پندرہ سو سال پہلے جب انسان جہالت اور گمر اہی کی گہری دلدل میں پھنسے ہوئے تھی چھوٹی چھوٹی باتوں پرلوگوںکو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا کسی کے گھر بیٹی پیدا ہوتی تو اسے زندہ درگور کر دیا جاتا، وہ بے چاری چیختی چلاتی رہتی ،بے راہ روی جھوٹ اور ظلم اپنی انتہا پر تھا۔ انسان انسان کا غلام تھا، جو طاقتور اور ظالم تھا وہ سیاہ و سفید کا مالک اور عام آدمی کی زندگی کسی جانور سے کم نہ تھی۔ ہر جانب تاریکی اور ظلم کے گہرے بادل چھائے ہوئے تھی…….اس وقت رب کریم نے ظلم کی چکی میں پستی اور سسکتی انسانیت پہ اپنا خاص کرم کا معاملہ کرتے ہوئے نبی محترم ﷺ کو انسانیت کی رہنمائی کے لیے مبعوث فرمایا۔ آپ نے جہالت کی تاریک اور بند گلیوں میں پھنسے لوگوں کو ہدایت اور روشنی کا راستہ دکھایا……وہ جو آپس میں ایک دوسرے کی جان کے دشمن تھے، جو چھوٹی سی بات پر وحشیانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے اپنی انا اور تسکین کے لیے دوسروں پر ظلم ڈھاتے تھی……آپ کی تعلیمات اور اخلاقی تربیت کی بدولت یہ لوگ دنیا کے معزز ترین انسان ٹھہرے۔
نبی محترمﷺ کی تعلیما ت کی روشنی میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل میں آیا جس میں اجڈ اور گنوار پورے معاشرے کے لیے امن سکون اور بھائی چارے کا اعلی نمونہ بن کے سامنے آئے۔ خود نبی محترمﷺ اِنسانیت کے جس عظیم مرتبے پہ فائز تھے اس کی وجہ سے آپ کے جانی دشمن بھی آپ کی ذات گرامی کے امین ہونے کی تصدیق کرتے۔ آپ کے حسن اخلاق کی وجہ سے لوگ اپنے آباؤ اجداد کا دین چھوڑ کے اسلام کی چھتری تلے جمع ہونا شروع ہوگئے۔ اخلاق کا یہ عالم تھا کہ مکہ کی وہ بوڑھی عورت جو روزانہ آپ پرگندگی پھینکتی ،ایک روز جب آپ اس راستے سے گزرے تو کسی نے گندگی نہ پھینکی، ساتھیوں سے پوچھا کہ خیر ہے آج وہ خاتون نظر نہیں آئیں؟ معلوم ہوا کہ وہ بیمار ہیں یہ سننا تھا کہ آپ اس بڑھیا کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے آپ کے اس حسن اخلاق اور درد مندی کو دیکھ کہ وہی بڑھیا جو کل تک آپ پر گندگی پھینکتی تھی آج اس بات کا اقرار کر رہی تھی کہ میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں ۔
یہی وہ طرز عمل تھا جس کو دیکھ کر لوگ محمدﷺ کی پیروی کرتے ہوئے دین محمدی میں جوق در جوق شامل ہو رہے تھے اور جن کے بارے میں کتاب خود کہہ رہی ہے وہ اللہ سے راضی اور اللہ ان سے راضی اور ان لوگوں کے لیے جنت کی نہ ختم ہونے والی نعمتوں کی بشارت خود اللہ جی دے رہے ہیں۔ عفو و درگزر کا یہ عالم ہے کہ فتح مکہ کے بعد نبی محترمﷺ نے کفار مکہ کے لیے عام معافی کا اعلان کر دیا اور بدلے کی تاریخی روایت جو اس وقت عرب معاشرے کی پہچان بن چکی تھی اس کے خاتمے کا آغاز اپنی ذات سے کیا اور ان سب لوگوں کو معاف کر دیا جنہوں نے آپ کو پتھر مارے، آپ پر گندگی پھینکی ،آپ کو اپنے ہی شہر سے نکال دیا اور کتنے عرصے تک مظالم روا رکھے۔
ایک روایت کے مطابق فتح مکہ کے موقع پر مکہ کے ایک شخص کے افریقی نژاد غلام( وحشی (جو قبول اسلام کے بعد حضرت وحشیؓکہلائے آپ کے سب سے عزیز اور محبت کر نے والے چچا حضرت حمزہ کو جنگ احد میں نیزہ مار کے شہید کر دیاتھا(یہ روایت صحیح نہیں کہ وحشی ابوسفیان کی بیوی ہندہ کا غلام تھا)وحشی کا خیال تھا کہ اس کا کیا ہوا جرم اس قدر سنگین اور ہولناک ہے کہ اس کی معافی ممکن نہیں۔ اس نے مکہ سے بھاگ جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ شہر سے باہر جاتے ہوئے اسے حضرت ابوذرؓ غفاری مل گئے۔ انہوں نے حواس باختہ اور خوفزدہ وحشی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ نبی محترم ﷺنے تو سب کو معاف کر دیا ہے تو تمہیں بھاگنے کی ضرورت نہیں جوابا ًوحشی نے وہی دلیل دی جو اس کے دل میں تھی کہ مجھے کون معاف کر سکتا ہے ؟میں نے تو آپ کہ محبوب ترین دوست اور چچا کو شہید کیا تھا جن سے آپ شدید محبت کرتے تھے۔ حضرت ابوذرؓ غفاری نے اسے وہیں رکنے کا کہا اور خود نبی محترم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر استفسار کیا کہ کیا اس معافی کے دائرے میں وحشی بھی آتا ہے؟ آپ ﷺنے جواب دیا کیوں نہیں۔
آپؐ کی پوری زندگی معافی درگزر اور احسان سے بھری پڑی ہے اور آپؐ کی ذات گرامی تمام جہانوں کے لیے باعث رحمت ہے جس کی کتاب گواہی دیتی ہے کہ: ہم نے آپ کو رحمت اللعالمین بنا کے بھیجا لیکن افسوس صد افسوس! آج ہم نے مشفق اور مہربان نبی کے احکامات کو نظر انداز کردیا اور پھر سے قتل و غارت گری ظلم و ناانصافی جبر و استیصال والے نظام کو پروموٹ کرنا شروع کر دیاہے۔ہم ایک دوسرے کومعاف کرنے کوقطعاً تیارنہیں۔گھات لگاکربے گناہوںکوگولیوںسے بھون کراپنے انتقام کی آگ بجھاکرفتوحات کے شادیانے بجاتے ہیں۔
پاکستان کے قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی میں رات گئے ایک مرتبہ پھر افغانستان کی جانب سے شدت پسندوں نے پاکستان کی حدودباجوڑ ایجنسی کے علاقے کٹ کوٹ میں داخل ہو کر لوئے ماموند کے علاقے میں حملہ کردیا جنہیںسیکیورٹی فورسز نے گھیرے میں لے کرچھ کو ہلاک کر دیا ہے اورباقی کی تلاش جاری ہے۔ تحریکِ طالبان پاکستان نے صبح ساڑھے پانچ بجے اچھرہ کے علاقے رسول پارک لاہور میں جمعرات کی صبح فائرنگ اور گرینیڈ حملوں میں نو زیر تربیت پولیس اہلکاروںکو ہلاک اور دوکو زخمی کرکے فرارہوگئے ہیں۔پاکستانی طالبان کے ترجمان احسان نے اس ظلم کی وجہ یہ بتائی کہ خیبر پختونخوا جیل خانہ جات کے اہلکار مختلف جیلوں میں قید ہمارے ساتھیوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کرتے ہیں اور اسی کا بدلہ لیا گیا ہے اور صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان شہر سے بیس کلومیٹر دور واقع تھانہ دربن کلاں پر بدھ کی صبح پانچ بجے کے قریب ایک تھانے پر راکٹوں اور دستی بموں کے حملے میں تھانیدار ہلاک جبکہ ایس ایچ او سمیت چار اہلکار زخمی ہوگئے بعد ازاں زخمیوں میں سے ایک اہلکار نے ہسپتال میں دم توڑ دیا۔یہ تینوں واقعات آج صبح ان کے ہاتھوںرونماہوئے ہیںجوفقط اسلام اورشریعت کواپنی منزل سمجھتے ہیں۔
ہم نے نبی محترمﷺ کی تعلیمات پہ عمل تو دور کی بات ان کے احکامات کا مذاق بنانا شروع کر دیا ہے ۔جہاںایک طرف ہم نے نبی ﷺکے اسوہ کو چھوڑ کے مغضوب اور ذلیل لوگوں کے طرزِزندگی کو اپنے گلے سے لگا لیا ہے وہاںدوسرا گروہ انہیںکی آشیربادسے یہ خونی کارنامے سرانجام دے رہاہے جس کی وجہ سے آج ہم پھر ایک دفعہ اسی تاریک دور میں چلے گئے ہیں جہاں پندرہ سو سال پہلے تھے۔ ظلم تو یہ ہے کہ شعبان المعظم کامہینہ جورحمتوں،برکتوں اورمغفرت کے مہینے رمضان المبارک کی آمدکااعلان کرنے آتاہے، جہاں ہمیں آپﷺ کے اسوہ کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے وہاں ہمیں جہاںغلیظ گانوں پر تھرکتے جسم دوسروں کو نقصان پہنچاتے چیختے چلاتے غل غپاڑہ کرتے لوگ نظر آتے ہیںوہاںہمیںبندوق کی نوک پراسلام کے نام پرایسے بھیانک ظلم کرنے والے بھی نظرآرہے ہیں ۔
کیا کبھی ہم نے غور کیا کہ ہمارے لیے اتنی مشکلات و تکالیف برداشت کرنے والے نبی ﷺکے ساتھ ہمارا کیا رویہ ہے؟ کل جب روز محشر نبی سے ہمارا سامنا ہوگا تو ہم کس منہ سے اپنی نجات کی درخواست کریں گے۔ میرے پاس تو سوائے شرمندگی کے کچھ نہیں…………صرف اقبال کی اس دعا کے علاوہ اے اللہ میں تیرا منگتا ہوں تو دو عالم کو عطا کرنے والا ہے۔ روز محشر میری ایک درخواست قبول کرلے میرا حساب لینا ہی مقصود ہو تواسے میرے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھنا۔
توغنی از ہر دو عالم من فقیر روزِ محشر عذر ہائے من پذیر
گر تو می بِینی حِسابم ناگزیر از نگاہ مصطفی پنہاں بگیِر