سمیع اللہ ملک
اسلام کی اصل قوت یعنی جذبہ جہاداور شوق شہادت سے خوفزدہ مغرب کو جب سے اسلام کے خلاف عسکری اعتبار سے غلبہ حاصل ہوا ہے اس نے جہاں ایک طرف اس بر تری کو قائم رکھنے کیلئے خوب سرمایہ خرچ کیا ہے‘وہیں دوسری طرف مسلما نوں کے درمیان ایسے افراد کو کھڑا کیا ہے جو جہاد‘ جذبہ جہاداور معجزے کے رد میں ”منطق“ پر مبنی مواد ا کٹھا کر کے مسلما نوں کو یہ با ور کروا سکیں کہ مغرب کی ہر بات کو من و عن تسلیم کر نے میں ہی تمہا ری بھلا ئی ہے اور اس سے لڑنا دیوار سے سر ٹکرانے کے مترادف ہے۔
پا کستان میں اپنی ”این جی اوز“ چلانے کیلئے مغرب کی تجوریوں سے ڈالر اور پاوٴنڈ وصول کر نے والے حضرات کی تعداد بے شک بڑھ رہی ہے ‘سرکاری ذرائع ابلاغ کے تما م وسائل بھی آجکل ان کے تصرف میں ہیں‘نوجوانوں نسل کومتاثر کرنے کیلئے ذرائع ابلاغ کو خوب استعمال کیا جا رہا ہے۔کسی بھی چینل کو دیکھیں وہاں پر مخلوط نوجوان نسل کے ساتھ مذاکرہ کے پرگرام میں اسلام کی نئی تشریح کے ساتھ روشن خیالی کا پیغام دیا جا رہا ہے۔کبھی ڈاکٹر خالد ظہیر‘ڈاکٹر فاروق اور خورشید ندیم کے روپ میں آتے تھے اب حسن نثار،نذیرناجی اورہودبھائی کی صورت میں امت محمدی سے اس کی اصل متاع یعنی جذبہ جہاد چرانے کی ناکام کوششوں میں مصروف عمل نظر آ رہے ہیں اور ان سب کے استاد جاوید غامدی نے تو معجزے کے تصور کو غلط ثابت کرنے کیلئے ٹی وی پر آن ر یکارڈ ْرقرآن کی سورة الفیل کے غیر مبہم معنی کو مبہم بنا نے اور تبدیل کرنے کی برملاجسارت کی ہے۔علامہ اقبال نے ان اشعار میں ”تصور معجزہ“ کی تشر یح کی تھی کہ:
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
مغرب نے صرف اس پہلوہی سے مسلمانوں کی سوچ کو تبدیل کر نے کی کوشش نہیں کی ہے بلکہ ا ہل مغرب نے مسلما نوں کے درمیان پائے جانے والے میر جعفر اور میر صادق کو بے قصور ثابت کر نے کیلئے و کیلوں کی خدمات بھی حا صل کی ہیں۔یہ پیشے کے لحاظ سے وکیل نہیں کیونکہ دنیا ا نہیں ”دانشور“ کہتی ہے۔ایسے دانشوروں میں ایک نام حسین حقانی کا بھی ہے ۔یہ ا نسا نی فطرت ہے کہ انسان ا پنے جیسوں کے قصور کو قصور نہیں سمجھتابلکہ وہ انہیں بے قصور ثابت کر نے کیلئے د لا ئل کے ا نبار لگا دیتا ہے۔ حسین حقانی نے بھی ا یسا ہی کچھ کیا۔فطرت کے ا س اصول کو صحیح مان لیا جائے تو ہمیں حسین حقانی کے اس عمل کو بھی درست ماننا ہو گا کہ ا نہو ں نے اپنوں ہی کوتو حق ثابت کر نے کی کو شش کی۔جی ہاں وہ ”اپنے“ جن کی فہر ست میر جعفر اور میر صادق سے شروع ہو تی ہے اور آج کے مسلمان ممالک کے ا قتدار کے ا یوا نوں میں مو جود ا کثر ا فراداس فہرست میں ا پنا نام لکھوانے کی ا ہلیت ر کھتے ہیں۔ کینیڈا میں مقیم مشہور دانشور عابد اللہ جان “Carnegie Endowment for Internal Peace” میں حسین حقانی کے با رے میں لکھتے ہیں کہ حسین حقانی تصور جہاد کو بگاڑنے اور مسلما نوں کی شکست میں کر دار ادا کر نے والے غداروں کو بے قصور ثابت کر نے کی کوشش میں کہتے ہیں کہ ”بنگال کے نواب سراج الدولہ کی ۱۷۵۷ء کی جنگ پلا سی میں شکست میر جعفر کی غداری کا نتیجہ نہیں تھی“۔ان کے خیال میں ”بر طانیہ کے پاس (سراج الدولہ کے مقا بلے میں)زیادہ اسلحہ اور بہتر حکمت عملی ہو گی اور میر جعفر کا انگر یزوں کی حمائت کرنا ان کی عسکری بر تری کا نتیجہ تھا“”Source of Brainwash by Hussain Haqqani 2 July 2004″ جبکہ ا نگریز خود اس بات کا اعتراف کر تے ہیں کہ مسلما نوں کے پاس ان سے زیادہ اسلحہ مو جود تھا اور انگر یزوں کی جیت صرف اور صرف میر جعفر کی غداری کے با عث ہی ممکن ہو سکی تھی۔
عابد اللہ جان مزید لکھتے ہیں ”کہ اگران کے یہ مضا مین ۱۵ سال قبل منظر عام آ چکے ہو تے تو ہم سمجھتے کہ ان کی جہا لت کا نتیجہ ہے لیکن جب امریکہ نائن الیون کے بعد”دہشت گردی کے خلاف جنگ“کے نام پر مسلما نوں پر حملہ آور ہو چکاہے تو ا یسے میں حسین حقانی جیسے لوگوں کی طرف سے جہاد کے تصور کی مذمت کرنا یقینا معنی خیز ہے۔“
بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے دوران قید “The Discovery of India (1942-1946)” نامی کتاب لکھی۔ان کے مطابق ”رابرٹ کلائیو نے پلا سی کی جنگ غداری کو فروغ دیکر جیتی تھی “۔ جواہر لعل نہرو اپنی کتاب میں مزید لکھتے ہیں ”جنگ چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں لڑی جا سکتی تھی اور یقینا جنگ کے نتیجے کا فیصلہ سپا ہیوں کے میدان جنگ میں آنے سے بہت پہلے کیا جا چکا تھا ۔بنگال کے تاج کے خواہش مند میر جعفر کو اپنے لو گوں سمیت کلائیوکے سا تھ شامل ہو نے کی تر غیب دی گئی ‘نواب کی فوج کی بہت بڑی تعداد کو وقت سے پہلے ہتھیار ڈالنے اور اسلحہ کو اپنی ہی فوج پر تاننے کیلئے رشوت دی گئی۔“
دشمن کا دشمن دوست ہو تا ہے ۔بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کی طرف سے نواب سراج الدولہ کے حق یا میر جعفر کی مخالفت میں لکھنے کو ان کی انگریز دشمنی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے لیکن حسین حقانی جیسے خودسر ”دانشور“ رابرٹ کلائیو کے اس خط کو کہاں چھپائیں گے جس میں انہوں نے خود لکھا ہے کہ”ہم نے بہت جلد میر جعفر کے سا تھ تاج اس کے سر پر پہنا نے کامعاہدہ کر لیا ‘تمام تیاریاں بہت ہی ذمہ داری اور رازداری کے سا تھ مکمل کر لی گئیں۔ایک ہزار یو رپین اور دو ہزار سپاہیوں جن کے پاس آٹھ توپیں تھیں ‘ پر مشتمل فو ج ۱۳ تا ریخ کو چندریگر سے روا نہ ہوئیں اور ۱۸ کوکٹوأ کے قلعہ تک پہنچ گئیں ۔دن کے طلوع ہونے پر ہمیں پتہ چلا کہ نواب کی افواج ہما ری طرف بڑھ رہی ہیں ‘اس وقت ہمیں معلوم ہوا کہ نواب کی افواج میں ۱۵ ہزار گھڑ سوار اور ۳۵ ہزار پیدل سپاہی شامل ہیں جن کے پاس ۴۰ تو پیں ہیں“۔
حسین حقانی نے ۲۰۰۴ء میں یہ مضمون ”نظریہ پا کستان کے محا فظ ا بلاغی گروپ“ کے ا نگریزی اخبار میں لکھا تھا ۔اس ز ما نے میں ا نہوں نے Stephen Schawrtz کے سا تھ مل کر ”انسٹی ٹیوٹ فار اسلا مک پر و گریس اینڈ پیس“ کی بنیاد رکھی جو (متعصب یہودی) نو قدامت پسندوں کے پروجیکٹ “Relligion Building” کا حصہ تھا ۔ حسین حقانی کے ساتھ اس تنظیم کے شریک با نی ا سٹیفن معروف یہودی رسا لوں ”Front Page/ Weekly Standard/ National review“ کیلئے لکھنے کے علاوہ ا مریکہ کے کیمپس میں “Islam of ascism”مہم کا حصہ بھی رہے۔اس مہم نے ا مریکی تعلیمی اداروں میں مسلمان طالب علموں خصوصا مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے وا لے علم کے متلاشی نو جوا نوں کے علاوہ اسرائیل کی کار وائیوں کو ظلم سے تعبیر کر نے والے عیسائی طا لب علمو ں اور اسا تذہ کو سخت نقصان پہنچایا۔
ا مریکہ میں مو جود ا سلا می گروہ جیسے اسلا مک سو سا ئٹی آف نا رتھ ا مر یکہ‘کو نسل آن ا مر یکن اسلا مک ریلیشنز اور مسلم ا سٹوڈنٹ ایسو سی ایشن حسین حقانی کی مسلم دشمن تنظیم کے نشانے پر رہی۔ اسرائیل پر تنقید کر نے والوں کو “Anti-Semitism”کا ا لزام لگا کر نشانہ بنایا گیا۔یہودی گر و ہوں اور جیوش کیمونٹی فیڈریشن کو مشورہ دیا گیا کہ وہ ”اپنے آپ کو منظم ر کھے ‘خطوط لکھے اور سیاست دا نوں کو راضی کرے کہ وہ واشنگٹن پر اثر انداز ہو نے وا لی سعودی لا بی کا ہر سطح پر مقا بلہ کر یں۔“
حسین حقانی کی مسلم دشمن کا ر وائیاں یوں تو بے شما ر ہیں لیکن کچھ واقعات کا تذکرہ قارئین کیلئے از حد ضروری ہے۔ پا کستانی نژاد معین ا نصاری کے مطا بق حسین حقانی نے جیوش انسٹی ٹیوٹ آف سیکو ر ٹی کے پلیٹ فارم پر تقریر کر تے ہو ئے پا کستان اور پا کستا نیوں کا خوب مذاق اڑا یا۔پاک ا مریکہ تعلقات میں چار با عث اضطراب پہلووٴں کی نشاندہی کر تے ہو ئے حسین حقانی نے کہا کہ” پاکستان اور سعودی عرب ا مریکہ کے سب سے بڑے مشکل دو ا تحادی ہیں۔مشکل کیوں ہیں؟کیو نکہ ا یسے لوگ موجود ہیں جو کہیں گے یہ ا تحا دی نہیں بلکہ ا مر یکہ کیلئے مسا ئل کا ذریعہ ہیں۔“
حسین حقانی نے پا کستان اور ا مریکہ کے تعلقات کو مشکل بنانے والی ان چار با عث اضطراب اور خطرناک پہلووٴں کی نشاندہی کرتے ہوئے پاکستان کا ایٹمی ہتھیا روں کے پھیلا وٴ کارحجان ‘پا کستان کا اسلا می عسکری تحریک کے مر کز کے طور پرکر دار‘ جنو بی ایشیائی سیا ست کی مسلسل بے ثبا تی اور پا کستان کے علا قائی مسائل پرامریکاکی بھرپورتوجہ دلانے پردہائی دی ہے۔ پا کستان کو اسلا می عسکری تحریک کا مر کزقرا ر د یتے ہو ئے کہا کہ پا کستان اس کا مر کز ہے اور رہے گااور مستقبل میں ا مریکہ اور مغربی دنیا کے امن کیلئے ایک سنگین خطرہ رہے گا۔معین ا نصاری لکھتے ہیں ”جما عت ا سلا می کے با نی سید ابو ا علیٰ مو دودی جنہوں نے ”الجہاد فی الاسلام“ لکھی ‘ان کے کام کو حسین حقانی اور دیگر‘عا لمی جہا دی کوششوں کیلئے ایک ا بلنے وا لی پلیٹ سے تعبیر کر تے ہیں۔ “حسین حقانی پا کستانی حکو متوں کے خلاف ز ہر ا فشا نی کر تے ہو ئے کہتے ہیں کہ ”جب پا کستان عا لمی ا سلا می عسکری مہم کے مر کز کا کر دارادا کر تا ہے تو ا یسے متشدد گروہوں کو پا کستانی حکو مت میں شا مل شدت پسندوں کی حمائت بھی حا صل ہو تی ہے۔وہ آگے لکھتے ہیں کہ ”پا کستان کی فوج ا سٹریٹجک و جو ہات کی بناء پر وقتاًفوقتاً اسلامی عسکریت پسندوں کے سا تھ ا تحاد کر تی ر ہتی ہے اور مسجد اور فوج کے درمیان یہ اتحاد ہی تھا جس نے طالبان کو جنم دیا۔“
معین ا نصاری بتا تے ہیں کہ ”حسین حقانی کے خیال میں جب ا نڈیا کی طرف سے پا کستان کو دوبارہ شا مل کر نے کا خدشہ نہیں رہا تو ا نڈیا پا کستان کیلئے خطرہ نہیں ہو ا،اس لئے پا کستان کو اندرونی خطرات پر زیادہ سر ما یہ خرچ کر نا چا ہئے“۔اس کے علا وہ حسین حقانی کشمیر کے مسئلے کو ا ہمیت د ینے کو بھی با لو اسطہ طور پر عسکری قیادت کی چال سمجھتے ہیں ”جس کے ذریعے وہ پا کستان پر حکمرا نی کر نا چا ہتی ہے۔“کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطا بق ایک عا لمی متنا زعہ مسئلہ ہے لیکن حسین حقانی ا مریکہ میں کئی سا ل تک کشمیر پر بھا رت کے قبضے کو اس کا حق تسلیم کر تے ہو ئے لا کھوں ا نسا نوں کے اس عا لمی مسئلے کو پا کستا نی ا سٹیبلشمنٹ کی چال کہتے رہے ہیں۔پا کستانی ا سٹیبلشمنٹ ا گرامت محمدی کا قتل عا م کر نے وا لے ا مر یکہ کیلئے کا م کرے تو دانشور کے نام سے پہچا نے جا نے وا لے ا مریکہ کے ان د لا لوں کے نزدیک یہ عین حق ہے ،بہ الفاظ د یگر اگر پا کستا نی ادارے اور فوج ا مریکہ کی جنگ لڑ یں تو ٹھیک ہے اور ا پنے ملک پر د شمنوں کے قبضے کو قبضہ کہیں تو یہ غلط ہے۔
حسین حقانی کے اس کر دار کو د یکھتے ہوئے ”روپیز ڈاٹ کام“کے ایک تبصرہ نگار سوال ا ٹھا تے ہیں کہ حسین حقانی ا مریکہ میں کس کے سفیر ہیں ؟ وہ مسئلہ کشمیر اور افغانستان کے با رڈر کے مسئلے پر پا کستان کی و کالت کریں گے یا اس بد دیانت وکیل کی طرح ا پنے موٴ کل کے علا وہ اس کے مخالف سے زیادہ رقم لیکر مقدمہ لڑتا ہے؟اب پتا نہیں حسین حقانی کو بطور سفیر پا کستان سے زیا دہ تنخواہ ملتی ہے یا پا کستان کے دشمنوں یہود اور ہنود سے ملنے وا لے ڈالر؟؟؟
”روپیز ڈاٹ کام“کے مطابق حسین حقانی لکھتے ہیں کہ”بے شک پا کستان میں ایک زیر زمین دہشت گرد نیٹ ورک مو جود ہے جس کو پر ویز مشرف ٹا ر گٹ نہیں کر نا چا ہتے ۔جزوی طور پر اس لئے کہ ان کے پاس ان کو ختم کر نے کی ا ہلیت نہیں ہے ‘کیونکہ یہ ا نہوں نے اور ان کے فو جی دو ستوں نے مل کربنا یاہے۔ جب کسی سے اس کی لگائی گئی آگ کو بجھا نے کا کہا جا تا ہے تو اس کے ذہن میں ہو تا ہے کہ آگ کے اس حصے کو ہم پسند کر تے ہیں(یعنی ہما رے کام آ سکتا ہے)۔“
ویب سا ئٹ کے مطا بق حسین حقانی پرو گرام میں کہتے ہیں کہ ”وال سٹریٹ جر نل کے ڈینیل پرل کے قتل کے بعد کے حالات پا کستان کی حکمران ا شرا فیہ اور د ہشت گرد تنظیموں کے درمیان تکلیف دہ حالات کی نشا ندہی کر تے ہیں۔“پا کستان کے دا نشور سفیر حسین حقانی کے مطا بق جب ا لقا عدہ کے ر ہنما احمد عمر سعید شیخ کو پتہ چلا کہ اس کو پرل کے ا غواء اور قتل کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے تو اس نے پا کستا نی فو جی ا نٹیلی جنس کے اس افسر سے رابطہ کیا جو اس سے ڈیلنگ کر تا رہا ۔ حسین حقانی کہتے ہیں کہ” یہ حقیقت کہ ا لقا ئدہ کا دہشت گرد پا کستا نی فو جی ا نٹیلی جنس ا فسران سے رابطہ کر نے میں خود کو اتنا پر سکون محسوس کر رہا ہے ‘خود بہت زیادہ پریشان کن ہے۔“دا نشور سفیر حسین حقانی بغیر کسی لگی لپٹی کے مز ید یہ کہنے میں کوئی حجاب محسوس نہیں کرتے کہ”یہ مسا ئل اس طرف ا شا رہ کر ر ہے ہیں کہ ا مریکہ کو پا کستان سے متعلق ا پنے رویے کو دوبارہ جا نچنا ہو گا۔“
۲ ما رچ ۲۰۰۴ء کو حسین حقانی کی جیوش انسٹی ٹیوٹ آف سیکو ر ٹی فورم اور دو سرے پا کستان دشمن اداروں کے پلیٹ فارمز پر تقا ریرکے بعد ہر پا کستانی یہ پو چھنے کا حق رکھتا ہے کہ حسین حقانی پا کستان کا سفیر ہے یا پاکستان کیلئے ایک سیکورٹی رسک؟کیا حسین حقانی امریکہ کا شہری ہے؟در اصل حسین حقانی کا مقصد صرف پیسہ بنا نا اور نیو کونز کے علا وہ ہندو ستان کے منحوس مفادات کی نگرا نی کرنا ہے ۔پا کستان بننے کے بعد ا ب تک حب الو طنی کی بنیاد پر کس کو پا کستان یا عوام کی نما ئند گی کا ا ختیار د یا گیا ہے۔آج ان کے نا م بدل چکے ہیں ‘ پہچان بدل چکی ہے۔کل بھی ان کا مذہب پاکستان سے وطن دشمنی تھا اور آج تو اور بھی کھل کر اس مقصد کیلئے وفا دار موجود ہیں۔یاد ر کھیں ان کی وفا داریاں ا نہی کے سا تھ ر ہیں گی جو ان کے نام کے بڑے بڑے چیک تحریر کر تے ہیں۔کراچی کی ایک لسا نی جماعت کے قا ئدجو یہاں لند ن میں ایک بہت بڑا سیکر ٹریٹ چلا ر ہے ہیں‘ بلوچ لبریشن جو یروشلم سے ا پنا نیٹ ورک چلا رہی ہے‘ افغانستان میں بھا رت کے چھ قو نصل خا نے دن رات پاکستان دشمنوں کے سا تھ مکمل رابطے میں ہے۔یہ تما م مثالیں ہما رے سا منے ہیں لیکن ان ننگ وطن ننگ دیں اور ان کے ا ستاد جا و ید غا مد ی کے با رے میں پا کستا نی مسلما نوں کو ملک اور ملک کے با ہر جس چیز نے پریشان کر ر کھا ہے وہ ان کی اسلام کی غلط تشریح اور تاریخ بیان کر نا ہے ۔اسلام اور دہشت گردی کے خلاف ان کی تقریروں اور تحریروں کو سن اور پڑھ کر ہم ز مین پر پا ئے جا نے وا لے بد ترین ا سلا مو فو بیا لکھا ریوں ڈا کٹر ا یمرسن‘رابرٹ اسپنسر‘ڈیوڈ ہارڈ ویز اور دیگر کی تحریروں کو بھول جا تے ہیں۔
نہ ا د ھر ادھر کی تو بات کریہ بتا کہ قا فلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے غرض نہیں تری ر ہبری کا خیال ہے