Home / Socio-political / مہلت کم ہو رہی ہے

مہلت کم ہو رہی ہے

سمیع اللہ ملک

اب وقت دعا ہے‘لیکن امت مسلمہ پر تو عرصے سے عجب وقت آن پڑا ہے۔دعاء مومن کا ہتھیار ہے لیکن دعاء مانگ کر منہ پر ہاتھ پھیر نے کے بعد مسائل سے منہ نہیں موڑا جا تا بلکہ کوشش ہو تی ہے کہ مسائل کا منہ پھیر د یاجائے۔ہما را معاملہ بس یہی اٹک جا تا ہے ‘ہم صرف دعا سے کام چلاتے ہیں دوا نہیں کرتے۔لیکن سب تو ایسے نہیں ہیں‘کچھ تو ایسے بھی ہیں جو سر بکف میدان میں نکل آتے ہیں اورحوادث کا منہ پھیرنے کی کو شش میں جان کی با زی لگا دیتے ہیں:

مقتل ا ہل وفا سے جب بھی آیا ہے پیام                   دونوں ہا تھوں پر لئے خود اپنا سرجا تے ہیں لوگ

اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے با رے میں کہا گیا ہے کہ ”ان کو مردہ مت کہو یہ تو زندہ ہیں مگر تمہیں اس کا شعور نہیں“وہ تو ابدی اور بہترین زندگی پا گئے۔ ستم یہ ہے کہ اہل مغرب کا پروپیگنڈہ اتنا شدید ہے کہ اسلام اور امت مسلمہ کے جا نثار ہی اب تخریب کار اور دہشت گرد کہلا تے ہیں۔اصل عا لمی دہشت گردوں نے اس شدیدپروپیگنڈہ کے آہنی پردے کے پیچھے اپنے مکروہ چہروں کوچھپا رکھا ہے۔مغرب کی چاکری کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ خود ا مریکہ کے ہا تھوں ملک کی سلا متی شدید خطرے میں پڑ ھ گئی ہے۔دہمکیاں دی جا رہی ہیں کہ ہمار ے کمانڈو تیار بیٹھے ہیں۔عراق اور افغانستان تو سنبھل نہ سکااب پا کستان میں ناپاک قدم رکھ کر دیکھ لیں۔بے شک حکمران کچھ مزاحمت نہ کر سکیں گے مگر پا کستانی قوم اب بھی بے حمیت اور بے غیرت نہیں بن سکی۔

حکمران ہیں ہی کہاں؟سب کے سب اپنی نوکری پکی کرنے کیلئے اپنے بیرونی آقاؤں سے مددکے طلب گاررہتے ہیں۔ہروقت قصر سفید کے فرعون باراک اوبامہ سے ملاقات کی خواہشات کا سمندر دل میں ٹھا ٹھیں مار رہاہوتاہے۔پاکستان کے ہر حکمران کا سب سے قیمتی اور خوشنما سپنا صدر امریکہ کی دست بوسی ہوتا ہے۔سند حکمرانی بھی تو وہیں سے ملتا ہے۔تصاویر کا سیشن ہوتاہے اور بعد میں قوم کو سب اچھے کی نویدسنادی جاتی ہے لیکن کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ اندرون خانہ مزید کن احکامات کی فہرست تھما دی گئی ہے۔ابھی حال ہی میں امریکی نژادپاکستانی منصوراعجازکے” خط“ کے انکشاف نے سارابھانڈہ کھول کررکھ دیاہے کہ کس بھونڈے اندازمیں اپنے ہی ملک کی افواج پرشک کرتے ہوئے امریکاسے مددکی مناجات کی گئی ہے اوربدلے میں غلامی کے طوق کوخودگلے میں پہننے کی خواہش کااظہارکیاگیاہے۔

بغداد کا خلیفہ کمزور ہونے کے با وجود ہندوستان کے طاقتور حکمرانوں کو سند سلطانی عطا کیا کرتا تھا اور تب خطبہ جمعہ میں خلیفہ کے بعد سلطان کا نام شامل کیا جاتا تھا ورنہ عوام اسے جائز حکمران تسلیم نہیں کرتے تھے۔ پھر مغلوں نے خلیفہ سے وابستگی ختم کر دی ۔شکر ہے کہ اب خطبہ جمعہ میں حکمران کا نام شامل نہیں ہوتا وگرنہ سند اب بغداد کی بجائے واشنگٹن سے آتی اور سارا بھانڈا پھوٹ جاتا۔حالانکہ یہ ا فواہیں تسلسل سے آ رہی ہیں کہ بعض عرب ممالک کی طرح پاکستان میں بھی خطبہ جمعہ حکومت فراہم کیا کرے گی۔کبھی کراچی میں ا لطا ف کیلئے یہ نعرہ لگتا تھا ”قوم مشکل میں ہے اور مشکل کشا لندن میں ہے“یہ نعرہ کچھ لوگوں کو اس قدر پسند آیا کہ ہر کس نے مشکل کشا بننے کی ٹھان لی۔کوئی دبئی پہنچ گیا ‘کسی نے پہلے سے ہی نمرود کے سا یہ تلے پناہ لے رکھی ہے اور کسی نے واشنگٹن میں سفارت کاری کا منصب سنبھال رکھا ہے۔سب سے بڑھ کر ایک مشکل کشا ایسا بھی جس نے وزارت داخلہ کا منصب سنبھال کر اپنے بڑے مشکل کشا کی خلافت سنبھال رکھی ہے۔افغانستان میں ا مریکی وائسرائے کرزئی الگ سے طالبان کے خطرات کا واویلا کر رہے ہیں ۔

کیا یہ مماثلت اتفاقی ہے یا لندن اور واشنگٹن سے یہ خطبہ لکھوایا گیا ہے؟وزیرداخلہ نے ایک مرتبہ پھراس معاملے کودبانے کیلئے اس کی تفتیش کااعلان کردیاہے اورمنصوراعجازاس بات پرمصر ہے کہ اس نے صدرزرداری کایہ خط پاکستانی سفیربرائے امریکاحسین حقانی کی ہدائت پر مائیک مولن کوپہنچایاتھاجس کی اب تصدیق بھی ہوگئی ہے۔فی الحال ایوانِ صدر سے خاموش رہنے کی کال آئی ہے جس کی بنا پر وقتی سکوت نے طوفان میں تاخیر کر دی ہے۔سندھ اور پنجاب میں بھی بے چینی بڑھتی جارہی ہے اور اب خواجہ آصف نے مسلم لیگ ن کی طرف سے اجتماعی استعفوں کی اپنی پیشگوئی میں حکومت کی عمر اور دو مہینے تجویز کی ہے اور کہا ہے کہ عوام جلد ان کا جلوس نکال دیں گے۔لیکن اس وقت تو عوام کا جلوس اور جوس نکل رہا ہے۔

سنا ہے ‘نان جویں یہ نمک سے کھاتے ہیں چلو غریبوں کی شاہ خرچیاں ہی دیکھ آئیں

دو ماہ بعد کیا ہو جائے گا۔نئے ا نتخابات بھی ہوئے تو عوام کے ہا تھ کچھ نہیں آئے گا۔چوہدری شجاعت خاطر جمع ر کھیں ان کے ہا تھ اب کچھ نہیں آئے گا۔اقتدار اگلے دس سال تک ان کیلئے شجر ممنوعہ ہی رہے گا۔ابھی تو ق لیگ کے دئیے ہوئے زخم تازہ ہیں اوروقت آنے پر پیپلز پارٹی نمک چھڑ کنے میں بالکل بخل سے کام نہیں لے گی۔البتہ پیپلز پارٹی کو ا چھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہئے اسے چو تھی مر تبہ اقتدار ملا ہے ۔حالات جس نہج پر جا رہے ہیں محسوس یہی ہوتا ہے کہ یہ پیپلز پارٹی کیلئے آخری مو قع ہے۔فی الوقت ماشل لاء لگنے کا کوئی امکان تواسلئے نہیں کہ فوج اب ایک لمباوقفہ ضرور دے گی تا کہ اس عرصے میں اس کے تمام داغ دھل جا ئیں اور سول حکمران اتنا حبس پیدا کر دیں کہ عوام لوٴ کی دعائیں مانگنے لگیں۔تب گرم ہوا کے جھکڑ چلتے ہیں اور آئین اڑانے والی آندھیاں اٹھتی ہیں۔ایک ہی حکم سے ملک کی اعلیٰ عدالتیں سر بسجود کر دی جاتی ہیں اور ان اعلیٰ عدالتوں کے منصفوں کو ان کے گھروں میں بند کر دیا جاتا ہے۔عوام تو ایسے مناظر با ر با ر دیکھ رہے ہیں۔گذشتہ۶۴سالوں سے قوم کے ساتھ ایسی ہی آنکھ مچولی کھیلی جا رہی ہے۔حکو متیں بدل جا تی ہیں ‘چہرے بدل جا تے ہیں مگر عوام کی حالت نہیں بدلتی۔

پا کستان کی تا ریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ا پو زیشن بھی حکومت میں ہے ا نتخابات کی گھڑ دوڑ میں پہلی اور دوسرے نمبر پر آنی والی جماعتیں حکو مت اور اپوزیشن میں ہو نے کے بوجود حکومت چلا رہی ہیں۔یہی نہیں اب تو ق لیگ سمیت سب ہی کو اقتدار کی مر غی نے اپنے پروں تلے سمیٹ لیا ہے۔ان میں کچھ چوزے ہیں اور کچھ ا بھی تک انڈوں میں چوزے بننے کے انتظار میں ہیں۔اے این پی‘جے یو آئی اور حتیٰ کہ ایم کیو ایم نے بھی اقتدار کے مرغوں سے کافی شنا سائی کر لی ہے۔ مونس الٰہی کے مقدمات کی مجبوری نے بالآخرچوہدری برادران کواقتدارکی غلام گردشوں میں پہنچاکردم لیاہے اوراحسان فراموشی توپاکستانی سیاست کا لازمی جزو ہے۔ اب جوحکمران ہیں وہ بھی حالات کا صحیح ادراک کرنے سے قا صر ہیں یا پھر ۱۱ سال کی کمی پوری کر نے پر تل گئے ہیں ۔آصف زرداری تو اپنے لئے اور نواز شریف کیلئے لا نڈھی جیل کی پیشگوئی بھی کر چکے ہیں ۔اب یہ بہا نہ کارگر نہیں رہا کہ سا ری خرابیاں ورثے میں ملی ہیں ۔کیا یہ ساری خرا بیاں پہلے نظر نہیں آ تی تھیں‘پھر اس سارے ورثے کیلئے اتنی بھا گ دوڑ کیوں کی تھی۔سا رے کہ سارے اپنے آپ کو اتنے گھا گ سیاستدان کہتے ہیں تو ایسے ہی تو اقتدار کیلئے اودھم نہیں مچایا ہو گا‘کچھ دیکھ کر ہی گرے ہوں گے۔اگر یہ کہا جائے کہ خرابیوں کا علم نہیں تھا تو پھر سیاست کر نے کا بھی کو ئی حق نہیں۔چلئے‘مان لیتے ہیں کہ ہربات کا علم نہ تھا تو اب واویلا کیوں؟ شا ید یاد ہو ان خرابیوں کو دور کرنے کا د عویٰ لیکر اس انتخاب کے میدان میں اترے تھے۔ ہر سیاسی جماعت یہی کہتی ہے لیکن جو ا چھی جماعت ہو تی ہے ان کے پاس اپنے عہد کو نبھا نے کیلئے ضرور کوئی متبا دل پروگرام ہوتا ہے۔

عجب اس دور میں ا ک معجزہ دیکھاکہ پہلو سے                   ید بیضا نکلنا تھا مگر کا سہ نکل آیا

حکمران کہہ رہے ہیں کہ پندرہ سال کے مسائل اتنی جلد حل نہیں ہو سکتے ۔پتا نہیں کہ یہ پندرہ کا ہندسہ کہاں سے لے آئے ہیں یعنی مسائل کا حساب ۱۹۹۳ء سے لگایا گیا ۔اس وقت تو بے نظیر کی حکومت تھی یعنی انہوں نے بھی مسائل پیدا کئے تھے۔اگر مسائل حل نہیں کر سکتے تو پھر کیا کر سکتے ہو؟صرف اقتدار کے مزے لوٹنے آئے ہو اور اپنے بیرونی آقاوٴں کے ا یجنڈے کی تکمیل کیلئے راستہ ہموار کر رہے ہو؟ا لبتہ ایک کام کیا ہے کہ اپنے آقاؤں کے حکم کی تعمیل میں بھارت کوپسندیدہ ملک قراردیکرکشمیریوں کوایک مرتبہ پھرمایوسیوں کی دلدل میں پھینک دیاہے۔اقتدارسنبھالتے ہی آصف زرداری ہندو بنئے(بھارت) سے دوستی کیلئے بیتاب اور مرے جا رہے تھے ،اس دوستی کیلئے کہتے ہیں مسئلہ کشمیر گیا بھاڑ میں ‘ہم اس کے اسیر نہیں‘ہمیں تو بس بھارت سے دوستی چاہئے۔وہاں سے ناچنے گانے والے طا ئفے آئیں‘اداکارائیں آئیں‘تاجر اور صنعت کار آئیں۔ملک جو صنعتی لحاظ سے دیوالیہ کے قریب پہنچ چکا ہے اب باقی ماندہ کارخانے بھی بند کرکے ہندوستان کا مال اپنی منڈیوں میں متعارف کر ائیں گے۔

چلو اس بار بھی ہم ہی سر مقتل نکلتے ہیں مسائل ایسے سا ئل ہیں کہ کہاں ٹالے سے ٹلتے ہیں

یہ سب کچھ سول جمہوری حکومت کے د و رمیں ہو رہاہے۔بیرونی آقاوٴں کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ ہم تو مشرف سے بھی زیادہ روشن خیال ہیں۔ا سی لئے انہوں نے پیپلز پارٹی کو گود لے لیا ہے۔مبارک ہو!ہمارے بڑے پیارے صاحب نظر دوست ہیں‘ان کو بھی یہی شکوہ ہے کہ ہم با تیں بہت کرتے ہیں لیکن ایک بھی عمل اپنے رب کو خوش کرنے والا نہیں۔آخر منادی کرتے کرتے ہاتھ شل ہو گئے تو پھر کیا ہو گا؟

بس سجنو شاید وقت مہلت کم ہو رہی ہے اب بھی نہ سنبھلے تو ․․․․․․․․․

اپنی تو بے حسی نے سماعت ہی چھین لی کہتے ہیں شور کی طرح مچتا رہا ہے وقت

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *