عباس ملک
سیاسی ماحول کی گرما گرمی سے معاشرتی ماحول میں بھی تمازت بڑھ جاتی ہے ۔اس سے بے خبر ہمارے سیاسی عمائدین اپنے مقاصدکے حصول کیلئے ماحول کو گرمائے رکھنے کیلئے مختلف ایشو کھڑے کیے رکھتے ہیں ۔اس سے ان کی ذات کی تو تشہیر ہوتی رہتی ہے لیکن اس سے بے خبر کہ اس کے معاشرتی نقصانات کا وہ ازالہ نہیں کر پائیں گے وہ اپنی دھن میں اگے بڑھتے جاتے ہیں ۔اس وقت بھی ملک کی مقتدر سیاسی قیادت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ہر کوئی خود کو معاشرتی اور قومی راہنما کے طور پر ابھارنے کیلئے جتن کرنے میں مصروف ہے ۔سیاسی چیلے اور چمچے ایک سے بڑھ کر ایک دوسرے پر رقیق حملے کیے جاتے ہیں ۔ان کو ان کی تنخواہ ہی اس بات کی دی جاتی ہے کہ وہ اپنے مالک کی وفاداری میں مالک سے زیادہ جتن کریں ۔سیاسی راہنما ؤں کے یہ چیلے اور چمچے اس وفاداری کا صلہ وزارتوں اور سفارتو ں کی صورت میں پاتے ہیں ۔انہیں کو معاشرے کی باگ ڈور کھینچنے کیلئے اگے رکھا جاتا ہے ۔یہ عوام کو کھینچ کر رکھتے ہیں اور اپنے محسن اعظم کو ڈھیلا چھوڑ دیتے ہیں ۔انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ہمارا راہنما جسے وہ ولی اور داتا کے روپ میں پیش کرنے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں واقعی اس معیار پر پورا اترتا ہے یا اس میرٹ پر بھی آنے کے قابل ہے یا نہیں ہے ۔
اس کی مثالوں کیلئے تو ایک کتاب بھی شاید ناکافی ہو لیکن قومی راہنماؤں کے چہرے اس کے غماز ہیں کہ وہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے قطعا بے نیاز ہیں ۔اس وقت کی لیڈر شپ کو غریب اور غربت سے آشنائی ہوگی تو وہ اس کے مسائل اور مصائب سے اگاہ ہوں گے ۔عوام ان کے بیانات کو بغور سنتے اور پڑھتے ہیں اور ان کے زر خرید کارندے ان بیانات کو مقدس دستاویزات کے طور پر پیش کر کے انہیں ملک وملت کے لیے ناگزیر اور ان داتا بنانے کی سبیل کرتے ہیں۔عوام کو خود جمہوریت یا جمہوری امور کی منطقی نسبت کرنے اور اس تناسب وتناظر میں ان راہنماؤں کی اصلیت جاننے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔کون اس ملک اور معاشرے کیلئے کتنا ناگزیر ااور ان کا ان داتا ہے یہ جاننا اور اس کی پہچان کرنا کوئی دشوار امر نہیں ۔ اس کیلئے ملک وقوم اور اس راہنما کی اس کیلئے انجام کردہ خدمت کا منطقی انداز میں جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے ۔ہم جب یہ دیکھتے ہیں کہ اس راہنما کو قومی سطح پر اور بین الاقوامی سطح پر پذیر آرائی حاصل ہے تو اس کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ملکی اور قومی سطح پر چند ایک راہنماؤں کو یہ امتیاز حاصل ہوتا ہے کہ انہیں ہر سطح پر اور ہر کمیونٹی میں ہر دلعزیزی حاصل ہوتی ہے ۔اب موجودہ صورت حال میں قومی راہنماؤں میں حکومت کے اکابر میں سے یہ امتیاز کس کو حاصل ہے اور اپوزیشن میں کون اس منصب کے اعزاز کو حاصل کر پاتا ہے ۔اگر میڈیا کی رپورٹنگ کو معیار مقر ر کیا جائے تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ وزیر اعظم گیلانی اور اپوزیشن میں میاں نواز شریف اور عمران خان تین شخصیات ہی ایسی ہیں جن کو اس وقت کی سیاست میں یہ امتیاز دیا جا سکتا ہے ۔یہ تینوں راہنما اس وقت ملک کے چاروں صوبوں میں اپنے لیے ایک خاص مقام کے حامل ہیں ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ان میں سے کون ایسا ہے جو اس ملک کی سیاست کا اصل ان داتا اور اس ملک کیلئے ناگزیر اور معاشرے کیلئے سود مند ہو سکتا ہے ۔سب سے پہلے ہم موجودہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی صاحب کو دیکھتے ہیں کہ آیا انہوں نے اپنے دور اقتدار میں اس ملک اور قوم و معاشرے کیلئے کیا خدمات سر انجام دیں ہیں ۔جن حالات میں انہوں نے اس منصب کا حلف دیاانہوں نے سب سے پہلے چیف جسٹس کی بحالی کا اعلان کیا خواہ اس کیلئے وہ مجبور تھے یا یہ ان کے دل کی آواز تھی ۔یہ بھی اب بعد کے حالات سے اندازہ ہو تا ہے کہ ان کی منطق کیا تھی۔ اس کے بعد انہوں نے صدر سے آئینی اختیارات کو بحال کرایا ۔ اس کے بعد انہوں نے پیپلز پارٹی کی چیئرمین محترمہ بینظیر بھٹو کے نام پر عوام کیلئے خیراتی فنڈز جاری کیے ۔ان کے دور اقتدار کے شروع سے اب تک ملک پر خارجہ دباؤ کے تحت امریکہ کااثر ورسوخ بہت واضح ہے ۔ان کے دور میں ہی امریکہ کے ڈرون حملوں اور پاکستان کی تکذیب کے امریکی کئی حملے ریکارڈ ہوئے ۔پہلے یہ کہاگیا کہ شمسی ائیر بیس پرکوئی امریکی موجود نہیں لیکن اب جب یہ خالی کیا گیا تو اس کا کریڈٹ پاک آرمی کی بجائے یہ اپنی حکومت کے نام کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ان کے بقول تو وہ یو اے ای کے پاس تھا۔ملک میں ریکارڈ مہنگائی ، اقربا پروری ، رشوت سفارش اورنااہلیت کے بیشمار سکینڈل سامنے آئے ۔اس دور میں اداروں کو اس طرح لوٹا گیا کہ وہ دیوالیہ ہو کر اپنے سروسز جاری رکھنے میں ناکا م ہوگئے ۔اس میں پی آئی اے ،سوئی گیس ،واپڈا اور ریلوے کے محکمے مثال کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں ۔ ملک میں سیاسی اقربا پروری کی وجہ سے نااہل افراد کو کابینہ اور اہم پوسٹوں پر تعینات کیا گیا جس کی وجہ معاشرے میں کئی معاشرتی برائیوں کو فروغ حاصل ہو ۔
اب بات کرتے ہیں میاں صاحب کی تو ان پر قوم کی خدمت کے تین ادوار گذرے ۔ایک بحیثیت وزیر اعلیٰ پنجاب اور دو بحیثیت وزیر اعظم پاکستان ۔ ان کے تنیوں ادوار میں انہوں نے بھی اقرباپروری کی ۔ان کے ادوار میں لاقانونیت پر قابو نہیں پایا گیا۔ان کے دور میں بھی امریکی اثر رسوخ کا عمل دخل رہا۔ انہوں نے معاشرتی ترقی کیلئے قومی سطح پر کئی پروگرام پیش کیے جن کے ثمرات سے آج بھی قوم مستفید ہورہی ہے ۔اس کے علاوہ انہوں نے قومی وقار کی علامت ایٹمی پروگرام کو دنیا کے سامنے منظر عام پر لانے کیلئے ایٹمی دھماکے کیے ۔افواج پاکستان کے سنیئر جرنیلوں کی تعیناتی کا حق استعمال کرنے کی پاداش میں جلاوطن ہوئے ۔
اب بات کرتے ہیں عمران خان صاحب کی تو بحیثیت کر کٹر انہوں نے قوم کو ورلڈ کپ کا تحفہ دیا ۔شوکت خانم کینسر ہسپتال اور نمل یونیورسٹی ان کا کارنامہ ہے۔ سماجی ورکر کے طور پر ان کا کردار انتہائی لائق تحسین ہے ۔عمران خان کے ذاتی کردار اور اس کے ماضی کے پس منظر پر کسی قسم کی تنقید صرف چمچہ اور کوئی زر خرید ہی کر سکتا ہے۔ عمران خان کو اس وقت جس چیز کی سب سے زیادہ ضرور ت ہے وہ اس کو اپنے ساتھیوں کے انتخاب میں احتیاط کی ضرورت ہے لیکن وہ اس معاشرے میں سے ان ہی مسترد کردہ افراد کو ہی ہیرا سمجھ کر اپنے ساتھ ملا رہا ہے ۔اس کی سب سے اہم ترین مثال شاہ محمود قریشی سابق وریز خارجہ پاکستان کی ہے ۔انہیں آج تک خود یہ سمجھ نہیں آئی کہ انہیں کون سا نظریہ اختیار کرنا ہے۔مسلم لیگ سے پیپلز پارٹی سے تحریک انصاف تک کے سفر میں ان کے کریڈٹ پر ایساکوئی بھی قومی ملی یا معاشری کارنامہ نہیں کہ انہیں اس تحریک میں شامل کر کے یہ سمجھا جائے کہ وہ کوئی اہم کار سرانجام دے پائیں گے۔اس کے علاوہ بھی جس قدر بڑے نام اس وقت تحریک میں شامل ہونے کیلئے تیار ہیں وہ یا تو اپنی موجودہ جماعتوں کے مسترد کردہ ہیں یا پھر ان کی باری آنے میں دیر ہے ۔اس لیے انہیں اقتدار میں داخلے کیلئے تحریک انصاف کی دہلیز زیادہ قریب نظر آرہی تو وہ اس میں شامل ہوگئے ۔
اس مختصر سے تجزیے میں یہ سمجھنا اتنا دشوار نہیں کہانہیں کس قسم کے لیڈر حضرات کا سامنا ہے اور ان سے کیا توقعات رکھی جا سکتی ہیں ۔وہ مستقبل میں کیا کارہائے نمایاں سرانجام دیں گے۔ عوام کو دیکھنا ہوگا کہ اس ملک کیلئے کون ناگزیر ہے یا یہ ملک کن کیلئے ناگزیر ہے۔