نواز شریف نے ایک بار پھر بھار ت کے ساتھ دوستی کا پرانا راگ چھیڑا ہے ، اس بار یہ راگ انھوں نے برطانوی وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد چھیڑا جس سے اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ بین الاقوامی قوتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان بھارت کے خلاف زہر افشانی کرے ۔ نواز شریف کے امریکی دورے کے بعد ایسا لگا تھا کہ نواز شریف کو اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ پاکستان کو اس حال میں پہونچانےکے لیے کوئی اور نہیں بلکہ خود پاکستانی حکومت ذمہ دار ہے۔ حالانکہ نواز شریف کے بیانات بھی اب مختلف تناظر میں مختلف نظر آتے ہیں۔ جی۔ایچ۔ کیو کے دورے کے بعد ان کو فوج کا نقطۂ نظر بہتر نظر آنے لگتا ہے اور وہائٹ ہاؤس سے باہر نکلتے ہوئے بارک اوباما کا۔ نواز شریف کے ان بیانات سے ہم دو نتائج نکال سکتے ہیں یا شاید اس سے زیادہ بھی کہ اول تو ان کی اپنی کوئی فکر ہے ہی نہیں یا اگر ہے تو وہ فوجی نقطئہ نظر کے نیچے دب گئی ہے۔ نواز شریف کے بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ سے متعلق آف دی ریکارڈ بیان سے یہ نتیجہ بھی نکالا جا سکتا ہے کہ نواز شریف آج بھی شدت پسندانہ ذہنیت کے مالک ہیں جو مسئلے کا حل نہیں چاہتے بلکہ اپنی واہ واہی چاہتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے علاوہ تمام لوگوں کو بے وقوف سمجھتے ہیں ۔ شاید انہوں نے بھی پرویز مشرف سے سے کافی کچھ سیکھا ہے اور اب جب وہ بر سر اقتدار ہیں ان کا اطلاق کر رہے ہیں ۔ جس طرح پرویز مشرف نے اپنے اپنے پورے دور اقتدار میں کرتے رہے ٹھیک اسی طرح نواز شریف بھی اب مختلف جگہوں پر مختلف بیانات دینے لگے ہیں۔ انہیں طالبان بھی عزیز ہیں اور انہیں عالمی برادری بھی عزیز ہے۔ طالبان سے ان کا نظریاتی لگاو ہے جبکہ عالمی برادری کی مالی مدد کے بغیر پاکستان کا ایک قدم چلنا بھی مشکل ہے۔ ان حالات میں نواز شریف نے اپنی حکمت عملی یہ رکھی کہ جسے جو پسند ہے وہ بول دیا جائے اور پھر اس کے سامنے سے ہٹتے ہی اپنی اصلی شکل میں واپس آ جایا جائے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ منموہن سنگھ نے نواز شریف کی باتوں میں آنا مناسب نہیں سمجھا اور یہ کہتے رہے کہ پاکستان آج بھی شر پسندوں اور شدت پسندوں کے خلاف کارروائی نہیں کر رہا ہے لہذا ان ملاقاتوں سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کرنی چاہئیں ۔