بھارت کی ریاست گجرات میں دس برس قبل۲۷فروری کو سابرمتی ٹرین کا ایک ڈبہ جلایا گیا تھا جس میں ۵۹ہندو زائرین مارے گئے تھے۔اس واقعے کے بعد پوری ریاست میں مسلمانوں کے خلاف فسادات بھڑک اٹھے تھے۔۲۷ فروری ۲۰۰۲ء کو گودھرا ریلوے سٹیشن کے نزدیک سابرمتی ایکسپریس کے ایک ڈبے میں آگ لگانے کا جو واقعہ ہوا ،وہ صرف اس میں ہلاک ہونے والے ۵۹ہندو زائرین کی ہلاکت کاہی المیہ نہیں تھا بلکہ اس نے پوری ریاست میں ہندو مسلم رشتوں کو بری طرح متاثر کیا۔اس واقعے کے بعد پوری ریاست میں بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے۔ پولیس نے اپنی تفتیش میں اس واقع کو مقامی مسلمانوں کی ایک منظم سازش قرار دیا۔ سو سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ تفتیش اور مقدمے کی سماعت کے بعد گیارہ افراد کو موت کی سزا سنائی گئی اور بیس افراد عمر قید کے مستحق قرار دیے گئے۔
گجرات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے متنازعہ وزیر اعلی نریندر مودی کے خلاف آواز اٹھانے والے اعلیٰ پولیس افسر سنجیو بھٹ کی اہلیہ نے کہا ہے کہ ان کے شوہر کی جان خطرے میں ہے۔سنجیو بھٹ کو ۳۰ستمبر۲۰۱۱ء جمعہ کے روز گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے ایک ماتحت افسر کو ڈرا دھمکا کر ان سے جھوٹی گواہی دلوائی تھی لیکن احمدآباد کے پولیس کمشنر شرد سنہا نے کہا کہ سنجیو بھٹ کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن پھر بھی سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق انہیں تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔نریندر مودی پر الزام ہے کہ آٹھ سال پہلے گجرات کے فسادات کے دوران انہوں نے پولیس کو یہ ہدایت دی تھی کہ وہ مسلمانوں کے جان و مال کا تحفظ نہ کریں۔ سنجیو بھٹ سینئر پولیس افسر ہیں جن کا دعوی ہے کہ وہ اس وقت میٹنگ میں موجود تھے جب نریندر مودی یہ حکم جاری کر رہے تھے۔
سنجیو بھٹ اس بارے میں ایک حلف نامہ سپریم کورٹ میں بھی داخل کرا چکے ہیں۔ اسی حلف نامے کے سلسلے میں ایک جونیئر پولیس افسر نے کہا ہے کہ سنجیو بھٹ نے انہیں ڈرا دھمکا کر ان سے اپنے موقف کی تائید کروائی تھی۔اپنی گرفتاری سے چند روز قبل سنجیو بھٹ نے گجرات ہائی کورٹ میں بھی ایک حلف نامہ داخل کر کے کہا تھا کہ ریاست کے سابق وزیر داخلہ ہرین پانڈیا کے قتل میں بھی نریندر مودی نے شواہد کو چھپانے کی کوشش کی تھی۔ ہرین پانڈیا بھی بی جے پی کے لیڈر تھے جن کے نریندر مودی سے اختلافات ہوگئے تھے۔ خود ہرین پانڈیا کے اہل خانہ بھی نریندر مودی کی طرف انگلی اٹھاتے رہے ہیں۔شہری حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکن تیستا سیتلواد کہتی ہیں کہ نریندر مودی انتقامی کارروائی کر رہے ہیں کیونکہ انہیں خطرہ ہے کہ گجرات کے فسادات کے سلسلے میں عدالت میں ان کے خلاف فرد جرم عائد ہوسکتی ہے۔
لیکن بی جے پی کے سینئر لیڈر بلبیر پنچ نے کہا کہ صرف مودی کے خلاف الزام لگانے کی وجہ سے کوئی شخص قانون کے دائرے سے باہر نہیں ہوسکتا اور یہ کہ سنجیو بھٹ کے خلاف کارروائی بالکل جائز ہے۔جواب میں کانگریس کے ترجمان ابھی شیک منوسنگھوی نے کہا کہ نریندر مودی ایک آمر کی طرح کام کر رہے ہیں۔گجرات میں بی جے پی کی آمریت صاف نظر آرہی ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ اس افسر کو مسٹر مودی کے کارناموں کا پردہ فاش کرنے کے فورا بعد نشانہ بنایاگیا اور یہ سب ایک جونیئر افسر سے الزامات لگوا کر؟ ان کے گھر پر اب بھی چھاپے مارے جارہے ہیں اور ان سے کسی کو ملنے بھی نہیں دیا جارہا۔سماجی کارکن اور مشہور کلاسیکل ڈانسر ملکا سارا بھائی نے کہا کہ گجرات کی حکومت کی اس کارروائی کے خلاف ان سب کو آواز اٹھانی چاہیے جو سچائی میں یقین رکھتے ہیں اور خود سنجیو بھٹ کہہ رہے ہیں کہ ان کے پاس بتانے کے لیے بہت کچھ ہے لیکن فی الحال خصوصی وجوہات کی بناء پر کچھ نہیں کہیں گے۔
گودھرا کا سانحہ بلاشبہ ایک انتہائی بہیمانہ واقعہ تھا۔ اس واقعہ کے بعد گودھرا کے لوگوں پر کیا گزری ،شہر کے ایک نوجوان تاجر مہر پاٹھک کہتے ہیں کہ اس واقعے نے پوری ریاست پر اثر ڈالا تھا لیکن یہاں گودھرا میں کچھ نہیں ہوا۔ گودھرا کے لوگوں کی سمجھ میں آگیا کہ ان واقعات کے پیچھے ایک گہری سازش ہے جس نے گودھراکے شہریوں کوبہت نقصان پہنچایاہے۔ایک اور شہری رنویر سنگھ کہتے ہیں کہ گودھرا کا واقعہ تو یہاں کے لوگوں کے لیے ایک سبق ثابت ہوا ہے اور لوگ اب ایک دوسرے کو پہلے سے بہتر طریقے سے سمجھ رہے ہیں۔ رشتوں پر تو کوئی خاص اثر نہیں پڑالیکن اب ساری برادریاں مل جل کر کام کر رہی ہیں۔گودھرا کے بیشتر مسلمان بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ ساجد یوسف شیخ ایک مسلم تاجر ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ پورے شہر میں چند لوگ ہوں گے جو بقول ان کے نفرتوں میں جیتے ہیں۔
گودھراکے ایک مسلمان شہری سعید کہتے ہیں”گودھرا کے واقعے کا استعمال مسلم مخالف فسادات کو جواز فراہم کرنے کے لیے کیاگیا۔ اس واقعے کی مکمل جانچ کی جانی چاہئے،اس کے نام پر ہمیں بدنام کیا گیا۔ اگر اس واقعے کی جانچ ہو تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا لیکن ریاستی حکومت یہ چاہتی نہیں ہے“۔سابرمتی کا جلا ہوا ڈبہ اب بھی ریلوے سٹیشن کے نزدیک کھڑا ہوا ہے۔ گودھرا شہرگزشتہ دس برس میں گجرات کے دوسرے شہروں کی طرح بہت آگے نکل چکا ہے، ہر طرف تجارتی سرگرمیاں نظر آتی ہیں،نئے نئے مکانات گودھرا کی بڑھتی ہوئی اقتصادی خوشحالی کا پتہ دیتے ہیں لیکن یہ تصویر کا صرف ایک پہلو ہے ۔گودھرا کے مسلمانوں کی آبادی کے ایک حصے نے اس واقعے کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔رحمت نگر کے حبیب بن یامین ایسے ہی ایک ایک شہری ہیں۔ انہیں گودھرا کے واقعے کے لیے گرفتار کیا گیا تھا۔ نو سال کی قید کے بعد وہ بے قصور رہا ہوئے ہیں۔ لیکن ان کے دو بھائیوں کواب بھی سزائے موت کا سامنا ہے۔”ہمارے خاندان پرجوگزری ہے وہ ہم بیان نہیں کر سکتے۔ کہیں سے کوئی مدد بھی نہیں ملتی“۔
ریحانہ کے شوہر نے بھی حال میں رہائی پائی ہے۔ وہ جاننا چاہتی ہیں کہ جن لوگوں نے بے قصوروں کو پکڑا تھا کیا انہیں کوئی سزا ملے گی؟ کیا ان کے گزرے ہوئے دن کوئی لوٹا سکے گا؟ ریحانہ کہتی ہیں” یہ مسلمانوں کی غریب بستی ہے ،کہیں پر کوئی بھی واقعہ ہوتا ہے پولیس لوگوں کو یہیں سے پکڑ کر لے جاتی ہے۔پولیس نے بیگناہوں کو پکڑ کر نو نو برس تک جیل میں رکھا۔ بیگناہوں کو آتنک وادی (دہشتگرد) بنا کر لے گئے تھے، جن کو پکڑ رکھا ہے وہ بھی بے گناہ ہیں“۔گودھرا کے مسلمان پولیس کی تفتیش اور عدالت کے فیصلے کے باوجود یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ ٹرین جلائے جانے کا واقعہ کوئی منظم اور پہلے سے طے شدہ کسی سازش کے تحت ہوا تھا لیکن مہر پاٹھک جیسے شہر کے بیشتر ہندوں کو یقین ہے کہ یہ حملہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔
عبدالحق ابراہیم سمول ریلوے کے ریٹائرڈ ملازم ہیں۔ ان کے بیٹے کو بھی عمر قید کی سزا ہوئی ہے۔ وہ اس بات پر حیران ہیں کہ ان کا بیٹا اس روز جب دوسرے شہر میں تھا تو پھر اسے کیوں اس میں ملوث کر دیا گیا؟ستر برس کے عبدالحق کی بوڑھی آنکھیں انصاف کے لیے اب تھک چکی ہیں۔گودھرا پولیس نے شہر کے ایک محترم شخص مولوی حسین عمر جی کو بھی گرفتار کیا تھا۔ انہیں اس واقعہ کا اصل کردار بتایا گیا تھا۔ کئی برس کی قید کے بعد عدالت نے انہیں بھی حال میں رہا کیا ہے۔ رہائی کے بعد وہ خاموش رہنے لگے ہیں۔ان کے بیٹے سعید عمر کا کہنا ہے کہ گودھرا کے واقعے کا استعمال مسلم مخالف فسادات کو جواز فراہم کرنے کے لیے کیا گیا۔گودھرا کے واقعے کے دس برس بعد بھی اس واقعے کی نوعیت کے بارے میں لوگ منقسم ہیں۔ شا ید یہ ہمیشہ کے لیے ایک متنازع پہلو بنا رہے گا۔ لیکن عبدالحق، حبیب بن یامین، ریحانہ اور گودھرا کے وہ پچاس سے زیادہ بے قصور مسلم شہری جنہیں نو برس بعد جیل سے رہا کیا گیا، حکومت سے یہ سوال کرتے رہیں گے کہ آخر انہیں کس جرم کی پاداش میں نو برس تک جیل میں رکھا گیا۔ دس برس بعد بھی گودھرا کے بہت سے سوالوں کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
ایک کہنہ مشق غیرمسلم صحافی کی رودادسن لیں جوان معاملات کی تحقیق کیلئے کسی نہ کسی طریقے سے وہاں پہنچاتواس نے کیادیکھا:
”ریاست گجرات کے شہر گودھرا میں اگر کوئی شخص کچھ نہ کہے تو سمجھئے وہ بہت کچھ کہنا چاہتا ہے۔یہاں رپورٹنگ کے لیے بہت کچھ لوگوں کی آنکھوں میں پڑھنا پڑتا ہے۔ یہاں بہت سارے لوگ تو آپ سے بات ہی نہیں کرنا چاہتے ۔گودھرا ایک منقسم شہر ہے۔ ہندو اور مسلمانوں کے علاقے واضح طور پر تقسیم ہیں۔ میرے ڈرائیور کو جیسے ہی معلوم ہوا کہ میں ایک صحافی ہوں اور مسلمانوں سے ملنا چاہتا ہوں اس کا پہلا سوال تھا :آپ ہندو ہیں یا مسلمان؟
دوسرا سوال تھا:آپ ڈبیشور مہاراج کو بھی دیکھیں گے؟ ڈبیشور مہاراج سے اسکا مطلب تھا سابرمتی ایکسپریس کا وہ ڈبا جس کو آگ لگائی گئی تھی اور اسی واقعے کے بعد گجرات میں ۲۰۰۲ء میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے۔میں نے ڈرائیور سے کہا” میں پہلے لوگوں سے ملوں گا“۔
مسلمانوں کے علاقے میں داخل ہوتے ہی ڈرائیور کے دو الفاظ نے بہت کچھ کہہ دیا۔” ادھر ہندوستان اور آگے چھوٹا کراچی ہے یعنی مسلمانوں کا علاقہ“۔مسلم آبادی والے پلون بازار علاقے میں کیسری چوک ہے جہاں۲۰۰۵ء کے بعد ہردن ترنگا پرچم لہرایا جاتا ہے۔ جھنڈا لہرانے کا کام فاروق کیسری کرتے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ وزیر اعلی نریندر مودی کے زبردست حمایتی ہیں۔ان کا کہنا ہے ادھر لوگوں کا نام بہت بدنام تھا تو ۲۰۰۵ء میں یہاں کے ضلع کلکٹر نے حکم دیاکہ یہاں ہر دن ترنگا پرچم لہرا وٴتاکہ یہاں کے لوگوں کو یہ پیغام دے سکو کہ آپ سب بھی ہندوستانی ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ” کیا پرچم لہرانا مسلمانوں سے ہندوستانی ہونے کا سرٹیفیکیٹ مانگنے کے برابر نہیں ہے تو ان کا کہنا تھا کہ نہیں!ایسا کر کے ہم یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم ہندوستان کی عزت کرتے ہیں، یہاں کے سب لوگ ہندوستانی ہیں اور مودی جی بہت اچھا کام کررہے ہیں“۔فاروق کیسری بائیک کی دوکان چلاتے ہیں اور وہ فخر سے کہتے ہیں کہ ان کے نوے فیصد خریدار ہندو ہیں۔فاروق کیسری سے بات چیت کے دوران وہاں بیٹھا ایک نوجوان مسکرا رہا تھا۔جیسے ہی میں نے اپنا ریکارڈر بند کیا اس نے کہا ”میری شناخت واضح مت کرنا۔ اصل بات یہ ہے کہ یہاں کا مسلمان بہت ڈرا ہوا ہے، اتنا ڈرا ہوا ہے کہ کچھ بولے گا نہیں۔ مودی ترقی کے کام کر رہے ہیں لیکن شروعات کیسے ہوئی یہ بھی سوچئے ضرور“۔
ادھر ہندو نظریاتی تنظیم وشو ہندو پریشد کے مقامی لیڈر کہتے ہیں کہ دونوں طبقوں کے درمیان رشتے معمول پر آتے نظر آ رہے ہیں لیکن ایک دوسرے سے یقین اٹھ چکا ہے۔ یہاں کا ہندو گودھرا کے مسلمانوں پر یقین نہیں کرتا۔ سارے مسلمان ایسے نہیں ہیں لیکن ایسے لوگ بھی ہیں جو غلط کام کرتے ہیں، اس لیے یقین نہیں ہوتا ایک دوسرے پر۔ یہاں کا مسلمانوں کا گھانچی طبقہ ہندوستان مخالف ہے۔
گودھرا ٹرین حادثے کے بعد نوے لوگوں کو سابرمتی ایکسپریس کا ڈبا جلانے کی سازش میں گرفتار کیا گیا تھا جس میں سے تریسٹھ افراد کو رہا کردیا گیا ہے۔ اکتیس افراد اب بھی جیل میں ہیں جن میں بعض کو عمر قید اوربعض کو پھانسی کی سزاسنائی جاچکی ہے۔اس واقعے اور گجرات فسادات کو دس برس ہوگئے ہیں لیکن فسادات کے بھوت نے نہ تو یہاں کے عوام اور نہ ہی نریندر مودی کا پیچھا چھوڑا ہے۔ فسادات کی تلخ یادیں لوگوں کو آج بھی ڈراتی ہیں۔
زمانے والے جسے سوچنے سے خائف تھے وہ بات اہلِ جنوں محفلوں میں کرتے رہے