ویکی لیکس نئی تحقیقاتی صحافت کا اشاریہ
اکیسویں صدی کےآغاز سے ہی دنیا میں نئے نئے تجربات اور انکشافات کی ابتدا ہوچکی تھی ۔ اس صدی کے بارے میں یہ پیشن گوئیاں کی جاری تھیں کہ اس صدی میں انسان ترقیات کی نئی پہنائیوں کو طے کرے گا۔واقعی اگر دیکھا جائے تو نئی ملینیم کےآغاز سے ہی حیرت انگیز تجربات اور انکشافات کے ساتھ نئے انسانی رویےبھی سامنے آنے لگے ۔ دنیا کےطاقتور ممالک نے بھی اس ترقی کی ہوڑ میں تمام اخلاقی اور آئینی حدود کو توڑ کر اپنے مفاد کی ہوس میں ہر روا اور ناروا کارکردگی کو اپنایا۔ ویکی لیکس نے اس حوالے سے سب سے اہم کام یہ کیا ہے کہ اس نے دنیا کے ان ممالک کو طشت از بام کردیا جنھوں نے ساری دنیا کو جمہوری اور اخلاقی طرز پر ڈھالنے اور دنیا کو نئی راہوں پر چلانے کا نعرہ دیا تھا اور انسانی حقو ق کی حفاظت کے لیے چمپیئن بننے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔لیکن اکیسویں صدی کی جرات مندانہ صحافت نے ان تمام چہروں کو بے نقاب کر دیا جو کئی چہرے لے کر دنیامیں خود کو سرخرو بنانےمیں مصروف تھے۔ امریکہ اور ان کے حلیف اور دوست ممالک نے کس طرح سے دنیا میں امن و سکون کو غارت کیا اور کس طرح ایک دوسرے کو جنگ پر مجبور کیا ۔ ویکی لیکس نے جراتمندانہ قدم اٹھاتے ہوئے ، امریکہ کی خفیہ معلومات کو فراہم کیا اور سب کو آئینہ دیکھایا ۔ اس آئینے میں وہ تمام ممالک جن کے چہرےنظر آرہے ہیں، وہ خود بھی اس آئینے سے بچتے نظر آرہے ہیں کیونکہ ان کو کود بھی اس پہلے نہیں معلوم تھا کہ ان کے چہرے اتنے داغدار اور قبیح شکل رکھتے ہیں۔
اس آئینے میں امریکہ سب سے زیادہ ہواس باختہ نظر آرہا ہے کیونکہ اس کئی چہرے ایسے وقت میں بے نقاب ہوئے ہیں جب وہ عالمی سطح پر دہشت گردی کے نعرے اور سہارے سب کو اپنے پرچم تلے جمع کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اب تو دہشت گردی کے نام پر چلنے والے اس تماشے کو منظر عام پر لایاج اچکا ہے اس لیے امریکہ کو اب سب سے بڑی پریشانی یہ ہےکہ اس کے بعد کیا ہوگا اور اب وہ کس نعرےکا سہارا لے گا۔ کیونکہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے نام پر امریکہ نے ساری دنیا میں جو زیادتیاں کی ہیں وہ نا قابل معافی ہیں اور اب دنیا ان کو نئے سرے سے سمجھنے کی کوشش کر رہی کہ آج کے طاقتور ممالک آخر دنیا کو کس جانب لے کر جانا چاہتے ہیں۔کیونکہ اب تک امریکہ نے جن ممالک کے ساتھ دوستی کی اور دہشت گردی کے حوالے سے اس سے ہاتھ ملایا ، اس سے امریکہ نے اس کے بر عکس کام لیا ہے ۔ اسی لیے ویکی لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد پریشانی صرف امریکہ کو ہی لاحق نہیں ہے بلکہ کئی ممالک کے ان سر براہوں کوبھی پریشانی کا سامنا ہے جنھوں نے اپنے ملک کے ساتھ غداری کی اور معمولی چمھ دمک کی خاطر ملک کی غیرت کو بیچنے کا کام کیا ہے۔ ویسے تو اس حوالے سے کم ہی ایسے ملک ہیں جن کے نام سامنے نہیں آئے ہیں اور کم ہی ایسی مشہور شخصیات ہیں جن کےکارناموں کے بارے میں نہیں کچھ کہا گیا ہے۔
سب سے پہلے امریکہ کی تشویش یہ ہےکہ اس انکشاف سے اس کے دوست ممالک کے تعلقات خراب ہوں گے۔اسی لیے امریکہ نے وکی لیکس کو خبردار کیا ہے کہ امریکی وزارتِ خارجہ کی خفیہ دستاویزات کے اجراء سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی، عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہو گی اور امریکہ کے اپنے اتحادیوں سے تعلقات بگڑ سکتے ہیں۔امریکی وزارتِ خارجہ کے وکیل نے ہفتے کو وکی لیکس کے سربراہ جولین اسانش کو ایک خط ارسال کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان دستاویزات کے اجراء سے خفیہ فوجی کارروائیاں منظر عام پر آ جائیں گی اور امریکی ساکھ کو زبردست دھچکا پہنچے گا۔امریکہ کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں وکی لیکس کی جانب سے جاری کیے جانے والے خفیہ دستاویزات سے اس کے اتحادی ممالک کے ساتھ تعلقات خراب ہو سکتے ہیں اور اس ضمن میں حلیف ممالک کو اعتماد میں لیا جا رہا ہے۔امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا سفارتی دستاوزات کے منظرِ عام پر آنے سے امریکہ کو نقصان پہنچے گا۔ ان دستاویزات کی وجہ سے ہمارے سفارت کاروں اور اتحادی ممالک کی حکومتوں کے روابط میں کشیدگی پیدا ہو جائے گی۔اسی لیے امکشاف کرنے والے ادارے پر ہر طرح سے نکیل کسنے کی کوشش کی گئی مگر اسے اکیسویں صدی کی برکت کہیں کہ اطلاعات کے اس دور میں کسی کو اطلاع دینے سے روکنا تقریبا ناممکن ہوگیاہے اور اب اطلاعت ادراے بھی نئی طاقت حاصل کر کے ایک نئے انقلاب کی تیاری کر رہے ہیں۔
امریکہ کے بعد اس انکشاف سے سب سے زیادہ پریشانی پاکستان کو بھی ہے ۔ اسی لیے پاکستان میں بھی اس کے خلاف کورٹ میں عرضی دائر کی گئی ۔ جسےلاہورہائی کورٹ نے پاکستان میں وکی لیکس کے خلاف پابندی لگانے کی درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کر دی ۔لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ یہ 21 ویں صدی ہے اس میں ایسی باتوں کا سامنے آنا کوئی بڑی بات نہیں، اب تو حوصلے سے سچ کا سامنا کریں۔ وکی لیکس میں آنے والی باتیں اگر سچ ہیں تو اس پر برا منانے کی کوئی بات نہیں ۔پابندی لگوا کر عوام کو کیوں اندھیرے میں رکھنا چاہتے ہیں۔ درخواست گزار عارف گوندل نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وکی لیکس سب کے کپڑے اتار رہا ہے اس پر پابندی لگائی جائے ، جسٹس عظمت سعید نے کہا چند افراد کے کپڑے اترنے سے پوری قوم کا فائدہ ہوگا ۔انہوں نے کہا ” وکی لیکس بات تو سچ ہے ۔مگر بات ہے رسوائی کی “ فاضل عدالت نے کہا کہ وکی لیکس پر پابندی سے کیا ہوگا سب کو سچ کا سامنا کرنا چاہئے ۔ آپ کیوں سچ سننے سے گھبراتے ہیں اب تو سچ کا سامنا کریں۔ عدالت نے درخواست نا قابل سماعت قرار دے کر مسترد کردیا ۔‘‘بحوالہ بی بی سی
پاکستان میں کوئی ایسی سیاسی شخصیت نہیں ہے جس کے بارے میں کچھ نہ کہا گیاہو۔مشرف ، نواز شریف اور موجودہ صدر آصف زرداری ، یوسف رضا گیلانی اور عمران خان کے سب کے بارے میں کچھ نہ کچھ کہا گیا ہو۔اخبارات کے مطابق وکی لیکس نے انکشاف کیا ہے کہ افغان حکومت میاں نواز شریف کواسلامی بنیاد پرستی کا خالق سمجھتی ہے جبکہ رچرڈ باؤچرکوخدشات تھے کہ نواز شریف پاکستان میں اسلام کی حمایتی اور مشرف اور امریکا مخالف تحریک چلا سکتے ہیں۔وکی لیکس نے 8 ستمبر 2007 کوکابل میں رچرڈ باؤچرکی افغان صدر حامد کرزئی اور افغان وزیر خارجہ سپانٹا کی گفتگو کا انکشاف کیا ہے جس میں پاک افغان جرگے سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ رچرڈ باؤچر نے کہا کہ پاک افغان جرگے میں مشرف کی شرکت کی تاخیر کی بڑی وجہ یہ تھی کہ انہیں ڈر تھا کہیں سپریم کورٹ میاں نواز شریف کو وطن واپس آنے کی اجازت نا دے دے۔افغان وزیر خارجہ سپانٹا نے کہا کہ وہ جانتے ہیں میاں نواز شریف ان کے لیے بری خبر ہیں۔ نواز شریف خطے میں اسلامی بنیاد پرستی کے خالق ہیں۔ رچرڈ باؤچر نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ میاں نواز شریف پاکستان واپس آ گئے تو وہ اسلام کی حمایتی، مشرف اور امریکا مخالف تحریک کا آغاز کر سکتے ہیں۔ ملاقات کے دوران افغان صدر حامد کرزئی نے کہا کہ پاکستان میں قبائلیوں کوباقاعدہ نمائندگی کا حق دیا جانا چاہیئے۔ رچرڈ باؤچر نے کہا کہ پاکستانی وزیر داخلہ آفتاب شیرپاؤ کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سیاسی جماعتوں کا نظام فی الحال نہیں چل سکتا۔
آئی ایس آئی کے بارے میں جو کئی ناکشافت کیے گئے ہیں ان سے کئی باتیں سامنے آتی ہیں ایک تو یہ کہ آئی ایس آئی کو ہندستانب مخلاف تمام سرگرمیوں کا علم بھی ہے اور کئی میں وہ ملوث بھی رہا ہے ۔ آئن لائن اردو اخبار ارت کے حوالے ےس ممبئی پر حملے کے سلسلے میں یہ انکشاف ہے کہ آئی ایس آئی نے بھارت پر حملے رکوانے کی بھرپور کوشش کی تھی، اس کا انکشاف امریکا کی خفیہ سفارتی خط و کتابت سے ہوا ہے ۔ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا نے امریکی سفیر کو بتایا تھا کہ آئی ایس آئی بھارت پر حملے کے امکانات روکنے کیلئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ یہ سب باتیں واشنگٹن بھیجے گئے مراسلے میں بتائی گئی تھیں جو اس وقت کی امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن نے امریکی حکومت کو بھیجا تھا۔ جنرل کیانی اور ڈی جی آئی ایس آئی شجاع پاشا نے امریکی سفیر سے نجی طور پر یہ ملاقات چھ اکتوبر کو کی تھی جو دو گھنٹے جاری رہی۔ شجاع پاشا کے بارے میں اپنے تبصرے میں انہوں نے لکھا ہے کہ جنرل کیانی کے مقابلے میں وہ زیادہ جذباتی ہیں۔ ڈی جی آئی ایس آئی شجاع پاشا نے امریکی سفیر سے کہا کہ وہ واشنگٹن کو یہ پیغام پہنچا دیں کہ انہوں نے بھارت پر حملوں سے متعلق پیشگی اطلاع پر کام کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ممبئی حملوں میں اسرائیلی اہداف پر حملوں کی پیشگی اطلاع سے بھی واقف تھے۔ شجاع پاشا نے بتایا کہ وہ مسقط اور تہران بھی گئے تھے تاکہ ہم منصبوں کو ان خطرات پر آگاہ کر سکیں۔ اس پر وہ الرٹ ہوئے اور انہوں نے پاکستان سے رابطے بھی جاری رکھے۔ شجاع پاشا نے امریکی سفیر کو یہ بھی بتایا کہ انہیں بھارت پر حملے کی پیشگی اطلاع مل گئی تھی۔ انہوں نے امریکی سی آئی اے سے کہا تھا کہ وہ اپنے چینلز کے ذریعے بھارت کو بھی آگا ہ کر دے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کسی بھی وقت اپنے بھارتی ہم منصب سے ملیں گے کیونکہ یہ بہت اہم ہے کہ وہ خطرات سے متعلق معلومات انہیں بتائیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ آئی ایس آئی بھارت پر حملے کے امکانات کم کرنے کے لئے جو ممکن ہو سکتا ہے، وہ کر رہی ہے۔ دستاویز کے مطابق آئی ایس آئی کے سربراہ نے ممبئی حملوں کے بعد بھارت میں واقع یہودی اہداف کی حفاظت کیلئے خفیہ طریقے سے اسرائیلی عہدیداروں سے رابطہ کیا تھا۔ عالمی سلامتی اور آرمز کنٹرول سے متعلق امریکی عہدیدار ایلن ٹوشر اور ایٹمی عدم پھیلاوٴ کیلئے سفیر سوزن برک کے درمیان بات چیت بھی واشنگٹن کو بھیجے گئے ایک مراسلے کا حصہ ہے۔ دونوں شخصیات کے درمیان یہ بات چیت تین اور چار ستمبر کو لندن میں پانچ بڑی ایٹمی طاقتوں کے درمیان کانفرنس کے موقع پر ہوئی تھی۔ملاقات میں دونوں اعلیٰ عہدیداران نے امریکی سفیر کو بتایا کہ کیری لوگر بل سے کور کمانڈرز اور نوجوان افسروں میں منفی رد عمل آ رہا ہے۔ جنرل کیانی کو کیری لوگر بل پر کور کمانڈرز کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیری لوگر بل میں ایسی شرائط کیوں لگائی گئی ہیں جب دہشت گردی کے خلاف پیشرفت میں بہتری آئی ہے۔ شجاع پاشا نے یہ بھی کہا کہ زمینی حقائق کے برعکس ماضی میں امریکی قانون کے مقابلے میں اس بار نئے بل میں زیادہ سخت شرائط رکھی گئی ہیں۔ اس پر امریکی سفیر نے بل کی وضاحت پیش کی جس میں یہ بتانے کی کو شش کی گئی کہ کیری لوگر بل میں امداد سے متعلق کوئی شرائط نہیں رکھی گئیں۔ پاکستان کے ساتھ طویل مدتی ترقی کا عزم رکھتا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں تین نکات واضح کئے۔ اول یہ کہ بل کی بعض شقیں ختم کی جا سکتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ بل کے لئے کچھ سرٹیفکیٹس اور اندازوں پر مبنی رپورٹس کی ضرورت ہے۔ تیسرے یہ کہ بل کی زیادہ تر رقم پاکستان میں انسداد دہشت گردی یا کو لیشن سپورٹ فنڈ پر خرچ نہیں کی جائے گی بلکہ باہر ملکوں سے فوجی مقاصد کے لیے ہتھیار، منگوانے پر خرچ کی جائے گی۔ اس پر جنرل کیانی نے جواب دیا کہ ماضی میں بھی پریسلر ترمیم کے قانون میں پاکستان کے لئے چھوٹ رکھی گئی تھی۔ لیکن صدر بش نے اس پر دست خط سے انکار کر دیا تھا۔ امریکی سفیر نے کہا کہ کیری لوگر بل کے تحت پاکستانی سکیورٹی فورسز کو2009 اور 2010 کیلئے پاکستان کو انسداد دہشت گردی فنڈکے سلسلے میں ملنے والی رقم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اس پر جنرل کیانی نے کہا کہ وہ یہ سب جانتے ہیں اور یہ بھی سمجھتے ہیں کہ نئے انسداد دہشت گردی فنڈ کے لئے پاکستانی فوج کی امداد میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔ جنرل کیانی نے تاہم کہا کہ سات اکتوبر کو ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس میں ان پر دباؤ ڈالا جائے گا کہ وہ کیری لوگر بل پر بیان جاری کریں۔ وہ اس کوشش میں لگے ہیں کہ اس صورت حال سے کیسے نمٹاجائے۔ جنرل کیانی نے کہا کہ وہ یہ بات تسلیم کرتے ہیں اور تعریف بھی کرتے ہیں کہ سینیٹر جان کیری اور نائب صدر جو بائڈن پاکستان کے عظیم دوست ہیں۔ اس پر امریکی سفیر نے کہا کہ کیری لوگر بل پرکوئی بھی منفی بیان، پاکستان کے امریکی کانگریس سے بہتر ہوتے تعلقات پر برا اثر ڈالے گا۔ امریکی سفیر نے کہا کہ وزیر اعظم گیلانی نے انہیں بتایا تھا کہ کیری لوگر بل پر بحث صرف چند دن چلے گی اور اس پر ووٹنگ بھی نہیں ہوگی۔
ابھی تو یہ پردہ اٹھا ہے اور اب کئی اور خفیہ معلومات سامنے آنے والے ہیں ۔ان سے بھی کئی گتھیاں الجھیں گی بھی اور سلجھیں گے بھی ، ہماری طرح دنیا کی نگاہیں بھی اس جانب لگی ہوئی ہیں۔