ایک اور سال بیت چلا اور صرف ایک ہندسے کی تبدیلی کیساتھ ہی پوری دنیا میں نئے سال کی تقریبات شروع ہو گئیں۔ اس بات سے قطعہ نظر کہ یہ عیسوی سال ہے یا ہجری، ایک نئی تاریخ کا باب کھل چکا ہے۔ عیسوی سال کی بنیاد سورج کی گردش پر ہے جبکہ ہجری کلینڈر چاند کی گردش کے تابع ہوتا ہے۔ دونوں کلینڈروں میں ایک سال کے دوران تقریباً گیارہ دن کا فرق پڑ جاتا ہے اور تقریباً تینتیس برسوں میں یہ فرق بڑھ کر ایک سال کے برابر ہو جاتا ہے۔ کہتے ہیں ہر نیا سال نئی اُمیدیں لے کر آتا ہے۔ہر سال کی تبدیلی پر دنیا بھر میں نئے سال کے جشن کی ایک ریت بن چکی ہے۔ اس موقع پر نہ صرف خوشیاں منائی جاتی ہیں بلکہ مبارکبادیں بھی دی جاتی ہیں۔صرف ہندسوں میں ایک ہندسہ بدلتا ہے اور پوری دنیا میں سال نو کا ہنگامہ شروع ہو جاتا ہے۔ اب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کیا واقعی ہندسے بدلنے سے حالات بھی بدل جاتے ہیں۔ وہی سورج ہوگا جو گزرے سال کے آخری دن ڈوبا تھا، وہی لوگ ہوں گے، وہی حالات اور سوچیں ہوں گی۔بس خوشی منانے کا ایک موقع مل جاتا ہے ورنہ سارے دن عام سے ہوتے ہیں اور میرے جیسے جو نئے سال کے انتظار میں ہوتے ہیں کہ نیا ٹائم ٹیبل بنائیں گے، جو زندگی میں بے ترتیبی پھیلائی ہوئی ہے وہ اگلے سال ٹھیک کرینگے۔ یہ ایسے ادھورے خواب ہیں جو ہر سال ظاہر ہو جاتے ہیں لیکن ہوتا پھر بھی کچھ نہیں اور چند دن بعد دوبارہ وہی روٹین شروع ہو جاتی ہے۔
بحیثیت قوم ہم صرف ایک نئے سال میں داخل نہیں ہوئے بلکہ ہمارا ہر نیا سال غم سے شروع ہو کر قربانی پر ختم ہوتا ہے۔ نئے سال کا آغاز ہوتے ہی نیو ایئر نائٹ کی محفلیں جمتی ہیں اور ہیپی نیو ایئر کی مبارکبادیں دی جاتی ہیں لیکن ہر جشن دراصل بالادست طبقات کے المناک استحصال سے غریبوں اور محنت کشوں کی بربادی کا ایک تماشا ہوتا ہے۔ ہر آنیوالا سال اس دنیا کی وسیع تر آبادی کیلئے مزید عذابوں اور اذیتوں کا پیام بن کر آتا ہے کیونکہ یہ سال اور وقت جن سماجی نظاموں میں سے گزرتے ہیں وہ ایک اقلیتی حکمران طبقے کی دولت، مراعات اور عیاشیوں کو اکثریت کے خون، آنسو اور پسینے کو نچوڑ مہیا کرتا ہے۔ درحقیقت نئے سال میں نیاپن کچھ نہیں بلکہ سب کچھ ویسا ہی ہے۔ دن رات، آسمان زمین سب کچھ وہی ہے اور وقت کی کڑوی یادیں بھی اسی طرح ہمارے ساتھ ہیں۔ جس طرح نئے سال میں نیاپن کچھ نہیں اسی طرح پچھلا سال بھی کسی عذاب سے کم نہ تھا بلکہ ظلم و جبر کی انتہا کا سال تھا، قتل و غارت گری کے نئے انداز کا سال تھا، فحاشی و عریانیت کے پھیلاؤ کا سال تھا، ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمتوں کے ساتھ کھلواڑ کا سال تھا، ملک کے عوام کے ساتھ حکمرانوں کی دورخی پن کا سال تھا، کبھی رگڑا تو کبھی ووٹ ڈالنے کا سال تھا۔ پچھلے سال بھی ہم غلام تھے اور اس سال بھی ہم غلاموں کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں، کل بھی انصاف نہیں مل رہا تھا اور آج بھی ہم انصاف کے متلاشی ہیں۔
گزرے سال کے آخری دن وہی روایتی سوال خود سے اور دوسروں سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ سال کیسا گزرا، کیا کھویا اور کیا پایا۔بحیثیت قوم ہم نے اتنا کچھ کھویا کہ شمار کرنا مشکل ہے۔ گزرے سال سیاسی، معاشی، ثقافتی اور ادبی ہر شعبہ میں بے شمار تبدیلیاں ضرور آئی ہوں گی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وطن سے دور رہ کر بھی سکون نہیں اور وطن میں رہ کر بھی ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے۔ کتنا عجیب لگتا ہے جب ہر کوئی اپنے آس پاس موجود لوگوں کو مشتبہ نظر سے دیکھتا ہے۔ جب اخبار اُٹھاتے ہوئے، خبریں سنتے ہوئے اور کسی کا فون آتے ہی بے اختیار منہ سے ”خدا خیر کرے“ نکلتا ہے۔ جس جانب نظر جاتی ہے خاموشی ہی خاموشی دکھائی دیتی ہے۔ ہر طرف جاڑے کا سماں، جس سے بات کرو خوفزدہ دکھائی دیتا ہے۔ دوست دوست سے خوفزدہ، پڑوسی پڑوسی سے نالاں، کوئی بھی کسی سے خوش نہیں ۔ عوام روٹی، کپڑا اور مکان کے چکر میں در در بھٹک رہے ہیں پھر بھی زندگی رواں دواں ہے اور اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹا۔ جس طرح پچھلا سال بے تحاشہ پریشانیوں اور دُکھوں کا سال رہا اسی طرح اس نئے سال سے بھی کوئی خاص اُمید نہیں لگانی چاہئے لیکن اس بارے ضرور سوچنا ہوگا کہ یہ استحصال صرف ہمارے ساتھ ہی کیوں ہو رہا ہے۔ جب کل اور آج میں کوئی خاص فرق دکھائی نہیں دیتا تو پھر ہم آنیوالے سال سے اتنی اُمیدیں کیوں لگاتے ہیں۔ ان سوالات کے جوابات ”ہاں“ میں ہونا اشد ضروری ہے ورنہ سیاہ اوراق سے بھری تاریخ کو دہرانے والے تاریکی میں بھٹک جانے کیلئے تیار ہو جائیں۔
اس وقت ہمارا معاشرہ کئی اعتبار سے بحران کا شکار ہے۔ معاشی، سیاسی، معاشرتی اور مذہبی حوالے سے ہم طرح طرح کے مسائل میں پھنسے ہوئے ہیں تاہم ان مسائل میں سے بہت سے ایسے ہیں جو ہم نے خود پیدا کیئے ہیں۔اگر درج بالا سوالات کے جوابات ”ہاں“ میں مل جائیں تو پھر ایک نئے عزم کیساتھ تہیہ کرلیں کہ ہم آج سے ہی جھوٹ، مکر، فریب، غیبت، بخیلی، تنگ دلی، فضول گوئی، بے صبری، خودنمائی، خود ستائی، دروغ گوئی، وعدہ خلافی، راز کی سبوتازی، دشنام طرازی،لڑائی جھگڑے، آبروریزی، ایذارسانی، نفرت، غصہ، احساس برتری، احساس کمتری، تخریب کاری، چغل خوری، حرام کاری، کام چوری، سود خوری، ظلم، بدعہدی، خیانت، سنگ دلی، تنگ نظری، بے صبری، چھچھورپن، تلون مزاجی، پست خوصلگی، بزدلی، بدتمیزی، فرض ناشناسی، بے وفائی، غیر ذمہ داری، نااتفاقی، بدخواہی، ناہمواری، بدی، قتل، ڈاکہ، جعل سازی، رشوت خوری، بدزبانی، بہتان تراشی، فساد انگیزی، تکبر، ہٹ دھرمی، حرص ، ریاکاری اور منافقت جیسی برائیوں کا اپنی زندگی سے ہمیشہ کیلئے خاتمہ کرکے نظم و انضباط، تعاون، امداد باہمی، محبت، اعتبار، وسعت نظری، سچائی، نیکی، انصاف، پاس عہدی، امانت داری، ہمدردی، رحم، فیاضی، فراخ دلی، صبر و تحمل، اخلاقی بردباری، خودداری، شائستگی، ملنساری، فرض شناسی، وفا شعاری، مستعدی، احساس ذمہ داری، والدین کی خدمت، ر شتہ داروں کی مدد، ہمسایوں سے حسن سلوک، دوستوں سے رفاقت، یتیموں اور بے کسوں کی خبر گیری، مریضوں کی تیمارداری، مصیبت زدہ لوگوں کی اعانت، پا ک دامنی، خوش گفتاری، نرم مزاجی، خیر اندیشی، راست بازی، کھراپن، فراخ دلی اور امن پسندی جیسی اچھائیوں کو اپنائیں گے ورنہ ہر نیا (ہجری، عیسوی) سال صرف ہندوسوں کی تبدیلی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ انسانی اخلاقیات دراصل وہ عالمگیر حقیقتیں ہیں جن کو سب انسان جانتے چلے آ رہے ہیں۔ نیکی اور بدی کوئی چھپی ہوئی چیزنہیں ہیں کہ کہیں سے ڈھونڈ کر نکالنے کی ضرورت ہو۔ وہ تو انسان کی جانی پہچانی چیزیں ہیں ، جن کا شعور آدمی کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے۔ہر انسان میں انسانی برائیاں کسی نہ کسی درجے میں موجود ہوتی ہیں تاہم اگر ہم اپنے تزکیہ نفس میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر کوئی بھی ہمارا استحصال کرنے کی جرأت نہ کر سکے گا بلکہ معاشرے سے تمام غم، دُکھ، مصیبتیں، پریشانیاں، مشکلات، دہشت گردی، انتہا پسندی اور لاقانونیت کے واقعات بھی ہمیشہ کیلئے غروب ہو جائیں گے۔