Home / Socio-political / وقف املاک کو خردبرد کرنے میں غیروں سے زیادہ اپنے شامل

وقف املاک کو خردبرد کرنے میں غیروں سے زیادہ اپنے شامل

عابد انور

بشیربدر کاایک شعر ہے ۔ نام پانی پر لکھنے سے کیا فائدہ ۔ لکھتے لکھتے تیرے ہاتھ تھک جائیں گے۔ اس شعر کو پڑھیں اور ہندوستان کی حکومتوں کا رویہ دیکھیں خواہ وہ مرکزی حکومت کا ہو یا ریاستی حکومتوں کا یہ شعر بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ مسلمان جدوجہد کررہے ہیں لیکن حکومت کے سر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے جدوجہد اوردھواں دھارتقریر کرنے والوں میں سے بعض لوگ چندسکوں کے عوض اپنا ایمان فروخت کرچکے ہوتے ہیں۔ اگرایسا نہیں ہوتا تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلمانوں کامسئلہ حل نہ ہو اورحکومت گھٹنے نہ ٹیک دے۔ شاہ بانو کیس کے سلسلے میں راجیوگاندھی جب کہ وہ دوتہائی سے زائد نشستوں کے ساتھ حکومت کررہے تھے جھکنا پڑا تھا۔ اس لئے کہ اس وقت مولانا منت اللہ رحمانی ، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی اورمولاناابوالحسن علی ندوی میاں رحم اللہ جیسے بلند پایہ کے عالم دین اوررہنماموجودتھے جنہوں نے بے خطر اوربے لوث ہوکر تحریک کی قیادت کی تھی اور نتیجہ سامنے آیا تھا۔ لیکن اس وقت ہندوستان میں مسلم رہنماؤں کے جو حالات ہیں ان میں سے کسی پر آنکھ بندکر اعتماد نہیں کرسکتے۔ اس لئے ہر رہنما اپنا ذاتی مفاد کے حصار میں مقیدہیں۔ بیان بازی ، تھوڑابہت احتجاج ، دھرنا،کانفرنس، مظاہرہ اورملاقات اپنی قیمت بڑھانے کے لئے کرتے ہیں ۔اگر ایسا نہیں ہوتاتو وقف املاک کی تباہی، مسجدوں پرقبضے، کسی مسئلے کا حل نہ ہونا اورحکومت اورافسرا ن کا ان مسائل کے تئیں غیرسنجیدہ رویہ نہ ہوتا۔ ابھی حالیہ دو خبریں مسلمانوں کے لئے جہاں سوہان روح ہیں وہیں ایک خبرایسی بھی ہے جسے مسلمان مثال بناکر وقف املاک کی بازیابی کے لئے مقدمات کا سلسلہ شروع کرسکتے ہیں۔ ایک دہلی کی جنگ پور ہ میں واقع نور مسجد سے متعلق ہے جب کہ دوسرا معاملہ کرناٹک وقف املاک کی لوٹ سے ہے اور تیسرامعاملہ آندھرا پردیش ہائی کورٹ کا وہ فیصلہ ہے جس میں1600سے زائدایکڑزمین کو وقف املاک قراردیا گیا ہے۔اس سے امیدکی ایک کرن نمودارہورہی ہے جس کے سہارے اگرمسلمان چاہیں تواپنا منزل مقصود حاصل کرسکتے ہیں اورانہیں اپنے معاشرے کو خواندہ، خوشحال اور مہذب بنانے میں حکومت کی طرف نہیں دیکھنا ہوگا۔ کیوں کہ مسلمانوں کے آباء و اجداد نے اتنی وقف جائدادیں چھوڑی ہیں اگر صرف نصف پرہی انہیں تصرف حاصل ہوجائے اور اس کا صحیح کرایہ آنے لگے تو چند برسوں میں مسلمان نان شبینہ کے محتاج نہیں رہیں گے اور نہ ہی دیگر قوم کے دروازے پر اپنے بچوں کی تعلیم و روزگارکے لئے دستک دینے کی ضرورت ہوگی۔

جنوب کو شمال کے مقابلے میں کم بدعنوان تصور کیاجاتا ہے اور وہاں کے مسلمانوں کے بارے میں بھی شمال کے مسلمانوں کی اچھی رائے ہے کیوں کہ جو بھی رہنماآتے ہیں اس کے پس منظرمیں ترقیات ہوتے ہیں خواہ وہ تعلیم سے متعلق ہو یاروزگار،صحت سے متعلق ہو یا معاشرے سے لیکن حالیہ ایک خبر نے شمالی ہند کے مسلمانوں کے تصوراتی محل کو مسمار کردیاہے ۔ کرناٹک میں وقف املاک کی لوٹ اور دو لاکھ کروڑروپے کاگھپلہ سامنے آیا ہے جو اب تک ہندوستان میں کسی بھی گھپلے سے بڑا ہے۔ گزشتہ دنوں کرناٹک کے وزیراعلی ڈی سدانند گوڑا نے اسمبلی میں سات ہزار صفحات پرمشتمل ایک رپورٹ پیش کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ کرناٹک میں دو لاکھ کروڑروپے کا وقف گھپلہ سامنے آیا ہے۔ کرناٹک میں 54ہزار ایکڑ وقف کی رجسٹرڈ زمینیں ہیں۔ ان میں سے ۲۲ ہزار سے ۲۷ ہزار ایکڑ زمین فروخت کردی گئی ہیں۔ اس گھپلہ میں کرناٹک کے اعلی سیاست داں، وقف بورڈکے ممبران، وقف بورڈ کے ملازمین، دلال، بچولیے اور زمین مافیا شامل ہیں۔ اس رپورٹ کو کرناٹک اقلیتی کمیشن کے چیرمین انورپڈی نے تیارکی ہے۔ اگرچہ یہ رپورٹ اسمبلی میں پیش ہونے سے پہلے افشا ہوگئی تھی جس میں کئی ممبران اسمبلی کے نام سامنے آئے ہیں۔ جس پر اپوزیشن چراغ پاہے۔ وقف بورڈ کی زمین میں ہوئے زبردست گھپلے اور گڑبڑیوں کی شکایتوں اور اخبارات میں شائع خبروں کے بعد ریاستی حکومت نے الزاما ت کی جانچ کے لئے گزشتہ برس نومبر میں انکوائری کمیشن کی تشکیل دی تھی۔ اپوزیشن پارٹی کانگریس اور جنتادل (سیکولر) نے اسمبلی کے دونوں ایوانوں میں ریاستی وقف بورڈ کے تقریباً دو لاکھ کروڑ روپے کے زمین گھوٹالے کی مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) سے انکوائری کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔افسوسناک بات یہ ہے کہ یہاں محافظ ہی لٹیرا نکلا ۔ اتنا بڑاگھپلہ ہوتارہا ہے اس معاملے پر حکومت نے توجہ نہیں دی۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ میڈیا میں خبرنہیں آئی ہوگی خصوصاً کرناٹک سے شائع ہونے والے اردو اخبارات نے اس معاملے کو ضروراچھالاہوگا لیکن حکومت کی بے حسی کی وجہ سے یہ معاملہ سرد خانے ڈال دیاگیا۔ حکومت اورعدلیہ کی بے رخی کی وجہ سے ہندوستان کا سب سے بڑاگھپلہ سامنے آیاہے۔اتنا بڑا گھپلہ حکومت کی سرپرستی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اعلی سطحی انکوائری کراکے وقف املاک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والوں کو نہ صرف وقف املاک کو واگزارکرایاجائے بلکہ اس کے خاطیوں کو قرارواقعی سزا دی جائے تاکہ دوسری ریاستوں کے لئے مثال ثابت ہو اور وہ وقف املاک کو خردبرد نہ کرسکیں۔کرناٹک وقف بورڈ کے ریکارڈ کے مطابق یہاں 27338 وقف ادارے اور 32334 جائیدادیں۔ ۲۰۰۸کی پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ان میں ۱۸۹ پر قبضہ ہوچکا تھا۔ ان میں سے ایک زمین پر قبضہ ایک ہوٹل نے کیا ہوا ہے جس کی قیمت پانچ سو کروڑ روپے سے زائد ہے۔ کرناٹک میں وقف املاک کو کرایہ قانون سے مستثنی قراردیاگیاہے لیکن اس کے باوجود وقف املاک معمولی کرایہ پریا مفت میں استعمال ہورہی ہیں۔

مدھیہ پردیش میں 1961 میں وقف بورڈ کی تشکیل ہوئی تھی۔ وقف املاک کے تحفظ کیلئے تین ادارے مدھیہ پردیش وقف بورڈ، شاہی اوقاف اور اوقاف عامہ قائم کئے گئے تھے۔ ان تینوں اداروں میں وقف املاک کی کل تعداد 14533ہے، سروے ابھی جاری ہے۔ مدھیہ پردیش کے سبھی اضلاع میں وقف جائیدادیں موجود ہیں۔ آل انڈیا مسلم تہوار کمیٹی کے مارچ 1999 کے سروے کے مطابق مدھیہ پردیش میں 55 ہزار کروڑ کی وقف املاک ہیں لیکن آج تک وقف بورڈ کی سالانہ آمدنی 55 لاکھ بھی نہیں پہنچ سکی۔وقف بورڈ کی 70 فیصد زمین پرناجائز قبضہ ہے۔ اس پرحکومت اور عام لوگوں کے علاوہ ان لوگوں کا بھی بڑی تعداد میں قبضہ ہے جن کا تعلق مذہبی طبقہ سے ہے۔ مدھیہ پردیش کی وقف املاک کی تباہی کا اندازہ اس اعدادو شمارسے لگایاجاسکتا ہے کہ۱۹۶۱ میں صرف بھوپال میں قبرستانوں کی تعداد 187 تھی جوگھٹ کر محض 23 رہ گئی ہے۔

وقف املاک میں سب سے زیادہ لوٹ مار آندھرا پردیش میں ہوئی ہے۔ 1958-1965 کے سروے کی رپورٹ کے مطابق ریاست میں وقف اراضی جہاں1.33لاکھ ایکڑ تھی وہیں 2001 سے جنوری 2010کے درمیان ہو ئے سروے میں بڑھ کر 1.67 لاکھ ایکڑ ہو گئی۔ ریاست میں40 فیصد وقف جائیدادوں پرناجائز قبضے ہیں۔ گذشتہ پانچ دہائیوں میں تقریبا 55,000 ایکڑ وقف اراضی پر قبضہ کی بات سامنے آئی ہے۔ 60فیصد حیدرآباد میں اور 55فیصد رنگاریڈی میں وقف اراضی اب بورڈ کے پاس نہیں رہی۔ حیدرآباد میں بیشتر اراضی پر ناجائز قبضہ پرانے شہر میں ہے۔سب سے زیادہ قبضوں والے دیگر اضلاع گنٹور، ورنگل،کرنول، محبوب نگر، میڈک اور وشاکھاپٹنم ہیں۔ عام طور پر قبضے خود وقف ملازمین کے ساتھ ساز باز کرکے انجام دیئے جاتے ہیں۔

ایس وائی آر اورچندرابابو نائیڈو کی حکومت نے جن زمینوں کو مختلف کمپنیوں اوراداروں کو وقف کی زمین الاٹ کی تھی اسے آندھرا پردیش ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کے دعوے کو خارج کرتے ہوئے اسے وقف املاک قرار دیا ہے۔ اس فیصلے سے کانگریس ممبر پارلیمنٹ ایل راجگوپال کی کمپنی لینکو کو زبردست دھکا لگا ہے۔اس کمپنی کو 2006 میں وائی ایس راج شیکھر ریڈی کی حکومت نے 108 ایکڑ زمین الاٹ کی تھی۔ اس کمپنی نے پہلے اس زمین پر ایک ٹیکنالوجی پارک کی تعمیر کا منصوبہ بنایا تھا لیکن بعد میں وہاں پر مہنگے گھر اور بلند بالا عمارتیں بنانے کا فیصلہ کیا۔ ہائی کورٹ نے نہ صرف اس زمین کو بلکہ وہاں کے آس پاس کی کل 1654 ایکڑ زمین کو وقف املاک بتایا ہے اور کہا ہے کہ یہ زمین حضرت حسین شاہ ولی کی درگاہ کی ملکیت ہے۔ عدالت کے فیصلے سے لینکو کمپنی کے ساتھ کئی دوسری بڑی کمپنیوں کو بھی دھکا لگا ہے جنہیں وائی ایس آر حکومت نے یہ زمین دی تھی۔ ان میں ایمار پروپرٹیز، مائیکرو سافٹ، انفوسس، وپرو، پولارس سافٹ ویئر اور انڈین اسکول آف بزنس کے علاوہ مولانا آزاد اردو یونیورسٹی بھی شامل ہیں۔ حالانکہ وقف بورڈ اور دوسرے مسلم تنظیموں نے اس وقت ان کمپنیوں کو زمین دینے کے فیصلے کا کافی مخالفت کی تھی لیکن حکومت نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے یہ زمین ان کمپنیوں کے حوالے کر دی تھی۔ 2007 سے اس زمین کو لے کر عدالت عالیہ میں مقدمہ چل رہاتھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں حکومت کے دو محکمہ ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے تھے۔ ایک طرف اقلیتوں کی فلاح وبہبود شعبہ اور وقف بورڈ اس زمین پر اپنا دعوی کر رہے تھے وہیں آمدنی کے محکمہ کا دعوی تھا کہ یہ سرکاری زمین ہے اور وہ اسے جسے چاہے دے سکتی ہے۔ اس زمین پر 7200 کروڑ روپے کی منصوبہ کے لئے تعمیر کر رہے لینکو گروپ نے اس زمین کو سرکاری زمین ثابت کرنے کے لئے مشہور وکیل سولی سوراب جی کی خدمات لی تھیں۔مگر وفف بورڈ اور حسین شاہ ولی درگاہ کمیٹی کے وکلانے عدالت عالیہ میں یہ ثابت کر دیا کہ یہ زمین حیدرآباد کے نواب نے درگاہ کو تحفے میں دی تھی اور اس کا مکمل سرکاری ریکارڈ بھی عدالت میں پیش کیا گیا۔اس فیصلے نے ریاستی حکومت کی پریشانی اور بڑھا دی ہے کیونکہ یہ فیصلہ کئی اور ایسے ہی معاملات کا پٹارا کھول سکتا ہے۔یہ فیصلہ ایک مثال ثابت ہوسکتا ہے اگر مکمل محنت دستاویزات اورثبوت کے ساتھ کی جائے کامیابی یقینا ملے گی۔ اگراسی طرح تندہی سے دہلی وقف بورڈ اپنا مقدمہ پیش کرے تو کوئی وجہ نہیں وقف جائداد کی بازیابی نہ ہو۔

دہلی کے جنگ پور میں واقع نور مسجد کو ڈی ڈی اے نے ۱۲ جنوری کو صبح چھ بجے پولیس عملہ کی موجودگی میں مسجد کو شہیدکردی تھی۔اس زمین کا اندراج، جس کارقبہ ۶ بیگھہ ۱۳ بسوا ہے،دہلی حکومت کے گزٹ نوٹیفکیشن ۱۹۷۵میں خسرہ نمبر ۶۳۳ کے طورپردرج ہے اس کا پرانا نام علی گنج ہے اور اس کا اندراج نمبر ۲۰ ہے۔ اس کے علاوہ ۴۸۔۱۹۴۷میں جمع بندی میں باضابطہ طورپر درج ہے۔ یہ وقف جائداد دہلی میونسپل کارپوریشن کے ریکارڈ میں بھی درج ہے۔ ثبوت کے طور پر ڈی ڈی اے کو تمام ثبوت فراہم کئے گئے تھے ، گزٹ کی کاپیاں دی گئی تھیں اس کے باوجود ڈی ڈی اے کے عملہ نے مسجد کو شہیدکردی تھی ۔ زبردست احتجاج کے بعد شیلاحکومت نے اس مسئلہ کو حل کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ ڈی ڈی اے کی دیدہ دلیری دیکھئے اس چارسوگزالاٹ کرنے کے ۹۰ لاکھ روپے کا مطالبہ کیا تھا جسے حکومت دہلی نے دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن ایک طویل عرصہ گزر جانے کے بعد اب تک اس رقم ادائیگی دہلی حکومت نے نہیں کی ہے۔اب نمازیوں کو صفیں بچھانے اورسائبان لگانے سے روک دیاگیا ہے۔ سب سے زیادہ افسوس یہاں کے مسلم رہنماپرہوتا ہے کہ وہ ہرموقع پر سودے بازی کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہونا تویہ چاہئے تھا کہ جب تک مسجد کی دوبارہ تعمیر کاپروانہ جاری نہ ہوتا اور خاطی افسران برخاست نہ کئے جاتے اس وقت تک مسلم لیڈروں اورمسلمانوں کو اپنامظاہرہ جاری رکھنا چاہئے تھالیکن وعدے اورسودے بازی کے سبب ایسانہیں ہوا ۔اگرمسلم لیڈران ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتے تومستقبل میں ڈی ڈی اے یا دیگرسرکاری افسران اس طرح کی زیادتی کرنے سے گریز کرتے۔اسی کے ساتھ مسلم لیڈروں کو جنگپورہ آر ڈبلیواے اورڈی ڈی اے افسران کے خلاف ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کرنا چاہئے تھاکیوں کہ انہوں نے مسجد کے تعلق سے عدالت کو گمراہ کیا ہے اور عدالت میں ڈ ی ڈی اے نے اپنی زمین کا دعوی پیش کیا تھاجب کہ یہ اس کی زمین نہیں تھی پھروہ کیسے کسی مسجد کو مسمار کرسکتی تھی اورڈی ڈی اے کو یہ بھی معلوم تھا کہ یہ مسجد وقف بورڈکی زمین پربنی ہے۔ اس معاملے کو عدالت میں منظم اور مدلل انداز میں اٹھاناچاہئے۔ متعصب افسران کو کیفرکردارتک پہنچانے کایہی واحد طریقہ ہے ۔اس لئے یہ اچھاموقع تھا کہ اسے مناسب اندازمیں جواب دیاجاتھا۔ اگریہی معاملہ ڈی ڈی اے کسی گردوارہ یا مندر کے ساتھ کیاہوتا کتنے افسران معطل ہوچکے ہوتے اور تعمیر نو اورمعاوضہ حکومت ادا کرچکی ہوتی اوراسی کے ساتھ حکومت ایک بار نہیں سیکڑوں بار معافی مانگ چکی ہوتی۔باہری دہلی میں کئی ایکڑ زمین کو وقف بورڈ نے کوڑیوں کے بھاؤ میں غیر مسلموں کولیزپردے دیا۔ مسلمان کس سے شکایت کریں؟۔

دہلی میں وقف املاک پر اگرکوئی سب سے بڑاقابض ہے تووہ ڈی ڈی اے ہے۔جہاں بھی انہیں وقف املاک نظرآتی ہے وہ اس پر ڈی ڈی اے لینڈ کا بورڈلگادیتا ہے اوروقف بورڈ کے ملازمین اورافسران تماشہ دیکھتے رہتے ہیں۔ نظام الدین درگاہ بس اسٹاپ کے سامنے جو قبرستان ہے اس پرکچھ سال قبل اس نے ڈی ڈی اے لینڈ کا بورڈلگادیاہے۔اسی طرح ہمایوں کے مقبرے کے چوراہے کے شمال میں جو پارک ہے جو کچھ عرصہ پہلے تک خسروپارک ہوا کرتا تھا اب یہ ڈی ڈی اے لینڈ کا بورڈ لگا ہوا ہے۔ اسی طرح کی بیشمار وقف کی جائدادیں ہیں جس پر ڈی ڈی اے نے قبضہ کررکھا ہے۔ وقف بورڈاور مسلم لیڈر اس وقت غفلت سے بیدارہوتے ہیں جب زمین پرقبضہ ہوچکاہوتا ہے۔ مسلم لیڈران اور مسلم تنظیموں کو چاہئے کہ مسلمانوں کی پسماندگی کا رونادھوناچھوڑ کردہلی سمیت پورے ہندوستان کی وقف املاک کے قدیم ریکارڈکا مطالعہ کرکے وقف جائداد کی نشاہدہی کریں اور دلائل و شواہد کے ساتھ حکومت ہند سے ان املاک کو واگزارکرانے کا مطالبہ کریں۔ یہ کام قومی اور علاقائی سطح کے مسلم لیڈران بھی کرسکتے ہیں اور مسلمانوں کی ملک گیر جماعتیں بھی کرسکتی ہیں۔ مسلم جماعتوں میں جمعیة علمائے ہند، جماعت اسلامی ہند( جس کے پاس ہر شعبے سے وابستہ پڑھے لکھے لوگوں کی کثیرتعداد موجودہے اور یہ کام وہ بہ آسانی کربھی سکتی ہے) اور مرکزی جمعیة اہل حدیث ہیں جن کی شاخیں بلاک سطح سے لیکر صوبائی مرکزی سطح تک پھیلی ہوئی ہیں اورہر جگہ ان جماعتوں کے دفاتر موجودہیں۔ افرادی قوت اورفنڈ کی بھی ان کے پاس کوئی کمی نہیں ہے۔یہ جماعتیں ایک ایک پروگرام کروڑوں روپے خرچ کر ڈالتی ہیں۔ ان جماعتوں پرذمہ داری اس لئے بھی عائدہوتی ہے کیوں کہ ان کا نصب العین بھی یہی ہے۔

وقف املاک کی تباہی کی ایک بڑی وجہ بااختیارچیرمین اورچیف ایکزیٹیو افسرکا نہ ہونا بھی ہے۔ وقف بورڈکا جوبھی چیرمین ہوتا ہے وہ وقف املاک سے زیادہ اس پارٹی کا وفادار ہوتا ہے جس کی حکومت نے انہیں چیرمین بنایاہے۔وقف املاک پرقبضہ پر کارروائی تو دور کی بات چیف ایکزی کیوٹیوافسر کے نوٹس کا جواب تک افسران دینا ضروری نہیں سمجھتے۔ ابھی حالیہ دنوں میں ہی میں نظام الدین کے دہلی پبلک اسکول کے بغل میں قبرستان پرلوگوں نے قبضہ کرلیا ہے ۔ وہاں سے تھانہ بمشکل سو میٹرکی دوری پر ہے، وقف بورڈکے ارکان کو بھی اس کے بارے میں معلوم ہے لیکن ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ جب کہ قبضہ ابھی بالکل نیا ہے۔ پلاسٹک سے گھیر کر قبضہ کیا گیاہے۔ اسے پولیس کی مدد سے جلد خالی کرایا جاسکتاہے لیکن جب محافظ ہی لٹیرا بن جائے ،افسران توجہ نہ دے اوروقف بورڈکے حکام کے پاس کوئی خاص اختیار نہ ہو تووقف املاک کو واگزارکرانے کے لئے آسمان سے فرشتے آنے سے رہے۔ مسلم رہنما کو ہی اس سلسلے میں بے لوث ہوکر آگے آنا ہوگااوروقف بورڈکو خود مختار بنانے کے لئے طویل جدوجہد کے لئے تیار رہنا ہوگا۔یہ کوشش اس وقت تک جاری رکھنی ہوگی جب تک کہ مسلمانوں سے متعلق بورڈوں اور کمیشنوں کو آئینی درجہ حاصل نہ ہوجائے۔

ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵

9810372335

abidanwaruni@gmail.com

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *