تبصرہ
Book review
Name of the Book: Main Koi Aur Hoon
Writer: Naz Fatima
نام کتاب : میں کوئی اور ہوں
نام مصنف : ناز فاطمہ
پبلیشر : رحیم سینٹر پریس ، فیصل آباد، پاکستان
صفحات : ۲۲۸
مبصر : ڈاکٹر خواجہ اکرام
ناز فاطمہ پاکستان کی نئی نسل کے شاعرہ ہیں ان کا یہ پہلا مجموعہ ہے۔ اس مجموعے میں زیادہ تر نظمیں ہیں۔ انھوں نے غزلیں بھی کہی ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کی طبع آزمائی کا خاص میدان نظم ہی ہے ۔ان کی نظموں کے عناوین سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی شاعری میں ہم عصر مسائل کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔عام طور یہ کہا جاتا ہے کہ خواتین کی شاعری کا لب ولہجہ دھیما اور سہما ہوا ہوتا ہے۔ اس کے تہذیبی اور معاشرتی وجوہات ہوتے ہیں لیکن یہ کلیتاًدرست نہیں ہے۔ناز فاطمہ نے بھی اس مجموعے میں ا س جانب اشارہ کیا ہے۔” جس معاشرے میں عورت کو ضروریات زندگی اور بنیادی حقوق کے لیے لب کشائی کی اجازت نہ ہو ، وہاں دل میں چھپے جذبات کا بر ملا اظہار شجر ممنوع کے مصداق ہے۔۔۔ جس معاشرے میں لڑکی ہونا ہی جرم ہو وہاں اوپر سے شاعرہ ہوناناقابل تلافی جرم ۔“یہ معاشرتی جبر ہے جہاں ایک فنکار کو بھی مافی الضمیر کی ادائیگی کے شاعرانہ اظہار کی اجازت نہ ہو۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں معاشرتی جبر کے باوجود یہاں خواتین نے جس جرات کا مظاہرہ کیا ہے وہ اردو شاعری میں اپنی مثال آپ ہے۔اوردوسری حقیقت یہ بھی کہ آج پاکستان کے معاشرے میں وہ جبر نہیں جو ایک دو دہائی قبل تھا۔اس لیے اب نئی نسل میں ایسی شاعرات ابھر کر سامنے آرہی ہیں جن کے یہاں جرات بھی ہے اور اپنے فن پر اعتماد بھی ۔ناز فاطمہ نے بھی اپنے شاعرانہ اعتماد کا اظہار کیا ہے خواہ وہ انکساری کے لب ولہجے میں ہی کیوں نہ ہو۔وہ پیش گفتار میں ’مجھے کچھ کہنا ‘ کے عنوان سے لکھتی ہیں”پورے یقین اور مان کے ساتھ جو جیسے دل میں خیال آیا ویسے ہی آپ تک پہنچادیابغیر اصلاح بغیر رد وبدل کے بالکل امانتوں کی طرح کیونکہ جذبے خیال کی بڑائی سے بہتر ہوتے ہیں ۔“فنکار کا یہ انداز ایک قاری کی حیثیت سے مجھے اچھا لگا کیونکہ اس میں نہ صرف ان کا فن بولتا ہے بلکہ یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ادب میں جبری رد وبدل سے کئی دفعہ خیالات مسخ ہو جاتے ہیں ۔
ناز کی شاعری میں روح عصر پورے جمال و کمال کے ساتھ موجود ہے۔ان کے یہاں حسن وعشق کا روایتی انداز نہیں ملتا بلکہ مشرقی اقدار کے زیر اثر وفاداری کا تسلسل اور استحکام نظر آتا ہے۔ انھوں نے پاکستانی معاشرے کی بد امنی اور انتشار پر دل کی گہرائیوں سے افسوس ظاہر کیا ہے ۔ان کی نظم”اے اللہ یہاں کوئی مسجد لال نہ ہو“اور”لال مسجد“جیسی نظمیں لکھ کر ہم عصر مسائل پر ایک حساس فنکار کی طرح رد عمل کا اظہار اس طرح کیا ہے :
اے میرے وطن تیرے فراخ سینے پہ
اک تیر لگاہے
شہادت کے بدلے جنت
زندگی کے بدلے موت کی تجارت کرنے والا
اپنی زندگی کے بدلے ہزاروں بچوں اور
عورتوں کی زندگی چکا گیا
(سیدھے جنت کا سرٹیفکٹ جاری کرنے والا)
برقعہ اوڑھ کر اپنی جان بچاگیا
اس مجموعے کی پہلی نظم جو حمدیہ نظم ہے لیکن روایتی انداز سے بالکل الگ ۔ اس میں رب قدیر کی قدرت اور رحمت کاذکر وشکر بھی ہے اور بندے کی فریاد بھی لیکن اس فریاد میں جو زمانے کا کرب ہے وہ یقیناقابل تعریف ہے۔‘کیسے تیری رحمت کو آزماؤں’ ان کی دوسری نظم ہے جس میں خداوند قدوس سے زمانے کی ناسازگاری کا بھی ذکر کرتی ہیں اور دست دعا بھی دراز کرتی ہیں ۔
میرے خدایا
میں تیری ثناکیسے پڑھوں
کہ میری زبان کو کڑوے سچ نے ڈس لیا ہے
جسم میرا نیل نیل زہر سے بھر گیاہے
کہ میں نے دیکھی ہے ایسی بدی
جو نیکی سے بڑھ چڑھ گئی ہے
میں نے دیکھے ہیں افغان و عراق
جو خون میں لت پت پڑے ہیں
میں نے دیکھے ہیں ایسے بلیرجو تیرا نام سنتے ہی بگڑ گئے ہیں
اور دیکھے ہیں ایسے بُش
جو تیرے دیاروں پہ بارودبن کے برس گئے ہیں
میرے خدایا
کچھ تو ہی بتا دے کیسے تیری رحمت کو آزماؤں
ناز کی ایسی نظمیں جس میں معاشرتی کرب کو بیان کیا گیا ہے ، اسے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کی کجرویوں کے خلاف احتجاج بھی کرنا چاہتی ہیں ،کبھی دبی زبان میں اور کبھی جھنجھلاہٹ میں ’ تماشا ختم کردو تم “ جیسی نظمیں بھی لکھتی ہیں اور کبھی گھٹن محسوس کرتے ہوئے ”عورت ہونا بھگت رہی ہوں “سورج سارا گہنا چکاہے‘جیسی نظمیں بھی تخلیق کرتی ہیں ۔دراصل ان کے یہاں کرب بھی ہے اور زمانے سے نبرد آزما ہونے کی سکت بھی اسی لیے ان کی شاعری میں ہمت وحوصلہ نظر آتا ہے۔ان کی شاعری ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ انھوں نے گوناگوں مسائل کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے ۔مجموعی طور یہی کہا جاسکتا ہے کہ اگر مشق سخن جاری رہی تو ان کالب ولہجہ جو یہ پیشین گوئی کررہاہے کہ یہ آواز بہت دور تک جائے گی ،انشاء اللہ سچ ثابت ہوگا۔