طارق حسین بٹ(چیرمین پیپلز ادبی فورم یو اے ای )
اکتوبر ۱۹۵۸ کے مارشل لاء کے بعد جب جمہوریت کا گلہ گھو نٹ دیا گیا اورعوام کو غلامانہ طرزِزندگی کا خو گر بنانے کا فیصلہ کر لیا گیا تو پھر نئی تبدیلی کیلئے فضا تیار ہو نے لگی۔انسان بھوک اور ننگ میں زندہ رہ سکتا ہے لیکن جب اس کی خوداری اور عزتِ نفس پر مہلک وار کیا جا تا ہے تو پھر اسے برداشت کرنا کسی بھی انسان کیلئے ممکن نہیں رہتا جس کی وجہ سے وہ بغاوت پر اتر آتا ہے۔ اپنی انا کی حفاظت اور احترامِ ذات انسان کا ہمیشہ سے سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے اوراسی کی خاطر انسانوں نے ہر قسم کے استحصا لی نظام سے بغاوت کی ہے ۔ بھوک اور ننگ کا مسئلہ دنیا میں نیا نہیںہے جب سے دنیا وجود میں آئی ہے یہ مسئلہ اس وقت سے انسانوں کے ساتھ سفر کر رہا ہے اور انسانوں نے اس مسئلے کے ساتھ نباہ کیا ہے غربت اور امارت زندگی کی سچائیاں ہیں جھنیں کھلے دل کے ساتھ تسلیم کر لیا گیا ہے لیکن جب سوال ا نسان کی خودادر ی تک آپہنچے تو پھر اس کی برداشت جواب دے جاتی ہے اور وہ میدانِ عمل میں نکل کر ان عناصر کے خلاف بغاوت کر کے ان کا قلع قمع اور خاتمہ کر دیتا ہے جھنوں نے اس کی عزتِ نفس چھینی ہوتی ہے۔ اس بات کا فیصلہ تو کوئی نہیں کر سکا کہ کسی کے پاس کتنے لال و زرو جواہر اور د ولت ہو نی چائیے ۔ امارت اور غربت کاکوئی عالمی پیمانہ ا بھی تک وضع نہیں ہو سکا جو ارتکازِ دولت کو روکنے کا سبب بن سکے۔اب گر کو کوئی امیر ہے، کوئی غریب ہے، کسی کے پاس دولت کی فراوانی ہے، کوئی نانِ جویں کو ترستا ہے، کوئی بے حد و حساب دولت کا مالک ہے اور کوئی ایک وقت کی روٹی کو ترستا ہے تو یہ اس دنیا کی حقیقتیں ہیں جسے انسانوں نے بہ امرمجبوری تسلیم کرلیا ہوا ہے ۔معاشرے کے اندر ارتکازِ دولت کی اس تفاوت اور فرق کو ہم سب کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور اس پر احتجاج بھی نہیں کرتے لیکن اکثرو بیشتر اس فرق کو مشیتِ ایزدی کہہ کر دل کو تسلی دے لی جاتی ہے اور کبھی کبھی اسے تقدیر کے سر مانڈھ کر بے چینی اور دردِ سری سے نجات حاصل کر نے کی کوشش کی جاتی ہے حالانکہ اسطرح کی حیلہ جوئیوں اور بہانہ سازیوں کا دولت کی کمی یا فراوانی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔دولت کا حصول اور اس کی فراوانی انسانی اوصاف کے بہتریں استعمال اور قسمت کی دیوی کے مہربان ہونے سے مشروط ہوتی ہے لہذا تمام انسان اس حقیقت کو تسلیم کر کے حاحبِ دولت کی تکریم بھی کرتے ہیں ، اسے برداشت بھی کرتے ہیں اور اس سے اپنے مراسم بھی استوار کرتے ہیں۔قحط ، خشک سالی اور بے روزگاری میں کسی بھی شہنشاہ کے خلاف بغاوت نہیں ہوتی بلکہ بغاوت اس وقت رو بعمل آتی ہے جب شہنشاہ خدا بننے کا قصد کرتا ہے اور اپنے جیسے دوسرے انسانوں کو حقیر اور کمتر سمجھ کر کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت د ینے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔انسان بھوک و ننگ کی وجہ سے نہیں بلکہ عزتِ نفس اور نا انصا فی کی وجہ سے بغاوت پر آمادہ ہوتا ہے۔انسانیت کی ساری تاریخ اسی طرح کی بغاوتوں اور انقلابات سے بھری پڑی ہے جس کے پیچھے انسانی احترام، اس کی تکریم، اس کا وقاراور اس کے تقدس کی نفی سے ابھرنے والے جذبات اہم کردار ادا کرتے ہیںاور جب یہ جذبات حدود نا آشنا ہو جاتے ہیں تو پھر انقلاب برپا ہو کر رہتا ہے۔یہ کھیل بڑا خونی ہوتا ہے لیکن جانباز اس کھیل میں جان کی بازی لگا کر ہی فتح کی بنیاد رکھتے ہیں۔
کسی بھی معاشرے کے اندت جب تک ہر شخص کو اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی ہے اور سارے فیصلے ان قوانین کی روشنی میں ہو رہے ہیں جنھیں آئین میں درج کیا گیا ہے تو وہ کسی بھی پہلو سے متفکر نہیں ہوتے کیونکہ معاشرہ آئینی بنیادوں پر ترقی کی جانب بڑھتا بھی رہتا ہے اور سب کے حقوق کے تحفظ کا فریضہ بھی سر انجام دیتا ہے ۔ ملکی معاملات میں جب تک قانون پر عمل داری میں خلل واقع نہیں ہوتا ملکی معاملات سیدھے اور ہموار انداز میں چلتے ہیں۔ عوام کا قانون کی عمل داری پر یقین متز لزل نہیں ہو تا جس کی وجہ سے معاشرے میں بے چینی اور بغاوت پنپ نہیں سکتی اور یوں حکومتی معاملات سکون اور عافیت سے چلتے رہتے ہیں جو کسی بھی انقلاب اور بغاوت کے ما حول جنم نہیں لینے دیتے۔ لیکن عوام کو جب یہ احساس ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ قا نون کے نفاذ میں امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے تو پھر ان کے اندر نظام سے نفرت اور بغاوت پنپنا شروع ہو جاتی ہے جو پورے نظام کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتی ہے۔یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ سب کچھ برداشت کر سکتا ہے لیکن امتیازی سلوک برداشت کرنا اس کے اختیار میں نہیں ہو تا۔وہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے سامنے امتیازی سلوک کا متحمل نہیں ہو سکتا۔وہ اسے انسانیت کی تذلیل سمجھتا ہے کہ اس جیسا کوئی دوسرا انسان اس کو امتیازی سلوک کی تلوار سے ذبح کرتا رہے اور وہ اس پر خاموش تماشائی بنا رہے۔یہ سچ ہے کہ پاکستان کے اقتدار پر جاگیر داروں اور سرمایہ دروں نے اپنے خونی پنجے گاڑے ہوئے ہیں اورمحروم طبقات کو اپنے آہنی پنجوں میں جکڑا ہوا ہے جسے جمہوریت نواز حلقے تشویش کی نظر سے د ۔یکھتے ہیں۔وہ اس طرح کے امتیازی سلوک سے چھٹکارا چاہتے ہیں لیکن انھیں کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی کیونکہ یہ طبقے بڑے با اثر ہیں ۔ عوام ابھی اتنے با شعور نہیں ہو ئے کہ وہ ووٹ کی قوت سے اس نظام کو بدل دیں لیکن ان کا عزم بہر حال ان کے ساتھ ہے اور اس سمت میں ان کی راہنمائی کا فر ضہ سر انجام دے رہا ہے۔ قانون اگر چہ ظاہری انداز میں کسی امتیاز کا حامل نہیں ہے لیکن پھر بھی با اثر افراد قانون کی گرفت سے بچ جانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں ان طبقات کے خلاف نفرت کا ایک عمومی تاثر پایا جاتا ہے جو انقلاب کا پیش خیمہ تو ہے لیکن انقلاب برپا کرنے کا سبب نہیں بن رہا ۔میرا ایمان ہے کہ اگر با اثر افراد اسی روش پر گامزن رہے اور نا انصافی کا رنگ مزید گہرا ہو گیا تو ایک نئے انقلاب کو روکنا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں ہو گا۔ ۔
جنوبی افریکہ میں نسلی امتیاز کے خلاف نیلسن منڈیلا کی تحریک پوری انسانیت کی تحریک تھی کیونکہ انسان ہونے کی جہت سے افریکہ میں انسانوں کے مختلف مدارج متعین کئے گئے تھے جو انھیں کسی بھی صورت میں قبول نہیں تھے ۔رنگ ، نسل اور زبان کی بنیادوں پر ان کے حقوق کا تعین کیا گیا تھا جسے انھوں نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔نیلسن مندیلا نے اس کے خلاف آواز بلند کی اور اس کی خا طر اپنی زندگی کے ۲۸ سال زندانوں کی صعوبتیں کی نذر کئے ۔اس کی یہ قربانی آخرِ کار رنگ لائی اور نسلی امتیاز پر قائم کیا گیا معاشرہ اینے انسانیت کش قوانین کی بدولت زمین بوس ہو گیا اور اس کی کوکھ سے ایک ایسے معاشرے نے جنم لیا جس میں انسانوں کی قیمت رنگ و نسل کی بنیاد پر نہیں تھی بلکہ انسانی برابری ،مساوات اور تکریم پر رکھی گئی تھی۔اسلام بھی نسلی امتیاز کا ازلی دشمن ہے ۔وہ تو برابری اور مساوات کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔اس کے ہاں انسانیت کی برابری،توقیر،احترام اور وقار کی راہ میں کوئی بھی تفاخر حائل نہیں ہو سکتا۔وہ خالص انسانی بنیادوں پر انسانوں کو واجب التکریم ٹھہراتا ہے اور ا نہی خصائص کی بدولت معاشرے میں ان کے مدارج کا تعین کرتا ہے۔سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفے ﷺ نے حجتہ ا لوداع کے موقعہ پر جو خطبہ ارشاد فرمایا تھا وہ پوری انسانیت کا منشور تھا ۔اس میں انسانیت کے احترام کا جو جذبہ جلوہ افروز تھا اس نے انسانیت کو نئے تقدس ،وقار اور احترام سے روشناس کروایاتھا۔ اس خطبے میں میں فصاحت و بلا غت کے دریا ٹھاٹھیں مار رے ہیں۔اتنا دلنشین انداز کے انسان دنگ رہ جائے کہ آج سے چودہ سو سال قبل جب رسمِ غلامی نے انسانوں کو اپنا غلام بنا کر انھیں انسانیت کی برادری سے خارج کر رکھا تھا اسلام نے انھیں ان کی اصلی قدرو قیمت سے روشناس کروایا تھا۔ (کسی عربی کو عجمی پر،کسی عجمی کو عربی پر اور کسی کالے کو گورے پر، کسی گورے کو کالے پر کوئی فغلیت نہیں بجز تقوی کے۔فضلیت کا معیار تقوی ہے اور جو کوئی جتنا زیاد ہ متقی ہو گا معاشرے میں اتنا ہی زیادہ قابلِ احترام ہو گا) ۔سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفے ﷺ نے انسانی عظمت کے سارے معیار جن کے سوتے،دولت،اقتدار،امارت ، نسلی امتیاز اور تفاخر سے پھوٹتے تھے ان سب کو ملیا میٹ کر کے تقوی کو نیا معیار بنا کر ساری انسانیت کو ایک اعلی و ارفع معیار سے متعارف کروا کے انسانیت کا سر فخر سے بلند کر دیا۔سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفے ﷺ نے انھیں ایک ایسے معیار سے روشناس کروایا جس سے انسانیت نابلد تھی اور جس میں ان کی کی نجات اور فلاح کا راز مضمرتھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔