سمیع اللہ ملک
وکی لیکس کے تازہ ترین نئے انکشافات میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ آئی ایس آئی کے کئی خفیہ آپریشنزمیں امریکی حکومت اورامریکی فوج کاایک خاص کرداررہاہے اوراس سلسلے میں پاک فوج کے ساتھ مسلسل وہ رابطے میں رہتے ہیں۔ کئی دفعہ ایسا لگتاہے کہ پاکستان کے اندرونی نازک معاملات میں امریکی براہ راست نہ صرف دلچسپی لے رہے ہیں بلکہ احکام بھی جاری کررہے ہیں۔وکی لیکس کی ایک دستاویزجو۲۹نومبر۲۰۰۸ء کو ممبئی حملوں کے بعداسلام آبادمیں امریکی سفارت خانے نے اپنی حکومت کوجومراسلہ بھیجااس میں یہ تحریرکیاگیاکہ:”امریکی ناظم الامورجیرالڈفیرسٹائن نے وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی سے ملاقات کی اورپاکستان پرزوردیاکہ پاکستان اپنے اعلان کے مطابق آئی ایس آئی کے سربراہ کوممبئی حملوں کی تحقیقات میں حصہ لینے کیلئے ممبئی بھیجے ۔امریکی ناظم الامورنے بھارتی وزیرخارجہ پرناب مکھرجی کی صدرزرداری کوکی گئی فون کال کابھی ذکرکیا جس میں پاکستان کوجنگ کی دہمکی دی گئی تھی ،شاہ محمودنے کہاکہ کسی سفارتی نوٹ میں ایسی کسی دہمکی کاکوئی ذکرنہیں توامریکی ناظم الامورنے واضح کیاکہ صدرزرداری نے انہیں فون کیاتھاجس سے واشنگٹن کوآگاہ کردیاگیاتھا،بعدازاں امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن نے پرناب مکھرجی کوفون کرکے زوردیاکہ بھارت صبروتحمل سے کام لے جس کے بعددہمکیوں کاسلسلہ بندہو گیا تھا “۔
اس میں دواہم باتیں سامنے آئیں کہ ممبئی حملوں کے بعدیوسف رضاگیلانی نے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے ٹیلیفون پروعدہ کرلیاتھاکہ وہ فوری طورپران کی خواہش پرآئی ایس آئی کے سربراہ کوبھیج رہے ہیں تاکہ بھارتی حکومت ان سے معلومات کاتبادلہ کرسکے اس حوالے سے امریکی ناظم الامورنے پاکستانی وزیرخارہ شاہ محمودکواس دستاویزکے مطابق زوردیاکہ پاکستان اپنے وعدے پرعمل کرے۔دوسرااس دستاویزسے پرناب مکھرجی کی فون کال پرپاکستان پرحملے کی دہمکی کی بھی تصدیق ہوتی ہے جس کے بارے میں صدر زرداری نے امریکی ناظم الامورکوفون کیا لیکن بعدازاں تحقیقات کے بعدپتہ چلاکہ یہ جعلی فون کال ایک انتہاپسندنے جیل سے کی تھی جس نے پاک بھارت میں جنگ کاایک ماحول پیداکردیاتھا۔ایک اورمراسلہ میں امریکی سفیرپیٹرسن نے جنرل کیانی کے دورہٴ امریکا (۲۰تا۲۷فروری۲۰۰۹ء)سے قبل اپنی حکومت کوسفارشات تحریرکیں:
”توقع ہے کہ جنرل کیانی خفیہ معلومات کے تبادلے،پاک فوج کے ہیلی کاپٹرفلیٹ کوجدیدبنانے،سویلین قانون نافذکرنے والے اداروں کی امدادمیں اضافے اورپاکستان میں دہشتگردوں کے خلاف کاروائی کے دوران بے گھرہوجانے والے پاکستانیوں کومالی معاوضہ فراہم کرنے جیسے مطالبات کریں گے․․․․․․․جنرل کیانی پرواضح کردیناچاہئے کہ پاک فوج اورآئی ایس آئی حقانی نیٹ ورک سمیت جنگجووٴں کی اپنی خفیہ اورسرعام پالیسی ختم کریں جبکہ ہمیں تعلقات کے نئے دورکیلئے بھی مذاکرات کرنے چاہئیں“۔اس مراسلہ سے معلوم ہوتاہے کہ امریکی یہ جان چکے ہیں کہ پاکستان میں اہم فیصلے چاہے خارجہ پالیسی کے ہوں یاملک کے دیگر معاملات،ان سب کے فیصلے دراصل پاک فوج ہی کرتی ہے اورپاکستان کی سول حکومت کااس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔اس کی تائیدمیں ایک اورامریکی مراسلہ جو۱۸جنوری۲۰۱۰ء کوامریکاکے خصوصی ایلچی آنجہانی رچرڈہالبروک کے بھارتی وزیرخارجہ ایس ایم کرشناسے ملاقات کے بعدتحریرکیاگیا:
”رچرڈہالبروک نے کہاکہ پاکستان میں حقیقی فیصلہ سازی کااختیارفوج کے پاس ہے جبکہ صدرآصف علی زرداری کوتیزی کے ساتھ سائڈلائن کیاجارہاہے لیکن فوج اقتدارمیںآ نے کی پوزیشن میں نہیں ہے․․․․․․․پاکستان ایک کمزورریاست ہے لیکن واشنگٹن اسلام آبادسے تعلقات ختم نہیں کرسکتا“۔ایک اورمراسلہ جودسمبر۲۰۰۹ء میں امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن نے دنیابھرمیں امریکی سفارت خانوں کولکھاتھاکہ:”پاکستان میں امریکی سفارت خانے کوہدائت کی گئی ہے کہ وہ حکومت پاکستان سے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کاروائی شروع کرنے اورممبئی حموں کے الزام میں ملوث لشکر طیبہ پرپابندیاں لگانے پرزوردے۔یوں توآئی ایس آئی کے سنیئرحکام شدت پسندگروہوں کی حمائت سے صاف انکارکرچکے ہیں لیکن ان میں سے کچھ اب بھی طالبان اورلشکرطیبہ سمیت کئی انتہاپسندتنظیموں سے تعلقات قائم رکھے ہوئے ہیں۔یہ تنظیمیں پاکستان میں پناہ حاصل کرنے کی مسلسل کوشش کے ساتھ یہاں موجودخیراتی اداروں ،این جی اوزاورمدرسوں کوبھی متاثرکرتے ہیں۔اسلام آبادمیں موجودسفارتکاروں کویقین ہے کہ پاکستانی لیڈرشپ افغانستان اورکشمیرمیں جہادی گروہوں کی پرورش کے بعد اب رفتہ رفتہ ان کی حمائت سے ہٹ گئی ہے تاہم انہیں شک ہے کہ نچلے درجے کے اہلکاراب بھی ان گروہوں سے رابطے میں ہیں“۔
ان مراسلوں سے پتہ چلتاہے کہ پاکستان کے خفیہ معلومات کے معاملات ہوں یاہماری خارجہ پالیسی کاکوئی معاملہ ہو،امریکی ہمارے تمام اندرونی معاملات سے کس قدردلچسپی کااظہارکرتے ہوئے اپنی پالیسیوں میں پاکستان پراپنادباوٴبڑھانے میں کس شدت کے ساتھ عملدرآمدچاہتے ہیں۔یوں محسوس ہوتاہے کہ گاڑی یکطرفہ سفرپرگامزن نہیں بلکہ ہمارے حکمران بھی ان کی خواہشات پرعملدرآمدکرکے ان کومطمئن کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔آنجہانی رچرڈہالبروک کی رائے میں پاکستان کی خارجہ پالیسی اوردیگر قومی سلامتی کے بارے میں پاک فوج کے کردارکے بارے میں اپنی حکومت کویہ مشورہ دیاگیاکہ پاکستان میں تمام اداروں پرپاک فوج حاوی ہے اوروہ اپنے ان اختیارات سے دستبردارہونے کاکوئی ارادہ نہیں رکھتی۔پاکستان میں ایک معروف دفاعی تجزیہ نگارریٹائرڈ جنرل طلعت حسین نے بھی میڈیاکے سامنے ہالبروک کی رائے سے مکمل کااتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ”اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی اوراب موجودہ حالات میں بھی یہ تمام اختیارات فوج ہی کے پاس ہیں اورپھرپاکستان میں کسی بھی سیاسی حکومت نے ان اختیارات کوواپس لینے کی کوشش بھی نہیں کی حالانکہ اگرحکومت کوشش کرتی توفوج ان کویہ اختیارات واپس کرنے میں کوئی تامل بھی نہ کرتی“۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے قبل محترمہ بے نظیربھٹونے اپنے دور حکومت میں راجیوگاندھی سے اورنوازشریف صاحب نے اٹل بہارواجپائی کے ساتھ اپنے تئیں تعلقات بڑھانے کی جوبھونڈی کوششیں کیں اس میں زمینی حقائق کوبالکل فراموش کردیاگیاکہ بھارت نے کبھی بھی صدق دل سے پاکستان کے وجودکوتسلیم نہیں کیابلکہ موجودہ سیاسی حکومت نے توبھارت کے ساتھ تعلقات استوارکرنے میں مشرف کی پالیسیوں سے بھی کئی قدم آگے جاکرہاتھ ملانے کی بھرپورکوشش کی اوراب بھی بھارت کے ساتھ دوستی بڑھانے کاکوئی موقع ضائع نہیں کیاجاتالیکن اس کے باوجودبھارت کارویہ یہ ہے اس نے پاکستان کے تمام دریاوٴں کے پانی کارخ تبدیل کرکے پاکستان کومستقبل میں صحرابنانے کی کوششیں کررہاہے ،بلوچستان کے علاوہ پاکستان کے دیگرعلاقوں میں دہشتگردوں کی مکمل اعانت کررہاہے اورابھی حال ہی میں من موہن سنگھ نے پاکستان کومسئلہ کشمیرسے دستبردارہونے کامشوردیاہے ۔ان زمینی حالات کومدنظررکھتے ہوئے پاکستان کی سیاسی حکومت کے فرائض میں شامل ہے کہ ملکی قومی سلامتی کے اداروں کے ان خدشات کوسامنے رکھتے ہوئے اپنی پالیسیاں وضع کرتے ہوئے اپنی ہترین کارکردگی کامظاہرہ کرے تاکہ پاکستانی عوام ان اختیارات کی واپسی میں ان کی مددگاراورمعاون بنے لیکن اس سے بڑی ستم ظریفی اورکیاہوگی کہ موجودہ سیاسی حکومت نے ملک میں کرپشن،لاقانونیت،سیاسی جوڑتوڑ اوراعلیٰ عدلیہ سے محاذآرائی کابازارگرم کررکھاہے۔
۴فروری ۲۰۰۹ء کواین پیٹرسن کاایک اوراہم مراسلہ جس میں انہوں نے جنرل کیانی اورنوازشریف کے تعلقات کے بارے میں اپنی حکومت کومطلع کیاہے:” سویلین حکومت کی کامیابی کیلئے جنرل کیانی کے پختہ ارادوں سے ہم اب تک پرامیدہیں،جنرل کیانی جتناصدرزرداری پربھروسہ نہیں کرتے اس سے زیادہ وہ نوازشریف کوناپسندکرتے ہیں ۔ زرداری انتظامیہ امورسے زیادہ ہیرپھیرکے اہل ہیں۔امریکی سفیرکایہ خیال ہے کہ شدت پسندی اورکمزورمعیشت کے مقابلے میں زرداری نوازشریف کی مخالفت کوزیادہ وقت دیتے ہیں“۔اس کے جواب میں آئی ایس پی آرکاایک تردیدی بیان سامنے آچکاہے جس میں کہاگیاتھاکہ نوازشریف کے بارے میں امریکی سفیرکابیان درست نہیں ہے۔اس کے علاوہ جو دوسری دستاویزات سامنے آئی ہیں اس کے مطابق جنرل کیانی میڈیاپرپابندیوں کے حق میں تھے ۔۶جون ۲۰۰۷ء کے مراسلہ میں کہاگیاکہ:”وکلاء تحریک کے دوران آئی ایس آئی اورملٹری انٹیلی جنس کے سنیئرحکام خصوصاً ڈی جی آئی ایس آئی جنرل کیانی میڈیاکے خلاف کریک ڈاوٴن کے سب سے بڑے حامی تھے“۔یہ اس وقت کاذکر ہے جب جنرل پرویزمشرف ملک کے حکمران تھے ۔
جنرل پرویزمشرف کے بارے میں اس وقت کے امریکی سفیررائن کروکرنے ۲۴مارچ ۲۰۰۷ء کواپنے مراسلے میں اپنی حکومت کولکھاکہ:”جنرل مشرف نے اعتراف کیاکہ چیف جسٹس تنازع میں پیمراکاکردارغیرمعاون اورغلط تھا،مشرف نے کہاکہ وہ پیمراکے سربراہ کوفارغ کرنے کاارادہ رکھتے ہیں“۔وکی لیکس میں پاکستان کے دفاعی معاملات کے بارے میں بھی بہت اہم انکشافات کئے گئے ہیں جس میں بلوچستان کی ہوائی پٹی کابھی ذکرہے جوبظاہرپاکستان نے متحدہ عرب کوپٹہ پردے رکھی ہے لیکن بعد میں یہ امریکاکے حوالے کردی گئی جس کوپاکستان پرڈرون حملوں کیلئے استعمال کیاجارہاہے۔اس حوالے سے ۱۴مئی ۲۰۰۵ء کومتحدہ امارات میں امریکی سفیرمائیکل سیسون کے ایک اہم مراسلہ پرمتحدہ عرب نے اپنی ناراضگی کااظہاربھی کیا:
”۱۱مئی ۲۰۰۵ء کومتحدہ عرب کی وزارتِ خارجہ میں ایشیااورافریقہ کے امورکے ڈائریکٹراحمدالمصلی نے یواے ای میں امریکاکے ڈپٹی چیف آف مشن کے درمیان ہونے والی گفتگوکے دوران پاکستان میں امریکاکے ساتھ تعاون کی کچھ تفصیلات منظرعام پرآنے پراپنی ناپسندیدگی کااظہارکیاتھا،احمدالمصلی نے امریکی سفارتکارسے شکائت کی کہ سابق سینٹ کام کمانڈرجنرل ٹام فرینکس نے اپنی یادداشتوں میں ”امریکن سولجر“میں امریکی فوجیوں کے بلوچستان میں شیخ زیدکے نجی ائرسٹرپ استعمال کاذکرکیا۔یواے ای وزارتِ خارجہ کے اہلکاراحمدالمصلی نے کہاکہ ان کی حکومت پاکستان اورافغانستان میں امریکی فوج کے ساتھ تعاون کے متعلق تفصیلات خفیہ رکھناچاہتی ہے کیونکہ ان معلومات کے سامنے آنے سے متحدہ امارات کے اہلکاروں کویواے ای اورپاکستان میں سیکورٹی خطرات پیداہوسکتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ یواے ای کی اعلیٰ شخصیات متواترپاکستان کے دورے پر جاتی رہتی ہیں اس قسم کی معلومات کے افشاء ہونے سے ان کوسیکورٹی کے مسائل پیداہوسکتے ہیں“۔
جنرل کیانی کے عدلیہ کی بحالی میں کردارکے بارے میں این پیٹرسن نے۱۰مارچ۲۰۰۹ء کے مراسلے میں یوں تحریرکیا َ:ایک ہفتے میں امریکی سفیرکی چیف آف آرمی سٹاف جنرل کیانی سے چوتھی ملاقات میں جنرل کیانی نے ایک بار پھراس بات کااشارہ دیاکہ عدلیہ بحالی تحریک کی صورتحال خراب ہونے کی صورت میں وہ صدرزرداری کواستعفیٰ دینے پرقائل کرسکتے ہیں۔جنرل کیانی نے زرداری کے متبادل کے طورپراسفندیارولی خان کے نام کاذکرکیااورکہاکہ یہ باقاعدہ مد اخلت نہیں ہوگی اوروزیراعظم گیلانی کے تحت پی پی پی حکومت کام کرتی رہے گی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ نئے انتخابات سے بچاجاسکے جونوازشریف کواقتدارمیں لاسکتے ہیں۔امریکی سفیرکے مطابق فوجی ایکشن فوری نہیں ہوسکتااورجنرل کیانی نے واضح کردیاہے کہ اگرانہیں کوئی قدم اٹھاناپڑاتووہ کہہ سکتے ہیں کہ امریکاکوخبردارکردیاگیاتھا۔دونوں طرف دباوٴ ڈالنے کیلئے اب امریکاکے پاس کافی مواقع موجودہیں“۔عدلیہ تحریک میں جنرل کیانی کاجوکردارتھااین پیٹرسن کامراسلہ اسی کی تصدیق کرتادکھائی دیتاہے۔کیاامریکی سفیرکی ایک ہفتے میں جنرل کیانی سے چارملاقاتوں کاکوئی ریکارڈ جی ایچ کیومیں بھی موجودہے؟(جاری ہے)