ﴾ معزز قارئین، ملک ریاض پاکستان کی رئیل اسٹیٹ کا بے تاج بادشاہ 1954 اسلام آباد میں پیدا ہوا ۔بچپن امارت میں گذرا مگر 19سال کی عمر میں ملک ریاض کو والد کے کاروباری نقصان کے پیش نظر ایم ای ایس میں ایک کلرک کی نوکری کرنی پڑی ۔ 90کی دھائی میں ٹھیکیدار کی سطح سے کاروبار کا آغاز کیا۔  سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ2000 تک ملک ریاض 500 ملین ڈالر مین کیسے بن گیا ؟ ملک ریاض اپنے متعدد انٹرویوز میں یہ بات دھرا چکا ہے کہ ۰۸ کی دھائی میں موصوف کے پاس بیٹی کا علاج کروانے کے پیسے نہیں تھے۔ انگریزی کا ایک بڑا مشہور مقولہ ہے ، تیزی سے بڑھتی دولت اور شہرت کے پیچھے اکثر کوئی جرم پوشیدہ ہوتا ہے ۔ ملک ریاض سے ملک ریاض آف بحریہ ٹائون کا سفر ملک صاحب نے کیسے اور کس کس کی رفاقت میں طے کیا ۔تفصیلی جائزہ لیتے ہیں پھر فیصلہ آپ خود کر لیجئے گا کہ قصوروار اور ذمہ دار کون کون؟ ۵۹۹۱ میں پاکستان بحریہ کی دو  آب د وزوں پر رنگ کرنے کا سب کنٹریکٹ بحریہ فائونڈیشن نے ملک ریاض کو دیا ۔یہاں سے ملک ریاض کے کاروبار اور تعلقات کا آغاز ہوا ۔ یہ تعلقات دیکھنے میں کاروباری نوعیت کے تھے ، مگر ملک ریاض کے ارادے کچھ اور ہی تھے ۔ یہاں یہ نقطہ زیر غور رہے کہ ایک فریق کی نیت صاف ہو تو دوسرے کو بے ایمانی کی جرآت نہیں ہوتی، مگر یہاں تو دونوں طرف تھی آگ برابر لگی ہوئی، ملک ریاض نے موقع کو غنیمت جانتے کموڈور الیاس کے ذریعے ایڈمرل منصور الحق تک رسائی حاصل کی اور ان دونوں کے سامنے اربوں روپے کے ہائوسنگ پرجیکٹ کا منصوبہ پارٹنر شپ کے ساتھ رکھا۔ معاہدے کے مطابق یہ منصوبہ مکمل ہونے پر ملک ریاض ۰۹ فیصد شیئر اور ۵۷ فیصد زمین کے مالک ہوتے اور بحریہ فائونڈیشن 10 اور 25 فیصد کے مالک، جب کہ ساری انوسٹمنٹ کا ذمہ ملک ریاض کا تھا۔ ایڈمرل منصور الحق کی نظر میں تجویز اچھی تھی معاہدہ طے پا گیا۔ زمینوں کے حصول کے لئے ملک ریاض نے ملک تبارک حسین باری سے رابطہ کیا اور ملک باری نے اپنی زمین اس پرجیکٹ کے لئے پیش کر دی۔ کموڈور الیاس آج بھی ملک ریاض کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور بحریہ ٹائون کی تعمیر کے دوران کموڈور الیاس، ایڈمرل منصور الحق اور ایڈمرل جاوید بحریہ ٹائون اکثر آتے جاتے رہتے تھے۔ تعمیرات کے لئے پیسے کا انتظام ملک ریاض نے ایک پاکستانی نژاد امریکی شہری ظفر احمد سے پارٹنر شپ کے تحت کیا ۔ ۵ ہزار فی ایکڑ لی گئی زمین ۱ کروڑ فی کنال بیچی گئی، ملک ریاض کے شاطر کاروباری دماغ نے ہزاروں کی انویسٹمنٹ کو اربوں میں تبدیل کر دیا اور شاید یہی ہریالی بحریہ فائونڈیشن والوں کو نظر آ رہی تھی ۔ ۸۹۹۱ میں وہاب الخیری نے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کی جس کی روح سے  فوجی فائونڈیشن اور بحریہ فائونڈیشن کا بحریہ ٹائون شپ اسکیم میں شامل ہونا اور پاک بحریہ کے نام کا استعمال کرنا ۰۴۹۱ کے ٹریڈ مارک ایکٹ اور 1984 کے کمپنی آرڈیننس ایکٹ کے خلاف تھا، بحریہ فائونڈیشن نے بحریہ ٹائون شپ اور ملک ریاض سے مکمل لا تعلقی کا اظہار کرتے ہوئے عدالت سے مقدمہ خارج کرنے کی استدعا کی۔ نتیجہ عدالت نے الخیری کا مقدمہ خارج کر دیا۔ اس سلسلے میں ملک ریاض سے کوئی باز پرس نہ کی گئی۔ اس طرح بحریہ ٹائون دودھ سے مکھن کی طرح نکال کر ملک ریاض کی جھولی میں ڈال دی گئی ۔ بعد ازاں  جنرل مشرف کے دور حکومت میں بحریہ فائونڈیشن نے تمام تر شیئر اور زمین کی ملکیت ملک ریاض کے نام سن 2000 میں انتقال کر دی مگر اس کے بعد ملک ریاض اور بحریہ کے تعلقات بہت خراب رہے اور اس کے نتیجہ میں ملک ریاض کو ہتھکڑیاں بھی لگی ، ﴿این آئی کے افسران نے آج تک ملک ریاض کے این ڈی یو میں داخلے پر پابندی لگا رکھی ہے﴾۔ مگر تب تک ملک ریاض کیپٹن شہریار اور میجر تنویر کے زریعے جنرل مشرف تک رسائی حاصل کر چکا تھا اور اس لئے بات زیادہ نہ بڑھی۔ ملک ریاض نے ڈی ایچ اے فیز ٹو میں بھی پارٹنر شپ کر لی اور 57000 میں 3200 کنال   زمین حاصل کی جس میں ۵ لاکھ فی کنال مزید، ڈیویلپمنٹ کے بعد ادا کرنے کا وعدہ کیا اور یہ ادائیگی آج تک نہیں کی گئی زمینوں کا قبضہ ملک باری کی مدد سے لیا گیا۔ یہ کیپٹن اب کیپٹن تو نہیں رہا آج کل ملک صاحب کے ساتھ ہی کام کرتا ہے۔ اسی دوران جب ظفر احمد نے اپنے منافع کے حصے کا مظالبہ ملک ریاض سے کیا تو ملک صاحب نے اپنے تعلقات کا استعمال کرتے ہوئے ایف آئی اے میں جعلی ایف آئی آر درج کروا کے ظفر احمد کو حوالات کی ہوا کھلوائی اور پرچہ اس شرط پر واپس لیا کہ وہ دوبارہ پاکستان نہیں آئیں گے۔ یہ سارے مقدمے عدالتوں میں جاتے رہے اور ملک ریاض اپنے تعلقات کی بنا پر قانون سے بالا تر رہا۔ موصوف کی دولت سن 2000 میں 500 ملین ڈالر تھی اور اب تقریباّّ 1000 ملین ڈالر کے قریب ہے۔ اپنا ذاتی جیٹ اور کئی بلٹ پروف گاڑیاں ہیں۔ اثر و رسوخ اتنا ہے کہ قتل بھی معاف کر وا لیتے ہیں پنڈی مری روڈ پر گولف سٹی پراجیکٹ زیر تکمیل ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ہر قسم کی ڈیویلپمنٹ پر پابندی خود میاں شہباز شریف نے لگائی تھی پھر بھی گولف سٹی بن گیا۔ مجھے ولی خان کے الفاظ یاد آرہے ہیں کہ اگر  ۰۰۱ کروڑ ہوں تو پاکستان کی پوری پارلیمنٹ خرید ی جا سکتی ہے، ملک ریاض تو 9200کروڑ کا مالک ہے چوڈھری فواد نے ولی خان کے اس بیان کے بارے میں کہا تھا کہ ملک ریاض آج پاکستان کا سب سے طاقتور آدمی ہے۔ اس کے حلقہ احباب میں اشقاق پرویز کیانی ، میاں نواز شریف، آصف علی زرداری اس کے قریبی ہیں ۔ نواز شریف اور زرداری میں ڈیل کروانے میں بھی ملک ریاض کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ حالیہ اسکینڈل کے مطابق چیف جسٹس کے فرزند ارجمند بھی ملک صاحب کے کافی قریب تھے۔ س

نا تھا کہ جنرل مشرف اور چودھری برادران میں ڈیل کروانے والے بھی ملک صاحب تھے۔ حکومت جس کی مرضی ہو پنڈی اسلام آباد کے ڈی سی ، تحصیل دار ، ڈی آئی جی سے تھانے دار تک سب تقرریاں ملک صاحب کی مرضی سے کی جاتی ہیں۔ سیاست دانوں سے سول سرونٹس تک، صحافیوں سے لے کر ٹی وی اینکرز تک کون ہے جو ملک صاحب کی پہنچ سے باہر ہے؟ کچھ دن پہلے ملک صاحب کے ایک بہت قریبی ایک شخص سے ملاقات کا اتفاق ہوا تو پتا چلا کہ ملک صاحب پاک انڈس ایئر لائنز میں بھی 35 سے 40 فیصد کے پارٹنر ہیں۔ پچھلے دنوں جب ملک صاحب کے اسکینڈل کھلنے شروع ہوئے تو ملک صاحب نے میڈیا پر اپنی مرضی کے انٹرویو دینے شروع کر دیئے اور چیف جسٹس پر الزامات کی بارش کر دی اور جب ایک کیمرا مین نے مہر بخاری اور مبشر لقمان کے انٹر ویو کی ویڈیو یو ٹیوب پر لگائی تو ملک صاحب نے بحریہ ٹائون کے لیٹر ہیڈ پر ایک لسٹ شائع کر وا دی کہ متعدد صحافی اور ٹی وی اینکر بھی ان کے معاوضے پر چلتے ہیں اور لسٹ میں کچھ نام ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں خود جانتا ہوں کہ ان کی تقریاں ملک ریاض کے کہنے پر کی گئی ہیںکسی نے پیسے لئے تو کسی نے بیورو چیف کی نوکری۔ ملک ریاض ذاتی طور پر ایک عام انسان ہے مگر اس کی دولت اسے ایک طاقتور سخصیت بناتی ہے اور پاکستان میں چاہے عام آدمی ہو یا سیاستدان ، وردی والا ہو یا سادہ لباس والا پیسے کے سامنے سب کا ہی سر تسلیم خم ہے۔ ملک صاحب تو یہ سب کچھ اپنے ذاتی مفاد کے لئے یا اپنی دولت کو ضرب دینے یا اپنی ذاتی تسکین کے لئے یا پھر صرف اور صرف اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے کرتے ہیں۔ ملک ریاض جیسے عناصر ایسے مخصوص عزاعم کے ساتھ ساری دنیا میں ہی پائے جاتے ہیں مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ملک ریاض کے رفقا جیسے جنرل، میجر، ایڈمرل، کموڈور، سول سرونٹ، اور سیاست دان ہر جگہ اکھٹے نہیں پائے جاتے۔ کیا یہ لوگ اس قابل ہیں کہ پاکستان کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں دی جائے؟ میرا کام حقائق آپ کے سامنے رکھنا ہے ، فیصلہ آپ خود کریں کہ کیا ملک ریاض کے رفیق آپ کے ووٹ کے حقدار ہیں، کیا ایسے لوگ جو چند کروڑ کے لئے ایمان بیچ کھاتے ہیں اس اعزاز کے حقدار ہیں کہ ایک سپاہی جو صرف ملک کی حفاظت کے لئے فوجی بنا اور جان ہتھیلی پر رکھے سرحد پر کھڑا ہے یا ایک عام شہری  جسے اپنے وطن سے محبت ہے اور وہ انہیں اپنی جان مال اور قومی شناخت کا رکھوالا سمجھتا ہے، ان کے کندھوں پر لگے ستاروں سلیوٹ کر یں ؟

﴿مزید حقائق کیلئے اگلی قسط کا انتظار کریں ﴾

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *