ہندوستان کے موجودہ حالات کو مسلم تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ ملک میں مسلمانوں کے لئے ’’بہت مشکل ہے ڈگر پنگھٹ کی‘‘ کے مصداق ہے۔ کہیں سے بھی چھوٹی سی خوشی کی رمق دکھائی دیتی ہے تو اس سے زیادہ غموں کا پہاڑ توڑدیا جاتا ہے ۔بیچارا مسلمان پھر اسی ادھیڑبن میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ہندوستان میں مسلم سلطنت کے زوال کے بعد ہی سے ان پر ہر طرح کے قدغن لگائے گئے اور انہیں نان شبینہ کا محتاج بنائے رکھنے کے لئے سارے طریقے اپنائے گئے۔ آزاد ی کی صبح ان کے لئے شب دیجور سے کم نہیں تھی اور یہ اندھیرا اب تک مسلمانوں کے لئے چھٹا نہیں ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کی دوسری اور تیسری نسل آچکی ہے لیکن تقسیم کی قیمت اب تک مسلمانوں سے وصول کیا جارہا ہے۔ تاریخ اور واقعات سے یہ بات ثابت ہے کہ تقسیم کیلئے کون اتاولا تھا اورکس کو وزارت عظمی کی فکر تھی اور کس نے آسانی سے اس تقسیم کو مان لیا تھا۔ کس نے ۱۹۴۶ کی حکومت میں مسلمانوں کو آبادی کے لحاظ سے حصہ نہیں دیا تھا۔ کس نے ایسا انتخابی نظام وضع کیا تھا کہ مولانا آزاد تک کو مسلم حلقے ڈھونڈنے پڑے تھے۔ اس نظام کاسب سے بڑا نقصان یہ ہوا تھا اور ہورہا ہے مسلمانوں کی نمائندگی کم ہوتی جارہی ہے۔یہ سب مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کی بنیادیں تھیں جنہیں آزادی کے گارے مٹی میں ملایا گیا تھااور آج تک اس کی سزا مسلمانوں کو دی جارہی ہے۔ہندوستان کو دنیا میں سب سے بڑا جمہوری ملک کہا جاتا ہے اور کثرت میں وحدت کی مثال دی جاتی ہے لیکن کیا مسلمانوں کو اس جمہوری ملک سے فائدہ پہنچا ہے ؟ کیا مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کم ہوئے ہیں۔ کیا مسلمانوں کو ایک منظم سازش کے تحت داخل زنداں نہیں کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کی آبادی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۱۳ فیصد سے کچھ زائد ہے پھر جیلوںمیں ان کا تناسب ۳۵ سے ۴۰ فیصد کیوں ہے۔ بیشتر تو وہ مسلمان ہیں جو کسی ٹرائل کے بغیر جیل میں بند ہیں۔ یہ یہ ثابت کرتا ہے غیر معلنہ طور پر یہ پالیسی کام کررہی ہے کہ مسلمان کسی حالت میں بھی ہندوستان میں پنپ نہیں پائیں۔ اسے اس طرح کے چکرویو میں پھنسا دیا جائے جس سے کبھی وہ نکل نہیں پائیں اگر وہ اس چکرویو سے نکلنے میں کسی طرح سے کامیاب ہو بھی جائیں تو مالی طور پر اتنا خسارہ ہوجائے کم از کم ایک دو نسل تو برباد ہوہی جائے۔ یہ حکومت ہند اور تمام ریاستی حکومتوں کی غیر معلنہ پالیسی ہے جو اپنے معتصب اور ہندوتو نظریہ کے حامل افسران کے ذریعہ عمل میں لاتی ہیں۔ یہ سوچ اسی پالیسی کا حصہ ہے کہ اگر کہیں اسے انصاف مل بھی جائے تو اس سے دوگنا تین گنا کی تعداد میں اسے اسی زخم میں مبتلا میں کردیا جائے وہ انصاف مانگنا ہی بھول جائے۔مالیگاؤں بم دھماکے الزام میں مسلم نوجوانوں کی رہائی اور نرودا پاٹیا قتل عام کیس میں مسلمانوں کے ساتھ تھوڑا انصاف اور اس کے بعد ملک گیر سطح پر مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کو اسی تناظر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ خفیہ ایجنسیاں مسلمانوں کو یہ بات باور کرانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ اگر تمہیں کسی عدالت سے تھوڑا انصاف مل بھی جائے تو اس کے بدلے درجنوں افراد سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جائے گا۔ بنگلور، حیدرآباد، نانڈیڑ اور دیگر مقامات سے مسلم نوجوانوں کی حالیہ گرفتاری مرکزی اور ریاستی حکومت کی اسی پالیسی کی عکاسی کرتی ہے۔
نرودا پاٹیا قتل عام کیس جس میں۹۷ افراد کو بی جے پی ، آرا یس ایس اور بجرنگ دل کے غنڈوں نے حکومت کی سرپرستی میں مار ڈالا تھا اور لاشوں کو ٹھکانے لگانے کیلئے کنوؤں میں ڈال دیا تھا ۔ ۲۰۰۲ کے گجرات فسادات کے دوران بدترین قتل عام میں سے ایک ہے۔ یہ واقعہ ۲۸ فروری ۲۰۰۲ کو گودھرا سانحہ کے بعد ہوا تھا ۔ اس بھیڑ کی قیادت ڈاکٹر مایاکوڈنانی نے کی تھی۔ اس فسادات میں ۳۳ افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔پہلا فردم جرم ۶ جون ۲۰۰۲ کو عائد کیا گیا تھااس کے بعد مزید فرد جرم ۲۳ اگست ۲۰۰۲ اور۱۰ نومبر ۲۰۰۴ کو عدالت کے رو برو پیش کئے گئے تھے۔اس کیس میں پولیس آفیسر راہل شرما کی کال کی تفصیل والی سی ڈی بہت کام آئی۔ اس کے علاوہ ۲۰۰۷ میں اسٹنگ آپریشن کرنے والے صحافی آشیش کھیتان کی تفصیلات اور ریکارڈنگ بھی فسادیوں کو مجرم ثابت کرنے میں کافی معاون ثابت ہوئی۔ حکومت گجرات کا رویہ انصفا ف کے تئیں انہتائی منفی تھا اس لئے کئی تنظیموں کے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کے بعد ۲۰۰۸ میں سپریم کورٹ نے ایس آئی ٹی کی تشکیل کی۔ جس کے ذمہ گجرات قتل کے عام کے خاص خاص کیس سپرد کئے گئے۔ ان میں نرودا پاٹیا کا بھی کیس تھا۔ ایس آئی ٹی کی تشکیل کے بعد اور تفتیش کی روشنی میں نرودا پاٹیا قتل عام کا مقدمہ اگست۲۰۰۹ میںخصوصی جج جیوتسنا یاگنک کی عدالت میں شروع ہوا تھااور۶۲ ملزمان کے خلاف الزام عائد کئے گئے تھے۔ عدالت نے سماعت کے دوران ۳۲۷ افراد کے بیان درج کئے تھے ان میں صحافی آشیش کھیتان، کئی متاثرین، ڈاکٹر، پولیس افسر اور سرکاری افسران شامل ہیں۔عدالت نے بی جے پی کے ممبر اسمبلی اور نریندر مودی حکومت میں سابق وزیر مایا کوڈنانی اور بجرنگ دل کے لیڈر بابو بجرنگی کو بھی اس معاملے میں قصوروار پایا تھا۔ جسٹس جیوتسنا یاگنک کی عدالت نے ۲۹ اگست کو مایا کوڈنانی اور بابو بجرنگی کو قتل اور سازش رچنے کا مجرم قرار دیا تھا۔ عدالت نے کیس کے دیگر ۲۹ ملزم بری کردیا ہے۔عدالت نے اس واقعہ کو جمہوریت پر سیاہ دھبہ بتایا۔وکیل کے مطابق ایک خاتون کے ساتھ عصمت دری کے واقعہ پر عدالت نے ریاستی حکومت سے کہا کہ وہ اس خاتون کو پانچ لاکھ روپے ہرجانے کے طور پردے ۔اسٹنگ آپریشن کرنے والے صحافی آشیش کھیتان کے مطابق اس سے زیادہ ملزموں کو مجرم قرار دیا جاسکتا تھا لیکن پولیس اور دیگر ایجنسیوںکی غافلانہ رویہ اور ریاستی حکومت سے پختہ ثبوت کی توقع نے اتنے سارے ملزم کوبری ہونے میں مدد دی۔ ابتداء سے ہی ریاستی حکومت کا رویہ نہایت مایوس کن رہا ہے وہ چاہتی ہی نہیں تھی کہ مجرموں کو سزا ملے اس لئے اس نے ہر موقع پر روڑا ٹکایا۔اسی حکومت ایس آئی ٹی پختہ ثبوت کی امید لگائے بیٹھی رہی۔ بقول آشیش کھیتان کے اگر ایس آئی ٹی حکومت پر تکیہ نہ کرتے ہوئے اپنے ذرائع سے ثبوت اکَٹھا کرتی تو اتنے سارے ملزم بری نہیں ہوتے ۔ ان میں سے بہت سارے کو پھانسی کی سزا ضرور ہوتی ۔
اس سزا کو گرچہ مکمل انصاف نہیں کہا جاسکتا ہے تاہم اسے انصاف کی راہ میں پیش قدمی ضرور کہا جائے گا۔یہ پہلا موقع ہے کہ جب مسلمانوں کے قاتل کو عدالت نے سزا دی ہے۔ ورنہ اس سے پہلے ہزاروں معاملات میں فسادی آسانی سے بری ہوگئے کیوں کہ ریاستی حکومت نے پختہ ثبوت ہونے کے باوجود اسے عدالت میں صحیح طریقہ سے پیش نہیں کیا۔ کیوں کہ حکومت کی منشا کبھی بھی نہیں رہی کہ مسلمانوں کو انصاف ملے۔اس لئے اس نے فسادات کو مسلمانوں کو ڈرانے دھمکانے، دہشت زدہ کرنے، اوقات بتانے اور یرغمال بنانے کا ذریعہ بنایا تھا۔ ۹۳۔۱۹۹۲ کے ممبئی فسادات کے اس وقت کے شیو سینا کے ممبر پارلیمنٹ سرپوتدار کو فوج نے اسلحہ کے ساتھ گرفتار کیا تھا لیکن اس کا بال بھی باکا نہیں ہوا کیوں کہ وہ مسلمان نہیں تھا۔اس کے برعکس ممبئی میں امرجوان کومعمولی نقصان پہنچانے کے الزام میں مسلم نوجوان عبدالقادر کو بہار سے سیتامڑھی سے بہار حکومت کو اطلاع کئے بغیر اٹھاکر لئے آئی۔ اس طر ح کی چستی ہندوستانی پولیس مسلمانوں کے مجرم کو پکڑنے کے لئے کیوں نہیں کرتی۔ جمہوری ہندوستان میں ایک بھی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔ کیا یہ اتنا بڑا جرم تھا دو ریاستی حکومت ٹکرا جائیں۔ اس پر جو تماشا ہوا وہ ہندوستان کے کثیر جمہوری ملک ہونے کو نفی کرتا ہے۔ ممبئی بم دھماکے۱۱۷ مجرمین کو سخت سزائیںسنائی گئیں اور ان میں درجنوں کو سزائے موت دی گئی تھیں لیکن ممبئی فسادات مجرمین میںسے ایک کو بھی آج تک سزا نہیں دی گئی حالانکہ شری کرشنا کمیشن نے اپنی رپورٹ میں مجرمین کی نشاندہی کردی تھی لیکن چوں کہ مہاراشٹر کی کانگریس حکومت کی منشا ممبئی فسادات کے مجرمین کو سزا دینے کی نہیں تھی اس لئے سب آزاد ہیں۔ جبکہ اگر نقصانات کاموازنہ کیا جائے توممبئی بم دھماکے میں ۲۵۶ افراد ہلاک اور ۲۵۰ کروڑ روپے کا نقصان ہوا تھا اور ممبئی فساد میں ڈھائی ہزار سے زائد مسلمان مارے گئے تھے اور ڈھائی ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا تھا لیکن چوں کہ یہ نقصان مسلمان کا تھا اس لئے کسی کو سزا نہیں دی گئی۔اسی طرح میں ۱۹۸۳ میں آسام میں آسو کے دہشت گردوں نے جوبعدمیں حکمراں پارٹی بن گئے تھے ، نیلی فساد میں تین ہزار سے زائد آسامی مسلمانوں کو تہہ تیغ کردیا تھا راجیو گاندھی کے ساتھ ایک معاہدہ کے بعد سارے مقدمات واپس لے لئے۔ اس کے بعد بھی آسام میں وقفہ وقفہ سے فسادات ہوتے رہے لیکن کسی کو سزا نہیں دی گئی۔ ۱۹۸۴ میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں کا قتل عام کیا گیا گرچہ اس میں بڑے بڑے چہرے بچ گئے لیکن ایک بات اچھی یہ ہوئی بازآبادکاری کے لئے خاطر خواہ رقم دی گئی اور فسادات کی تاریخ میں سب سے بڑا معاوضہ تھا۔ اس کے علاوہ بھاگلپور، میرٹھ ، ملیانہ، مرادآباد اور دیگر شہروں میں ہونے والے بھیانک فسادات ہیں جس پر ابھی بھی دبیز چادر پڑی ہوئی ہے سزا تو دور کی بات ہے۔ یہ بات ہندوستانی جمہوریت کے چار ستونوں عدلیہ، مقننہ، منتظمہ، میڈیا سے پوچھا جانا چاہئے کہ ایسا کیوں ہوا۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میںایک بھی فسادی کو سزا کیوں نہیں دی گئی۔ جس طرح آزاد میدان میں توڑ پھوڑ کے فوٹیج دیکھ کرپولیس مسلم نوجوانوں کو گرفتار کر رہی ہے کیا اسی طرح گجرات یاممبئی کے فسادات کے دوران سارے فسادیوں کو نہیں پکڑا جاسکتا ۔ اس وقت سارے ٹی وی چینلوں پر فسادیوں کو ننگا ناچ کرتے ہوئے دکھا گیا تھا۔
گجرات قتل عام کے دیگر معاملے میں ۳۰جولائی کو گجرات کے میہسانا میں ایک خصوصی عدالت نے میں۲۰۰۲ کے گجرات فسادات کے دیپڑا دروازہ فساد کے ایک معاملے میں ۲۲ افراد کو مجرم قرار دیا تھا۔ ان پر قتل اور مجرمانہ سازش کے سنگین الزامات عائد کیے گئے تھے اور خصوصی عدالت نے ۸۳ ملزمان میں سے ۶۳ کو بری کر دیا تھا۔ان میں بی جے پی کے سابق ایم ایل اے پرہلاد گوسا اور مقامی میونسپل کارپوریشن کے سربراہ دیابھائی پٹیل شامل تھے۔ اس کے علاوہ اسی سال چار مئی گجرات کے آنند ضلع کے اوڈ گاؤں میں سال ۲۰۰۲ کے فسادات کے دوران کے ایک معاملے پر مقامی عدالت نے نو افراد کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ خصوصی عدالت کے جج نے ان نو(۹) لوگوں کو قتل، فساد اور مجرمانہ سازش انجام دینے کا قصوروار ٹھہرایا تھا۔جتنے معاملے میں اب تک سیشن کورٹ یا اس سے نچلی عدالت کا فیصلہ آیا ہے ان میں بیشتر کو بری کیا جاچکا ہے۔فوٹیج اور فوٹو دیکھ کریہ انداہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ کون کون لوگ اس کے ذمہ دار ہیں۔ بیشتر لوگ اس لئے بری ہورہے ہیں کیوں کہ ریاست کی منشا مجرموں کو سزا دینے کی نہیں بلکہ بچانے کی ہوتی ہے ۔اس سزا کے اثر کو کم کرنے کے لئے نریندری مودی طرح طرح کے بیانات کا سہارا لے رہے ہیں اور اس کے لئے انہوں نے ایک ٹیم بھی تشکیل کر رکھی ہے جس میںسابق سفارت کار، سینئر صحافی، وکلاء اور دانشور حضرات شامل ہیں۔ مودی اپنی شخصیت کو ابھارنے اور شہرت حاصل کرنے کا گر بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ پچھلے کئی مہینوں سے وہ منظم ڈھنگ سے اپنی شبیہ اسی طرح پیش کررہے ہیں کہ جیسے وہ اقتصادی ترقی اور خوشحالی کے منبع ہوں۔ انہوں نے اپنی سیاسی تشہیر اور اپنی شبیہ کو بہتر بنانے کے لیے ایک بڑی کمپنی کی خدمات بھی حاصل کر رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی نرودا پاٹیا کا فیصلہ سامنے آیا ویسے ہی مودی نے یہ بیان دے دیا کہ گجرات کی خواتین بناؤ سنگار پر زیادہ توجہ دیتی ہیں۔ اس بیان کامقصد لوگوںکی توجہ نرودا پاٹیا سے ہٹانا تھا۔ اسی طرح جب جب مودی کے خلاف کسی عدالت کا فیصلہ سامنے آیا اس کے ساتھ ہی مودی کا متنازعہ بیان کئی طرح کے ڈھونگ اور ڈرامے بھی سامنے آئے ہیں۔ تاکہ میڈیا کی توجہ حسب توقع اس طرح کے فیصلے ہٹ جائے اور مودی ہی مودی ہی نظر آئے اور ایسا ہوا بھی ہے۔
نرودا پاٹیا کے فیصلے کو ملک گیر سطح پر مسلم نوجوانوںکی گرفتاری سے بھی منسلک کرکے دیکھا جانا چاہئے کیوں کہ ۲۰۰۶کے مالیگاؤں بم دھماکہ کے الزام میں گذشتہ پانچ بر سوں سے جیل کی صعوبتیں بر داشت کرنے والے نو ملزمین سے سات کی رہائی عمل میں آگئی اورجب مالیگاؤں بم دھماکے کے بے قصور مسلم نوجوانوں کو رہا کیا گیا تھا اس کے بعد ہی بہار سے بڑے پیمانے پر مسلم نوجوانوں کی گرفتاری شروع ہوگئی تھی۔اس کڑی میں جو بھی ملا پکڑلیا۔ اس کا مقصد ہندؤںکو خوش کرنا ہے اور یہ پیغام دینا ہے کہ اگر کچھ ہندوؤں کو سزا سنائی گئی ہے تو اس سے زیادہ مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے جیل میں سڑایا جارہاہے۔ راجیو گاندھی کے وزارت عظمی کے دوران جب شا ہ کیس پر سپریم کورٹ کا یکطرفہ فیصلہ سامنے آیا تھا تو مسلمانوںنے اس کے خلاف تحریک چلائی تھی اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو بے اثر کرنے کے لئے حکومت نے پارلیمنٹ سے ایک بل پاس کرایا تھا ۔ اس وقت بھی ہندو ناراض ہوگئے تھے کہ مسلمانوں کی منہ بھرائی کی جارہی ہے حالانکہ اس سے ہندوؤں کو کوئی مطلب نہیں تھا اور نہ ہی ناراض ہونے کا کوئی سبب لیکن اس فرضی تاثر اورمبینہ ناراضی کو ختم کرنے کیلئے بابری مسجد کا تالا کھولا گیا تھا۔ اسی طرح نرودا پاٹیا کے فسادیوں کو سزا دینے کا اعلان کے ساتھ ہی کرناٹک کی بی جے پی حکومت کو یہ الہام ہوگیا کہ مسلم نوجوان بڑی بڑی شخصیات کو قتل کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔ اس بہانے اس نے ملک بھر سے درجنوں مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا ہے جن کی عمریں ۲۰ سے ۲۵ برس کے درمیان ہیں۔ اگر یہ نوجوان سازش کررہے تھے تو پہلے کورٹ میں ثبوت پیش کئے جاتے اور عدالت کے حکم پر گرفتاری کی جاتی ۔ ہندوستانی جمہوریت کی خصوصیت ہے کہ مسلمانوںکوشبہ کی بنیاد پرسزا دینے کی باری آتی ہے تو تمام قانون زندہ ہوجاتے ہیں لیکن جب مسلمانوں کو انصاف دینے کی باری آتی ہے سارے قانون مردہ ہوجاتے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوری ملک ہندوستان میں یہ سوال اٹھنے لگا کہ مذہبی اقلیتوں کے خلاف ریاست دانستہ طور پر تفریق کیوںبرت رہی ہے؟ مسلمان یہ سوچنے کے لیے مجبور ہیں کہ کیا ملک میں ان کے لیے انصاف کے حصول کے سارے راستے بند ہوتے جا رہے ہیں؟۔ ان فسادات میں ہمیشہ زبردست جانی، مالی اور اعصابی نقصان مسلمانوں کو ہی کیوں اٹھانا پڑتاہے ۔جب سے یہ فیصلہ آیا ہے مسلمانوں کی باچھیں کھل اٹھی ہیں خصوصاً بیان باز تنظیموں ، افراد اور کچھ علماء کرام بغیر سوچے سمجھے اورنتائج پر غور کئے بغیر بیانات دے رہے ہیں اور خوشیاں منا رہے ہیں۔ جس کامنفی پیغام برادران وطن میں پہنچ رہاہے۔ ابھی ہائی کورٹ اورسپریم کورٹ کا فیصلہ باقی ہے۔ جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آجائے تو مسلمان خوشیاں منائیں۔ اس قت سمجھداری کے ساتھ ردعمل ظاہر کرنے کاوقت ہے۔
ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔
9810372335