میں بتاﺅں!
انعام الحق ،پاکستان
ملک میں مذہبی و سیاسی صورتحال کُچھ عجیب بھی ہے اور غریب بھی!صورتحال عجیب اس طرح کہ مسلسل ناکامیوں اور عوام سے خوب بد دُعائیں لےنے کے بعد بھی بے شرمی سے سیاستدان کرسی چھوڑنے کو تےار نہیںاور مذہبی علماءکسی اےک نقطہ پر متفق نہیں۔صورتحال غرےب اس طرح کہ ہمارے پاس کوئی” انسان کا پُتر“حاکم نہیں۔اقتدار میں آنے سے پہلے جان مال تک دےنے کے دعوے،قسمیں اور یقین دہانیاں اور اقتدار میں آنے کے بعد اےسے منہ پھیرلینا جیسے اپنی ذات سے وعدے کئے ہوں جو پورے نہ بھی ہوئے تو پرواہ نہیں۔ہمارے ملک میں اصولی طور پر علماءحاکم ہونے چاہئے تھے مگر علماءکے جاہل پن کی وجہ سے اُنہیں کوئی گھاس ڈالنے کو تیار نہیں۔اےک طرف ہاتھ ملانا دوسری طرف اُسی کے خلاف بولنا ےعنی منافقت،اےک طرف ملک میں تمام مذاہب کو آزاد کہنا اور دوسری طرف احمدےہ فرقہ اور خود اےک دوسرے کے خلاف گندگی بکنا،اےک طرف مغربی ممالک کو بُرا بھلا کہنا تو دوسری طرف خود مغربی ممالک کے دورے کرنا اور وہاں اُن کے نظام کو اچھا کہنا،اےک طرف عوام کا ساتھ دےنے کا عہد کرنا اور دوسری مشکل وقت میں عوام کو شکل نہ دیکھانا وغیرہ وغیرہ کُچھ اس قسم کی حرکات ہمارے علماءکی ہیں اور اسی وجہ سے ہمارے ملک میں پڑھی لکھی عوام نے آہستہ آہستہ علماءکو باتونی اور بےوقوف سمجھنا شروع کر دیا ہے۔اس کی اےک اور بھی بڑی وجہ ہے وہ ےہ کہ ہمارے اکثر علماءاسلام کی مکمل تعلیمات سے آگاہ نہیں ہیں اور کثرت ایسے علماءکی ہے جو صرف لمبی داڑھی رکھے ہوئے مولوی ہونے کا لیبل لگائے پھرتے ہیں۔اگرےہ وہی علماءہیں جن کے ذمہ اسلام کی فتح کا جھنڈا بلند کرنے کا عظیم فرض ہے تو میرے خیال سے ےہ اسلام کا نام بدنام کرنے کا واحد باعث ہیں۔اسلام کی تعلیمات سے دنیا کو متاثر کرکے اسلام کی فتح کا جھنڈا لگانے کی بجائے ےہ علماءاسلام کی تعلیم کو منفی رنگ میں پیش کر رہے ہیں۔جب علماءاپنی ذاتی تعلیمات کی وجہ سے اُلٹی حرکتیں کرتے ہےں تو ہمارے ملک میں نہ سہی بیرون ممالک میں خبروں کے ذریعے ےہ علماءدین اسلام کی خوب بدنامی کا باعث بن رہے ہوتے ہیں۔مثلاًکُچھ عرصہ قبل( پاکستان، صوبہ پنجاب کے) ضلع سرگودھا کی تحصےل بھلوال کے گاﺅں چک چوبیس میں اےک ایسا واقع پیش آیا جس نے مغربی میڈیا میں اسلامی تعلیمات کی خوب بدنامی کروائی۔چک چوبیس میں اےک 45سالہ احمدی شخص جو کہ مئی میں ہونے والے احمدیوں کی عبادتگاہوں کے حملے میں شہید ہوا تھا مسلمانوں کے قبرستان سے نکلوا کر دوسرے قبرستان میں دفن کرویا گےا۔ علماءمجلس ختم نبوت نے پانچ ماہ گزرنے کے بعد شور مچایا کہ اس شخص کو جو کہ احمدی ہے مسلمانوں کے قبرستان میں دفنانا غلط ہے۔جبکہ اُس شخص کے کئی اور رشتہ دار اُسی قبرستان میں دفن ہیں اور جب اُس شخص کو دفنایا جا رہا تھا تب ختم نبوت والے سو رہے تھے۔قانون کا حال ےہ ہے کہ ڈی آئی جی علاقہ نے اس بات پر رائے دینے سے انکار کر دیا کہ ےہ حرکت اخلاقی ہے ےا غیر اخلاقی۔مگر اس حرکت نے مغربی میڈیا میں ہمارے علماﺅں کا جو اصل روپ دیکھاےا اُس سے مغربی قوم میںدین اسلام کے علماءکے بارے میں شکوک ےقین میں بدل گئے ہیں۔ جو شخص چاہے وہ کسی بھی فرقہ ےا مذہب سے تعلق رکھتا ہو جب وہ وفات پانے کے بعد اللہ کے حضور پیش ہوچکا ،وہ شخص صحیح تھا ےا غلط اُس کا حساب اللہ تعالیٰ نے کرنا ہے مگر اُس کے دفنائے جانے کے بعد میت کے ساتھ ےہ سکوک کسی بھی رنگ میں اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں۔اس خبر کے شائع ہونے کے ساتھ ساتھ اےک اور بات سامنے آئی کہ ایسا واقع اسی فرقہ کے لوگوں کے ساتھ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ ےہ غیر اخلاقی حرکت ہمارے علماﺅں کی وجہ سے انتیس ےا تیسویں بار ہوئی۔مغربی ممالک کی اکثراخباروں نے ےہ خبر شائع کی اور تفصیل میں ےہ بھی شائع کیا گےا کہ احمدی فرقے سے تعلق رکھنے والے زندہ لوگوں کے ساتھ تو پاکستان میں علماءظلم کر ہی رہی ہیں مگر ےہ علماءتو مردوں کو بھی نہیں بخشتے!میت کا احترام تو ہمارے مذہب اسلام میں ہے اور انسانیت کا تقاضہ بھی مگر انتظامیہ کا روےہ شروع سے جانبدارانہ کیوں ہے؟اصل میں ہمارے علماءخود فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ ےہ انسان ہیں،حیوان ہیں ےا شیطان ہیں۔ہر شخص داڑھی رکھ کہ مولوی بننے کی کوشش کرتا ہے مگر ذات پات اور مذہبی طور پر اےک دوسرے کو دُکھ دےنے سے باز نہیں آتے۔میں ےقین سے کہتا ہوں کہ اگر پورے ملک کے ہر فرقہ سے تعلق رکھنے والے مولوی کو اےک بڑے مناظرہ کے ذریعہ اکٹھا کیا جائے اور پوچھا جائے کہ کون سا فرقہ حقیقی مسلمان ہے تو ےقینا سب اپنے فرقے کو حقیقی مسلمان کہیں گے اور دوسرے کے فرقے کو بُرا بھلا کہنے کے ساتھ ساتھ حقیقی مسلمان ماننے سے انکار کریں گے۔اسی لئے تو علماءحضرات کو سب فسادی کہتے ہیں کیونکہ ےہ آج تک متفقہ طور پرےہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ حقیقی مسلمان کون ہے۔