Home / Socio-political / ٹیم انا کا سیاسی پارٹی بنانے کا اعلان: آخر بلی تھیلے سے باہر آہی گئی

ٹیم انا کا سیاسی پارٹی بنانے کا اعلان: آخر بلی تھیلے سے باہر آہی گئی

ٹیم انا کا سیاسی پارٹی بنانے کا اعلان: آخر بلی تھیلے سے باہر آہی گئی

تیشہ فکر عا بد انور

                        خواب دیکھنا کوئی بری بات نہیں ہے۔ ہر انسان کو یہ حق حاصل ہے وہ سہاناخواب دیکھے لیکن کوئی شخص ملک و قوم کی قیمت پر خواب نہیں دیکھ سکتا اور نہ ہی اپنی ناجائزآرزو کی تکمیل کیلئے ملک وقوم کا استحصال یااستعمال کرسکتا ہے۔ ہندوستان میں جتنی بھی تحریکیں چلی ہیں اس کا مقصد معاشرتی تبدیلی یا برائیوں کے خلاف جنگ کبھی نہیںرہا بلکہ وہ صرف اور صرف اقتدار کی تبدیلی تک محدود رہی ۔  تحریک چلانے والوں یا اس کے پس پردہ کام کرنے والوں کی منشا یہی رہی ہے کہ ایک چور کو ہٹاکردوسرے ڈاکو کو بٹھادیا جائے۔ ہندوستان کی سیاست میں یہی ہوتا رہا ہے۔ کسی بھی تحریک پر نظر ڈالیں تووہ ہمیشہ بدعنوانی کے خلاف ہی شروع ہوئی اور منتج اقتدار کی تبدیلی پر ہوئی ہے وہ چاہے جے پرکاش کی تحریک ہو یا ۱۹۸۹ کی وی پی سنگھ کی بوفورس اور بدعنوانی کی خلاف تحریک ۔ یہاں کے معاشرے یا عوام میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ البتہ یہاں کے عوام میں فرقہ پرستی کا زہر ضرور سرایت کرگیا جو آر ایس ایس کی دلی خواہش تھی ۔جو آر ایس ایس ۱۹۲۵ میں اپنے قیام سے اب تک نہیں کرسکی تھی اس نے کم از کم ان دو تحریکوں کے توسط سے انجام دے دیا۔ اس طرح کی جتنی بھی تحریکیں چلیں وہ آر ایس ایس کی حمایت سے ہی عروج پر پہنچیں اگر آر ایس ایس نے ہاتھ کھینچ لیا تو زندہ درگور ہوگئیں۔ اس لئے کسی بھی تحریک کی حمایت یا مخالفت کرنے سے پہلے اس تحریک کے پس منظر اور مضمرات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ یہ مسلمانوں کی کوئی تحریک نہیں ہوتی کہ راتوں رات طے کیا اور سڑکوں پر اچھل کود کر چلے گئے ۔ پھر اس کے بعد اس کا کوئی پتہ نہیں ہوتا کس لئے آئے تھے کیا کرگئے اور کیا کریں گے۔ انا کی تحریک ہو رام دیو کی اس کا مقصد کہیں پر نگاہیں کہیں پر نشانہ ہوتا ہے۔ بظاہر دیکھنے اور سننے میں یہ چیزیں بہت اچھی لگتی ہیںلیکن جب بھی نتائج پر غور کریں گے تو صرف اور صرف یہ تحریکیں سنگھ پریوارکو فائدہ پہونچانے والی ور ان کی مردہ جسموں میں جان ڈالنے والا ہوتی ہیں۔

                        انا ہزارے کی ٹیم نے بھی ایک خواب دیکھا ہے ۔ خواب بری نہیں ہے ۔ بری چیز یہ ہے کہ اس خواب کو اجاگر کرنے کے لئے جو انہوں نے تمہید باندھی تھی وہ بری ہے۔ راست سیاسی پارٹی بناتے اور ایجنڈا بدعنوانی ہوتا تو ہوسکتا ہے کہ بہت سارے لوگ خیرمقدم کرتے اور بہت سا دانشور طبقہ جو ووٹ دینے کے لئے کبھی باہر نہیں نکلتا اس کی حمایت میں سامنے آتالیکن جس طرح انا ٹیم کے کارندے نے اپنی خواہش کوبدعنوانی کے صفایا کی آڑ میں ظاہر کیا ہے اس سے عام لوگوں کو اعتراض ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یا تو وہ ہندوستانی عوام کو نہیں جانتے یاتجاہل عارفانہ کا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ یہاں بدعنوانی کی جڑیں مذہب میں پیوست ہیںجو کسی طرح سے بھی نہیں اکھاڑی جاسکتیں۔ جہاںبدعنوانی سے زندگی سے شروع ہوتی ہو اور بدعنوانی پر ختم ہوتی ہو تو کیا وہاں ممکن ہے کہ بدعنوانی ختم ہوجائے گی۔ بدعنوانی کا خاتمہ گولر کے پھول کے نظارے جیساہے۔ ٹیم انا اگر تمام تر توجہ بدعنوانی کے خلاف مرکوز کرتی تو اس میں کچھ نہ کچھ کامیابی ضروری ملتی۔لیکن کہتے ہیں کہ دل کی خواہش بہت دیر تک چھپی نہیں رہتی وہ باہر آکر ہی دم لیتی ہے ۔ ٹیم انا کی دیرینہ خواہش باہر آہی گئی۔ اس نے بدعنوانی سے لڑنے اور اس پر فتح پانے کے لئے بدعنوانی کے دلدل میں اترنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ انہوں نے جنتر منتر پر ختم ہونے والے احتجاج میں یہ فیصلہ کرلیا کہ گونگی بہری سرکار کو جگانے کے لئے سیاست میں آنا ہی ہوگا۔ ٹیم انا نے اپنی غیر معینہ بھوک ہڑتال کے خاتمے کا اعلان ایک سیاسی پارٹی بنانے کے فیصلہ پر کیا۔ ہندوستان میں سیاسی جماعتوں کی کمی نہیں ہے۔ یہ جمہوری ملک ہے یہاں سب کو حق حاصل ہے کہ وہ سیاسی پارٹی بناکر یا کسی سیاسی پارٹی سے منسلک ہوکر اپنی سیاسی سرگرمیوں کو انجام دیں ۔ لیکن اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لئے کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ عوامی جذبات و احساسات کا استعمال کرے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بدعنوانی ہر ہندوستانی کا مسئلہ ہے اور یہاں ہر آدمی کسی نہ کسی صورت میں اس سے متاثر ہے لیکن خود بدلنے کی بجائے حالات کو بدلنے سے یہ مسئلہ حل ہوجائے گا؟۔ ٹیم انا کی نیت شروع سے ہی ٹھیک نہیں تھی۔ اس کا نشانہ صرف ایک مخصوص سیاسی جماعت پر رہا ۔ اگر وہ سارے سیاسی جماعت اور ساری حکمراں پارٹی کو نشانہ بناتی تو عوام یہ سمجھتے کہ ٹیم انا صرف بدعنوانی کے خلاف جنگ کر رہی ہے ۔اس کی جنگ بدعنوانی کے خلاف ہے کسی شخص یا جماعت کے خلاف نہیں۔ گجرات جہاں چالیس ہزار کروڑ روپے کا گھپلہ ہوا ہے اس کے بارے میں یہ ٹیم مکمل خاموش رہی بلکہ نریندر مودی کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتی رہی۔ مدھیہ پردیش جہاں گھپلوں کا سلسلہ دراز ہے ایک چپراسی اور کلرک کے یہاں سے کروڑوں روپے کی جائدادیں برآمد ہورہی ہیں یہاں بھی ٹیم انا خاموش رہی۔ کرناٹک کا کوئلہ ، زمین اور دیگر گھپلے پر بھی ٹیم انا کی زبان سے کچھ نہیں نکلا۔بہار جہاں صرف میڈیا کے سہارے بہترین حکمرانی ہورہی ہے اور جہاں بدعنوانی اور رشوت ستانی عروج پر ہے ٹیم انا کی نظر میں سب سے بہتر حکمرانی ہے۔

                        ٹیم انا کا زوال اسی دن شروع ہوگیا تھا جب اس نے ۲۰۱۱ میں حصار کے ضمنی انتخاب میں کانگریس کے خلاف محاذ سنبھالا تھا لیکن بھرم اس دن ٹوٹ گیا جب انا ہزارے کواپنی آبائی ریاست مہاراشٹر میں ناکامی ہاتھ آئی اور ۲۷ دسمبر ۲۰۱۱ کے احتجاج میں بھیڑ جمع نہیں ہوئی۔ ممبئی میں اس کے لئے تمام تر تیاریاں کی گئی تھیںلیکن مجمع ندارد تھا۔انا کے حامیوں کو عزت بچانے کے لئے لوگوں سے ’’صرف ایک بار‘‘ وہاں آنے کی اپیل کرنی پڑی تھی ۔آخری چند گھنٹوں میں اچانک بہت سارے لوگ جمع ہوگئے تھے لیکن یہ بھیڑ بھی بھیجی ہوئی تھی۔ اس کے پیچھے سنگھ پریوار تھا ۔ ممبئی کے مایوس کن کارکردگی کے بعد یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ ٹیم انا کے غبارے سے ہوا نکلنا شروع ہوگئی ہے۔ جنتر منتر جہاں گزشتہ سال اپریل لاکھوں لوگوں کی بھیڑ تھی وہاں بہ مشکل ایک ڈیڑھ ہزار لوگ موجود تھے۔ اس کے لئے بھی ٹیم انا کو بہت محنت کرنی پڑی اور لوگوں کو گھروں سے نکلنے کے لئے اپیل تک کرنی پڑی۔ اس کے باوجود بھیڑ اکٹھا نہیں ہوئی۔ چوتھے دن انا ہزارے بھوک ہڑتال پر بیٹھے لیکن بھیڑ میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا۔ رام دیو جس دن آئے اپنے ساتھ سوابھیمان ٹرسٹ سے منسلک افراد کو لے کر آئے تو اس سے کچھ مجمع میں اضافہ ہوا لیکن بابا رام دیو کے جاتے ہی بھیڑ بھی اس کے ساتھ چلی گئی۔ عوامی حمایت میں کمی ہوتی گئی اور انا ہزارے کی بھوک ہڑتال جتنی لمبی چلتی مجمع میں کمی اسی حساب سے ہوتی۔ اس کے علاوہ اس دوران حکومت نے بھی اس بھوک ہڑتال پر کوئی توجہ نہیں دی۔ ٹیم انا کے ارکان اور خاص طور پر اروند کیجری وال نے جس طرح لیڈروں اور پارلیمنٹ کے بارے میں غیر مہذب زبان کا استعمال کیا اس سے بھی اس کی حمایت میں کمی آئی۔ غیر جانبدار لوگوں کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ ٹیم انا کا مقصدکرپشن سے لڑنا نہیں ہے بلکہ اس کی آڑ میں وہ سنگھ پریوار کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ اس ٹیم نے سنگھ پریوار سے وابستہ کسی پارٹی پر حملہ نہیں کیا ہے۔

                        ٹیم انا پر شروع سے ہی سنگھ پریوار اور اس سے وابستہ تنظیموں کی حمایت کا الزام لگتا رہا ہے۔جس کا بعد میں خود آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے اعتراف کیا کہ ان کی تنظیم کی نے ٹیم انا کی حمایت کی تھی ورنہ اتنی بھیڑ جمع نہیں ہوتی اور نہ ہی میڈیا چوبیس گھٹنے ٹیم انا کا راگ الاپتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیم انا کو ابتداء سے آر ایس ایس اور اس سے وابستہ تنظیموں کی حمایت حاصل رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیم انا ان لوگوں کے خلاف کچھ بھی بولنے سے گریز کرتے رہے۔ ٹیم انا نے کبھی بھی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے بارے میں ایک لفظ نہیں کہا۔ آسام میں جاری فسادات کے بارے میں بھی جس میں بی جے پی حمایت یافتہ بوڑو فرقہ مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہے اس کے بارے میں ٹیم انا نے کوئی بیان نہیں دیا۔ ٹیم انا کی تحریک مسلمانوں کے نزدیک ہمیشہ مشتبہہ رہی۔ پہلی بات تو یہ کہ ٹیم انا میں کوئی ایسا مسلم چہرہ نہیں تھا کہ جو جانا پہچانا ہو یا مسلمانوں کے لئے کوئی کام کیا ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ ٹیم انانے مسلمانوں کے بارے میں کبھی کچھ نہیں کہا۔ البتہ مسلمانوں پر ظلم ڈھانے والوں کی حمایت اور تعریف و توصیف ضرور کی۔ اس کے علاہ ٹیم انا کے فلاپ ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں دلتوں کی نمائندگی نہیں تھی۔ دلت طبقہ اس تحریک سے ہمیشہ دور رہا۔ دلت اور مسلم طبقہ کو شامل کرلیں تو دو تہائی سے زائد طبقہ ایسا ہے جو ٹیم انا سے منسلک نہیں ہے۔ ٹیم انا نے کبھی بھی ان لوگوں سے مکالمہ کرنے کی کوشش نہیں کی یا اپنے آپ کو عملی طور پر یہ ثابت نہیں کرسکے کہ وہ دلت اور مسلمانوںپر ہونے والے مظالم کے خلاف ہیں۔ ہندوستان میں کوئی بھی تحریک یا معاملہ دلتوں اور مسلمانوں کی مرضی کے بغیر پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ ٹیم انا نے شوسل میڈیا اور میڈیا میں مقبولیت کو اپنی کامیابی کا پیمانہ تصور کرلیا جو اس کی سب سے بڑی بھول ہے۔ ہندوستان میں بھیڑکبھی کسی کی کامیابی یا ناکامی کا پیمانہ نہیں ہوتی۔ ہندوستان میں بے روزگاروں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور لوگ گھوم پھرتے بہت نظر آتے ہیں کہیں کوئی بات پیش آجاتی ہے تو سیکڑوں لوگوں کی بھیڑ فوراً جمع ہوجاتی ہے اس مطلب حامیوں کا جمع ہونا نہیں ہوتا۔ گزشتہ اگست میں دہلی کے رام لیلا میدان میں جب پہلی بار بارش ہوئی اور لوگ جانے لگے ٹیم انا کے ایک ساتھی نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ جو اس وقت میدان کو چھوڑ کر جائے گا، وہ اپنے والد کی اولاد نہیں۔اس سے بھی لوگ ٹیم کی منشا کو سمجھ گئے۔

                        انا ہزارے نے ٹیم انا کو تح۔لیل کرکے ایک سیاسی پارٹی بنانے کا اعلان کردیا ہے ان کے مطابق لوگوں نے ہزاروں پارٹی کے ہزاروں کے نام بھیجے ہیں اور جلد ہی نام کا اعلان کردیا جائے گا۔ سوال یہاں پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستان کی سیاست گندی کا ایک ڈھیر ہے اس میں سے اناہزارے صاف ستھرے لوگوں کو کہاں سے لائیں گے۔ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کے مطابق ہندوستان میں ۷۵ فیصد لوگ بدعنوانی میں کسی نہ کسی طرح ملوث ہیں یعنی یا وہ رشوت دیتے ہیں یا لیتے ہیں۔اس کے علاوہ پارلیمانی الیکشن میں ایک امیدوار کو ۱۵ سے ۲۰ کروڑ روپے خرچ کرنے ہوتے ہیں انا ہزار اتنے پیسے کہاں سے لائیں گے۔ الیکشن میں عام طور پر کالا دھن اور بدعنوانی کے ذریعہ حاصل کئے گئے پیسے خرچ ہوتے ہیں کیا انا ہزارے کی پارٹی بھی اسی طرح سے پیسے حاصل کرے گی۔انا کہتے ہیں کہ وہ الیکشن لڑنے کے لئے اچھے لوگوں کا انتخاب کریں گے۔ ان کی نظر میں ’’اچھے‘‘لوگوں کی تعریف کیا ہے؟ اتنی بڑی تعداد میں وہ کیسے، کہاں سے اچھے لوگوں کا انتخاب کریں گے، جنہیں عوام بھی اتنا ہی قابل اور بااعتبار تسلیم کرسکے جتنا کہ انا کو؟ اب تک تمام سیاسی جماعتیں بھی تو اسی طرح کی کسرت کرتی آئی ہیں اور آخر میں وہ کبھی ذات، تو کبھی زبان، کبھی مذہب، تو کبھی علاقے یا پھر کبھی کسی لہر میں بھٹک جاتی ہیں اور اسی دلدل میں پھنس جاتی ہیں جس کے خلاف میدان انہوں نے میدان کارزار میں قدم رکھا تھا۔ اس کے علاوہ انا کا نظریہ کیا ہوگا کیوں کہ ٹیم انا میں مختلف جہات رکھنے والے لوگ ہیں۔ زیادہ بیشتر لوگ اپنے اپنے پیشے کو چھوڑ کر آئے ہیں حالانکہ وہ اپنے اپنے پیشے میں بدعنوانی کے خلاف مؤثر طریقے سے لڑائی لڑسکتے تھے لیکن انہوں نے راہ فرار اختیار کرکے اس آسان راستہ (تحریک) کو کیوں منتخب کیا۔ کیوں کہ سب لوگ جانتے ہیں کہ تحریک سے صرف دباؤ ڈالا جاسکتا ہے قدم اٹھانے کے لئے مجبور کیا جاسکتا ہے مسئلہ حل نہیں ہوتا ۔تو پھر ان لوگوں نے ایسا کیوں کیا۔

                        بابارام دیو سنگھ پریوار کے اشارے پر اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں اور حکومت نے ابھی تک گھاس نہیں ڈالا ہے حالانکہ اس سے قبل بابارام دیو سیاسی پارٹی بنانے کا اعلان کرچکے ہیں لیکن وہ ابھی تک وجود نہیں آئی ہے اور اناہزارے بازی مار لے گئے۔ بابارام دیو کو کالادھن کے خلاف تحریک چلانی ہے تو پہلے انہیں باباؤں اور مٹھوں کے خلاف تحریک چلانی چاہئے کہ کیوں کہ سب سے زیادہ کالادھن باباؤں اور مٹھوں کے پاس ہے۔ سب سے زیادہ جرائم میں مبتلا بابا اور مٹھوں کے ارکان ہیں ۔ ہندوستان میں سب سے زیادہ زمینیں اگر ہیں وہ مٹھوں اور باباؤں کے پاس ہیں۔ ہندوستان کی نصف آبادی کو گھر مہیا نہیں ہے وہاں مٹھوں کے بابا ساری زمین، دولت اور پیسہ پر ناگ کی طرح کنڈلی مار کے بیٹھے ہیں۔ خود بابا رام دیو کو ہیلی کاپٹر سمیت جتنے اشیاء دان میں دئے گئے ہیں وہ پیسے دان دینے والوں کے پاس کہاں آئے کیاانہوں نے جائز کمائی سے اتنا بڑا تحفہ دیا ہے؟۔ ہندوستان کی سب سے بڑی بدقسمتی یہی ہے وہی لوگ اس برائی کے خلاف تحریک چلاتے ہیں جس میں وہ اوپر سے نیچے تک ملوث ہوتے ہیں۔

ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔

9810372335

abidanwaruni@gmail.com

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

One comment

  1. بہت صحیح کہا بھاءی آپنے مناسب تجزیہ کیا ہے ٹیم اناکا۔ بہت خوب۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *