Home / Socio-political / ٹاڈا کورٹ سے سزا یافتہ ملزموں کی رہائی قابل ستائش ہے لیکن….

ٹاڈا کورٹ سے سزا یافتہ ملزموں کی رہائی قابل ستائش ہے لیکن….

ٹاڈا کورٹ سے سزا یافتہ ملزموں کی رہائی قابل ستائش ہے لیکن….

عابد انور

                مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کے بارے میں جب بھی بات کی جاتی ہے ہر طرف سے یہی کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کو صرف شکایت کرنا ہی آتا ہے۔ یہ بات صرف غیر مسلم حضرات ہی نہیں کہتے بلکہ بہت سے مسلم دانشور، لیکچرر، پروفیسر، ڈاکٹر، صحافی، پروفیشنلز اور وہ لوگ جن کو حکومت نے کتے کی طرح کوئی چھوٹا سا ٹکرا ڈال دیا ہے یہی باتیں کرتے ہیں کہ مسلمان صرف شکایت کرنا جانتے ہیں۔ کہتے کہ قبر حال کا مردہ ہی جانتا ہے کہ اس پر کتنی مٹی ڈالی گئی ہے اسی لئے کوئی بھی مسلمانوں کے دکھ درد کو سمجھنے اور جاننے کی کوشش نہیں کرتا یہاں تک کے جب تک وہ خود اس کا شکار نہ ہوجائے ۔کسی مسلم نوجوان کواگر کسی معمولی سی کمیٹی کا ممبر بنادیا جاتا ہے تووہ ببانگ دہل کہتا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ کسی طرح کا امتیازی سلوک نہیں برتا جاتا اور نہ ہی ان کے ساتھ نا انصافی کی جاتی ہے وہ اس کا زندہ مثال ہے۔ اگر وہ زندگی کے میدان میں پیچھے ہے تو مسلمانوں کا قصور ہے۔ یہ لوگ اس طرح کی باتیں کرکے اپنے آقا کی خوشنودی حاصل کرتے ہیں تاکہ ان کی نظر میں وہ سچا سپاہی ثابت ہو سکیں۔ اس طرح کی باتیں گزشتہ دنوں ایک ٹی وی شوکے ڈیبیٹ میں سامنے آئی تھیں۔ جس میں مسلم نوجوانوں کی مشکلات کو موضوع بحث بنایا گیا تھا۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ تمام شعبہائے زندگی میں برتے جانے والے امتیازی سلوک سے انکار کرنا سورج کے انکار کے مترادف ہے ۔ حکومت، حکومت کی ایجنسیاں، ہندو بلڈر مافیا اور دوسرے طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنے اور منفی فکر کو فروغ دینے کیلئے طرح طرح کے ہتھکنڈے اپناتے ہیں۔ جہاںوہ مسلمانوں کے روز مرہ کے کاموں میں رکاوٹ ڈالتے ہیں وہیں ان کے املاک پر قبضہ کرتے ہیں خصوصاً وقف املاک پر جب چاہتے ہیں قبضہ کرلیتے ہیں۔ اس سے نہ صرف مسلمانوں میں بے بسی کا احساس پیدا ہوتا ہے بلکہ وہ اپنے آپ کو ہندوستان میں مجبور محض تصور کرتے ہیں اور یہ سوچنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں کہ ہندوستان ان کا کچھ بھی محفوظ نہیں ہے کیوں کہ قاتل، محافظ اور منصف میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو جیلوں میں مسلمانوںکی تعداد ۵۳ سے ۰۴ فیصد نہیں ہوتی۔ بہت سے تو ایسے ہوتے ہیں کہ ۰۱ برس سے زائد عرصہ سے جیل میں قید ہیں لیکن ابھی تک ان کا ٹرائل شروع نہیں ہوا۔ اگر کسی معاملے میں ان کے ساتھ انصاف ہوتا بھی ہے وہ نا انصافی سے کم نہیں ہوتاکیوں کہ وہ اس سے طویل عرصہ تک اس مقدمہ میں جیل میں گزار چکا ہوتا ہے جتنے عرصہ کے لئے ان کو سزا ہوتی۔ مسلم نوجوانوں پر اتنے مقدمے تھوپ دئے جاتے ہیں جتنی ان کی عمر نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر محمد عامر خاں جب انہیں گرفتار ﴿اغوا ﴾ کیا گیا تھا ان کی عمر ۸۱ برس تھی اور ان پر ۹۱ فرضی مقدمات تھے ۔ یہ مقدمات اعلی افسران کی ملی بھگت کے بغیر قائم نہیں کئے جاسکتے تھے اور اس میںسیاسی لیڈروں کی شمولیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ پولیس کے اعلی افسران ان سیاسی لیڈروں کے اشارے پر ہی رقص کرتے ہیں۔پولیس افسران خصوصاً انسداد دہشت گردی سے متعلق دستہ اور خصوصی سیل کا انسداد مسلم کا کارنامہ انجام دیتی ہے ۔ یہ تبصرہ میرا نہیں ہے بلکہ کچھ انصاف پسند ججوں کا ہے۔ جنہوں نے اپنے فیصلے میں کئے ہیں۔ محمد عامر خاں سمیت ۶۱ کیسوں میں مسلم نوجوانوں کو رہا کرتے ہوئے ججوں نے نہ صرف پولیس کے رول پر سخت تبصرے کئے ہیں ان پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کے لئے بھی کہا ہے لیکن ابھی تک کسی پولیس والے کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی ہے۔

                حال ہی میں ایک ایسا ہی فیصلہ سپریم کورٹ کا بھی آیا ہے۔ جس میں ٹاڈا کورٹ سے سزا یافتہ ۱۱ مسلمانوں کوسپریم کورٹ نے بری کیا ہے۔ ان ۱۱ مسلمانوں کو ٹاڈا کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ یہ لوگ بھگوان جگن ناتھ پوری یاترا کے دوران فرقہ وارانہ تشدد پھیلانے کا منصوبہ بنارہے تھے۔ یہ واقعہ ۹ جون ۴۹۹۱ کا ہے۔ سپریم کورٹ نے ۱۱ مسلمانوں کو بری کرتے ہوئے کہا ہے کہ خاص طبقہ یا مذہب کے لوگوں کو ہراساں کرنے کے لیے قانون کا بیجا استعمال نہیں ہونا چاہیے۔عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ سینیئر پولیس افسران اور حکام جن پر قانون نافذ کرنے کی ذمہ داری ہے وہ قانون کو خاص مذہب کے لوگوں کو نشانہ بنانے کے لیے قانون کا غلط استعمال نہ ہونے دیں۔ جسٹس ایچ ایل وتو اور جسٹس چندر مولی کمار پرساد پر مشتمل سپریم کورٹ کی دو رکنی بینچ نے کہا کہ حکام کو ’اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ کوئی معصوم شخص کو محض اس لیے مصیبت میں مبتلا محسوس نہ کرے کہ ’مائی نیم از خان بٹ آئی ایم ناٹ اے ٹیررسٹ‘‘۔شاہ رخ کی ادکاری والی اس فلم میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی تھی کہ نام اگر مسلمان ہے وہ دہشت گرد نہیں ہے بلکہ وہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہے جس میں تمام لوگوں کو مساویانہ طریقہ سے زندگی گزارنے کا حق ہے۔ بینچ نے پولیس افسران پر واضح کردیا ہے کہ محض کسی کو اس بنیاد پر گرفتار نہ کیا جائے کہ وہ مسلمان ہے۔ مسلمان ہونے کی بنیاد پر سیکورٹی ایجنسیاں کا نشانہ بنانا درست نہیں ہے اور نہ ہی اس طرح کے قانون کا کسی مذہب یا فرقہ کے لوگوں کو پریشان کرنے کے لئے استعمال ہونا چاہئے۔ ٹاڈا قانون نرسہما رائو دور حکومت میں مضبوط بنایا گیا تھا اور پوٹا قانون بی جے پی سینئر لیڈر اور وزیر اعظم کا سہانا خواب دیکھنے والے مسٹرایل کے اڈوانی کا پسندیدہ ہے ۰۳ جون ۴۹۹۱ تک صرف ٹاڈا قانون کے تحت ۶۷ ہزار افراد کو گرفتار کیا جاچکا تھا۔ یہ قانون کتنا سیاہ تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ جتنے بھی افراد اس قانون کے تحت گرفتار کئے گئے تھے ان میں سے صرف دو ﴿۲﴾ فیصد ملزموں کو سزا ہوئی باقی ۸۹ فیصد چھوٹ گئے تھے۔ اسی قانون کو جاری رکھنے کے لئے قومی جمہوری اتحاد حکومت نے اس کی جگہ پوٹا قانون نافذ کیا تھا جسے یو پی اے حکومت نے منسوخ کردیا تھا۔یہ دونوں قانون کو مجموعی طور پر مسلمانوں کو پریشان کرنے کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔ اس کا شکار ۹۹ فیصد مسلمان ہی ہوئے ہیں۔ اس کی زد میں نہ صرف بچے آئے تھے بلکہ ضعیف کو بھی دبوچا گیا تھا۔ گجرات کے اس فرضی منصوبہ میں ۲۵ افراد کو گرفتار کیا گیا جس میں گجرات ٹاڈا عدالت نے ۱۴ افراد کو بری کرتے ہوئے ۱۱ ۔افراد کو سزا کا مستحق قرار دیا تھا جس کے خلاف مسلمانوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔ ۱۳ جنوری ۲۰۰۲ کو سپریم کورٹ میں ان لوگوں نے اپیل کی جس کا فیصلہ ۶۲ ستمبر ۲۱۰۲ کو آیا ہے۔ سپریم کورٹ میں اتنے طویل عرصہ تک یہ مقدمات چلے ۔یہ طویل عرصہ خود انصاف کی نفی کرتا ہے۔ اگر کسی شخص کو ۶۱ برس کا عرصہ بے گناہی ثابت کرنے میں گزر جائے تو اسے انصاف کیوں کر کہا جاسکتاہے اور اس طویل عرصہ کے دوران جتنے لوگوں کا خاندان تباہ ہوا اس کی ذمہ داری کس پر ہوگی؟۔ عدالت، پولیس، حکومت ۔

                ہندوستان میںمسلمانوں کو گرفتار کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ انہیں کسی سازش رچنے کے الزام میں گرفتار کرلیا جائے۔ خواہ اس کی حقیقت کچھ ہو یا نہ ہو۔ بعض مسلمان یہ سوچتے ہیں کہ گرفتار کیا گیا ہے توکچھ نہ کچھ ضرور ہوگا ، ہمیں کیوں نہیں گرفتار کیا گیا ہے ، یا فلاں کو کیوں نہیں پکڑا گیا وغیرہ وغیرہ لیکن یہ سوچ لیجئے کہ کل آپ کی، ہماری یا کسی اور کی باری آسکتی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے جب آپ کو پکڑا جائے تو بچانے والا کوئی نہ رہے۔ خفیہ ایجنسی سب کو ایک ساتھ نہیں پکڑ سکتی ورنہ وہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہوجائے گی وہ پہلے اپنے مخبروں کو پکڑتی ہے اور پھر اس کے شناسا کو اور پھر اس کے موبائل میں کسی کا نمبر موجود ہے تو پھر اس کو حراست میں لیتی ہے ۔پہلے طے کرتی ہے کہ کس کو نشانہ بنایا جائے۔ پھر اس کے بعد گرفتاری کرتی ہے ،الزام گڑھتی ہے اور الزام کے حساب سے ثبوت تیار کرتی ہے۔ ہندوستان کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ نہ صرف جھوٹے گواہ تیار کئے جاتے ہیں بلکہ فرضی ِثبوت بنانے کے بہت سارے اڈے ہیں۔ گزشتہ دنوں بنگلور، نانڈیڑ، حیدرآباد اور بہار سے درجنوں نوجوانوں کی گرفتاری اس بات کا ثبوت ہے کہ خفیہ ایجنسی کے افسران اپنی کارکردگی ثابت کرنے اور پرموشن پانے کے لئے اندھا دھند مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرتے ہیں کیوں کہ عدالت اس سے نہیں پوچھتی کہ گرفتار کرنے کے ثبوت کیا ہیں اس کی بنیاد کیا ہے۔ اگر عدالت پہلے ہی مرحلے میں ثبوت طلب کرلے تو اندھا دھند گرفتاریوں کا سلسلہ بند ہوسکتا ہے جس طرح دیگر ممالک میں ہوتا ہے جب تک اس کے خلاف پختہ ثبوت نہیں مل جاتے اس وقت تک اس پر صرف نگرانی کی جاتی ہے۔ ہندوستان میں کوئی بھی سیکورٹی ایجنسی جواب دہی کے دائر ہ میں نہیں آتی ہے۔ خصوصاًدہلی اسپیشل سیل کا نام اینٹی مسلم اسپیشل سیل رکھ دینا چاہئے کیوں کہ اس کا کارنامہ مسلم نوجوانوں زندگی اجیرن بنانے تک محدود ہے۔ عدالت نے بھی اس کے رول پر سخت تبصرے کئے ہیں لیکن حکومت اس کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔

                مسلمانوں کے خلاف کس قدر گہری سازش کی جاتی ہے اس کا اندازہ حیدرآباد کے مکہ مسجد، مالیگائوں، سمجھوتہ ایکسپریس، اجمیر، نانڈیڑ اور دیگر مقامات پر ہونے والے بم دھماکے سے انداز ہ ہوتا ہے۔ حکومت، پولیس، انتظامیہ کے متعصب اورامتیازی سلوک روا ررکھنے کا اس سے کھلم کھلم اور واضح ثبوت اور کیا ہوسکتاہے کہ ابتدائ میں تمام جگہوں پر مسلم نوجوانوں کی گرفتاری عمل میں آئی تھی اور طویل عرصہ تک مسلم نوجوان ناکردہ گناہوں کی پاداش میں جیل میں رہے ہیں۔ ایک بار نہیں درجنوں بار غیر مسلموں کو ٹنوں باردو اور دھماکہ خیز اسلحہ کے ساتھ گرفتار کیاگیا لیکن ان لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ کوئی ہفتہ یا مہینہ نہیں گزرتا ہوگا جب غیر مسلموں کو غیر قانونی اسلحہ اور دھماکہ خیز مادہ کے ساتھ گرفتار نہ کیا جاتا ہو لیکن اس کی گرفتاری کی بات آئی گئی ہوجاتی ہے۔ مسلم نوجوانوں کی جب بھی رہائی عمل میں آتی ہے تو اس کے فوراً بعد ایک کے بدلے تین چار مسلم نوجوانوں کو خفیہ ایجنسیاں ضرور گرفتار کرتی ہیں۔ نومبر ۱۱۰۲ میں جب مالیگائوں بم دھماکے میں مسلم نوجوانوں کو رہا کیا گیا تھا اس کے بعد بہار کے درجنوں مسلم نوجوانوں کی گرفتاری عمل میں آئی تھی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اسی طرح ۸۲ اگست ۲۱۰۲ کو نرودا پاٹیہ قتل عام کے خاطیوں کو سزا سنائی گئی تو اس کے بعد فوراً کرناٹک میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاری شروع ہوگئی تھی۔ اب سپریم کورٹ نے ٹاڈا کے تحت ۱۱ مسلمانوں کو رہا کیا ہے اب نہ جانے ملک کے کس حصے میں مسلمانوں پر قیامت ٹوٹتی ہے۔ یہ سوچ بھی بے بنیاد ثابت ہوئی کہ خفیہ ایجنسیوں کے افسران کے رویے میں تبدیلی آئی ہے اور وہ کسی کارروائی کو مسلم دہشت گردانہ کارروائی کی شکل میں نہیں دیکھتے ۔ اس طرح کی خبر ایک قومی انگریزی روزنامہ میں شائع ہوئی تھی اور اس پر ایک اردو کے بڑے اخبار نے اداریہ بھی لکھا تھا جس میں تعریف و توصیف کے پل باندھے گئے تھے اور مستحسن قدم بتایا تھا۔

                سپریم کورٹ کا فیصلہ اگر قابل تعریف ہے تو دوسری طرف سپریم کورٹ بھی میں تقریباً دس سال تک مقدمہ چلا۔ اس کے اخراجات اور اہل خانہ کی پریشانیوں کو شمار کریں تو عجب و غریب احساس ہوتا ہے کہ اس فیصلہ پر خوشی منائیں یا غم۔ لیکن عدالت عظمی نے پولیس افسران پر جس طرح کا تبصرہ کیا ہے وہ یقینا نہ صرف قابل تحسین ہے بلکہ اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے تمام مسلم تنظیموں کو میدان عمل کود جانا چاہئے اور اپنا احتجاج و پروگرام اس وقت جاری رکھنا جب تک پورے ملک میں ایسے خاطی پولیس افسران کو انصاف کی دہلیز تک آنے پر مجبور نہ کردیا جائے۔ مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کا سلسلہ اس وقت تک بند نہیں ہوگا جب تک مسلمان ان متعصب پولیس افسران کے خلاف میدان میں نہیں آئیں گے۔ پولیس افسران کے لئے سہولت کی بات یہ ہوتی ہے یہ من گھڑت الزام لگاتے ہیں کہ فلاں کے خلاف سازش کر رہاتھا۔ ایک وقت تھا کہ گجرات قتل عام کے بعد جتنے بھی مسلم نوجوان گرفتار کئے جاتے تھے ان پر یہ الزام عائد کردیا جاتا تھا کہ وہ مودی کو مارنے آیا تھا۔ اس کے خلاف نہ تو کوئی ثبوت کی ضرورت ہوتی تھی اور نہ ہی کسی کے سامنے جواب دہی کی۔ رہی بات تو قبول کرنے کی جو طریقہ اپنایا جاتا ہے اگر وہی طریقہ اپنایا جائے تو ملک کے سارے شہری بشمول سیاسی لیڈران یہاں تک کے وزیر اعظم اور کابینہ کے وزیر اس کی زدمیں آجائیں گے سب لوگ وہی کہیں گے جو تفتیشی ایجنسیاں کہلوانا چاہتی ہیں۔ اس لئے اس طرح کے طریقہ کار پر تمام مکتب فکر کو سخت موقف اختیار کرنا ہوگا ورنہ یہ گرفتاری کا سلسلہ کبھی ْختم نہیں ہوگا اور تنظیم والے بیان دے کر، مذمت اور خیرمقدم کرکے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوتے رہیں گے۔

                 D-64/10 Abul Fazal Enclave Jamia Nagar, New Delhi- 110025

Mob. 9810372335,

abidanwaruni@gmail.com

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *