Home / Socio-political / میراقلم میرے خواب

میراقلم میرے خواب

سمیع اللہ ملک

”تم سب لکھنے والے بھی عجیب لوگ ہو‘صرف خواب دیکھنے اور دکھانے والے‘مصلحت پسند لیڈروں اور طاقتور اشرافیہ سے جان چھڑانے کے خواب‘معاشرہ میں ایک انقلاب لانے کا خواب‘معاشرہ سے ظلم‘بے چینی اور اضطراب کو ختم کرنے کا خواب‘گھر کی دہلیز پر ہر کسی کو انصاف مہیا کرنے کا خواب‘زندگی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے خواب‘لوگوں کے دلوں میں پلنے والے لاوے اور اور ان کے احتجاج کو اپنی تحریروں میں سمو کر ان کے بر وقت نتائج کے خواب‘پاکستان کو ایک مثالی ریاست بنانے کا خواب!!“ایسے کتنے ہی سوالات کی بھر پور بوچھاڑ کا سامنا ہر روز کرنا پڑتا ہے لیکن مجھے آج بھی اپنے ان خوابوں کی تعبیرکا پورا یقین ہے اور میرا یقین ہی میرا سرمایہ ہے جو مجھے آج بھی مایوس نہیں ہونے دے رہا۔

برسوں سے کئی موضوعات پر کچھ نہ کچھ تحریر کرتا رہا لیکن بیگناہ کشمیریوں پررواظلم وستم اوران کی قربانیوں اورفاسق کمانڈوپرویز مشرف کے دو ر ا قتدار میں وجہ سخن کالم نگاری اس لئے بن گیا کہ اپنے دل کی بھڑاس‘بے چینی اور اضطراب کو اہل وطن کی دلجوئی کا ذریعہ بنا سکوں۔یہ وہ زمانہ تھا کہ میری طرح اور بھی لکھنے والے اپنے اس یقین کا جھنڈا اٹھائے ہوئے تھے کہ وہ دن ضرور آئے گا جب اہل وطن اٹھ کھڑے ہو نگے ‘ایک تحریک جنم لے گی اور اہل وطن کو ان کی کھوئی ہوئی منزل کا نہ صرف پتہ مل جائے گا بلکہ منزل کی طرف سفر بھی بڑی تیزی کے ساتھ شروع ہوجائے گا۔حالانکہ یہ وہ زمانہ تھا جب صرف انتخابات میں اس ملک کے سیاسی رہنماوٴں کے جھنڈے برسات کے پتنگوں کی طرح گھروں ‘گلیوں‘سڑکوں پر نمودار ہوتے تھے ‘سال بھر میں یا تو اپنے ان لیڈروں کی سالگرہ کے کیک کاٹے جاتے تھے جو ان کو سنگین حالات کے بیچ منجدھار میں چھوڑ کر اپنے بیرونی آقاوٴں کے پاس چلے جاتے تھے ‘یا پھر بند کمروں میں اپنے رہنماوٴں کی برسیاں مناکر اپنے دکھوں کا مداوا ڈھونڈنے کی کوشش کرتے تھے۔اس زمانے میں الیکٹرانک میڈیا کے ٹا ک شوز بھی نہ تھے کہ ان لیڈروں کی شکل و صورت اور ان کے خیا لات عوام تک پہنچتے۔بس پریس ریلیز‘اخباری بیانات یا پھر منظور نظر صحافیوں کے ساتھ گفتگولیکن مسئلہ کشمیرپرمجرمانہ بے حسی گویاوہاں انسان نہین بستے کوئی اورمخلوق ہے۔

یہ سب لوگ ہم لکھنے والوں کا مذاق اڑاتے‘ہماری تحریروں کو دیوانے کی بڑ گردانتے‘اکثر یہی کہتے کہ اس قوم کے سامنے اپنے خوابوں کا دکھڑا نہ رویا کرو‘یہ قوم اٹھنے والی نہیں‘یہ سب دودھ پینے والے مجنوں ہیں‘اس قوم میں احساس زیاں بھی باقی نہیں رہا‘یہ تمہارے دکھائے ہوئے خوابوں کیلئے مار کھانے کو تیار نہیں۔بہتر یہی ہے کہ تم بھی ہماری طرح خاموشی کے ساتھ مفاہمت کر لو‘کچھ لو کچھ دوکے اصول کے مطابق !ہم اس ملک میں الیکشن بھی اپنی مرضی کا کروا لیں گے ‘ان تمام نام نہاد لیڈروں کو اقتدار میں حصہ بقدر وفاداری بھی مل جائے گاپھر تم کیوں اپنے مفادات کو داوٴ پر لگانے کی حماقت کرتے ہو؟وہ کوئی اور ملک ہونگے جہاں تمہاری تحریروں سے سجے خواب کی تعبیر کیلئے لوگ سروں پر کفن باندھ کر میدان میں اتریں ‘آمریت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے ان خوابوں کی تعبیر کا مطالبہ کرسکیں اورپھرکشمیرکیلئے کچھ لکھنااب بیکارہے کہ بھارت کے ساتھ اب قصرسفیدکے مفادات وابستہ ہیں اورفی الحالتماری طرف سے کشمیرپرہونے والے مظالم کاواویلاکوئی نہیں سنے گا۔

لیکن ان تمام دلخراش زمینی حقائق کے باوجود ان کالموں میں دنیا میں چلنے والی تحریکوں‘آنے والے انقلابات اور لوگوں کی قربانیوں کاذکر جب بھی ان کو پڑھنے کو ملتا تو یہ لوگ اپنی نجی محفلوں میں دبی دبی زبان میں اس بات کا اعتراف کرنے لگے اور ای میل اور ٹیلیفون کے ذریعے اس کا اعتراف بھی شروع کر دیاکہ ہم میں منافقت بہت ہے اسی لئے ہمارے لیڈر اپنے مفادات کیلئے آمریت کے سا منے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں‘ساتھ ہی اس شک کا اظہار بھی کرتے کہ یہ اٹھنے اور تحریک چلانے والی قوم ہی نہیں۔یوں بند کمروں میں کیک کاٹنے‘برسیاں اور سالگرہ منانے ‘ہوٹلوں کے کشادہ ہالوں اور آڈیٹوریم میں سیا سی جلسوں کی روش جاری تھی کہ پاکستان میں میں نو مارچ کا ایسا تاریخی دن آگیاکہ جب ملک کے

تما م اداروں کا دامن مصلحت اور مفاہمت کی کالک سے ایسا بگڑا ہوا تھا کہ اصلی صورت کے خدوخال ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہے تھے‘عدلیہ کی کالک کے ساتھ ساتھ تمام ملکی اداروں کی سیا ہی کو ایک شخص افتخار محمد چوہدری کی جرأت نے ایسے دھویا جیسے تیز برسنے والی بارش شہر وں کا سارا گند بہا کر لیجاتی ہے۔

یہی وہ لمحہ تھا جب لکھنے والوں کی باتیں سچ ثابت ہونے لگیں۔دبے سہمے ہوئے‘کچلے ہوئے‘ظلم سہتے ہوئے عوام سڑکوں پر نکل آئے۔افتخار محمد چوہدری کی شکل میں ان کو اپنا مسیحا نظر آنے لگا۔وہ سب جھنڈے جو الیکشن کی برسات میں مینڈکوں کی طر ح نظر آتے تھے اب سڑکوں پر افتخار محمد چوہدری کی جرأت کو سلام کرنے میں پیش پیش تھے۔ یہاں تک کہ اپنے اس مسیحا کے استقبال کو آنے والے کراچی کے لوگوں پر بارہ جولائی اس حال میں آیا کہ ان کو درختوں پر بیٹھے پرندوں کی طرح گولیوں سے بھون دیا گیااور اسی رات شکار پر خوش ہوکر ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتا ہوا شکاری اپنی اس کامیابی پر پوری قوم کو مکے دکھا کر اپنی طاقت کا لوہا منوا رہا تھا۔لیکن اس وحشیانہ تشددسے نہ تو تحریک میں کمی آئی اور نہ ہی لوگوں کے خواب ٹوٹے۔

ان لوگوں کا بس ایک ہی خواب تھا کہ ایک ایسا ادارہ وجود میں آ جائے جہاں وہ کسی سیاسی وڈیرے کے ظلم‘کسی ظالم بیوروکریٹ کی کرپشن‘کسی قبضہ گروپ کی دہشت اور کسی جرنیل کی لوگوں کو اٹھا کرغائب کر دینے کی عادت کے خلاف انصاف کیلئے جا سکیں۔ان کی سادہ کاغذ پر لکھی درخواستوں پر ان کی شنوائی ہو سکے اور ان سارے ظالموں کو عدالتوں کے کٹہرے میں لا کر ان سے تمام زیادتیوں کا حساب لیا جاسکے۔ابھی اس جرأت رندانہ کو چند روز ہی ملے تھے کہ ظالم اپنے تمام حواریوں کو لیکر اس پر ٹوٹ پڑا ور ان خوابوں کو چکنا چور کرنے کیلئے عوامی امنگوں کے حامل اس ادارہ کی شکل محض اس لئے بگاڑ کر رکھ دی کہ برسوں کے پسے ہوئے مظلوم افراد کو افتخار محمد چوہدری کی شکل میں ایک مسیحا نظر آیا تھا۔عدلیہ توبحال ہوگئی،افتخار محمد چوہدری نے بھی اپنامنصب سنبھال لیاہے،لوگ آج بھی ویسے ہی خواب دیکھ رہے ہیں اور مجھ جیسے بے وقوف کہلانے والے ویسے ہی خواب لکھ رہے ہیں ‘ویسے ہی خواب سوچ رہے ہیں‘اور لوگوں کی آنکھوں میں احتجاج کی مشعلیں‘مایوسی کے سائے اور اپنے اعتماد کے خون ہو نے کا غصہ اور انتقام دیکھ رہے ہیں۔میرا وجدان تو اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ اب یہ منزل ایسی دور بھی نہیں۔

ادھرکشمیرمیں پیرانہ سالی میں مردمجاہدسیدعلی گیلانی نیلوفراورآسیہ کی بے حرمتی پرتڑپ اٹھااوراپنی قوم کے سپوتوں کواپنی بہنوں اوربیٹیوں کی حفاظت کے نام پرپکارنے لگا۔چشم فلک نے لاکھوں کامجمع انہی کوہساروں کی سڑکوں پردیکھاجواپناسینہ کھولے استعمارکوللکارنے نکل کھڑے ہوئے۔انہی سڑکوں پرلاشے سسکتے اورتڑپتے اپنی بہنوں وبیٹیوں کی حفاظت کی گواہی دینے لگے اورآج ایک مرتبہ پھر کولگام کے مضافات میں ایک بیٹی کوبے آبروکردیاگیااور۱۵ویں کورکاکمانڈرجنرل حسنین اپنے دوفوجیوں کوبچانے کیلئے میدان میں کودپڑا ہے اور ساراالزام کشمیری مجاہدین پرلگاکراپنے دامن پرلگی ہوئی کالک کودھونے کی ناکام کوشش کررہاہے۔یادرہے کہ ایسا ہی الزام سابقہ صدرکلنٹن کے دورے کے موقع پرچھتی سنگھ پورہ میں سکھوں کے بہیمانہ قتل پربھی انہی مجاہدین پرلگایاگیاتھاجوبعدمیں خودبھارتی تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی نے ردکرتے ہوئے اس کو”را“کی کاروائی قراردیاتھا۔

تقریباً دو سو سال قبل امریکہ میں غلاموں کی تجارت کھلے عام ہو تی تھی۔افریقہ سے بحری جہازوں کے ذریعے پنجروں میں بند کرکے ان لوگوں کو لایا جاتا اور سخت ترین تشدد میں ان سے جانوروں کی طرح کام لیا جاتا۔اس زمانے کے تمام سیاسی رہنما بھی اس کاروبار میں برابر کے شریک تھے اور اس غلامانہ تجارت کو اپنے گھروں اور کارخانوں کیلئے ایک منافع بخش قوت سمجھتے تھے۔ایسے میں بھی کچھ لوگوں کے دلوں میں اس نظام سے نفرت ابل رہی تھی اور اس ظالمانہ نظام سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے خواب آنکھوں میں سجائے مسیحا کی آمد کی دعائیں کر رہے تھے‘بظاہر کوئی سبیل نظر نہیں آ رہی تھی ‘ اس نفرت کو ابھی زبان ملنا باقی تھی۔اس ابلتی نفرت کو ایک شخص نے جس کی طاقت صرف اس کا قلم تھا‘ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر آگے بڑھ کر ان غلاموں ‘بے کسوں کے خوابوں کو زبان دی ۔اس نے ایک اخبار ”لبریٹر“ کے نام سے نکالا اور اس کے پہلے شمارے میں لکھا”میں سچ کی طرح کڑوا‘اور انصاف کی طرح مصلحت سے عاری رہوں گا‘میں اس مسئلے پر کبھی بھی اعتدال کے ساتھ سوچنا‘بولنا یا لکھنا پسند نہ کروں گا‘نہیں کبھی نہیں‘مجھے کوئی ایسا شخص بتائیے جس کا گھر جل رہا ہو اور وہ اعتدال کی باتیں کرے‘آگ میں گر جانے والے بچے کی ماں سے کہیے کہ وہ اپنے بچے کو آہستہ سے آگ سے نکالے‘زنا بالجبر کرنے والے کے ہاتھوں سے کسی عورت کو اعتدال کے ساتھ کوئی نہیں بچاتا‘اسی طرح مجھ سے یہ توقع نہ رکھی جائے کہ میں موجودہ صورت حال میں اعتدال کا رویہ اپنا لوں۔“

یہ لکھنے ولا ‘خوابوں میں رنگ بھرنے والا ولیم لائڈ گیری سن تھا جس نے ۱۹۳۱ء میں اپنے قلم کی طاقت کو خوابوں کی تعبیر کیلئے استعمال کرنا شروع کیا۔اسے بھی ابن الوقت لوگوں کے طعنے سننے پڑے‘اس کو بھی احمق اور بے وقوف کے القابات ملے‘سینٹ کے ارکان اور صدارتی امیدوار بھی اس کو دیوانہ سمجھ کر لوگوں کو اس سے دور رہنے کی تلقین کر نے لگے‘دہمکیوں کی بناء پر اس کو اپنے ٹھکانے بدلنے پر مجبور بھی کیا گیا لیکن وہ اپنی تحریر سے لوگوں کو ایک عادلانہ معاشرے کے خوابوں کی تعبیر کی جلد نوید سناتا رہا۔وہ نہ خود مایوس ہوا اور نہ ہی ان لوگوں کی آنکھوں سے بہتر عادلانہ معاشرہ کے خواب کو دور ہو نے دیا۔اس کی آواز پر لبیک کہنے والے بڑھتے گئے‘وہ جو کسی ڈر یا خوف سے خاموش تھے ‘کھل کر سامنے آنے لگے۔ٹھیک ۳۰ سال بعد اسی خواب کو اپنی آنکھوں میں سجائے ایک شخص ابراہام لنکن آگے بڑھا اور بھاری اکثریت سے کامیاب ہو کر اسی ملک کا صدر منتخب ہو گیا۔مصلحت کوش سیاستدان اور اشرافیہ اس کے خلاف تھی لیکن ابراہام لنکن کو معلوم تھا کہ وہ جن کے ووٹوں سے اس منصب پر پہنچا ہے ‘ان کے خوابوں کو بھولنا غداری ہے‘ان کو مصلحت کی میٹھی گولیاں کھلانا جرم ہے‘ان سے وعدے کرکے مکر جانا انسانیت کی گر ی ہوئی ذلیل ترین حرکت ہے۔پھر امریکی تاریخ نے دیکھا کہ اسے ان ریاستوں سے جنگ کر نا پڑی‘مصلحت سے پاک جنگ اور فتح ان لوگوں کا مقدر بنی جو خواب دیکھتے تھے۔وہ لکھنے والا ولیم لائڈ گیری سن جو تیس سال پہلے بظاہر ایک نا ممکن جنگ کا آغاز کر چکا تھا ‘اس کے خواب سچ تھے اور مصلحت کوش لوگوں کی سب دلیلیں جھوٹی تھیں۔میرے ملک میں ۹ مارچ کو قوم نے گاڑی کا کانٹا مثبت سمت کی طرف بد لتے ہوئے دیکھ لیا ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ اس ٹرین کو پٹری سے اتار کر کھیتوں کی دلدل کی طرف موڑنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے لیکن خواب دیکھنے والے یہ لوگ ہزار میل کی رفتار سے کھیتوں کی طرف بھاگنے والی اس ٹرین کو اب بھی اس کی منزل پر پہنچانے کا عزم اپنی آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں۔

ولیم لائڈ گیری سن کی قسمت میں اور امریکی عوام کی زندگی میں ابرا ہام لنکن آ نکلا اور آج واشنگٹن میں صرف اسی کا مجسمہ ہے‘مصلحت کوش اشرافیہ کے ناموں سے بھی لوگ واقف نہیں ۔ میرے ملک کے خوابوں کی راہ گزر پر بھی وہی شخص کامیاب ہو گا جو اس خواب کو لیکر آگے بڑھے گا‘جو مصلحت پسند لیڈروں اور طاقتور اشرافیہ سے جان چھڑانے کے خواب‘ معاشرہ میں ایک انقلاب لانے کا خواب‘معاشرہ سے ظلم‘بے چینی اور اضطراب کو ختم کرنے کا خواب‘گھر کی دہلیز پر ہر کسی کو انصاف مہیا کرنے کا خواب‘زندگی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے خواب‘لوگوں کے دلوں میں پلنے والے لاوے اور اور ان کے احتجاج کو اپنی تحریروں میں سمو کر ان کے بر وقت نتائج کے خواب‘پاکستان کو ایک مثالی ریاست بنانے کے خواب پو رے کرے گا۔انہوں نے پاکستان میں۱۸ فروری کو اسی امید پر ‘اپنے خوابوں کی تعبیر کیلئے اپنے ووٹ کی طاقت کو استعمال کیا تھا۔ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ بھیڑ کی کھال میں کوئی بھیڑیا یہ کہہ کر ان کے خواب چکنا چور کر دے گا ‘جو تمام زبانی اور تحریری وعدوں کو یہ کہہ کر ہوا میں اڑا دے گا کہ یہ کوئی قرآن و حدیث تو نہیں؟ اس دنیا کے امن کو تہہ و بالا کرنے والے قصر سفید کے فرعون کے ہاتھوں این آر او کے تحت اپنی روح تک بیچ کر قوم کی سربراہی کا تاج سر پر سجائے اس بات کا اعلان کرے گا کہ ہمارے ملک کے سرحدی قبائلی علاقوں پر حملے ہماری اجازت سے ہو رہے ہیں۔ خوشامد اور چاپلوسی میں اس قدر آگے بڑھ جانا کہ قصر سفید کے فرعون کو دنیا کے امن کا ہیرو قرار دینا‘ہمارے ازلی دشمن بھارت کواپنا مربی اور دوست کہہ کر مظلوم کشمیریوں کو دہشت گرد کہنا ‘اس مملکت خداداد کو ایک اور خطرناک نفسیاتی جنگ میں دھکیل کر دشمنوں کے عزائم اور ایجنڈہ کی تکمیل میں معاونت کرنا ایک ایسا خطرناک کھیل ہے جس کی بنیاد پر اس قوم کی آنکھوں سے ان تمام خوابوں کی آس کی روشنی چھین کر ہمیشہ کیلئے اتھاہ اندھیروں کی گہری کھائیوں میں دھکا دینے کے مترادف ہے‘لیکن میں اب بھی حالات کے جبر سے خواب دیکھنے اور دکھانے کے عمل کو کمزور نہیں ہو نے دوں گا۔ انشاء اللہ

جنوں کے شہرمیں سربیچتے تھے مفت دیوانے           ادا کرنے یہی خوش رسم ہم بازارمیں آئے

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *