Home / Socio-political / نیم حکیم خطرہ جان

نیم حکیم خطرہ جان

یہ مضمون مہمان کالم کے تحت ہے

اس مضمون میں پاکستان میں صحت عامہ کےاحوال بیان کیے گءے ہیں

 

نیم حکیم خطرہ جان

اے حق۔ لندن

جیسے جواری تاش کے پتوں سے کھیلنے میں مہارت رکھتے ہیں ویسے ہمارے ملک میں جھوٹے ڈاکٹر اور حکیم عوام کو پاگل بنا کر اُن کی زندگیوں کے ساتھ کھیلنے میں مہارت رکھتے ہیں۔دنیا کے کئی ممالک میں ہیومن رائٹس کی تنظیمیں اپنے انداز سے کام کر رہی ہیں اور پاکستان میں بھی ہیومن رائٹس محنت سے کام کر رہی ہے مگر ان جعلی ڈاکٹروں اور حکیموں کو پکڑنے اور انہیں سزا دینے کیلئے حکومت کیاکر رہی ہے؟تقریباًہر شہر کے ہربازار میں دو سے تین ڈاکٹر یا حکیم ضرور ہوتے ہیں اور اپنے ڈاکٹر ہونے کے جھوٹے ثبوت بڑے بڑے بورڈوں پر لکھوا کر بازاروں میں نمایاں لگواتے بھی ہیں مگر انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں ان کی جعلی اسناد دیکھنے والا کوئی نہیں۔حکیموں نے ملک بھر میں ایک بیماری”مردانہ کمزوری“ کے نام پر عوام کو لوٹنے کی مثال قائم کر رکھی ہے۔حیرت اس بات کی ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی ایسا ادارہ کام نہیں کر رہا جو حکیموں کی بیچی جانے والی جعلی ادویات کی چیکننگ کرے اور دیکھے کہ دوا کتنے فیصد خالص ہے۔مریض جو کسی مرض میں مبتلاء ہو اُس کیلئے فیصلہ کرنا کہ کون سا حکیم یا ڈاکٹر اُسکا بہتر علاج کر سکتا ہے مریض کیلئے مشکل عمل ہے۔عزیز واقارب کے فیصلوں کے مطابق اکثر مریض علاج کروانے دائیں،بائیں قریبی حکیم کے پاس جاتے ہیں مگر ہسپتالوں کو اہمیت نہیں دیتے جہاں حکومت کے تصدیق شدہ ڈاکٹرز ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ ہر علاقہ میں حکومت کی جانب سے ہیلتھ سنٹریا ہسپتال نہیں اور جہاں حکومت کے ہیلتھ سنٹرز ہیں وہاں ڈاکٹروں کے نخرے غریب اور مجبور عوام کو بھگتنے پڑتے ہیں،یہ بھی الگ بات ہے کہ بڑے شہروں اور بڑے ہسپتالوں میں اکثر حکومت کے تصدیق شدہ ڈاکٹروں کی غلطی سے ہی مریض مرتا ہے یا اگر آپریشن دائیں بازو کا کرنا ہو تا کیا بائیں بازو کا جاتا ہے۔حیرانگی اس بات پر ہے کہ حکومت اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہے اور بہت خوش ہے مگر اس ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کے بعد مُڑ کر پیچے دیکھا نہیں جاتا کہ ڈاکٹرز عوام کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔باقی رہے حکیم تو اُن کے پاس جانا بھی رِسک لینے سے کم نہیں۔ویسے اگر پاکستان کے جعلی علاج کرنے والوں کا حساب کتاب لگایا جائے تو ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں6لاکھ سے زائد نیم حکیم خطرہ جان موجود ہیں جو لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔جس میں سے 80سندھ میں اور 40ہزار نواب شاہ میں عوام کو پاگل بنانے میں مصروف ہیں باقی پورے ملک میں کالے بادل کی طرح چھائے ہوئے ہیں۔حیرانگی کی بات یہ ہے کہ تمام کمپوڈر،ڈسپنسری مالکان اور ڈاکٹروں کے سیکڑیان اور حکماء کے پاس ادویات پیسنے والے بھی اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹریا حکیم لگاتے ہیں۔یہ تمام لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ تاش کے پتوں کی طرح کھیلتے ہیں۔حکومت کو بجلی،گیس اور پیٹرولیم کے نرخ بڑھانے کے علاوہ اس جعلی علاج کے دھندے پر بھی توجہ دینی چاہئے اور عوام کی زندگیوں کے ساتھ کھیلنے والوں کی گرفت کرنی چاہئے۔مگر ایک لحاظ سے حکومت خود ان کے ساتھ شریک ہے فرق صرف اتنا ہے کہ جعلی ڈاکٹرز یا حکیم دوائی یا ٹیکا لگا کرغلطی سے مریض کی جان لیتے ہیں مگر حکومت عوام کو بھوکا مار کر اُن کی جان لینا چاہتی ہے۔ظاہر جب کھانے پینے کی اشیاء عوام کی پہنچ سے باہر ہوں گی تو عوام تو بھوکی مرے گی اور جب شدید گرمی میں عوام بجلی سے محروم ہوگی تو بھی عوام اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گی مگر اس سے حکومتی عہدیداروں کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔شرم کی بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اقتدار میں آنے کے بعد بھی محترمہ بی بی کے عوام سے کئے جانے والے وعدے بھی پورے نہیں کر سکی۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *