Home / Litrature / ِبہار کا نیا اُردو افسانہ

ِبہار کا نیا اُردو افسانہ

         ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی

ِبہار کا نیا اُردو افسانہ

(خواتین کے حوالے سے)

 ڈپٹی نذیر احمد کو ان کے ناول ’’مراۃالعروس (۱۸۶۹)‘‘ کی وجہ سے اگربابائے اردو فکشن کہا جا تاہے تو بہار کی خاتون ناول نگار رشیدۃانساء کوان کے ناول ’’اصلاح انسائ(۱۸۸۱ئ)‘‘کے سبب  Mother of Urdu Fiction  ضرور کہنا چاہیے۔ کیونکہ خواتین کی قصہ گوئی کا آغاز بہار میں لکھے گئے اسی ناول’’اصلاح النسائ‘‘ سے ۱۸۸۱ء میں ہوتا ہے۔

                ۱۸۸۱ء سے ۱۹۳۰ء تک اس ناول کے زیر اثر بہتیرے قصے لکھے گئے جنہیں لکھنے والوں میں علی محمود ،ساقی عظیم آبادی ،نصرت آروی ،جمیل مظہری اور مسلم عظیم آباد ی وغیرہ کے نام آتے ہیں مگر ان میں کسی خاتون کا نام نہیں ملتا جن کے سر اردو مختصر افسانے کی ابتدا کا سہرا باندھا جائے۔پروفیسر وہاب اشرفی نے اپنی کتاب ’’بہار میں اردوافسانہ نگاری ‘‘(ص ۱۲)میں اس کا ذکر کرتے ہوئے ایک خاتون’’صابرہ بانو ‘‘ کا نام لکھاہے مگر افسوس ہے کہ نہ انہوں نے تفصیل پیش کی اور نہ ہی کسی اور جگہ مجھے ان کی تفصیلات حاصل ہو سکیں ۔اس بنا پر بہار کے افسانوی ادب کے دوسرے دور یعنی ۱۹۳۱ء سے ۱۹۴۶ء کے درمیان جن خاتون کا نام افسانے کے حوالے سے سب  سے پہلے نظر آتا ہے اور جنہیں بہار کی پہلی افسانہ نگار کہلانے کا بھی شرف حاصل ہو سکتا ہے وہ ہیں ’’شکیلہ اختر‘‘۔شکیلہ اختر کی پیدائش۱۹۱۶ء میں ہوئی اور ان کا پہلا افسانہ ’’رحمت ‘‘۱۹۳۶ء میں ادب لطیف لاہور میں شائع ہوا ۔شکیلہ اختر اگر چہ بہار کی پہلی افسانہ نگار ہیں مگر فنی طور پر وہ جس مقام و مرتبے کی حامل ہیں ، وہ انہیں ایک کامیاب ترین اور بلند پایہ افسانہ نگار ثابت کرتے ہیں ۔ان کے چھ افسانوی مجموعے شائع ہوئے ۔درپن ،آنکھ مچولی ،ڈائن آگ اور پتھر ،لہو کے مول اور آخری سلام ۔ان کے قصوں کا پس منظر ہماری روز مرہ کی زندگی کا نشیب و فراز ہے ۔وہ اپنے ارد گرد کے حالات و کوائف کی رازدار ہیں اور انہیں بڑے سلیقے سے افسانوں میں برتنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ان کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ اپنی ذات کے کرب کو وسعت دے کر اسے ہمہ گیر بنا دینے کی بے پناہ صلاحیت رکھتی ہیں۔ایک مثال افسانہ آنکھ مچولی ہے ۔آپ بیتی کے انداز میں یہ افسانہ شکیلہ اختر کی اپنی کہانی بھی ہے اوراس قماش کی دوسری عورتوں کی بھی۔شکیلہ کے یہاں نہ صرف یہ کہ رومان بلکہ انسانی نفسیات اور سماجی معاملات کے ان پہلوئوں کو بطور خاص موضوع بنایا گیا ہے جن کا تعلق صنف نازک سے ہوتاہے ۔قصہ پن کی دلچسپی اور بیان کی سادگی کے لحاظ سے وہ پریم چند سے زیادہ قریب ہیں۔ڈائن،لہو کے مول،آگ اور پتھر ،ننگی آنکھیں اور اعتراف وغیرہ ان کے نمائندہ افسانے ہیں۔شکیلہ اختر کے افسانوں کی سب سے بڑی دین یہ ہے کہ ان کے بعد بہارمیںخواتین افسانہ نگاروںنے اس میدان میں تیزی سے اپنے قدم بڑھائے ہیں۔

                شکیلہ اختر کے معاصرین میں جن خواتین نے ان کے آس پاس ہی لکھنا شروع کیا ان میں رضیہ رعنا ،نسیمہ سوز،شاہدہ اختر حاجی پوری،اعجاز شاہین،عصمت آرا اور نصرت آرا وغیرہ اہم نام ہیں۔رضیہ رعنا شکیلہ اختر کی بہن تھیںاور ندیم،سہیل جیسے معتبر رسائل میں چھپتی

تھیں۔محبت ،پریم کا بندھن اور طلسم خیال وغیرہ ان کے قابل ذکر افسانے ہیں۔نسیمہ سو ز بھی ان رسائل میں شایع ہوتی تھیں۔ان کے افسانوں میں گھریلو زندگی کے نقوش ملتے ہیں،مثلاً ظالم فطرت،سرگوشی،اندھیرا وغیرہ دیکھے جا سکتے ہیں۔فنی طور پر یہ کہانیاں ناکام اور غیر

 ۲

دلچسپ ہیں۔شاہدہ حاجی پوری نے انسانی نفسیات کے بعض نازک گوشوں پہ نگاہ ڈالی۔’’انسان اور دیوتا‘‘ ان کی نمائندہ کہانی ہے۔اعجاز شاہین کے دو افسانوی مجموعے ’’تصور اور تصویر‘‘ اور ’’یہ وادیاں‘‘ شایع ہوئے۔انہوں نے سیدھے سادے پلاٹ میں اپنے آس پاس کی کہانیاں لکھی ہیں ،جن میں عورتوں کی مجبوری ،بے بسی اور مظلومیت کو موضوع بنایا جاتاہے۔وہ سادگی اور پرکاری سے باتیں کہنے کا فن جانتی ہیں،اس لیے انداز بیان بہت دلکش اور پرکشش ہوتاہے۔نصرت آرا کا بھی ایک مجموعہ’’درد کا رشتہ‘‘ شایع ہوا جس میں سولہ افسانے ہیں۔درد کا رشتہ اور داغ اس مجموعے کی نمائندہ کہانیاں ہیں،جن سے پتہ چلتاہے کہ نصرت کردار نگار سے زیادہ ماجرا نگار ہیں۔ان کی کہانیاں قاری کو گرفت میں لینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

                ۱۹۶۰ ء کے بعد جب تجریدی اور علامتی کہانیوں کا فیشن عروج پر تھا،خواتین اس سے بہت زیادہ متاثر نہ ہو سکیں۔ہاں تین افسانہ نگار ضرورملتی ہیں جنہوں نے تجریدی اور علامتی کہانیوں سے اپنی ذہانت اور عصری حسیت کا احساس کروایا۔نزہت نوری ،شمیم صادقہ اور نزہت پروین اپنے جدید اسلوب اور جدید طرز افسانہ گوئی کے سبب بہار کی دوسری خواتین افسانہ نگاروں سے ممتاز نظر آتی ہیں۔شمیم صادقہ کے تین مجموعے کرچیاں،ادھورے چہرے اور طرح دیگر کے نام سے شایع ہوئے۔کرچیاں سے قبل کے افسانے مثلاً مونالیزا،یہ فاصلے شام و سحر کے،روڑا،آج کا گوتم اور ڈیڈ ہائوس وغیرہ شمیم صادقہ کے فن کا بہترین نمونہ کہے جا سکتے ہیں۔نزہت نوری نے اپنے افسانوں سناٹا  ، روپ بہروپ،شیرازہ وغیرہ اور نزہت پروین نے تاش کے پتے ،روشن اندھیرااور سرخ نشان سے اپنی شناخت قائم کی۔ان تینوں افسانہ نگاروں کے یہاں زندگی کے معمولی اور چھوٹے چھوٹے واقعات جو بظاہر اہم معلوم نہیں ہوتے ،کثرت سے ملتے ہیں۔یہ عموماً عام فہم زبان لکھتی ہیں،مگر جگہ جگہ اشاراتی ،استعاراتی یا تمثیلی جملوں سے جدید حسیت اور جدید اسلوب پر قدرت کا اظہار بھی کرتی ہیں۔شکیلہ اختر کی ہم عصروں میں روایتی اسلوب و اظہار کی افسانہ نگار شمیم افزا قمر بھی قابل ذکر ہیں،جن کے دو افسانوی مجموعے ’’کاغذی پیرہن‘‘ اور ’’دنیا آپ کی‘‘ کے نام سے شایع ہوئے۔ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ عورتوں کی زبان میں کہانیاں لکھتی تھیں اور موقع و محل کے اعتبار سے شعر بھی استعمال کرتی تھیں۔ان کی ایک کہانی تیر نیم کش کا فی مشہور ہے،جس میں فن کارانہ دردمندی کو ان کی نمایاں خصوصیت کے طورپر محسوس کیا جا سکتاہے۔

                بہار میں اردو افسانے کا سب سے روشن دور ۱۹۸۰ء کے بعد شروع ہواہے۔اِس دور میں نہ صرف یہ کہ بہار نے بڑی تعداد میں افسانہ نگار پیدا کیے ہیں بلکہ کہانی پن کی واپسی ،موضوعات کے تنوع اور عصری حسیت کے حوالے سے معاصر افسانہ سے جو مطالبات ہوتے ہیں اُن کی مکمل طورپر تکمیل بھی کی ہے۔یہ دور عالمی ادب کے منظر نامے پر مرد افسانہ نگاروں کے ساتھ ساتھ خواتین افسانہ نگاروں کے حوالے سے بھی صوبہ بہار کو امتیازی شناخت عطا کرواتاہے۔کیونکہ ذکیہ مشہدی،قمر جہاں،کہکشاں انجم،اشرف فاطمہ ،تبسم فاطمہ ،نوشابہ

خاتون ،تسنیم کوثر ،صبوحی طارق،نزہت نوری اور عنبری رحمان وغیرہ کے نام بلا تامل اردو افسانے کی فہرست میں شامل کیے جا سکتے ہیں۔

                بہار کے اردو افسانے کی تاریخ میں جس طرح شکیلہ اختر ۱۹۴۰ء سے ۱۹۸۰ء کے درمیان سب سے معتبر اور کامیاب ترین نام

۳

ہے،جن کی سربراہی میں خواتین افسانہ نگاروں کا ایک بڑا قافلہ چار دہائیوں تک رواں دواں رہا،ٹھیک اُسی طرح ۱۹۸۰ء کے بعد کے قافلے میں سب سے اہم اور نمایاں نام ذکیہ مشہدی کا ہے۔اگرچہ ذکیہ مشہدی کے ساتھ ساتھ تعداد کے اعتبار سے اُن سے زیادہ افسانے لکھنے والی خواتین بھی موجود ہیں،مگر فنی قدرت اور زبان و بیان پہ مہارت کے اظہار کے ساتھ قارئین کو اپنی طرف جس شدت سے ذکیہ مشہدی نے متوجہ کیا ہے وہ کوئی اور خاتون نہ کر سکیں۔اس لیے ذکیہ مشہدی نہ صرف یہ کہ اس عہد کی نمائندگی کرتی ہیں بلکہ سربراہی کا حق بھی رکھتی ہیں۔ذکیہ مشہدی کے چار افسانوی مجموعے پرائے چہرے،تاریک راہوں کے مسافر ،صدائے باز گشت اور نقش نا تمام کے نام سے شایع ہو چکے ہیں۔یوں تو اُن کے موضوعات میں تنوع بہ آسانی تلاش کیا جا سکتاہے مگر خواتین کی نفسیاتی گتھیوں کو سلجھانے ،کرداروں کی نفسیاتی تحلیل کرنے اور عظمت رفتہ کے گیت گانے میں انہیں کمال کی مہارت حاصل ہے۔موتیا کی خوشبو،بلیاں،حساب،پرستش ،فضلو بابا ٹخ ٹخ،منظوروا،محمود ایاز اور بلی کا بچہ وغیرہ ان کی نمائندہ کہانیاں ہیں۔ذکیہ مشہدی کو زبان پر بلا کی قدرت حاصل ہے ،وہ کلاسیکی ہنر مندی سے شستہ و شگفتہ کہانیاں لکھتی ہیں۔یہ ایک ایسا وصف ہے جس نے ان کے افسانوں کوفکری تحدیدات کے با وصف،قارئین کے تمام حلقوں میں مقبول بنائے رکھاہے۔مٹتی ہوئی تہذیبی قدریں،آگے بڑھتی ہوئی زندگی اور اس کی دھول میں گم ہوتے رشتے،فرقہ واریت ،فسادات ،اپنوں کی بے اعتنائی کی شکار اردو زبان کی زبوں حالی اور سماجی تفریق وغیرہ اُن کی دلچسپی کے موضوعات ہیں جن پر انہوں نے اکثر بہت اچھی کہانیاں لکھی ہیں۔

                ذکیہ مشہدی کی ہم عمر افسانہ نگار قمر جہاں کے بھی چار مجموعے چارہ گر،اجنبی چہرے ،حرف آگہی اور یاد نگار کے نام سے شایع ہو چکے ہیں۔وہ خود اپنے افسانوں کے بارے میں لکھتی ہیں۔

                                ’’یہ کہانیاں چونکہ جاگتی آنکھوں کا خواب ہیں اس لیے ان میں خواب سے زیادہ حقیقت کا رنگ ہے۔

                                زندگی کی ٹھوس اور کٹیلی حقیقتیں ۔اس طرح جو بھی کہانیاں لکھ رہی ہوں ان میں فنکاری ہے یا نہیں یہ تو

                                آپ ہی بتا سکتے ہیں لیکن حقیقت کا وہ روپ ضرور موجود ہے جس نے میری روح کو زخمی کیا،میرے

                                احساس میں کرچیاں چبھودی ہیں‘‘

قمرجہاںکے افسانوں میں زندگی بالخصوص عورتوں کی زندگی کے مختلف جہات پر توجہ ملتی ہے۔عورتوں کے دُکھ سکھ،خوشیوں،محرومیوں،خواہشوں اور بنتے بگڑتے رشتوں کو انہوں نے اپنے مشاہدے و تخیل کے کینوس پر اِس طرح پیش کیا ہے کہ پڑھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔اُن کے افسانوں میں تہ داری نہیں ہوتی،بلکہ راست بیانیہ انداز میں بڑی معصومیت کے ساتھ وہ انسانی

زندگی کے داخلی و خارجی مسائل کی تصویر کشی کرتی ہیں۔انتظار ،آج کی عورت ،بند کوٹھری اور آندھی وغیرہ اُن کی اہم کہانیاںہیں۔

                صبوحی طارق کے افسانوی مجموعے ’’درد کا گلاب‘‘ نے بھی قارئین کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔ان کے یہاں احتجاج کا لہجہ بہت نمایاں ہیں۔’’اذانوں کے پہرے‘‘ اور ’’کندھوں کا کتبہ‘‘ جیسے افسانوں میں ان کی فنکاری واضح ہو کر سامنے آتی ہے۔انہوں نے رومانی

۴

کہانیاں بھی لکھی ہیں مگر ان میں بھی انسانیت اور درد کے رشتوں کی تلاش کی کوشش پوشیدہ نہیں رہ پاتی۔جذبات نگاری پہ صبوحی کو قدرت حاصل ہے۔انہیں کی ہم عصر امتیاز فاطمی نے بھی کم افسانے لکھ کر اپنی شناخت درج کروائی ہے۔فاطمی نے عورتوں کی کہانیاں لکھی ہیں یعنی عورتوں کے دُکھ درد اور عورتوں کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے والی کہانیاں۔اُن کے نسوانی کرداروں میں حالات سے لڑ کر اپنی تقدیر بدلنے کا جذبہ دکھائی دیتاہے۔عہد رفتہ کے نشاں،شمع جلتی ہے تو اور ڈوبتی شام وغیرہ اُن کے اہم افسانے ہیں۔

                بہاراور جھارکھنڈ میں کہکشاں کے نام سے دو خواتین نے ہمیں اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ایک ہیں کہکشاں پروین جن کے مجموعے ایک مٹھی دھوپ،اور دھوپ کا سفر،شایع ہو کر مقبول ہو چکے ہیں۔اور دوسری ہیں کہکشاں انجم جن کے دو مجموعے کہکشاں ،اور کرچیاں قارئین کے ذریعہ اب تک پڑھے جارہے ہیں۔کہکشاں پروین کا موضوع ہے آج کے انسان کا ذاتی کرب۔اس کی مختلف جہتوں کو انہوں نے بیانیہ تکنیک میں پیش کیاہے،اس لیے ان کی کہانیاں قاری کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہیں۔جبکہ کہکشاں انجم کی نگاہ خصوصی طورپر عورتوں کی زبوں حالی پر ہے۔وہ عورتوں کے استحصال کے معاملات پر گہری نظر رکھتی ہیں اور سماج میں اُن کی پوزیشن پر خلاقانہ نظر ڈالتی ہیں۔اُن کے افسانوں میں اختصار دیکھ کر محسوس ہوتاہے کہ وہ جامعیت کے رمز سے آشنا ہیں اور افسانے میں فنی برتائو کی سوجھ بوجھ رکھتی ہیں۔

                ۱۹۸۰ء کے بعد ابھرنے والی افسانہ نگار وں میں ایک اہم نام تبسم فاطمہ بھی ہے۔ان کے افسانے تقریباً ۳ دہائیوں سے رسائل میں شایع ہو رہے ہیں اور ایک مجموعہ بھی ’’لیکن جزیرہ نہیں‘‘ کے نام سے منظر عام پر آ چکا ہے۔تبسم فاطمہ احتجاجی ذہن رکھتی ہیں یہ الگ بات ہے کہ یہ احتجاج عورتوں کے مسائل تک محدود ہے۔ان کے افسانوں میں نئی عورت کا باغی روپ ملتاہے اور یہ روپ کہیں کہیں جارحانہ رُخ اختیار کر لیتاہے۔نیا قانون اور جرم جیسے افسانوں میں انہوں نے عورت کو نیک پروین کے بجائے ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی ہے اور سوال اٹھائے ہیں کہ

                                ’’مرد ہی ہر بار سواری کیوں کر تا ہے؟‘‘

                                ’’عورت! اسے خود سے شدید نفرت کا احساس ہوا،ایسا کیوں ہے؟عورت ہر معاملے میں زندگی کے ہر موڑ

                                پر تقدیس کی گرد جھاڑتے ہی چت کیوں ہو جاتی ہے؟ایک دم سے چت اور ہاری ہوئی۔مرد ہی جیتتا ہے اور

                                عورت چاہے کتنی بڑی کیوں نہ ؛ہو جائے اندرا گاندھی سے مارگریٹ تھیچر تک ۔۔۔۔عورت کی عظمت کہاں

                                سو جاتی ہے؟(جرم)

یعنی تبسم فاطمہ کے یہاں عورتوں کے روایتی یا بنیادی مسائل مثلاً جہیز ،طلاق ،سسرال یا شوہر کی زیادتی کے مسائل جیسے موضوع نہیں

ہیں۔ان کے یہاں عورت کا الگ ہی تصور ہے کہ اکیسویں صدی کی عورت کو کیسا ہو نا چاہیے؟وہ عورت کو اس کی طاقت کا احساس دلانا چاہتی ہیںجس سے کام لے کر وہ سماج ،معاشرے اور پوری دنیا کو بدل سکتی ہے۔یہی فکر تبسم کو دوسری افسانہ نگاروں سے منفرد بنا کر انہیں امتیاز بخشتی ہے۔

۵

                تبسم کے برعکس اشرف جہاں کے یہاں عورتوں کے روایتی یا بنیادی مسائل زیادہ تر موضوع بنتے ہیں۔’’اکیسویں صدی کی نرملا‘‘کے نام سے شایع اُن کے افسانوی مجموعے میں ہجرت اور طلاق جیسے حادثات کا کرب ہے اور عورت کی ازلی فطرت ،محبت اور ایثار وقربانی کا جذبہ بھی۔احتساب،بدرکامل ،شکنتلا اور اکیسوں صدی کی نرملا میں عورت کی تنہائی،بے بسی اور مرد کی بے اعتنائی کا اظہار تو ہوتا ہی ہے اپنی بقا ،تشخص اور آزادی کے لیے احتجاج کا رویہ بھی ملتاہے۔مثلاً یہ جملے دیکھیے

                                                ’’ناری کی شکتی کچھ ارن کرنے میں ہے۔‘‘(شکنتلا)

                                ’’عورت سماج کی نہیں ،مذہب کی نہیں،اصولوں کی نہیں،اپنے احساس کی قیدی ہوتی ہے‘‘(ا۲ویں صدی کی نرملا)

                                ’’خدا تو صرف ایک ہوتاہے امی،یہ مجازی خدا کیاہے۔یہ سب عورتوں کے استحصال کے لیے مردوں

                                کے تراشے ہوئے جملے ہیں‘‘(نائن الیون)

گویا مرد اساس معاشرہ اور مرد حاوی سوچ کے خلاف اشرف جہاں کا مزاحمتی رویہ ان کی بہت ساری کہانیوں میں زیریں لہروں کی طرح موجودہے،اگرچہ وہ نسوانی احساسات اور اقداری تصادمات کو مختلف واقعاتی اور کرداری تلازموں کے ذریعہ اپنے ڈھنگ سے پیش کرنے پر زور دیتی ہیں۔ٹھیک اُن کی طرح ہی آشا پربھات بھی اپنی کہانیوں میں عورتوں کے حالات و کوائف سے بدلتے ہوئے سماجی اور تہذیبی حالات و مسائل کی عکاسی کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔آشا پربھات کے دو افسانوی مجموعے شایع ہو چکے ہیں،جن میں شامل تقریباً تمام کہانیاں عورت کے مختلف روپ پیش کرتی ہیں۔یہاں عورت کا ہر روپ بلند ہمتی اور بلند حوصلگی کے ساتھ درد کی ڈور سے بندھی ہوئی عورتوں اور آنسوئوں کے حجاب میں لپٹی خواتین کے داخلی اور خارجی منظرنامے کو اجاگر کرتاہے۔مثال کے لیے ان کا صر ف ایک افسانہ’’اچھی لڑکی‘‘ پڑھا جا سکتاہے جس میں دو بہنوں میں ہی عورت کے دو روپ نمایاں ہو گئے ہیں۔

                تسنیم کوثر اپنے افسانوی مجموعے ’’بونسائی‘‘ کے ذریعہ اردو فکشن کی دنیا میں پہچانی گئیں۔یہ بھی عورتوں کی ہی کہانیاں لکھتی ہیں،مگر ان کی سوچ کا زاویہ مثبت ہے اور وہ انسانی رشتوں کی اہمیت پہ اصرار کرتی ہیں۔نوشابہ خاتون اُنہیں کی ہم عصر ہیں مگر موضوعات کے تنوع کی وجہ سے قاری کو گہرا سماجی شعور اور قدروں کی پامالی کا احساس عطا کراتی ہیں۔بہت تاخیر سے افسانوں کی دنیا میں قدم رکھنے کی وجہ سے شاید انہیں زندگی کی تمام نزاکتوں ،باریکیوں ،ہولناکیوں اور سفاکیوںکا بہ خوبی علم ہے اور وہ انہیں اپنی کہانیوں میں کا  میابی کے ساتھ برتنے کا ہنر بھی جانتی ہیں۔ان کے دو افسانوی مجموعے ’’نقارخانہ ‘‘اور ’’بالادست‘‘مقبول ہو چکے ہیں،جن میں شامل کہانیوں سے پتہ چلتا ہے کہ سماجی مسائل پر ان کی گہری نظر ہے۔مسئلہ جہیز کا ہو یا child labour کا ،یا پھر بے روزگاری کا،موصوفہ نے آج کے اکثر سلگتے

مسائل کو موضوع بنایاہے۔مگر ایک خاص موضوع بار بار اُن کے افسانوں میں دکھائی دیتاہے اور وہ ہے ہوس زر۔انجام کار،خالی ہاتھ اور زمین سے آسمان تک کا سفر میں ہوس زر اور اس کے برے اثرات کو مرکزی تھیم کے طور پر برتا گیاہے۔دوسرا امتیاز ان کے افسانوں کا یہ ہے کہ نوشابہ کا رویہ اخلاقی اور اصلاحی ہے۔وہ باتوں ہی باتوں میں قاری کو اہم سماجی و اخلاقی قدروں سے روشناس کراجاتی ہیں۔مثلاً نوجوان

۶

بیوہ کی شادی اور اس سے متعلق دنیا والوں کی باتیں،امارت اور غربت کا فرق اور اس کی وجہ سے باہمی تنازعات وغیرہ۔شکوہ ،سائبان،بالا دست،پکھیرو،احساس کی قیمت ،نقارخانہ اور حاصل زندگی وغیرہ میں ان کا یہ انداز فکر واضح صورت میں ملاحظہ کیا جا سکتاہے۔

                ’’نزہت طارق ظہیری‘‘۔۔۔آج کی افسانوی کائنات میں ایک نیا مگر روشن نام،جنہوں نے اپنے افسانوی مجموعے ’’ایک روٹی سات پہاڑ‘‘ سے قارئین کے دلوں میں جگہ محفوظ کر لی ہے۔ان کے افسانوں کا مرکزی کردار بھی عورت ہے۔انہوں نے نسوانی نفسیات کا تخلیقی ،فنی تجزیہ جس ہنر مندی اور خوش اسلوبی کے ساتھ کیاہے وہ قابل دادہے۔ان کا سیدھا سادا انداز بیان ایسا ہے جس میں کوئی پیچیدگی اور تہ داری تو نہیں مگر اس کی پرکاری تاثرات کو گہرائی و گیرائی عطا کر تی ہے۔نزہت طارق چونکہ سماجی کارکن بھی ہیں اس لیے اُن کے افسانوں میں مصلحانہ اور معلمانہ میلان کی کارفرمائی دکھائی دیتی ہے۔سماجی اخلاقیات کے پہلو بھی نظر آتے ہیں ،لیکن ان کا انداز و اسلوب ناصحانہ اور واعظانہ نہیں ہوتا بلکہ دردمندی و غم گساری اور ہمدردی کے جذبات و احساسات میں رچ بس کر معنوی کیفیت یکسر مختلف اور پر اثر ہو جاتی ہے۔’’حرف حرف چراغ‘‘اور ’’اتفاق‘‘میں ایسی ہی پر تاثیر کیفیت موجود ہے۔’’زبان اور زندگی ‘‘میں روایت اور جدت کی کشمکش رضیہ چچی اور نمی(ماں بیٹی)کی صورت میں ابھرتی ہے، جونئے دور،نئی روشنی اور روشن خیالی کی صورت میں روایت کی دھند چھانٹتی نظر آتی ہیں۔

                ’’ایک روٹی سات پہاڑ‘‘اس مجموعے کا سب سے اچھا افسانہ ہے ،جس میں اس عہد کا ایک اہم سوال اپنے معنوی تناظر میں مزید شدت اختیار کر لیتاہے۔ایک رکشا پلر کی بیوی دس سال میں سات بیٹیوں کو جنم دیتی ہے اور جب اس کا مرد مر جاتاہے تو اس کی بیٹیاں اس کے سینے پر پہاڑ بن جاتی ہیں۔بیوگی کے بعد وہ اپنی مالکن سے اپنے مرد کا قصہ بیان کرتی ہے جس میں ازدواجی زندگی کے تجربات ہیں۔وہ عورت اپنی سات بیٹیوں کا گناہگار نہ تو اپنے شوہر کو مانتی ہے اور نہ خودکو۔جبکہ اس کا مرد ہر بیٹی کی پیدائش پر زچہ خانے میں ہی اسے زدو کوب کر تا تھا۔یہ جان کر مالکن کہتی ہے کہ تمہار اشوہر تو قصائی تھا قصائی۔تو اس کاجذباتی ردعمل اس خیال کے قطعی خلاف ہوتاہے۔

                                ’’بی بی جی ذرا سوچیے ،آج کل کے زمانے میں ہر بار بیٹی ،غصہ تو آناہی تھا،لیکن اللہ میاں پر غصہ اتار نہیں سکتا  تو مجھ نگوڑی کی ہڈی ایک کر دیتا تھا‘‘

اس سے قطع نظر کہ نزہت طارق کے یہاں عورت کا تصور روایتی ہے جو ہر ظلم سہ کر بھی مرد کو مجازی خدا تسلیم کرنے پر یقین رکھتی ہے،مکالمے کی برجستگی اور زبان کی روانی قابل لحاظ ہے۔گویا نزہت اپنی کہانیوں کو فنی خوبیوں کے ساتھ پیش کرنے کا ہنر جانتی ہیں۔

                عنبری رحمان بھی آج کے بہار کی نمائندہ افسانہ نگار ہیںجن کے دو افسانوی مجموعے ’’مٹی کی خوشبو‘‘اور ’’رنگ حیات‘‘ شایع

ہوچکے ہیں۔عنبری رحمٰن خاصی پڑھی لکھی اور بے حد حساس افسانہ نگار ہیں۔منظر کشی ،جزئیات نگاری اور پرکیف افسانوی فضا سے وہ فن افسانہ پہ اپنی دسترس کا اظہار کروا چکی ہیں۔جیسا کہ دیکھا گیاہے عورتیں زیادہ تر نسوانی مسائل پر ہی لکھنا پسند کرتی ہیں (اور یہ کوئی عیب بھی نہیں)،عنبری رحمٰن نے بھی عورتوں کی حمایت میں کھل کر لکھاہے۔افسانہ ’’میں نے جینا سیکھ لیا ‘‘ میں ثنا کے کردار کو بیٹی ،بیوی ،بہو اور ماں کی

۷

شکل میں پیش کرکے انہوں نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ مسلم گھرانوں میں خاص طور پر زمیندار وں اور نوابوں کے یہاں بیٹیوں کو لاڈپیار سے پالتے تو ضرور ہیں لیکن پروفیشنل یا اعلیٰ تعلیم کی اجازت نہیں دے کر اس کے ساتھ نا انصافی کرتے ہیں۔صرف اتنا ہی نہیں وقت سے پہلے اور بیٹی کی مرضی کے خلاف اس کی شادی کر کے اس پر ظلم کرتے ہیں۔سسرال میں خموش رہ کرظلم سہنے کی تلقین کرتے ہیںاور جب عورت ماں بن جاتی ہے ،نئے ماحول میں ڈھل جاتی ہے تو شوہر کسی بدچلن عورت کوگھر لاکر بیوی سے طلاق مانگتاہے۔اسی طرح بیٹا بڑا ہو کر شادی کرلیتاہے اور اپنی دنیا الگ کر لیتاہے۔اور ماں الگ ،تنہا زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہے۔گویا عنبری رحمٰن نے ایک عورت کی زندگی پیش کر کے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ عورت بچپن سے بڑھاپے تک مسلسل ناانصافیوں اور بے وفائیوں کا سامنا کرتی ہے۔اس لیے ثنا کے کردار کو وہ ترغیب دیتی ہیں کہ اُسے اپنے بل بوتے پر کھڑا ہو نا چاہیے۔گویا مرد اساس معاشرہ اورمرد حاوی سماج میں عورت کی بے قدری،محرومی اور اس پر عائد کردہ قدغن کے خلاف عنبری رحمٰن نے آواز بلند کی ہے اور عورت کو اس کا صحیح مقام دلانے کے تصور پر زور دیاہے۔’’محبت کے امتحاں اور بھی ہیں‘‘ کی رباب جب حالات کا مقابلہ کر کے اپنے پیروں پہ کھڑی ہوتی ہے ،اور پنے باس سے شادی کرلیتی ہے تو عنبری رحمٰن کو خوشی ہوتی ہے کہ انہوں نے عورت کو اس لائق بنا دیاکہ وہ اپنے شوہر کو اسی کے لہجے میں جواب دے سکے۔افسانہ سچ یہی ہے ،آخر میں بھی انسان ہوں،ایک گھر میرا بھی،اور ایک ذراسی بھول جیسے افسانوں میں عنبری رحمٰن نے عورت کی زندگی کے ایسے ہی مختلف شیڈس پیش کیے ہیں۔ان افسانوں کی سب سے بڑی خوبی عورتوں کی نفسیات کی خوبصورت عکاسی کہی جا سکتی ہے۔ایسا بھی نہیں ہے کہ عنبری رحمٰن کے افسانوں میں ’’عورت‘‘ ہی واحد موضوع ہے۔انہوں نے اپنے آس پاس کے دوسرے موضوعات پر بھی عمدہ کہانیاں لکھی ہیں جن میں اُن کے سماجی شعور اور مشاہدے کی قوت کا احساس ملتاہے۔مثلاًافسانہ’’ ایساہی ہوتاہے ‘‘میں بوڑھے والدین کے ساتھ نوجوانوں کا رویہ’’ زمین کی بھوک ‘‘میںراتوں رات امیر بنے کی ہوس ’’یہ کیسا انصاف ‘‘میںمیڈیا کی لاچاری و بے بسی ’’آزادی سبھی کو پیاری ‘‘میںبچوں کے مسائل کوآسانی سے دیکھا جا سکتاہے۔عنبری رحمٰن کے تمام افسانے بیانیہ اسلوب میں ہیں اس لیے ترسیل کی کوئی پیچیدگی یا الجھاؤ نہیں ہے۔

                نسرین بانو کا افسانوی مجموعہ ’’دھرتی ماں کا زخم‘‘انہیں فنی طورپر ایک کامیاب افسانہ نگار کے طور پر پیش کرتاہے۔مگر موضوع چونکہ عورت اوراس کے دکھ درد تک محدودہے اس لیے ابھی تک انہیں کوئی امتیاز حاصل نہیں ہو سکا۔عام طور پر ان کی کہانیوں میں عورت پر ہونے والے مظالم کی داستان ملتی ہے،جس سے پتہ چلتاہے کہ نسرین بانو کو اس بات کا قلق ہے کہ مرد حضرات عورت کے جذبات و احساسات کو  پو رے طور پر نہیں سمجھتے ہیں ،عورت مرد کے لیے محض ایک کھلونا ہے اور وہ چاہتاہے کہ اس کے ہاتھ میں ہمیشہ ایک نیا کھلونا  رہے۔جبکہ

عورت اُن کی نظرمیں مشرقی اقدا رکے بندھن سے بندھی ہے اس لیے نہ صرف یہ کہ وفا شعارہے بلکہ شوہر کی عظمت کی اس قدر قائل ہے کہ وہ اس کی غفلت کا بھی اس سے انتقام نہیں لیتی۔گویا نسرین بانو کے یہاں عورت کا روایتی تصور ہے۔زبان وبیان اور لہجے کی بے باکی نسرین بانو کے افسانوں کو دلچسپ بنا دیتی ہے۔

۸

                 ایک بالکل نئی افسانہ نگار رخسانہ صدیقی کا نام بھی قابل ذکر ہے،جواپنے پہلے ہی مجموعے’’وجود‘‘ سے متاثر کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ان کے افسانوں میں سماجی سروکار،عہد حاضر کی اخلاقی پستی ،مرد و عورت کے تعلقات کی پیچیدگیاں اورمعاشی بدحالی سے رشتوں پر اثرات وغیرہ علامات و اشارات میں اور کہیں کہیں واضح طور پر بڑی خوبصورتی سے پیش کیے گئے ہیں۔مصنفہ شاعرہ بھی ہیں،اس لیے ان کے بیانیہ افسانے بھی زیادہ تر شعری کیف اور رمزیت کے حامل ہیں۔سفر ایک عکس کا،ہتھیلیوں پر رقص،وجود،سائبان اور روٹی کا درخت وغیرہ میں ان کی فنکاری قابل دید ہے ،مثلاً’’ ہتھیلیوں پر رقص ‘‘پڑھیے جس میں ایک مضطرب لڑکی رقص میں کمال حاصل کرنے کے لیے اپنی محویت میں اس مقام تک پہنچ جاتی ہے کہ و ہ استاد کی ہتھیلی پر رقص کرنے کا مجاہدہ اپنا لیتی ہے۔اور اس کا انجام یہ ہوتا ہے:

                ’’پھر کیا تھا،وہ اچھل کر اس کی ہتھیلی پر چڑھ گئی اور بے اختیار ناچنے لگی۔۔۔ناچتے ناچتے وہ تھکنے لگی کیوں کہ ان

                ہتھیلیوں کی گرمی بوند بوند اس کے اندر اتر گئی اور پھر وہ وہیں پسر گئی۔۔۔ٹھیک نو مہینے بعد اس نے ایک سورج جنا۔‘‘

                مذکورہ افسانہ نگاروں کے علاوہ بھی بہار میں خواتین کی ایک بڑی تعداد ایسی ملتی ہے جنہوں نے افسانے لکھے اور معتبر رسائل و جرائد میں شایع بھی ہوئیں مگر کسی نہ کسی وجہ سے اپنا سفر جاری نہیں رکھ سکیں یا معاصرین میں کوئی اہم شناخت نہیں قائم کر سکیں۔مثلاً نصیرہ بانو آفریں،شیریں نیازی،امروزجہاں،شاہدہ یوسف ،روشن آرا،شہناز بانو،نعیمہ قمر ،ذکیہ خانم،عامرہ فردوسی،محمودہ نغمی،شاداں نیازی،بے بی ناز،نزہت نبیلہ،نشاط افزا،س ق صاحبہ،بیگم عنایت الرحمٰن،حسن جبیں،طلعت جہاں،ماہ طلعت ،علویہ رحمٰن ،نشاط الفاطمہ،نجمہ اقبال اور نسرین ترنم وغیرہ۔اِنہیں محض اس لیے یاد رکھا جا سکتاہے کہ انہوں نے شکیلہ اختر کی روایت کو آگے بڑھایا اور بہار میں خواتین کو افسانہ نگاری کی طرف متوجہ کیا۔

                آج جب ہند وپاک کی سطح پر خواتین لکھنے والیوں کی آمد یوں بھی کم ہوتی جارہی ہے ،ایسے میں اگر صرف بہار سے پانچ سات خواتین قلم کار ایک ساتھ کہانیاں لکھ رہی ہوں، تو بہار میں اردو افسانے کے منظرنامے کو روشن کہا جا سکتاہے۔ذکیہ مشہدی،اشرف جہاں،نزہت ظہیری،آشا پربھات،قمر جہاں،نوشابہ خاتون،عنبری رحمٰن، نسرین ترنم اورفریدہ بانو اور وغیرہ کی کہانیوں کا دائرہ مختلف موضوعات کو سمیٹے ہوئے ہے۔ان کہانیوں میں صرف عورتوں کے دکھ درد ہی نہیں عصری مسائل کا خوبصورت اور فنکارانہ بیان بھی ہوا ہے۔یہ خواتین افسانہ نگار نسبتاً زیادہ بیدارمغز اور عالمی حالات و واقعات پر نظر رکھی ہوئی ہیں۔نکسلی تحریک،چائلڈ لیبر،اولڈ ایج ہوم اور سیکس جیسے موضوعات پر بھی یہ کہانیاں لکھ رہی ہیں۔آ ج کی تیز رفتار زندگی میں جو سماجی تبدیلیاں آرہی ہیں اور رشتے کا جو نیا منظرنامہ سامنے آیاہے اس پر بھی ان کی صاف نظر ہے۔مگر یہ بھی بہت واضح ہے کہ خواتین نے فوقیت عورتوں کے مسائل کو ہی دی ہے اور عورتوں کی نفسیات اور سماجی ناانصافیوں کو عورت کے نقطۂ نظر سے ہی پیش کیاہے۔ہر افسانہ نگار کے یہاں عورت کی سماجی حیثیت کے تعلق سے ایک احتجاج ضرور ملتاہے ،خواہ وہ احتجاج خاموش ہو یا بہ آواز بلند ۔اور چونکہ یہ سارے موضوعات ،مسائل ان کے اپنے عہد کے یعنی آج کے ہیں اس لیے زبان ،اسلوب ،کردار اورفنی ٹریٹمنٹ بھی ان کا اپنا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بعض کہانیوں میں کچھ کمزور پہلو ہونے کے باوجود ان کے

۹

’’وحدت تاثر‘‘ سے قاری کی شرکت برابر بنی رہتی ہے۔

                میں نے اپنے اس مضمون میں کسی تقابل سے پرہیز کرتے ہوئے الگ الگ افسانہ نگاروں سے آپ کو واقف کرانے کی کوشش کی ہے اور یہ سعی کی ہے کہ بہار میں خواتین افسانہ نگاروں کی روایت اور موجودہ منظرنامے سے پوری طرح آپ کو واقف کراسکوں ،ممکن ہے میں اس میں کامیاب نہ بھی ہو سکوں ،مگر یہ میرا مطالعہ ہے جس سے اختلاف کا آپ کو پورا حق حاصل ہے۔مگر میری ایک بات سے تو آپ کو ضرور اتفاق کرنا پڑے گا کہ اردو افسانے کے فروغ میں مردوں کے ساتھ ساتھ بہار کی عورتوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیاہے ۔اِن کی ایک سنہری تاریخ موجود ہے ،جس میں شکیلہ اختراور ذکیہ مشہدی کے نام سب سے روشن اور نمایاں ہیں۔شکیلہ اختراور ذکیہ مشہدی کی طرح  بہار کی  دوسری خاتون افسانہ نگاروں کو شہرت ،ادبی مرتبہ اور وقار کیوں نہیں حاصل ہو رہا ہے ،یہ ایک قابل غور سوال ہے۔اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ بہار میں خواتین افسانہ نگاروں کی تعداد ،معیار اور خدمات مایوس کن نہیں۔نئی افسانہ نگاروں کے یہاں تازگی بھی ہے اور

توانائی بھی۔ان کا افسانوی سفر رواں دواں ہے ،جس کااعتراف قرۃ العین حیدر جیسی نابغہ افسانہ نگار نے ۲۰ اکتوبر ۲۰۰۰ء کو ہی دہلی اردو اکادمی کے ایک سیمینار میں اس طرح کیا تھا

                                                ’’مجھے بہار سے بہت امیدیں وابستہ ہیں۔بہار میں لکھا بھی جارہا ہے اور نئی لکھنے والیاں بھی بہار میں

                                                پیدا ہو رہی ہیںــ‘‘(بحوالہ’’ بیسویں صدی میں خواتین اردو ادبــ‘‘مرتبہ پروفیسر عتیق اللہ،ص ۱۶)

                                                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                Dr.Shahab Zafar Azmi

Assistant Professor

Department of Urdu,Patna university,

Patna 800005

                                shahabzafar.azmi@gmail.com

About admin

Check Also

اردو زبان و ادب اور ہندستانیت

پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین ہندستانی زبانوں کا مرکز ، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *