Home / Socio-political / وقتِ معافی

وقتِ معافی

وقتِ معافی

سمیع اللہ ملک

عجیب بندہْ رب تھا وہ۔بہت گہرا‘بہت پرت تھے اس کے‘ہر پل نیا رنگ لئے۔۔۔۔۔۔۔۔کبھی موسیقی کی محفل میں‘کبھی مسجد میں‘کبھی کسی درگاہ پراور کبھی کسی خانقاہ میں‘کبھی تلقین شاہ اور کبھی گڈریا۔۔۔۔۔۔رنگ ہی رنگ‘پرتیں ہی پر تیں۔۔۔۔۔نیا پل نیاروپ اور نیا آہنگ۔اور آخری عمر میں وہ پی ٹی وی کا مشہور پروگرام’’زاویہ‘‘کرنے لگا۔یہ زاویہ کیا ہوتا ہے؟پھر کبھی بات کریں گے ۔اپنی ایک کتاب ’’بابا صاحبا‘‘جو بڑی محبت سے مجھے ایک نصیحت کے ساتھ عنائت کی تھی‘اس میں اپنے ایک بابے جناب سائیں فضل شاہ کا تذکرہ بہت عقیدت اور انتہائی محبت سے کیا ہے۔جی!بالکل صحیح پہچاناآپ نے‘میں بابا اشفاق احمد ہی کی بات کر رہا ہوںداستان سرائے والے اشفاق احمد‘جن کے ارد گرد ہر وقت ایک مجمع لگا رہتا تھا‘جو ہر وقت دنیا کی مثالیں دیکر عاجزی کا درس دیتے رہتے تھے۔

ثمود کے لوگ اپنے تئیں تکبر کے مارے ہوئے لوگ تھے جو پہاڑوں کو تراش کر ان میں نہائت خوبصورت محلات تعمیر کرتے تھے۔وہ ایک بگڑی ہوئی قوم تھی‘دولت کی فراوانی اور سرسبزوشاداب علاقے کے مالک ہونے نے ان میں بڑی خرابی پیدا کر دی تھی۔ان تک خدا کا پیغام پہنچانااور ان کو راہِ راست پر لاناحضرت صالح علیہ السلام کو سونپا گیا۔اْن کی قوم کو اعتراض تھا کہ ان جیسا انسان جو بازاروں میں چلتا پھرتا ہے اور اوپر سے یہ کہ غریب آدمی ہے‘کس طرح اللہ کا نبی ہو سکتا ہے!وہ یہی بات بار بار دہراتے تھے:’’اگر تم سربلند ہوتے اور تمہارے ہماری طرح اونچے محلات ہوتے ‘تم نے بھی ہماری طرح کوئی شاندار عمارت بنائی ہو تی تو شاید ہم تمہیں اپنا پیغمبر مان لیتے‘لیکن تمہاری اقتصادی حالت چونکہ بہتر نہیںاس لئے تمہاری دعوت ناقابلِ قبول ہے۔‘‘بالکل ایسے ہی جیسے ہم با ربارہر چیز کی وجہ اقتصادیات کو بتاتے ہیں۔ہر بار پلٹ کر اکنامکس۔۔۔۔۔۔۔!ہماری اکانومی کمزور ہے اس لئے کام نہیں کر سکتے ‘نیک نہیں بن سکتے‘اچھا انسان نہیں بن سکتے‘وغیرہ وغیرہ!!!

حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا:’’میں اس ہدائت کے کام کااجر صرف اللہ سے چاہتا ہوں ‘تم سے نہیں‘‘۔مگر ان کی بد بختی ‘انہوں نے پیغمبر سے کو ئی معجزہ چاہا کہ کوئی معجزہ دکھائیں۔حضرت صالح علیہ السلام نے شرط قبول کر لی مگر ساتھ ہی تنبیہ کی کہ معجزہ آجانے کے بعد بھی اگر وہ ایمان نہ لائے اور اپنی روش نہ بدلی توعذاب آجائے گا ‘اس لئے اگر معجزہ مانگ لیا جائے اور وہ نمودار بھی ہو جائے اور پھر بات بھی نہ مانی جائے تو عذاب طے شدہ بات ہے۔ان ظالموں نے چاہا کہ کروڑوں برسوں سے کھڑے چٹیل اور چکنے مضبوط پہاڑوں سے حضرت صالح علیہ السلام کا رب اونٹنی پیدا کر دے اور وہ اونٹنی اْن کے ساتھ بستی میں رہے ‘تب وہ حضرت صالح علیہ السلام کو اللہ کا پیغمبر مان لیں گے۔

حضرت صالح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی کہ شاید یہ معجزہ ان لوگوں کی ہدائت اور فائدے کا سبب بن جائے‘اور پھر یہی ہوا‘پہاڑوں کے قد کاٹھ والی چاندی جیسی اونٹنی رب کریم کے حکم سے نمودار ہوئی اور لوگوں کے درمیان چلنے پھرنے لگی‘لوگ حیرانی سے اسے دیکھنے لگے۔حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا’’تمہاری خواہش کے مطابق پہاڑوں سے یہ اونٹنی اللہ تعالیٰ نے پیدا فرما دی ہے ‘مگر یہ چونکہ اللہ کی مہمان ہے لہندا اللہ تعالیٰ نے یہ شرط عائد کی ہے کہ بستی کے کنوئیں سے ایک دن یہ پانی پئے گی اور کوئی دوسرا انسان ‘چرند پرندکنوئیں سے پانی نہیں لے سکے گا‘دوسرے دن تمام بستی کے لوگ لے سکیں گے۔‘‘انہوں نے مزید یہ فرمایاکہ’’یہ ہماری معزز ترین مہمان ہے اوراس لئے اس کی دیکھ بھال ہماری ذمہ داری اور فرض ہے۔‘‘بستی والوں نے یہ شرط قبول کر لی مگرتھوڑے ہی دنوں میں اس شرط سے بیزار ہو کر گویا اللہ تعالیٰ سے کئے گئے وعدے سے مکر گئے کہ اس اونٹنی کی کیا حیثیت ہے کہ ہم اس سے بندھ کر رہ گئے‘اور انہوں نے طے کیا کہ کس طرح اس اونٹنی کا قلع قمع کریںاور پھر ایک رات انہوں نے اس کی کونچیں کاٹ کر رکھ دیںاور وہ اپاہج ہو گئی اور اگلے دن پانی پینے نہ جا سکی۔

حضرت صالح علیہ السلام کو جب اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ یہ بہت برا ہوا‘تم نے نہ صرف معجزے کو جھٹلایابلکہ اس اللہ کے مہمان کے ساتھ بھی اچھا سلوک نہیں کیا‘ اب تین دن کے اندر اندرتمہارا قلع قمع ہو جائے گا اور تم نیست و نابود ہو جاؤ گے‘پھر آنے والی تاریخ میںلوگ انگلیاں اٹھا اٹھا کربتایا کریںگے کہ’’یہ ثمود کے رہنے کی جگہ تھی اور یہ ان کے محلات تھے جو ویران پڑے ہیں اور قیامت تک ویران پڑے رہیں گے۔‘‘چنانچہ جیسا فرمایا گیا تھا ویسے ہی ہوا۔پہلے دن ان کے منہ پیلے ہوئے‘اگلے دن سرخ اور اس کے بعد کالے سیاہ پڑگئے۔پھر ایک زبردست چنگھاڑ سنائی دی اور وہ سارے اوندھے منہ گر گئے اور نیست و نابود ہو گئے۔

ایک دن سخت تیز دھوپ تھی‘پہاڑی علاقہ تھا ‘میں گلے میں صافہ ڈالے سائیں فضل شاہ کے روبرو کھڑا تھا ۔وہ کہہ رہے تھے :میں نے تمہیں تنبیہ کرنے کیلئے بلایا ہے‘تم لوگوں نے بڑی خوفناک منزل کی طرف رجوع کر لیا ہے ‘لوگوں کو بڑی بڑی ٹھار ٹھارکر باتیں سناتے ہو‘ہم نے یہ کیا‘ہم نے وہ کیا‘ایسی سیاست کی‘ایسے قائد کے پیچھے چلے‘ہم نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔میں تم کو بتا تا ہوںیہ پاکستان ایک معجزہ ہے‘یہ جغرافیائی حقیقت نہیں ہے۔ میں تمہیں تنبیہ کرتا ہوںاس طرح مت کرو‘پاکستان کا وجود میں آنا اتنا بڑا معجزہ تھا جیسے قومِ عاد و ثمود کیلئے اونٹنی کا پیدا ہونا۔اگر تم اس پاکستان کو حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی سمجھنا چھوڑ دو گے تو نہ تم رہو گے اور نہ تمہاری یادیں۔‘‘انہوں نے میرے صافے کو جوگلے میں موجود تھا ‘کس کر پکڑ رکھا تھا بلکہ کھینچ رہے تھے‘پھر انہوں نے فرمایا:

’’تم نے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا ‘باون برس گزر گئے(اب ۲۰۱۳ء میں تو ۶۶ سال ہو گئے ہیں)اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک روا رکھا ہے جو قومِ ثمود نے کیا تھا۔اندر کے رہنے والو ں اور باہر کے رہنے والوںدونوں کو تنبیہ کرتا ہوں کہ تم سب سنبھل جاؤ‘ورنہ وقت بہت کم ہے۔اس اونٹنی سے جو کچھ چھینا ہے‘جو کچھ لوٹا ہے اسے واپس لوٹا دو‘اور میں باہر کے رہنے والوں اور ساؤتھ ایشیامیں سارے ملکوں کو تنبیہ کرتا ہوںکہ وہ پاکستان کو کوئی عام چھوٹا ساجغرافیائی ملک سمجھنا چھوڑ دیں‘پاکستان حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی ہے ‘ہم سب پر اس کا ادب و احترام واجب ہے‘اس کو معمولی ملک نہ سمجھو‘اس کی طرف رخ کرکے کھڑے رہنااور اب تک جو کوتاہیاں ہوئی ہیں اس کی معافی مانگواور اس کوتاہی کا ازالہ کرنے میں کوئی تاخیر نہ کرو۔‘‘

میں ان کی کسی بات کا جواب نہ دے سکا‘خوفزدہ ہو کر کھڑا رہااور سلام کرکے ‘سر جھکا کر واپس چلا آیا۔

یہ مملکتِ خداداد پاکستان ہے۔اسے مٹانے والے انشاء اللہ خود مٹ جائیں گے‘جس سے جو کوتاہی ہوئی ہے وہ موت سے پہلے اس کا ازالہ کرے ورنہ اللہ کے حضور جواب دہی کیلئے تیار رہے۔سدا خوش رہیں‘آباد و شاداب رہیں۔منادی کا کام کر رہا ہوں‘شاید کسی کے دل پرکوئی اثر پڑ جائے اور میرا بھی بھلا ہو جائے۔

بس نام رہے گا میرے رب کا ‘جو بہت رحیم و کریم اور ستار ہے۔

تم فقط پاؤں کی ٹھوکر نہ سمجھنا ان کو                روک سکتے ہیں یہ ‘دریاؤں کے دھارے پتھر

دیکھئے تو یونہی چپ چاپ پڑے رہتے ہیں        جب بھی ٹکرائیں‘اْگلتے ہیں شرارے پتھر

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *