Home / Socio-political / ٹوپی ڈرامہ۔تخلیق کارکون؟

ٹوپی ڈرامہ۔تخلیق کارکون؟

ٹوپی ڈرامہ۔تخلیق کارکون؟

سمیع اللہ ملک

عدلیہ اورحکومت کی محاذآرائی کااونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، موجودہ حکومت آج تک عدلیہ کے تمام فیصلوںپرعملدرآمدسے گریزکی پالیسی اختیارکرتے ہوئے بظاہرعدلیہ کے احترام کے جودن رات گن گاتی ہے، آخرملک وقوم کواس منافقت اورعذاب سے کب نجات ملے گی ۔ بدھ ۸/اگست کوسپریم کورٹ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے توہین عدالت ایکٹ کے سیکشن ۱۷کے تحت اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کرتے ہوئے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو۲۷ اگست کو ذاتی طور پر عدالت میں طلب کرتے ہوئے اٹارنی جنرل عرفان قادر سے کہا تھاکہ اگر اس عرصے کے دوران این آر او سے متعلق عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کے بارے میں کوئی قابل قبول پیش رفت ہوئی تو عدالت اس پر نرم رویہ بھی اختیار کرسکتی ہے۔

عدالت نے اپنے حکم نامے میں یہ بھی کہا تھا کہ سپریم کورٹ نئے وزیر اعظم کو پہلے ہی کافی وقت دے چکی ہے لیکن بدقسمتی سے ملک کے چیف ایگزیکٹو کی جانب سے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد میں تاخیری حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے۲۷ جون کو سماعت کے دوران سوئس حکام کو خط لکھنے سے متعلق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سے جواب طلب کیا تھا۔۲۵ جولائی کو عدالت نے وزیر اعظم کو صدر آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات دوبارہ کھولنے کے لیے سوئس حکام کو خط لکھنے سے متعلق ۸/ اگست تک آخری مہلت دی تھی ۔ عدالت نے اپنے مختصر حکم نامے میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ اسی مقدمے میں عدالتی احکامات کی حکم عدولی پر انہیں بطور رکن قومی اسمبلی نااہل قرار دیا گیا تھا جس کی وجہ سے انہیں وزارت عظمی سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔

 سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل عرفان قادر نے عدالت سے سماعت کو ستمبر کے پہلے ہفتے تک ملتوی کرنے کی استدعا کی تھی تاہم عدالت نے کہا کہ پہلے ہی دو ہفتے کی مہلت دی جاچکی ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ جہاں عدالت نے اتنا وقت دیا ہے وہاں تھوڑا اور وقت دے دیا جائے اور اس کی سماعت ستمبر کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی جائے تا کہ وہ دونوں اداروں کے درمیان خلیج کو کم کرنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھ سکیں۔عدالت نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ وزیر اعطم نہ تو عدالتی احکامات پر عملدرآمد کر رہے ہیں اور نہ ہی کوئی جواب داخل کرایا گیا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ نئے توہین عدالت کے قانون کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت میں مقدمے میں مصروف تھے جس کے باعث وزیر اعظم سے ملاقات نہیں ہو سکی جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ پھر وزیر اعظم کی طرف سے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد سے متعلق جواب ہی سمجھیں۔بینچ میں موجود جسٹس امیر ہانی مسلم نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ملاقات ہو بھی جاتی تو شائد آپ کا بیان اس سے مختلف نہ ہوتا جو آج دے رہے ہیں۔

اس فیصلے کے آنے کے فوری بعدپاکستان کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے سینیٹر فیصل رضا عابدی نے جس طرح سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے کردار اور ان کے صاحبزادے کی مبینہ مالی بے ضابطگیوں کے بارے میں کھل کر باتیں کی، اس سے عندیہ ملتا ہے کہ حکومت نے اب فرنٹ فٹ پر کھیلنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔فیصل رضا عابدی نے پیپلز پارٹی سیکریٹریٹ میں جو پریس کانفرنس کی اس کی الیکٹرانک میڈیا نے اتنی کوریج نہیں کی جتنی مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان الزام تراشیوں میں دلچسپی لی البتہ پرنٹ میڈیا میں الیکٹرانک میڈیا کی نسبت ان کی کوریج قدرِ بہتر رہی۔

جس انداز میں انہوں نے پریس کانفرنس کے لیے پیپلز سیکرٹیریٹ کی جگہ منتخب کی اور پی ٹی وی نے ان کی کوریج کی، اس سے تو لگ رہا تھا کہ یہ ایک حکمت عملی کا حصہ ہے لیکن پیپلز پارٹی نے نوٹس لیتے ہوئے فیصل رضا عابدی سے وضاحت طلب کر لی تھی جس کاتاحال کوئی فیصلہ سامنے نہیںآیا۔فیصل رضا عابدی نے اپنی پریس کانفرنس کی شروعات اس نکتے سے کی کہ ’’عدالت سپریم ہے یا پارلیمان؟ پارلیمان ایک لانڈری ہے جو سیاستدانوں اور ججوں کے گناہوں کو صاف کرتی رہی ہے اس لیے پارلیمان سپریم ہے۔انہوں نے چیف جسٹس پران کے بیٹے ارسلان کے حوالے سے کئی الزامات لگاتے ہوئے ۲۰۰۰ء کے سید ظفر علی شاہ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے کے مطابق میاں نواز شریف نے چھ ارب روپے سرکاری خزانے کو نقصان پہنچایااور سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے دستخط بھی موجودہیں۔  وہ ساڑھے تین برس سے وہ صرف پیپلز پارٹی کے خلاف مقدمات سن رہے ہیں۔چیف جسٹس چھ ارب واپس کروانے کی کارروائی نہیں کرتے لیکن ڈیڑھ ارب کے لیے ایک وزیراعظم کو گھر بھجوادیا اور دوسرے کے خلاف بھی کارروائی ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا:ماضی سب کا خراب ہے ماضی کو چھوڑیں ۔ حکومت اور عدلیہ کی کشیدگی بظاہر تو بڑھتی نظر آتی ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ تادم تحریر سپریم کورٹ یا چیف جسٹس نے اس پریس کانفرنس کا نوٹس نہیں لیا لیکن حکومت نے رضا علی عابدی سے خانہ پری کیلئے وضاحت توطلب کر لی لیکن اس معاملہ پرمزیدکوئی کاروائی نہیںہوسکی ۔

آج سپریم کورٹ میں این آر او پر عمل درآمد کیس میں توہین عدالت کے مقدمے کی سماعت کے دوران وزیراعظم راجہ پرویز اشرف عدالت میں پیش ہوئے جہاں عدالت نے انہیں مشاورت کے لیے۱۸ ستمبر تک کی مہلت دے دی ہے۔عدالت کا کہنا ہے تھا کہ وزیرِاعظم سے صدر زرداری کے خلاف مقدمات دوبارہ کھولنے کے لیے سوئس حکام کو خط لکھنے کے لیے وعدہ مانگا تھا لیکن انہوں نے سنجیدہ کوششیں کرنے کا ذکر کیا ہے لہذا انہیں مہلت دی گئی ہے۔عدالت کا کہنا تھا کہ عدالت میں پیش ہونا عدالتوں کا احترام نہیں بلکہ عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کرنا احترام ہے۔وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف نے عدالت نے کہا کہ انہیں ابھی یہ عہدہ سنبھالے ہوئے صرف ۶۰ دن ہوئے ہیں اور ملکی صورتحال بھی کچھ اچھی نہیں ہے۔ اس لیے ان کے چار ہفتے مزید وزیرِ اعظم رہنے سے عدالت کو فرق نہیں پڑے گا،اس پر عدالت کا کہنا تھا کہ ملکی صورتحال کے علاوہ یہ مسئلہ بھی اتنا ہی اہم ہے۔ عدالت نے وزیرِ اعظم سے کہا کہ وہ کسی اور کو خط لکھنے کے لیے اختیار دے دیں۔ تاکہ انہیں عدالت بار بار طلب نہ کرے۔ تاہم وزیرِ اعظم نے کسی کو نامزد نہیں کیا اور عدالت نے انہیں اٹھارہ ستمبر کو دبارہ طلب کر لیا ہے لیکن

یادرہے اس سے پہلے کراچی میںایم کیوایم اور پیپلز پارٹی میںجب اختلافات انتہائی سنگین ہوگئے تھے اوراس وقت بھی ترپ کے پتے کے طورپرذوالفقارمرزاکوبڑی خوبصورتی کے ساتھ استعمال کیا گیا تھا ۔ بظاہر ذوالفقار مرزاکی کھلی بغاوت نے سب کوانگشت بدنداںکردیاتھالیکن زرداری صاحب کی سیاست کے رازداںاورامین بخوبی سمجھ گئے تھے کہ یہ ساراٹوپی ڈرامہ کس نے کیوںرچایا۔مرزاصاحب کی اسمبلی کی نشت خالی ہونے پران کے بیٹے کوپارٹی ٹکٹ دیکرکامیاب کرانے کے بعدتوکسی شک وشبے کی ضرورت باقی نہیںرہی تھی، اس لئے فیصل رضاعابدی کے ٹوپی ڈرامے کے تخلیق کار بھی وہی ہیںجنہوںنے اس سے قبل مرزا ذوالفقار کواستعمال کیاتھا۔عدلیہ نے توایک مرتبہ پھراس جمہوری نظام کوبچانے کیلئے موقع فراہم کردیاہے لیکن فیصل رضاعابدی نے ایک مرتبہ پھرعدالتی تضحیک کاموقع ہاتھ سے جانے نہیںدیا۔اب دیکھنایہ ہے کہ آئندہ عدلیہ اورموجودہ حکومت کی لڑائی میںکس کاستیاناس ہوتاہے۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *