سمیع اللہ ملک
ملک کی سمت کیا ہے‘کوئی نہیں جانتا۔۱۹۷۱ء میں پا کستان کے تمام ادارے ‘وسائل اور آبادی کا ایک بڑا حصہ ملک کے سا تھ تھا یا اس کے کنٹرول میں تھا۔قوم پر پوری طرح واضح تھا کہ دشمن کون ہے اور کتنا طاقتور ہے۔مسئلہ صرف یہ تھا کہ اس دشمن سے کیسے نمٹا جائے۔ٹارگٹ واضح ہونے کے با وجود بد نیتی اورغیر ملکی قوتوں کے ایجنٹوں کی وجہ سے ہمیں نا کا می کا سا منا کر نا پڑا۔آج ۲۰۰۸ء میں دوبا رہ وہی صورت حال آن پڑی ہے لیکن اب نمٹنے کی بات تو ایک طرف یہی طے نہیں ہو رہا کہ ہما را اصل دشمن ہے کون ؟ وہ اندر ہے کہ با ہر‘کب وار کرے گا اور کیسے کرے گا؟ملک اس وقت کس راستے پر چل نکلا ہے ‘مو جو دہ حکومت کا اختیار کردہ راستہ ہمیں کس سمت لیکر جا رہا ہے؟ہما ری حکومت کا یہ بحری جہاز کہاں لنگر ڈالے گا؟دبئی ‘لندن یا سیدھا ا مریکہ کی کسی بندرگاہ پر !اس بحری جہاز کا نا خدا وہاں کی کھلتے موسم کی چمکتی دھوپ میں قصر سفید کے عطا کئے ہوئے کسی کونے میں آفتابی غسل کی تیاری میں مصروف ہو گا؟
ایسا کیوں محسوس ہو رہا ہے کہ ملک کی معیشت کا طیارہ مہنگائی کے کڑکتے بادلوں میں کسی ا نجانی منزل کی طرف گامزن ہے جہاں اس طیارے کا کپتان اس کا” آٹو پا ئلٹ“ کا بٹن دبا کر تمام مسافروں کی زندگیوں سے غافل موت جیسی گہری نیند سو گیا ہے یا پھر ایسا کیوں محسوس ہو رہا ہے کہ ہما ری مو جو دہ حکومت کی حالت ایک ایسے ادھ مو ئے گھو ڑے جیسی ہو گئی ہے کہ جس کی صرف آنکھوں کی پتلیاں حر کت کر رہی ہیں اور استعماری گدھ اسکے جسم کا بڑی بے دردی سے گوشت نوچ رہے ہیں اور بے کس اور لا چار عوام ایک کمزور چھڑی سے دور سہمے ہوئے ہش ہش کر رہے ہیں کہ شائد یہ استعماری گدھ ا ن پر ترس کھا کر دور ہٹ جا ئیں!بلوچستان کسی چوک پر کھڑا وہ لا وارث بچہ ہے جس کے بے حس والدین اسے چھوڑ کر اپنی شا پنگ میں مصروف ہیں اور کرا چی تو وہ کیک ہے جو کسی راتب کے طور پر کسی للچا ئی بھوک کا شکار ہونے کا منتظر ہے۔اندرون سندھ اس چٹیل میدان کی طرح ہے جہاں مالکان اپنے اپنے کتوں اور مرغوں کی لڑائی کا میلہ سجانے کیلئے چل پڑے ہیں۔کشمیر اور شمالی علاقہ جات وہ چراگاہ ہے جس میں کڈریے کو بس یہ فکر ہے کہ اس کی بھیڑ بکریاں چرتے چرتے ہمسا یوں کی لگا ئی ہو ئی زہریلی با ڑھ کو منہ نہ مار لیں۔پنجاب وہ بیٹا ہے جس کی ماں ا پنے دودھ اور باپ اس کو ا پنی جاں کی قسم دیکردوسرے اوباش بیٹے کے سا منے خاموش ر ہنے کا حکم جاری کر دیں۔ ایٹمی پروگرام زمین کا وہ قیمتی ٹکڑا ہے جس پر اپنا اپنا حق ثابت کرنے کیلئے تمام برادری والے بھرے بازار میں ایک دوسرے کے کپڑے تار تار کر دیں اور امریکہ وہ سود خور ہے جو قسط کے عوض اب گھر کی چاردیواری کی اینٹیں تک لیجانے کیلئے ٹریکٹر ٹرالی لے آیا ہے اور مالک مکان زیر لب بڑبڑارہاہے کہ”مائی باپ! ایک موقع اور عنائت فرمادیں حضور!“اور بھارت اپنی سازش کی کامیابی پر دو انگلیاں منہ میں ڈال کر سیٹی بجاتے ہوئے اس نو ٹنکی سے نہ صرف لطف اندوز ہو رہا ہو بلکہ اپنے خوں آشام دانتوں کو تیز کرکے گیدڑکی طرح شکار کے گرد بے تابی کے ساتھ چکر لگا رہا ہو۔
یہ سا را منظر نامہ صرف ان مظلوم اوربے کس محب وطن افراد کی خاموش دلخر ا ش آرزوٴں کا پتہ دیتی ہیں جن کے اکابرین اور بزرگوں نے اس ارض پاک کیلئے اپنا تن من دھن قربان کرکے رمضان المبارک کی ستائیسویں رات کو اپنے خالق اور پالن ہار کے سا تھ یہ و عدہ کیا تھا کہ اس عطا کردہ ارض پاک پر تیرے نام اور تیرے احکام کی تعمیل ہو گی۔محسن ا نسا نیت کے ذریعے تیری بتائی ہوئی شریعت کا نفاذہوگا۔لیکن اب ہو یہ رہا ہے کہ قصر سفید کا نامزد ‘ایک بد عنوان مفرور جو اس ارض پاک پر وزارت داخلہ کا منصب سنبھالے ہوئے ہے اس نمرود کی بستی میں آ کر عالمی ذزائع ابلاغ کے سا منے برملا تیرے ما ننے والوں کو دہمکی دے رہا ہے ”کو ئی مائی کا لال شریعت عدالت قا ئم کرکے تو دکھائے تو ہم اس کو سبق سکھا دیں گے“ اور پھر اپنے اس کردار کی ستائش کیلئے ارض پاک کے دوسرے مفرور بھتہ خور کے ہاں حاضری کیلئے پہنچ جا تا ہے۔
ایک طرف قصر سفید کافرعون اپنی تما م تر تکبر اور طا قت کے اظہار کی د ہمکیوں کے گولے برسا رہا ہے اور دوسری طرف ہندو بنیا اکھنڈ بھارت کے خواب اپنی مکروہ آنکھوں میں لئے اپنی تمام تر مکاریوں کے سا تھ اس ارض پاک پر اپنے کا رندوں کو مسلسل کمک پہنچا رہا ہے۔وزیر اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی ا پنے منصب کو پوری طرح سمجھنے سے قاصر اور زرداری کے پٹواری کی مانند خدمات بجا لانے میں دن رات مصروف ہیں‘ادھر قصر سفیدکے فرعون برملایہ بیان داغ رہاہے کہ ہما رے قبا ئلی علاقوں میں ایسے غیر ملکی چھپے بیٹھے ہیں جو نائن الیون کی طرز پر ایک دوسرے حملے کی تیا ری میں مصروف ہیں حالانکہ اب تو بالعموم تما م مغر بی دنیاکے اور بالخصوص امریکی غیر جانبدار محقق اس بات پر متفق ہیں کہ مسلم ممالک کے وسائل پر قبضہ کر نے کیلئے ‘آگ اور خون سے رقم کی جا نے والی فلم”دہشت گر دی کے خلاف جنگ“میں اسامہ بن لا دن کو مر کزی کردار بنایا گیا اور ا فغانستان پر حملہ کر نے کے بعد اس کر دار کو غائب قرارکر دیا گیااوراب اوبامہ نے اگلے انتخابات جیتنے کیلئے اس کاکام تمام کردیا۔
ایک نا معلوم اور مشکوک تنظیم القاعدہ کوقصر سفید کے فرعون نے (مفروضہ کے طور پر)عالمی ذزائع ابلاغ میں زندہ رکھا ہوا ہے ۔با دشاہ کی جان طوطے میں ہو تی ہے اسی طرح قصر سفید کے فرعون کی القاعدہ میں ہے۔ لہندا جب ضرورت محسوس ہوتی ہے دنیابھرمیں القاعدہ کاخوف پھیلانے کیلئے ا مریکہ اور مغربی دنیا کے خلاف زہریلے دہمکی آمیز پرا پیگنڈہ کی ٹیپ چلا دی جا تی ہے تاکہ اس کی آڑمیں اپنے ہدف کی تکمیل کی جاسکے۔ اسامہ بن لا دن کی ہلاکت کے بعداب ایمن الظوا ہری کی آواز سنا کر دنیا کو یقین دلا نے کی کو شش کی جا ئے گی کہ دنیا کے امن کو اب بھی شدید خطرات لا حق ہیں،اس لئے اسکی تلاش میں ان کے مقرر کردہ اہداف مسلمان ملکوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی۔ ایمن الظوا ہری افغانستان اور پاکستان کے درمیان کہیں چھپے بیٹھے ہیں۔افغانستان میں غدار ابن غدار میر جعفر اور میر صادق کی شکل میں حامد کر زئی کوبٹھا دیا ہے اور پاکستان میں این آراوکے تحت من پسندحکومت قائم کردی گئی ہے۔
بھا رت کے بنئے اور اسرائیلی توسیع پسند یہو دیوں کو پاکستان کی ایٹمی طاقت کسی صورت بر داشت نہیں جبکہ ا مریکہ کی آنکھ میں بھی ہما را ایٹمی طاقت ہونابری طرح کھٹکتا ہے۔اس کے علاوہ بھا رت کے بنئے کی یہ بہت دیرینہ خواہش ہے کہ پا کستان کے شمالی علاقوں کو پاکستان سے کاٹ کر اپنا حصہ بنا لے ۔ایک تو پو رے کشمیر کا مسئلہ حل ہو جا ئے گا‘دوسرا پاکستان کا اپنے نہائت مخلص دوست چین سے رابطہ ختم ہو جائے گا اور تیسرا واخان کے راستے روس کی ریاستوں سے سیدھا براہ راست زمینی رابطہ قائم ہو جائے گا۔اس کیلئے امریکہ کی مکمل آشیر اباد بھی حاصل ہے اور ا مریکہ بھی اس مدد کی آڑ میں بھارت کو مستقبل کی بڑی طا قت بنا کرچین کے مقا بلے کیلئے تیار کر رہا ہے تا کہ روس کی با لا دستی کو ختم کرنے کے بعد اب صرف چین ہی ایسا ملک رہ گیا ہے جس کی فوجی اور معا شی قوت ا مریکہ کیلئے خطرہ بن سکتی ہے۔اس لئے قصر سفید کے فرعون نے بڑی مہارت اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعے یہ پہلے ہی ا نتظام کر لیا تھا اور مشرف کے فوری بعد نعم البدل کے طورپرآصف زرداری کی صورت میں ایک جمہوری آمرمیسرآگیا۔
غیر ملکی قبائلی علاقوں میں تو موجود نہیں بلکہ اسلام آباد کی کرسیوں پر قا بض ہو گئے ہیں۔دبئی‘امریکہ اور لندن میں رہتے ہیں‘غیر ملکوں میں ان کے اثاثے ہیں‘اولادیں بھی ملک سے باہر ہیں مگر قصر سفید کے فرعون کی بدولت پاکستان میں حکمرانی کر رہے ہیں۔ملک کے اندر ونی فیصلے باہر والوں کی مرضی سے باہر کئے جاتے ہیں اور ایک بیان جاری کر دیا جاتا ہے کہ امریکہ کو پاکستان کی سرحدوں پر حملہ کی اجازت نہیں دیں گے‘جیسے ا مریکہ ان کی اجازت کا پابند ہے۔چوروں ‘بزدلوں اورکمزوروں کو حکم دیا جاتا ہے نہ کہ ان سے اجازت لی جاتی ہے۔امریکہ اور اتحادی افواج پاکستان پر شدید دباوٴ بڑ ھا نے کی کوششوں میں اب بھی مصروف ہیں کہ نیٹو افواج کو پاکستان کے شمالی علاقوں پر براہ راست کاروائی کا حق دیا جائے۔سی آئی اے نے پاکستان کے اعلیٰ حکام کوایسے نقشے فراہم کئے ہیں جن پر بعض شمالی علاقوں پر بی ون بمبار طیار وں کے ذریعے بمباری کیلئے سرخ نشان لگائے گئے ہیں۔امریکی چیئر مین جائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کا پر اسرار دورہ افغانستان لمحہ فکریہ ہے لیکن پاکستان کی قیاد ت نجانے کس قیامت کی منتظر ہے حالات سنگین صورت اختیار کر چکے ہیں اور روڈ میپ بھی تیا رہو چکے ہیں البتہ بگل بجنے کی دیر ہے۔ہم حقیقتاً ایک ایسی بد نصیب قوم ہیں جسے ہمیشہ نماز کے بعد وضو یاد آتا ہے اور تدفین کے بعد غسل!!
اک موت کا دھندہ ہے باقی‘جب چا ہیں گے نمٹا لیں گے
یہ تیرا کفن ‘ وہ میرا کفن‘ یہ میری لحد وہ تیری ہے