عباس ملک ،پاکستان
ملک میں صوبائی تقسیم کے حوالے سے شدت آچکی ہے ۔مشرف دور کے آخری سالوں میں ایک کالم کے ذریعے اس مسلہ کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی تھی ۔اس وقت بھی امریکی ایجنڈے کے زیر اثر اور امریکی مفادات کے ترجمان سیاستدانوں کو یہ باور کرانے کی سعی تھی کہ اپنی ماں کے سر سے چادر نہ مت کھینچو ماں عزت سے محروم ہو جائے گی اورتم ماں سے محروم ہو جاؤگے ۔امریکہ اور پاکستان کے مفادات میں یکسانت کس طرح ہے یہ سوال شدت سے میڈیا میں نہیں اٹھایا جاتا ۔امرکہ کے مفادات کی نگہداشت کرنے والے اور اس کے حق میں بیان بازی کرنے والا کیا محب وطن پاکستانی کہلانے کا مستحق ہے ؟امریکہ کے مفادات امریکہ کیلئے اور پاکستان کے پاکستان اور پاکستانیوں کیلئے ہیں ۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شمولیت سے پاکستان کو کیافوائد حاصل ہو ئے اور کیا نقصانات ہوئے؟امریکہ کے ساتھ کولیشن پارٹنر کا کردار ادا کرنے سے پاکستا ن کو اقوام عالم میں عزت ملی یا اس کی سبکی اور رسوائی ہو ئی۔ہمارے میڈیا خواہ وہ پرنٹڈ ہو یا الیکڑانک کے اکابرین نے ان سوالات کواجاگر کرنے میں آخر کیوں کوتاہی برتی ۔ایک سپورٹس اور دوسرا اسلامی اور پاکستانی تہذیب و ثقافت کو آگ لگانے والے چینل کی بندش پر دھائی دینے والوں کو میڈیا کے قوائد اور جنرلزم برائے پاکستا ن اور پاکستانیت کے پرچار سے کوتاہی برتنے کا ادارک اور تدارک کی ضرورت محسوس کیوں نہیں ہوئی ۔کاروبار کی راہ میں حائل رکاوٹ دور کرنے کیلئے میڈیا کا استعمال مشنری جرنلزم کی روح اور تقدس کے برعکس ہے ۔ایسے میڈیا کو عوام کا نمائیندہ میڈیا کہلانے کا کیا حق ہے ؟مفادات کا غلام میڈیا حقیقی آزاد میڈیا کا کردار ادا کرنے کا اہل ہو سکتا ہے ۔ایسے معاملات کو اچھالنا جس سے پاکستان کی اقوام عالم میں رسوائی ہو حب الوطنی کے تقاضوں سے میل نہیں کھاتی۔اگر میڈیا پاکستا ن اور پاکستانیوں کے سر میں خاک ڈال کر خود کو سفید پوش ثابت کرنے کی کوشش کرے تو یہ مفادات کی زرد صحافت کے زمرے میں آئے گا۔اسے اس وقت پاگل پن قرار دیا جائے گا جب مٹی ڈالنے والا خود کو پاکستان اور پاکستانیت کا حقیقی نمائیندہ بھی قرار دے ۔ کراچی میں تیز ہوا بھی چلے تو لندن سے مذمتی بیان کی پٹی فورا چلنا شروع ہو جاتی ہے جبکہ دیگر اکابرین جماعتوں کے بیانات کو کئی دفعہ نظر انداز بھی کر دیا گیا۔نواز شریف کے خامیاں اور پنجاب کے حوالے سے من مانیاں ترجیحی بنیادوں پر سامنے لائی جاتی ہیں لیکن ایم کیو ایم کے خلاف یا اس کے لیڈروں کی کوتاہیاں قابل بیان نہیں ۔نواز شریف کی کوتاہی سب سے پہلے ہائی لائٹ ہونی چاہیے کیونکہ وہ پاکستان کے سب سے اہم ترین راہنما ہیں لیکن اس کے ساتھ دیگر کو بھی آئینہ دکھانا ضروری ہے ۔نواز شریف اگر اصولوں کی پاسداری کرتے تو یقینا نہیں جلا وطنی کا منہ نہ دیکھنا پڑتا ۔وہ مشرف کو ترجیح نہ دیتے اور سنیئر جرنلز کی حق تلفی نہ ہوتی ۔مشرف نے ان کی حکومت کا تختہ الٹا تو اس نے آئین اور اپنے حلف کی پاسداری نہیں کی ۔نواز شریف نے مشرف کو سنیارٹی کو نظر انداز کر کے چیف بنایا تو یہ ان کا آئینی حق تھا۔ اخلاقیات کا تو اس میں کوئی کردار ہے ہی نہیں ۔آرمی چیف یا جرنیلوں کو سنیارٹی کی بنیاد پر ترقی دی جائے تو وہ بھی ہرگز حق تلفی نہیں کریں گے۔اس کے بعدبھی اگر کوئی مہم جوئی کرتا ہے تو اسے سزا دینے میں ہرگز تامل نہیں ہونا چاہیے ۔سانحہ ایبٹ آباد میں اگر قوم کی عزت مٹی میں ملی توو قوم کے لیڈروں کارد عمل کیا ہیے ۔کیا ان کے چہرے پر ندامت اور شرمندگی کا احساس ہے ۔امریکہ میں پاکستانی سفیر مسڑ حقانی کو کس اعتماد کی ضرورت ہے ۔شاید انہیں ہمارے اعتماد کی نہیں خود اپنے ااپ پر اعتماد نہیں ۔انہیں اعتماد اور یقین نہیں کہ وہ یہ ذمہ داری بحیثیت پاکستانی ادا کر پائیں گے ۔یہ حقیقت ہے کہ امریکی غلامی سے آزادی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک سیاسی لیڈر مفادات کی غلامی سے خود کو آزاد نہیں کراتے ۔یہی سوچ انہیں پاکستان میں مزید صوبوں کی تقسیم پر اکساتی رہی ہے ۔پاکستان کو صوبائی تقسیم کی ہرگز بھی ضرورت نہیں پاکستان کو صیح لیڈرشپ کی ضرورت ہے ۔ملک امیر محمد خان ون یونٹ کھے گورنر تھے اور انہوں نے ثابت کیا کہ اگر انسان کی نیت صاف ہو اور وہ خدمت کرنا چاہتا ہو تو اس کی راہ میں کورکاوٹ حائل نہیں ہو سکتی ۔بحث برائے بحث کے طور پر بہت کچھ کہا جا سکتاہے لیکن حاصل کلام یہی رہے گا کہ اگر انسان کی نیت ہو تو کٹھن منازل بھی طے ہو جاتی ہیں ۔قومی اثاثوں اور عوامی خزانے کی بندر بانٹ کا یہ فارمولا ملک کو ٹوٹنے اور لوٹنے کے مترادف ہے ۔بہالپور ہو یا راجن پور ،کرچی ہو یا میانوالی سب کے غریب اورمتوسط عوام کی نظروں میں آج بھی سبز ہلالی پرچم کا تقدس اور توقیر روز اول کی طرح ہے ۔وہ ہرگز یہ سوال نہیں کرتے کہ انہیں پاکستان نے کیا دیا ہے وہ آج بھی یہی سوچتے ہیں کہ وہ پاکستان کیلئے کیا کر سکتے ہیں۔ صوبائی تقسیم اس طبقے کی سوچ ہے جو پاکستان کو کچھ دیتی نہیں نہ ہی دینا چاہتی ہے لیکن لبوں پر ہمیشہ یہ شکوہ ہے کہ پاکستان نے ہمیں کچھ نہیں دیا۔ پاکستان تو روح ہے اس نے تمھیں زندگی دی اورتم جسم ہو تم روح کے گھاؤ اور اس کیلئے باعث اذیت ہو۔اگر کسی جیب میں روپے ہیں تو ان کا صیح اور غلط استعمال اس کی اپنی فہم وفراست اور ضرورت اور خواہش کے مطابق ہو گا ۔ یہی دنیاوی خواہشات پر بھی خرچ ہو سکتا ہے اور یہی صدقہ بھی ہو سکتاہے ۔سوچ اپنی اپنی اور عمل اپنا اپنا ۔شخصی سوچ اور قومی طرز عمل میں فرق ہے ۔شخصی مفادات کو قومی طرز فکر اور طرز عمل پر ترجیح دی گئی تو یہ قوم کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترا
دف ہے ۔سیاسی عمائدین جو صوبائی تحریکوں کی ترجمانی اور راہنمائی کا فریضہ اور بیٹرا اٹھا کر سامنے آرہے ہیں کی خاندانی تاریخ کو سامنے لایا جائے واضح طور پر سامنے آجائے گا کہ وہ کتنے عوامی مفادات کے نگہبان اور ترجمان رہے ہیں ۔کس نے کس موقع پر وقت کے دھارے کو اپنے مفادات اور خواہشات کیلئے استعمال کیا ۔اگر وہ عوامی مفادات کے نگہبان ہوتے تو پشت درپشت گدی نشینی اور جانشینی کے باوجود ان کے موروثی حلقہ انتخاب آج ضروریات زندگی سے یوں محروم نہ ہوتے ۔یہ خود محروم رکھنے اور خود ہی مظلوم بنانے اور خود ہی ظلم اور خود ہی انصاف کی مثالیں ہیں ۔اس کے کے خلاف آواز بلند کرنا میڈیا کی اولین ذمہ داری ہے ۔میڈیا اس کے مخفی اور مضر پہلو سامنے لا ئے ۔