Home / Socio-political / ناموس رسالت

ناموس رسالت

  ناموس رسالت    

 

عباس ملک

پولیس جیسے بدنام اور جذبات سے عاری محکمہ کا ایک فرد اتنا صاحب دل اور مذہب سے اتنا قریب ہو گا یہ انتہائی اچھنبے کی بات لگی ۔محکمہ پولیس کے لوگ تو اب اس بات پر فخر بھی کر سکتے ہیں کہ وہ اس امیتاز کے حامل ہیں کہ ان میں ایک فرد نے ناموس رسالت کیلئے قربانی دی ۔حامد میر صاحب نے کیپٹل ٹاک شو می ںگورنر تاثیر کے متعلق اہم انکشاف کیا لیکن میرے مطابق یہ ایک بڑے منہ کی انتہائی چھوٹی بات اور صاحب تدبر و تحقیق کی بے مثل غلطی ہے ۔میر صاحب نے گورنر کے والد کو علامہ اقبال کا ہم عصر اور غازی علم الدین شہید کے جنازے کا منتظم بتا کر یہ جتلانے کی کوشش کی کہ گورنر مذہبی بیک گراﺅنڈ کے حامل ہیں ۔میر صاحب جذبات میں یہ بھول گئے کہ یزید کاتب وحی حضرت امیر معاویہ ؓ کی اولا د تھا ۔پدرم چہ سلطان بود کا نعرہ مستانہ میر صاحب کی زبانِ تدبر سے میل نہیں کھایا ۔ہر انسان کا اپنا عمل اپنی سوچ ہوتی ہے ۔ گورنر تاثیر بقول شخصے انتہائی پڑھے لکھے اور نہایت شفیق اور دلیر شخص تھے ۔انسان کے گذر جانے کے بعد مرنے والے کی تکذیب شریعت میں ناپسندیدہ عمل ہے ۔حقائق اور حقیقت اگر پس پردہ لے جانے کی سعی ہو رہی ہو تو حقیقت کا افشا تکذیب کےے زمرے میں نہیں آئے گا ۔ حفاظت خود اختیاری کے تحت اگر حملہ آور کو دفاع می ںاگر مارنا قانون کے تحت جائز ہے تو پھر سرکار کی حرمت پر حرف گیر کرنے والے کو صفحہ ہستی سے مٹانا بھی جرم نہیں ۔حضرت عمر ؓ نے اس کی مثال قائم کی تھی اور حضرت عمر کے کردہ فعل کو کون غلط ثابت کرے گا۔گورنر ثاثیر نے ناموس رسالت بل کو کلا قانون کہا تھا اور یہ بات آن دی ریکارڈ موجود ہے ۔آسیہ بی بی کی حمایت میں سیاسی پوائنٹ سکور کرنے کے جنون میں گورنر نے سیاسی مخالفین کو زچ کرنے کیلئے یہ اقدام اٹھایا تھا۔وہ اس حقیقت کا ادارک کرنے سے قاصر رہے کہ وہ کیسی سنگینی کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔ان کا قاتل موقع واردات پر گرفتاری دیکر اقبال جرم کرتا ہے اور اس میں وہ اس اقدام کو ہی وجہ قتل بیان کرتا ہے ۔اس کے بعد یہ انتہائی غیر مناسب اور ناپسندیدہ عمل ہے کہ تفتیش کے نام پر اس کے اہل خانہ ،والدین ،بھائیوں، اور اقربا کو دبوچ لیا گیا ۔چھ ماہ کا شیر خوار بچہاخر اس قتل کی منصوبہ بندی میں کیا عمل دخل دے گا۔اس کے باوجود اس قتل کو سیاسی رنگ دینے کی ضرور ت کیوں محسوس کی گئی۔کیا مسلمان دینا اور مادیت کے اتنے اثیر ہو چکے ہیں کہ انہیں سرکار کی زات سے زیادہ سیاسی راہنما ﺅں کی محبت آسیر کر رہی ہے ۔علماءوقت کی ز بانیں گنگ ہیں اوروہ اس اقدام کے خلاف خاموش ہیں ۔قتل ملک ممتاز نے کیا تو اس کے گھر والوں اور عزیز و اقربا کو کیوں گرفتار کیا گیا ۔مذہبی جماعتوں اور راہنماﺅں نے اس پر احتجاج نہ کر کے کس طرح کا ثبوت دیا ہے ۔بالفرض اگر یہ تمام لوگ یہ اقرار کر لیںکہ ممتاز نے ان کے کہنے پر اور انکی حمایت سے شاتم رسول کا قتل کیا ہے تو کیا ہوگا۔اس معاشرے میں دو وقت کی روٹی سے محروم اس خاندان کو سرمایہ کائنات اور دولت کل حاصل ہو جائے گی۔یہ 30یا 40لوگ تو رسالت مآب کے نام پر اپنی جانیں قربان کر دیں گے لیکن عمائدین و اکابرین کے ایمان و ایقان کا عالم کیا ہو گا ۔سورة اخلاص اور بسم اللہ بھی صیح تلفظ سے ادا نہ کرنے والے اکابرین کیلئے یہ صورت حال شاید اتنی اہم نہیں لیکن امت مسلمہ کیلئے یہ ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔امید کی جاتی ہے کہ اب سیکولر اور لادین مادہ پرست اپنی زبانوں کو لگام دیں گے ۔ میڈیا کا ردعمل تذبذب اور ناپختگی کی طرف مائل تھا۔آخر میڈیا ایک واضح طرز فکر سامنے لانے سے کیوں گریزاں ہے ۔تمام علما ءنے بھی محتاط انداز میں اسے ایک سیاسی ایشو کے طور پر نمٹا دیا ۔میڈیا نے علماءاکرام کے جنازہ نہ پڑھانے اور اس میں شرکت سے گریز کو کیوں ہائی لائٹ نہیں کیا ۔میڈیا نے مفکرین سے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ ایسے متنازعہ قتل پر قومی پرچم کیوں سرنگوں کیا گیا ۔گورنر صاحب جن کے متعلق قافیہ بند کہاجاتا تھا کہ ان کا بیشتر وقت ام الخبائث کی رفاقت میں گزرتا تھا اور وہ اسی کےے زیر سایہ اکثر اپنے اصل سے ہٹ بھی جایا کرتا تھے ۔ سیاستدان اس مذہبی وقوعہ کو بھی سیاسی ایشو بنا کر حریف پارٹیوں کے خلاف استعمال کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا ذور لگا رہے ہیں ۔یہ بات تو سیدھی ہے کہ گورنر صوبے کا آئینی سربراہ ہوتا ہے اگر گورنر صاحب اپنی سیکورٹی سے اتنے لا علم اور لاپرواہ تھے تو اس کا لازام دوسروں پر کیوں تھوپا جا رہاہے ۔وہ اپنی سیکورٹی سے اگر لا پرواہ اور لا علم تھے تو وفاقی حکومت کا نمائیندہ ہونے اور صدر کا نمائندہ ہونے کی صورت میں وفاقی دارلحکومت میں وفاقی حکومت نے انکے لئے سیکورٹی کا بندبست کیوں نہیں کیا ۔علماءاور مفکر و مدبر دانشوران نے اپنے فتاویٰ میں یہ ارشاد فرمایا کہ ملکی آئین اور قانون سے بالا ہو کر ملک ممتاز قادری کو شخصی اقدام سے گریز کرنا چاہیے تھا۔یہاں پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ آسیہ کا کیس کئی ماہ سے میڈیا پر موجود ہے ۔گورنر صحاب کے ارشادات بھی جاری تھے ۔گورنر صاحب کا ناموس رسالت بل کو کالا قانون قرار دینے کا بیان بھی کئی دن پرانا ہے ۔اس دوران میں حکومت انتظامیہ یا عدلیہ کس نے اس کا نوٹس لیا ۔انہیں کسی نے کوئی تنبیہہ کی یا انہوں نے خود ہی رجوع کیا ۔وہ تو اس بات کو فخریہ بیان کرتے رہے کہ انہیں ناموس رسالت کی ملزمہ کو بغیر ضمانت کے جیل سے نکالا اسکی مدد کیلئے بیگم اور بیٹی سمیت اس کی عزت افزائی کیلئے تشریف لے گئے ۔علماءاکرام کو وضاحت کےے ساتھ اس کی تشریح کرنی چاہیے کہ ایک ایسا شخص جو توہین رسالت کی ملزمہ کی پشت پناہی کا ارتکاب کرتا ہے اور اس پر فخر

بھی کرتا ہے کا ایمان سلامت ہے یا نہیں ۔اس کا جنازہ جائز تھا یا نہیں ۔اس کیلئے شہید کا لقب لکھنے اور کہنے والوں اور اس کی موت کا افسوس کرنے یا تعزیت کرنے والے کے بارے میں شرعی احکام کیا ہونگے ۔عوام کی اکثریت اس ایشو پر گورنر کی ظاہری طرز زندگی اور طرزفکر وبیان کی روشنی میں کسی بھی غم و غصے کا اظہار نہیں کررہی ۔سیاست سے ہٹ کر اس مسلہ کو مذہبی خوداری اور حمیت کے ترازو میں تول کر دیکھا جائے ۔یہی حقیقت ہے ۔سیکورٹی میں بھرتی ہونے کے دل و دماغ کی سکیننگ کیلئے مشینیں درآمد کی جائیں تاکہ آئیندہ مذہبی حمیت اوروفاداری سے عاری افراد کو جانچ کر علیحدہ کیا جاسکے ۔ان کی حفاظت میں شاید عزرائیل کے ہاتھ ان کے گریباں تک نہ پہنچ پائیں۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *