Home / Socio-political / وہی پتے ہوادینے لگے(تیسری قسط)

وہی پتے ہوادینے لگے(تیسری قسط)

سمیع اللہ ملک

وکی لیکس دستاویزات کے ذریعے وہ حقائق پاکستانی عوام کے سامنے آئے ہیں جن کے بارے میں شائد انہیں گمان ہویاان کاوسوسہ ہو۔یہ چیزیں سامنے آئی ہیں جو اس سے پہلے عوام کے سامنے کبھی نہیں آئیں۔وکی لیکس کا شکریہ اداکرناچاہئے کہ ان کے ذریعے امریکی سفارتکاروں کے وہ مراسلے سامنے آگئے جس میں وہ پاکستانیوں کے معاملات کے بارے میں بات کرتے ہوئے نظرآرہے ہیں اورامریکیوں کااصلی چہرہ پاکستانی عوام کے سامنے آیاہے۔ایک طرف وہ عسکری قیادت کے ساتھ بات کررہے ہیں اوردوسری طرف وہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے قائدین اورپاکستانی ایوان اقتدارکے مکینوں کے ساتھ گفتگوکرتے نظرآرہے ہیں۔ان سب ملاقاتوں کااحوال وہ اپنی حکومت کولکھ کرپاکستان کے بارے میں پالیسیاں مرتب کرنے میں ان کی رہنمائی کررہے ہیں۔وکی لیکس کے ذریعے پاکستانیوں کوآگاہی ہورہی ہے کہ پاکستان پراپناحق جتانے والے سیاسی رہنمااوردیگر افرادپاکستان کے بارے میں کتنے مخلص ہیں۔اس سے یہ بھی پتہ چلتاہے کہامریکاپاکستان کے معاملات پرکس قدرحاوی ہے اورکس قدراثراندازہے ۔

میں نے پچھلی دواقساط میں ان وکی لیکس کاتذکرہ کیاجن کاتعلق پاک فوج سے تھالیکن شائدپاکستانی عوام کواس کاعلم ہوکہ ہمارے سیاسی قائدین اورہمارے حکمران ان امریکیوں کے ساتھ کیارازونیازاورجوڑتوڑمیں امریکیوں کی اعانت کے طلبگاررہتے ہیں۔۳مئی ۲۰۰۸ء میں امریکی سفیراین ڈبلیوپیٹرسن نے صدرآصف علی زرداری کے آئی ایس آئی پر تحفظات کے بارے میں اپنے مراسلے میں تحریرکیا:”پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے جذباتی اندازمیں کہاکہ آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم تاج نے انہیں پریشان کرنے اورخطرے میں ڈالنے کی کوشش کی۔زرداری نے دعویٰ کیاکہ کراچی میں ان کے گھرپرہونے والی فائرنگ میں انٹیلی جنس ادارے ملوث تھے․․․․․․․ زرداری معزول چیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری کے اختیارکومحدودکرنے میں پرعزم نظرآتے ہیں“۔

اکتوبر۲۰۰۸ء کے مراسلے میں صدرزرداری نے چین کے دورے کی تفصیلات امریکاکے سامنے رکھ دیں۔پیٹرسن اپنے مراسلے میں لکھتی ہیں کہ:”صدرزرداری نے اپنے حالیہ دورہٴ چین کی تمام تفصیلات رچرڈ باوٴچر کے سامنے رکھ دیں،صدرزرداری نے تصدیق کی کہ چین پاکستان میں دواضافی جوہری ری ایکٹرچشمہ کے مقام پرتعمیرکرے گاجس پرباوٴچر نے واضح کیاکہ امریکامنصوبے سے متعلق پیچیدگیوں کاجائزہ لے گااورمعاملے کوعالمی جوہری توانائی ایجنسی کے تناظرپرپرکھے گا․․․․․․صدرزرداری نے یہ بھی بتایاکہ چین پاکستان کودیگراہم فوجی سازوسامان دینے میں بھی پرعزم ہے“۔ان مراسلوں سے مسلسل ظاہرہوتاہے کہ صدرزرداری ملک کے حساس معاملات پربھی امریکیوں کے ساتھ رازونیازکرتے ہوئے کس قدرمطمئن نظرآتے ہیں۔کئی جگہ پرایسالگتاہے کہ امریکی ان کی مشاورت کررہے ہیں۔

پیٹرسن اپنے ۱۰مارچ۲۰۰۸ء کے مراسلے میں صدرزرداری کے بارے میں تحریرکرتی ہیں کہ وہ عدلیہ کی بحال بالکل نہیں چاہتے:”مری اعلامیے پردستخط کے بعداوراجلاس کے اگلے دن آصف علی زرداری نے بتایاکہ وہ اورنوازشریف اس بات پرراضی ہیں کہ چیف جسٹس افتخارچوہدری کوبحال نہیں کیاجائے گا۔مری اعلامیے کابنیادی نکتہ یہ تھاکہ تیس دنوں کے اندرتمام ججوں کوبحال کردیاجائے گا․․․․․․تیس دنوں میں ججوں کی بحالی کے سوال پرانہوں قہقہہ لگاتے ہوئے کہاتھاکہ سیاست میں تیس دن نوے دن بن جاتے ہیں․․․․․آصف زرداری کوپرویزمشرف اوران کے مشیرطارق عزیزکے ساتھ کام کرنے پرکوئی اعتراض نہیں تھا․․․․․․آصف زرداری ق لیگ کے ساتھ کام کرناچاہتے تھے مگراس صورت میں کہ وہ چودھریوں کے بغیرہو“۔لیکن صدرزرداری کی سیاسی قلابازیوں کوملاحظہ کیجئے کہ آج چوہدری برادران توحکومت کاحصہ ہیں لیکن وہ پرویزمشرف جوان کواین آراوکے تحت ملک میں لایاتھاوہ خودملک سے باہرزرداری صاحب کی دھوکہ دہی کے زخموں کوچاٹ رہے ہیں۔

صدرزرداری نے اپنی حکومت کے ٹوٹنے کے خدشے اورنوازشریف کومطمئن کرنے اوروزارتِ عظمیٰ کے بارے میں امریکی سفیرپیٹرسن کو اپنے پلان سے مطلع کیاتوانہوں نے ۲۰فروری ۲۰۰۸ء کواپنی حکومت کوایک مراسلے میں اطلاع دی کہ:”جب نواز شریف کے ان بیانات پرتشویش ظاہرکی گئی جن میں انہوں نے ماضی کوکریداتوآصف زرداری نے کہاکہ مسلم لیگ ن کے بغیرپیپلزپارٹی کی حکومت نہ صرف کمزور ہوگی بلکہ جلدی ناکام ہوجائے گی اوراس صورت میں نوازشریف انتخابات جیت جائیں گے ․․․․․․نوازشریف کے عدالتی مطالبات پرآصف زرداری کامنصوبہ تھاکہ میاں صاحب کومطمئن کرنے کیلئے عدالتی معاملات کوایک کمیٹی بناکردفن کیاجاسکتاہے۔آصف زرداری نے ن لیگ کووزارتِ عظمیٰ دیئے جانے کاامکان ظاہرکیااوراس کیلئے جاویدہاشمی کانام لیاتاہم ان کاکہناتھاکہ نوازشریف اورشہبازشریف پارلیمنٹ میں نہیں ہونگے۔وزارتِ عظمیٰ کیلئے اے این پی کے چیئرمین اسفندیارولی خان بھی آصف زرداری کے آپشن میں تھے․․․ آصف زرداری کوخدشہ تھاکہ آئی ایس آئی اوردیگرحکومتی فورسزپیپلزپارٹی کوتوڑنے اورامین فہیم کووزیراعظم بنانے کی کوشش کریں گی“۔

۱۶/اپریل ۲۰۰۸ء کوآصف علی زرداری نے ڈاکٹرعبدالقدیرخان کی رہائی کے بارے میں امریکی سفیرسے کہا:”آصف علی زرداری نے کہاکہ ان کابس چلے تووہ عالمی جوہری توانائی ایجنسی کوڈاکٹرعبدالقدیرتک رسائی دے دیں․․․․․․․زرداری نے بتایاکہ انہوں نے ڈاکٹرعبدالقدیرکورہاکرنے کے حکومتی فیصلے سے متعلق بعض حکام کے بیانات اورمیدیامیں آنے والی خبروں میں کوئی صداقت نہیں“۔ڈرون حملوں کے حوالے سے ۲۴نومبر۲۰۰۸ء کواین پیٹرسن نے اپنی حکومت کولکھا”امریکی کاروائیوں پر(ڈرون حملے)حکومتِ پاکستان کی خفیہ رضامندی اورعوامی سطح پرمذمتی بیانات میں خلاء بڑھتاجارہاہے اورانتخابی حلقوں میں کمزورہوتی ساکھ سے پریشان پاکستانی قائدین امریکاکے خلاف سخت کاروائی پرغورکرسکتے ہیں،لیکن یہ ردعمل اب تک تورسمی مذمت پرہی مرکوزرہاہے“۔گویااین پیٹرسن کے اس مراسلے سے صاف معلوم ہوتاہے کہ پاکستانی حکام اورامریکاکے درمیان ڈرون حملوں کے بارے میں باقاعدہ خفیہ معاہدہ موجودہے۔

۲۶مئی ۲۰۰۹ء کوامریکی وفد کے سربراہ سنیٹر لیمے کی صدرزرداری کی ملاقات کے دوران امریکی سفیراین پیٹرسن موجودتھیں انہوں نے اپنے مراسلے میں لکھا:”قبائلی علاقوں میں حالیہ ڈرون حملے میں ۶۰شدت پسندوں کی ہلاکت کاحوالہ دیتے ہوئے صدرزرداری نے کہاکہ ان کے ملٹری معاون کاخیال ہے کہ اگراس جگہ پاکستا ن آپریشن کرتاتو ۶۰پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت ہوسکتی تھی․․․․․ زرداری نے سینیٹرسے کہاکہ انہیں ڈرون طیارے دیئے جائیں تاکہ ان کی فورسزشدت پسندوں کے خلاف کاروائی کرسکیں۔زرداری نے مزید کہا کہ پاک فوج کی کاروائیوں پرمیڈیاسمیت کسی جانب سے کوئی کاروائی نہیں ہوگی“۔۱۷جون ۲۰۰۹ء کونیٹوکے نمائندوں سے صدرزرداری کی ملاقات کے بارے میں ایک اورمراسلہ لکھاگیا:”نیٹوکے نمائندوں نے صدرزرداری سے پاکستان کی مددکرنے سے متعلق کئی سوالات کئے لیکن صدرزیادہ تربراہ راست سوالوں کے جوابات نہیں دے سکے․․․․․ نیٹوکے انٹرنیشنل سٹاف ایکشن آفیسر برائے پاکستان نے اس ملاقات پرمسکراتے ہوئے تبصرہ کیاکہ صدرزرداری کااندازڈرامائی تھا،وہ ملاقات کیلئے کوئی خاص تیاری کرکے نہیں آئے تھے اورانہوں نے اپنے محدودوقت کازیادہ ترحصہ ان معاملات پرصرف کیاجواقوام متحدہ اوریورپی یونین کے سامنے اٹھائے جاتے توبہترہوتا“۔

سابق صدرپرویزمشرف کے انتہائی قریبی مشیرطارق عزیز جوصدرزرداری کے بھی بہت قریب تھے کے حوالے سے یہ اشارہ ملتاہے کہ شائدصدرزرداری خودوزیراعظم بنناچاہتے تھے۔۱۶فروری ۲۰۰۸ء کے مراسلے میں لکھتی ہیں:”طارق عزیزنے بتایاکہ چارروزکے دوران آصف زرداری نے ان سے دوبارملاقات کی ،آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل ندیم تاج اورکئی لوگوں نے زرداری کوخودوزیراعظم کاعہدہ سنبھالنے سے روکاتھا،زرداری کی جانب سے گیلانی کانام لینے سے پہلے جاویدہاشمی اوراسفندیارولی کے نام تجویزکئے گئے تھے لیکن پرویزمشرف ان کے حق میں نہیں تھے“۔صدرزرداری کے بارے میں وکی لیکس میں جومراسلے سامنے آئے ہیں ان کے بارے میں ابھی تک نہ این پیٹرسن نے اورنہ ہی امریکی حکومت نے کوئی تردیدکی ہے جس کی بنیادپران کوجھٹلانابہت مشکل ہے۔پاکستانی عوام کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہے کہ ان کے قائدین اپنے اقتدارکی خاطرکس طرح اغیارکے سامنے جھک جاتے ہیں۔اس کی ہلکی سی جھلک ۲۶مئی ۲۰۰۸ء کے اس مراسلے میں ملاحظہ فرمائیں جہاں صدرزرداریاپنے معاونین کے ساتھ امریکی کانگرس کے نمائندوں ایڈم شیف Adam Schiffاورایلی شارٹ کے سامنے کس قدر بچھتے ہوئی دکھائی دیتے ہیں:

”صدرزرداری نے پاکستان میں شفاف پارلیمانی انتخابات میں تعاون دینے پرامریکی حکومت کاشکریہ اداکیاجس کی وجہ سے زرداری کی پارٹی برسراقتدارآئی،زرداری نے امریکی نمائندوں سے کہاکہ وہ ان کی وجہ سے اقتدارمیں آئے ہیں اوروہ امریکیوں کی مشاورت کے بغیرکچھ نہیں کریں گے“۔اس کے علاوہ ایک اور۲۰جون ۲۰۰۹ء کے مراسلے میں امریکا کے قومی سلامتی کے مشیرجنرل جیمزجونزکے پاکستان کے دورے پرایسے ہی جذبات کااظہارکرتے ہوئے امریکی سفیراین پیٹرسن صدرزرداری کوامریکاکاسب سے بڑااتحادی قراردیتے ہوئے لکھتی ہیں:”آپ زرداری کوامریکاکاحامی ،شدت پسندوں کامخالف اورامریکی حکومت کے ساتھ تعاون کاتاثردینے والاپائیں گے،سویلین حکومت کے تمام امور زرداری چلاتے ہیں لیکن وہ ایک مقبول قائدنہیں ہیں۔وہ خودمانتے ہیں کہ کہ وہ ایک منتخب سیاستدان کی حیثیت سے کام کرنے کاکوئی تجربہ نہ رکھنے کے باوجودعہدے پرفائزہوئے ہیں۔زرداری سیکولراورمغربی اقدارکے حامی ہیں اورتاثردیتے ہیں کہ عالمی امورپران کانکتہٴ نظرامریکی سوچ کاعکاس ہے ۔ان کی یہی سوچ عوام میں ان کے خلاف جاتی ہے“۔

وکی لیکس کے مراسلوں سے معلوم ہوتاہے کہ صدرزرداری نے اقتدارسنبھالتے ہوئے جس طرح امریکیوں کواپنی وفاداری کاثبوت دلاتے ہوہے پاک فوج سے جن خدشات کااظہارکیاتھاان خدشات کودورکرنے میں امریکی اعلیٰ عہدیداروں نے اس خطے میں اپنے مفادات کاتحفظ کرتے ہوئے آہنی پردوں کے عقب میں خاصاکرداراداکیا اورآج تو بظاہرسیاسی اورعسکری قیادت میں گاڑھی چھنتی نظرآرہی ہے۔شائداس میں ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کے سربراہ نوازشریف کااسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مخاصمانہ رویہ بھی موجودہ حکومت اورعسکری قیادت کی دوستی کاموجب بناہے اورموجودہ جوڑتوڑ سے بظاہرمعلوم ہوتاہے کہ زرداری رجیم کیلئے یہ مفاہمت ان کے اگلے انتخابات میں مددگارثابت ہوسکتی ہے۔این آر اوکے تمام ڈرامے کوترتیب دینے والوں کی یہ خواہش بھی تھی کہ اس ملک میں بے نظیراورپرویزمشرف مسلم لیگ ق کے اشتراک سے حکومت قائم کریں،وہ دونوں کردارتوموجودنہیں لیکن آج اس ملک میں انہی دونوں سیاسی پارٹیوں کے اشتراک سے حکومت قائم ہے۔(جاری ہے)

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *