Home / Socio-political / نظریہ ضرورت سے نظریہ مجبوری تک

نظریہ ضرورت سے نظریہ مجبوری تک

یہ دوسرے خلیفہ راشد کے دور کا واقعہ ہے، حکمران کلاس کی دو شخصیات کھانا کھارہی تھیں،کھانے کے بعد دونوں حضرات خوش گپیوں میں مشغول ہوگئے، اتنے میں وہاں ایک تیسرا شخص آیا اور اس نے دونوں حضرات میں سے ایک کی طرف اشارہ کیا اور ذرا تیز سے لہجے میں بولا ”یہ شخص میرا ملزم ہے، میں انصاف کے لئے دہائی دیتا ہوں “وہاں موجود دونوں حضرات میں سے نسبتاً طویل القامت شخص کے چہرے پر سختی آگئی اور اس نے جلالی لہجے میں سامنے بیٹھے صاحب کو حکم دیا۔

”اے ابو حسن کھڑے ہو جاؤ“

ابو حسن کا چہرہ سرخ ہوگیا تاہم وہ خاموشی سے کھڑا ہوگیا،

فریادی کو عرض کرنے کا حکم دیا گیا،فریادی نے مقدمے کی تفصیل بتائی ”ملزم“کو جواب دعویٰ کی اجازت دی گئی، دعویٰ اور جواب دعویٰ کا سلسلہ چلا تو چند ہی لمحوں میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگیا اور دعوے دار جھوٹا ثابت ہوگیا، طویل القامت شخص نے فریادی کو واپس جانے اور ابو حسن کو بیٹھنے کا اشارہ کردیا،فریادی رخصت ہوا تو ابو حسن بیٹھ گئے اور خوش کلامی کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا، طویل القامت شخص نے ابو حسن سے پوچھا ”بھائی!میں نے جب آپ کو کھڑاہونے کے لئے کہا تو آپ کا رنگ سرخ ہوگیا تھا،کیا میں پوچھ سکتا ہوں آپ کو میری کیا بات بری لگی؟“ابو حسن نے تبسم فرمایا اورحلیم لہجے میں بولا ”امیر المومنین عربوں میں کنیت عزت اور ادب کے لئے بولی جاتی ہے،جب میرے خلاف مقدمہ دائرہوا تو آپ کو مجھے ملزم سمجھنا چاہیے تھا، آپ پر لازم تھا آپ مجھے علی  کہہ کر پکارتے لیکن آپ نے مجھے ابو حسن کہا، جس سے مجھے شک گزرا کہیں میری کنیت بلانے سے آپ کا انصاف مشکوک نہ ہو جائے اور فریادی یہ نہ سمجھ بیٹھے آپ نے میرے ساتھ رعایت برتی ہے “حضرت عمر اٹھے اور حضرت ابو حسن کو گلے لگا لیا۔

جی ہاں یہ دونوں حضرات عمر فاروق اور حضرت علی  تھے۔ذر ا غور کیجئے اسلام کا نظام عدل کتنا سادہ،کتنا شفاف اور کتنافوری تھا اور اس میں کوئی بھی فریادی، کسی بھی وقت، کسی کے بھی خلاف کسی بھی عدالت میں پیش ہوسکتا تھا اس کا ”ملزم“خواہ حضرت علی جیسا جلیل القدر صحابی اور رسولﷺ کے چچا زاد اور داماد ہی کیوں نہ ہو اور خواہ وہ اس وقت امیر المومنین کے دستر خوان پر کیوں نہ بیٹھا ہو،وہ اسی وقت کٹہرے میں کھڑا تھا،اسی وقت پیشی ہوتی تھی، اسی وقت کیس دائر ہوتا تھا،ثبوت مانگے اور پیش کئے جاتے تھے،گواہیاں ہوتی تھیں اور فوراً فیصلہ سنادیا جاتاتھا اور آخر میں ملزم اعتراض بھی کرتا تھا تو کیا خوب اعتراض کرتا تھا“حضور جب میں ملزم تھا تو آپ نے میرا نام عزت سے کیوں پکارا،یہ انصاف نہیں، یہ منصف کے شایان شان نہیں “واہ ، واہ قربان جاؤں سوہنے رب اور اس کے سوہنے نبیﷺکی تربیت پر اور اس تربیت سے جو انصاف نکلا تھا اس پر۔

دنیا کے ہرمذہب میں انصاف کا نظام موجود ہے لیکن اسلام دنیا کا پہلا مذہب تھا جس نے عدالت کا روایتی نظام توڑ دیا اور جس نے کہا تھا عدالت کے لئے عمارت کی ضرورت نہیں،انصاف کے لئے جج کے پاس کاغذ، قلم اور دوات کا ہونا بھی ضروری نہیں، جج کے لئے اوقات کار بھی اہم نہیں اور منصف کے لئے کسی لمبے چوڑے پیکیج کی بھی ضرورت نہیں “بس مدعی آئے، ملزم بلایا جائے، دونوں کے بیان اور گواہیاں ہوں اور اللہ کے قانون کے مطابق فیصلہ دے دیا جائے اور ہاں ملزم کون ہے اور دعویٰ کس نے دائر کیا تھا،یہ سوچنے اور یہ دیکھنے والا شخص جج نہیں ہوسکتا، یہ تھا اسلام کا نظام عدل، دنیا میں جب اسلام اور اسلام کے غلام چار براعظموں پر پھیل چکے تھے، اس وقت بھی فیصلے اسی قانون اور اسی اصول کے مطابق ہوتے تھے اور خلفائے راشدین کے بعد بھی ایسے بیسیوں خلیفہ آئے تھے جنہیں قاضی نے نہ صرف کٹہرے میں لاکھڑا کیا بلکہ ان کے خلاف فیصلے بھی دئیے اور ان فیصلوں پر تین، تین براعظموں پر پھیلی سلطنتوں کے ”مطلق العنان“حکمرانوں نے چوں تک نہ کی لیکن پھر وہی ہوا، یہ نظام عدل بھی اسلام کے دوسرے سنہری اصولوں کی طرح اہل مغرب کے پاس چلا گیا اور ہمارے پاس صرف عدالتیں، جج، ریڈر، ہرکارے،اہلمد، وکیل اور کتابیں رہ گئیں اور ہمارے مطلق العنان حکمرانوں نے ان کتابوں اور ان عدالتوں کا حلیہ بھی بگاڑ کر رکھ دیا۔

 عدلیہ کی بحالی کے بعدجناب چیف جسٹس چوہدری افتخار صاحب اوران کے ساتھی اپنی انتھک محنت سے عدلیہ کے مقام کوبحال کرنے کی جوکوششیں کررہے ہیں،پاکستانی عوام اس کودل وجان سے سراہتی بھی ہے لیکن نجانے کیوں اب بھی وہ یاس اورناامیدی سے نکل نہیں پائی ہے۔موجودہ حکومت ایک عرصے سے اپنے امیج کو ”قانون پسندی“کی شکل دینے کے لئے قوم کے سامنے کئی بارجھوٹے وعدے وعیدتوکرتی ہے لیکن عملاًسب سے زیادہ اسی نے عدالتی فیصلوں کی توہین کی ہے اوراب بھی ڈھٹائی کے ساتھ عدالتوں کامذاق اڑانے پرفخرمحسوس کرتی ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ محترم چیف جسٹس صاحب ایک نئے عدالتی پیکیج پر بھی غور کر رہے ہیں،یقینا ملک میں نئی کورٹس بھی بننی چاہئیں،بار رومز میں بھی اضافہ ہونا چاہیے، ججوں کی تعدادبھی بڑھنی چاہیے، عدالتوں میں کمپیوٹر زکی بھی ضرورت ہے اور ججوں کے حالات کار بھی بہتر ہونے چاہئیں،ان میں ائیرکنڈیشنز بھی لگا دیں لیکن اسکے ساتھ ساتھ معاشرے کو بھی انصاف کی ٹھنڈی ہواملنی چاہئے۔عدالتوں میں تاخیرسے عدل دلوں کواس قدرکھٹک رہاہے کہ عوام یہ سوچ رہے ہیں کہ کیاان عدالتی فیصلوں پرعملدرآمد کیلئے ہم سے مزیدقربانیوں کامطالبہ کیاجائے گا؟ سوال یہ ہے جس ملک کے نظام میں اتنی سکت نہ ہو کہ وہ حکومت کے ایک معمولی کارندے کو کٹہرے میں کھڑا کرکے سزتو سنا دے لیکن اس پرعلمدرآمدکی بجائے ماچس کی ڈبی جتنا وزیر کھلم کھلاان فیصلوں کی تضحیک کرتارہے توپھر پاکستانی عوام کس کے پاس فریادلیکر جائیں؟ یقین کیجئے اس ملک کو کمپیوٹر اور عمارتیں نہیں چاہئیں،اسے اعتماد، جرأت اور فیصلوں پرعملدرآمد کی قوت چاہئے۔ کیا اس ملک کے نظام عدل کو نئی عمارتیں اور قیمتی کمپیوٹرز ٹھیک کر لیں گے؟ آپ بھی بڑے دلچسپ لوگ ہیں۔

آپ نظام حکومت کو حضرت عمر جیسی جرأت اور حضرت علی جیسی نظر نہیں دے سکتے، نہ دیں لیکن آپ جودن رات جمہوریت اورآئین کی بات کرتے ہیں کم از کم اسے امریکہ اور یورپ جیسے ملکوں میں عدلیہ کے احکام پرعملدرآمدجیسی قوت ِنافذہ تودیں۔ امریکہ، یورپ ،جاپان جہاں صدر ہو،وزیر اعظم ہو،بادشاہ ہو،ملکہ ہو یا وزیر، عدالتیں انہیں طلب کرتے ہوئے دس منٹ دیر نہیں لگاتیں اور یہ لوگ بھی سر کے بل چل کر عدالت میں پیش ہوتے ہیں،اپنے خلاف فیصلے سنتے ہیں اورسزابھی بھگتتے ہیں جبکہ ہمارے ملک کا وزیراعظم تیس سیکنڈکی سزابھگت کرسیدھااپنی کابینہ کی صدارت اورقومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنی گھن گرج کے ساتھ سب کوچیلنج کرتاہے کہ طاقت ہے تومجھے نکال کردکھاوٴ! گویا موجودہ حکومت خود کو عدالتی فیصلوں اورانصاف سے بالاتر سمجھتے ہیں اورباقی تمام لوہاروں، ترکھانوں کو کچہریوں میں بلا کر ننگی زمین پر بٹھا کران کوعدالتی فیصلوں کے بعدجیلوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔ ہم جب بھی پاکستان میں ہونے والے جرائم پر تحقیق کرتے ہیں تو ہمیں اس ملک میں ہونے والے ہر جرم کے ڈانڈے کسی نہ کسی شکل میں حکومت اور سلطنت کی ہٹ دھرمی سے ملتے دکھائی دیتے ہیں اور یہ حقیقت ہے جب تک سلطنت اور حکمرانوں کو عدالتی فیصلوں کاپابندنہیں بنایاجاتا اس وقت تک ملک میں انصاف قائم نہیں ہوسکتا، انصاف ایک سوچ، فیصلے پرعملدرآمدکی ایک آزادی کا نام ہوتا ہے اور جس ملک میں فیصلے پرعملدرآمدکی آزادی اور انصاف کرنے کی سوچ موجود نہ ہو وہاں آپ ججوں کی تعداد میں پانچ سو گنا اضافہ کردیں اور وہاں آپ سارے ملک کی عمارتوں میں بھی عدالتیں قائم کردیں اور اس ملک کے تمام منصفوں کو کمپیوٹر کی فیکٹریاں بھی لگا دیں تب بھی معاشرے میں انصاف قائم نہیں ہوگا کیونکہ انصاف، انصاف ہوتا ہے، یہ دکان، فیکٹری یا دفتر نہیں ہوتا ۔موجودہ حکومت نے اس ملک میں انصاف کو روندنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی چنانچہ محسوس ہوتا ہے آج جب حضرت عمر اور حضرت علی جیسے اکابرینِ اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک کی صورتحال کو دیکھتے ہوں گے تو انہیں ہماری حالتِ زار پر دکھ ہوتا ہوگا اور وہ سوچتے ہوں گے جس اسلام نے دنیا میں عدل کی بنیاد رکھی تھی آج اس اسلام کے ماننے والوں کے ملک میں عدالتی فیصلوں کاکیسامذاق اڑایاجارہاہے ۔آج دنیا اس اسلام کے ماننے والوں کے نظام حکومت پر ہنس رہی ہے۔ذرا سوچئے !یہ سوچ کر ہمارے اکابرین کو کتنا دکھ ہوتا ہوگا۔کیانظریہ ضرورت اب نظریہ مجبوری بن گیاہے؟

 

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *